دسمبر 19, 2020 - ایم بلال ایم
1 تبصرہ

مقامِ طلوع – ٹلہ جوگیاں

رات کے آخری پہر ابھی پرستان کے دروازے پر ہی پریوں سے ہیلو ہائے ہو رہی تھی کہ ساتھ والے خیمے میں اچانک ”ٹاں ٹاں“ کی آواز بلند ہوئی۔ جس سے میری آنکھ کھل گئی اور میں سمجھ گیا کہ آفت نازل ہونے والی ہے۔ ”چلو جب تک آئے تب تک تو لیٹا رہتا ہوں“ سوچ کر پہلو بدلا۔ حیرانی کی بات یہ کہ الارم بجنے کے بعد بھی آفت نہ آئی اور میری آنکھ لگ گئی۔ ابھی کچھ دیر ہی گزری ہو گی کہ اچانک کسی نے مجھے جھنجھوڑا۔ آنکھیں کھولیں تو تیز روشنیوں نے ایسا سواگت کیا کہ کچھ نظر نہ آیا، جبکہ اردگرد شدید تاریکی تھی۔ اس سے پہلے کہ میں کچھ ہڑبڑاتا، وہ اپنے ہیڈ لیمپ پر ہاتھ رکھتے احتیاط اور سرگوشی میں بولا ”اوئے! میں واں، میں واں، میں… رانا عثمان“۔
میں لیٹے لیٹے آنکھیں ملتے ہوئے ”تیرا بیڑا ترے، اِکوں ای تراہ سی، توں او وی کڈ دتا۔ ہن کیہڑی قیامت آ گئی، کیوں اٹھایا؟“
رانا: ”زیادہ شور نہ کر۔ باقیوں کی نیند خراب نہ کر“۔
میں: ”توں ایتھے میرے خواباں تے پانی پھیر دتا تے دوجیاں دی نیند دی اینی فکر؟ میں اچھا بھلا پرستان کی سیر پر نکلا ہوا تھا“۔
رانا: ”زیادہ باتیں نہ کر اور جلدی سے اٹھ۔ سفیدی پھیل چکی ہے اور طلوع میں تھوڑا وقت رہ گیا ہے۔“
میں: ”جا توں فوٹواں بنا لے اور میرے حصے دا نظارہ وی ویکھ لینا۔ مینوں بس سون دے“۔
رانا میرے سلیپنگ بیگ کی زپ کھولتے ہوئے بولا ”اٹھنا ایں یا پانی دی بالٹی سُٹاں“۔
میں: ”ایتھے پین نوں پانی نئیں لبھدا، تینوں بالٹی کتھوں لبھنی اے۔ انج وی ایسا کُج نئیں کیتا جس واسطے بالٹی دی ضرورت پووے۔“
رانا مجھے تقریباً زودوکوب کے انداز میں جھنجھوڑتے ہوئے بولا ”چولاں نہ مار۔ میں باہر کھڑا ہوں۔ ایک منٹ میں پہنچ“۔
بس پھر مرتا کیا نہ کرتا: ویڈیو اور فوٹوگرافی کے سازوسامان والا بیگ اٹھایا، کیمرہ اور ٹرائی پاڈ پکڑا اور چل دیا۔ منہ اندھیرے آنکھیں ملتا ملتا باہر پہنچا تو رانا سے پوچھا ”باقی سب تو ٹھیک ہے لیکن جب تمہارے ہیڈ لیمپ کی روشنی میری آنکھوں میں پڑی اور میں ہڑبڑانے لگا تو تب تم ڈر کر راز درانہ انداز میں ایسے کیوں بولے کہ میں واں، میں رانا عثمان؟“
او یار! تیرے سے پہلے اک سین ہو گیا۔ فلاں کو طلوعِ آفتاب کے لئے جگانے گیا تو اس کی آنکھوں میں بھی ایسے ہی روشنی پڑی اور وہ شدید پریشان ہو گیا اور ”کون اے کون اے“ ایسے بولا کہ جیسے میں کوئی چور ہوں اور اس کی گردن پر خنجر رکھا ہوا ہے۔ کہیں تم بھی ویسا نہ کرتے اس لئے فوراً سے پہلے بتایا کہ میں واں۔
اس بات پر میرا بلند قہقہہ ٹلہ جوگیاں کی خوبصورت صبح میں گونجا۔ حدِ ادب او منظرباز! ٹلہ کی ایسی پاکیزہ صبح میں ایسا واہیات قہقہہ نہیں لگایا کرتے۔۔۔ خیر ہم چلتے چلتے میدان سے گزر کر چلہ گاہوں کے آثارِ قدیمہ کے پاس سے ہوتے ہوئے ”مقامِ طلوع“ پر پہنچے۔ ٹلہ کے کچھ مقامات کو ہم نے اپنے تئیں نام دیئے ہوئے ہیں۔ مثال کے طور پر جہاں سے ہم غروبِ آفتاب کا نظارہ کرتے ہیں، اسے مقامِ غروب یعنی ”سن سیٹ پوائنٹ“ اور ایسے ہی طلوعِ آفتاب کا نظارہ کرنے والے مقام کو مقامِ طلوع(سن رائز پوائنٹ) کا نام دے رکھا ہے۔

