نومبر 3, 2020 - ایم بلال ایم
تبصرہ کریں

سب کچھ سیکھے سکھائے گیسی لوگ

کیا آپ کو ”گیس“ کی شکایت رہتی ہے؟ چلیں اس کا علاج بھی کرتے ہیں لیکن پہلے فوٹوگرافی سے وابستہ اس بیماری کا شکار لوگوں کی کچھ باتیں ہو جائیں۔۔۔ اپنے ذہن کو مثبت شعاعوں کے زیرِ اثر لا کر تحریر پڑھیئے گا کیونکہ کسی کو مریض یا کمتر ثابت کرنا مقصد ہرگز نہیں بلکہ ایک خاص بیماری کا بتانا مقصود ہے۔۔۔ خیر اپنے فوٹوگرافی کے مختصر سے دور میں یہ سوال مجھے سب سے زیادہ پوچھا گیا کہ آپ کے پاس کیمرہ کونسا ہے؟ یا پھر فلاں تصویر کس کیمرے اور لینز سے بنائی ہے؟ گو کہ کئی ”وڈے فوٹوگرافر“ ایسے سوالات سے چڑتے اور بعض اوقات غصہ بھی کرجاتے ہیں۔ وہ ایسا اس لئے کرتے ہیں کہ انہوں نے اپنے سے بھی وڈے فوٹوگرافرز کا یہ قول پڑھ رکھا ہوتا ہے کہ ”تصویر کیمرہ نہیں بلکہ فوٹوگرافر بناتا ہے“۔ یہ قول درست ہے لیکن غصہ بجا نہیں۔ کیونکہ کیمرے بارے سوال کرنے والے بعض لوگ سیکھنے کے واسطے تصویر کو تکنیکی پہلوؤں سے جانچتے ہیں اور تب کیمرہ اور لینز کا پوچھتے ہیں۔۔۔ خیر میں سستے کیمرے کا مالک عام سا فوٹوگرافر ہوں، لہٰذا مجھ سے جم کر سوال کریں۔ کوئی مسئلہ نہیں۔۔۔ البتہ جب بعض احباب کوئی تصویر دیکھ کر کہتے ہیں کہ ”ہمارے پاس بھی مہنگا کیمرہ ہوتا تو ہم بھی ایسی اچھی تصویر بنا لیتے“ اس پر مجھے غصہ تو نہیں آتا لیکن ایسا کچھ بھی پڑھ یا سن کر ہنستے مسکراتے آگے نکل جاتا ہوں۔ کیونکہ بعض لوگوں میں ”سب کچھ سیکھے سکھائے کا مرض(کمپلیکس)“ بھی پایا جاتا ہے۔ انہیں ہر کام کے متعلق یہی لگتا ہے کہ وہ تو چٹکی بجا کر یہ کام کر سکتے ہیں، بے شک پہلے کبھی اس کام کو ہاتھ بھی نہ لگایا ہو۔ اور ایسے ہی لوگوں کے متعلق مثال دی جاتی ہے کہ موسیقی کا کوئی آلہ دیکھ کر سوچتے ہیں: اگر یہ میرے پاس ہو تو میں بھی سُر بکھیر کر رکھ دوں گا۔ لیکن حقیقت بہت مختلف ہوتی ہے۔ اناڑی بندہ سُر بکھیرنا تو دور ”چیں چاں پوں پاں“ بھی نہیں کر پاتا۔۔۔ خیر اس کمپلیکس کا کہیں نہ کہیں جا کر کچھ تعلق ”گیس“ سے ملتا ہے۔ اور یہ گیس کیا ہے؟؟؟ ٹھہریں! بتاتا ہوں، بتاتا ہوں۔۔۔

گیس جیسی بیماری فوٹوگرافی ہی نہیں بلکہ ہر شعبہ ہائے زندگی میں پائی جاتی ہے۔ مثال کے طور پر اگر کوئی کسی شعبے یا کام میں کچھ اچھا کر دکھائے تو بعض لوگ اسے شاباش دینے کی بجائے کہیں گے کہ اس کے پاس فلاں فلاں چیز اور سہولت تھی تو ایسا کر گیا، اس میں کونسی بڑی بات ہے۔ اگر ہمارے پاس بھی وہ سب ہوتا تو ہم بھی تیس مار خاں ہوتے۔۔۔ ٹھیک ہے کہ وسائل اہمیت رکھتے ہیں اور ان کی عدم دستیابی اپنا کردار ادا کرتی ہے۔ لیکن یہ سارا سچ نہیں۔ اور سچ تو یہ بھی ہے کہ حیلے بہانوں والے بس ناکامی کے جواز تراشتے رہ جاتے ہیں، جبکہ اُگنے والے زمین کا سینہ چیر کر بھی اُگ جاتے ہیں۔ جب وہ اپنا راستہ خود بنانے کی کوشش کرتے ہیں تو قدرت وسائل و اسباب خود پیدا کر دیتی ہے۔۔۔ اوئے ہوئے! یہ تو ”موٹیویشنل“ قسم کی بات ہو گئی۔ خیر چھڈو۔ ہم زمینی حقائق کے قریب رہ کر بات کرتے ہیں۔۔۔ اور وہ کیا کہتے ہیں کہ گاڑی پہاڑ نہیں چڑھتی بلکہ اچھا ڈرائیور گاڑی کو پہاڑ پر لے جاتا ہے۔ ایسے ہی اچھی تصویر کیمرہ خودبخود نہیں بناتا بلکہ ہنرمند فوٹوگرافر ہی کیمرے سے خوبصورت تصویر بنائے گا۔ اس کی وضاحت میں کہتے ہیں کہ اچھا فوٹوگرافر عام کیمرے سے بھی کچھ نہ کچھ بنا لے گا۔ لیکن اناڑی بندہ اچھے سے اچھے کیمرہ سے بھی کچھ نہیں کر پائے گا۔ پس ثابت ہوا کہ آلات سے زیادہ ہنر کی اہمیت ہے۔ کسی کامیابی میں اگر سازوسامان اپنا کردار ادا کرتا ہے تو اس سے بھی زیادہ بندے کی صلاحیت، ہنر اور محنت کا عمل دخل ہوتا ہے۔ نہیں تو گیس۔۔۔ کیا گیس گیس لگا رکھی ہے؟ اوئے بتا تو سہی کہ یہ گیس کیا ہے؟ الجواب:- بتاتا ہوں، بتاتا ہوں۔۔۔

گیس(GAS) یعنی Gear Acquisition Syndrome بولے تو ”حصولِ سازوسامان کی بیماری“۔ جب کوئی انسان بس ہاتھ پر ہاتھ دھرے بہتر سے بہتر سازوسامان کے انتظار میں بیٹھا رہے، یا سازوسامان کا ڈھیر خرید لے اور ہنر نہ ہونے یا ہڈحرامی کی وجہ سے کام ٹکے کا بھی نہ کرے یا پھر جب اپنے پاس موجود سازوسامان کو نظرانداز کر کے بس انواع و اقسام کے مہنگے آلات خریدنے کے لئے پریشان ہوتا رہے، آہیں بھرتا رہے اور کام اور ہنر کی بجائے ساری توجہ صرف اور صرف قیمتی آلات پر مرکوز کر دے تو ایسے انسان کے بارے میں کہتے ہیں کہ اسے ”گیس“ ہو چکی ہے۔ ماہرین کے نزدیک یہ ایک نفسیاتی بیماری کی علامات ہیں۔ جسے سمجھانے کے واسطے ”حصولِ سازوسامان کی بیماری“ کا نام دیا ہے۔