مقامِ طلوع پر پہنچ کر ہم عجب کیفیات سے دوچار ہوئے۔ ابھی سورج نہیں نکلا تھا اور شفق کی روشنی لاجواب تھی۔ نیچے وادی میں کہیں کہیں دھند کا پہرہ تھا۔ ہلکی ہلکی پُروا یعنی بادِصبا، نسیم سحر چل رہی تھی۔ وہ منظرنامہ شدید الشدید دلفریب تھا۔ اور جب منظرباز ایسے نظاروں میں محو ہوتا ہے تو ”تم“ میں کھو جاتا ہے۔۔۔ خیر پھر ویڈیو کے لئے طلوعِ آفتاب کا ٹائم لیپس لگایا، کچھ تصویریں بنائیں اور پھر دوبارہ نظارے جذب کرنے لگے۔ اور جب سورج کی ترچھی شعاعیں ٹلہ پر پڑ رہی تھیں تو تب ”پرندو بادشاہ“ نے اڑان بھری اور پورے ٹلہ جوگیاں کے گرد کوئی سوا کلومیٹر کا چکر لگا کر ویڈیو بنائی۔ ادھر پرندو کا چکر مکمل ہوا تو اُدھر سورج کی انگڑائیاں تھوڑی شدت اختیار کرنے لگیں، اور یہ تصویر تب بنائی۔ اور فوراً کیمرہ سکرین پر پاس کھڑے دوستوں کو دکھائی کہ تم گواہ رہنا، سورج کی شعاعیں ایسے ہی کیپچر کی تھیں، بعد میں کوئی ایڈیٹنگ کوئی فوٹوشاپی نہیں۔۔۔ اس پر ذوالقرنین المعروف ذوقی اور مریم عتیق صاحبہ نے کہا ”وہ تو ٹھیک ہے لیکن یہ شعاعیں ایسے کیسے بنیں؟“ الجواب: اپنی آنکھوں کو تھوڑا بند کر کے کبھی کسی بلب کی طرف دیکھنا۔ بس پھر شعاعیں بننے کا جواب مل جائے گا اور وہی تکنیک یہ تصویر بناتے ہوئے استعمال کی ہے، یعنی کیمرے کی آنکھ (اپرچر) کو تھوڑا بند کر دیا تھا۔۔۔ بس جی! اب ہمارے ٹیوٹوریلز باقاعدہ لمبے چوڑے لیکچر نہیں ہوتے، بلکہ ایسے ہی ہلکے پھلکے انداز میں کئی باتیں بتا جاتے ہیں۔ شوق والے سمجھ جاتے ہیں اور باقی نظر انداز کر کے نکل جاتے ہیں۔ اب آپ آنکھیں تھوڑی سی بند کر کے بلب کو دیکھنا چھوڑیں اور بقیہ تحریر پڑھیں، جو کہ تھوڑی سی رہ گئی ہے۔

ہاں تو بات یہ ہے کہ اپنے دریائے چناب کے مختلف کناروں سے لے کر بحرۂ عرب تک اور خنجراب سے گوادر تک وطنِ عزیز میں بے شمار مقامات ایسے ہیں کہ جہاں سے شفق اور صبح و شام کے شاندار نظارے ہوتے ہیں۔ پاکستان کے ایسے خوبصورت ترین طلوع اور غروبِ آفتاب میں سے ایک ٹلہ جوگیاں پر بھی ہوتا ہے۔ سطح سمندر سے تقریباً 960میٹر بلند ایسے میدان کا نام ٹلہ جوگیاں ہے کہ جس کے زیادہ تر اطراف میں کھائیاں اور ان سے آگے دور دور تک میدانی علاقہ ہے۔ جہاں آپ بلندی پر ہوتے ہیں اور دور کہیں نیچے سے سورج چڑھتا اور ایسے ہی ڈھلتا ہے۔ اور ایسے نظارے ملتے ہیں کہ مدہوش کیے دیتے ہیں۔ صرف طلوع اور غروب ہی نہیں بلکہ شفق(Twilight) یعنی پو پھوٹنے سے طلوع تک اور غروب سے تاریکی چھانے تک کی روشنی بھی روح تک سما جاتی ہے۔ ان مناظر کے اثرات اور ٹلہ کی کیفیات کسی تصویر یا تحریر سے بیان نہیں ہو سکتیں بلکہ اس کے لئے ٹلہ جانا پڑتا ہے۔ اہلِ دل اور کھوجی وغیرہ ٹلہ جا کر اور ان نظاروں کا تجربہ کر کے ہی اصل کیفیات سے دوچار ہو سکتے ہیں۔ اور لازم ہے کہ پیدل جاؤ اور جوگیوں کی بنائی پگڈنڈی سے ہی جاؤ۔ جسے مقامی لوگ سیڑھیوں والا راستہ بولتے ہیں۔ اور ہاں! اس پگڈنڈی پر ایک بڑا سا پتھر بھی آئے گا۔ اس پر دو چار لوگ آسانی سے بیٹھ سکتے ہیں۔ وہ میرے تئیں میرا پتھر ہے۔ اور اگر ”تم“ کبھی جاؤ تو تم بھی اس پتھر پر کچھ دیر آرام کے واسطے بیٹھ جانا۔ تمہیں اک ”جوگی“ کی یاد آئے گی۔۔۔

تحریر کا اگلا حصہ

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”مقامِ طلوع – ٹلہ جوگیاں

  1. یار آپ اتنا اچھا لکھتے ہیں کہ کیا بتاؤں ،کاش کہ میں بھی آپ کی طرح کا لکھت ہوتا ۔ کیونکہ مجھے اردو سے بہت لگاؤ ہے۔ دل کرتا ہے کبھی میں بھی آپ کے ساتھ کسی ٹور پر جاؤں اور حسین وادیوں کا نظارہ کروں۔ مگر میں بیرون ملک رہتا ہوں ۔اگر زندگی نے کبھی موقع دیا تو آپ کے ساتھ ضرور پروگرام بناؤ ں گا

تبصرہ تحریر کریں۔

Your email address will not be published. Required fields are marked *