شروع میں لمبی چوڑی تمہید اس بیماری کے مختلف پہلو اور خاص طور پر یہ واضح کرنے کے لئے باندھی تھی کہ آلات اور سازوسامان کی بجائے ہنر اصل چیز ہے۔ ہنر بادشاہ ہے، بہتر کام شہنشاہ ہے۔ لہٰذا ہر وقت قیمتی سازوسامان کے چکروں میں پڑ کر نفسیاتی بیماری کا شکار ہونے کی بجائے ہنر سیکھیں، اپنی صلاحیتوں کو نکھاریں۔ ابتدائی و بنیادی آلات خرید کر یا اپنے پاس موجود چیزوں کو استعمال کرتے ہوئے بس کام کریں۔ وقت کے ساتھ ساتھ بہتر سے بہتر سازوسامان کے اسباب خود بخود بنتے جائیں گے۔ اگر فوٹوگرافی کی بات کریں تو پھر موبائل یا عام کیمرے سے جو جو بن سکتا ہے پہلے وہ تو بنا لیں، اس کے بعد دیگر کیمروں کا سوچیئے گا۔ ویسے بھی فوٹوگرافی میں تصویر کے ظاہری معیار(کوالٹی) سے زیادہ اچھی کمپوزیشن کی اہمیت ہوتی ہے۔ روشنی کا بہتر استعمال، بہترین زاویہ، منفرد طرزِ نظر اور اچھوتا خیال اپنا لوہا خود منوا لیتا ہے۔ اور یہ سب ہنروصلاحیت کے بل پر ہوتا ہے نہ کہ قیمتی آلات سے۔۔۔ میں نے تقریباً ساڑھے تین سال نہایت بنیادی یعنی عام سے سستے کیمرے اور کٹ لینز سے فوٹوگرافی کی۔ اس دوران تصویروں کے ایسے آئیڈیاز جو کہ کسی قیمتی کیمرے کے ذریعے آسانی سے پایہ تکمیل کو پہنچ سکتے تھے مگر میں وہ اپنے معصوم کیمرے سے بنانے کی آخری حد تک کوشش کرتا رہا۔ یوں کئی اچھی تصویریں بن جاتیں مگر بعض اوقات سخت محنت کے باوجود بھی ناکامی ہوتی لیکن اس کا فائدہ یہ ہوتا کہ کافی کچھ سیکھنے کو ملتا۔ خیر اپنے پاس تو آج بھی کوئی دھانسو کیمرہ نہیں بلکہ عام سا ہے۔ مگر میرے لئے وہی خاص ہے اور الحمد اللہ! میری ضرورت، استطاعت اور اوقات سے بڑھ کر ہے۔۔۔

گزارش فقط اتنی سی ہے کہ جس بھی شعبے سے تعلق ہو، کام جو بھی ہو، بس ”گیس“ جیسی ذہنی و نفسیاتی بیماری سے بچیں اور زیادہ دھیان سیکھنے پر دیں اور دستیاب سازوسامان سے ہی کچھ بہتر سے بہتر بنانے کی کوشش کریں۔ ویسے تحریر کے آغاز پر کیا آپ کو لگا تھا کہ میں چولہے میں جلانے والی گیس کی بات کرنے لگا ہوں؟ اگر ایسا تھا تو بھئی جائیں محکمہ گیس سے اپنی گیس چلوائیں۔ اور اگر آپ کو یہ لگا تھا کہ معدے اور انتڑیوں کی گیس کی بات کرنے لگا ہوں، تو حضور! سیر شیر کریں، کوئی پھکی شکی کھائیں۔ ہمارے پاس فی الحال ایسی کوئی سہولت میسر نہیں۔ ہمارے ہاں تو بس ایسی تحریریں اور تصویریں دستیاب ہیں۔ اور یہ تصویر رانا عثمان نے ہیڈمرالہ بنائی تھی۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

تبصرہ تحریر کریں۔

Your email address will not be published. Required fields are marked *