اپریل 19, 2022 - ایم بلال ایم
1 تبصرہ

بندوق سے کیمرے تک – شوٹ سے شوٹ تک

کئی دیہاتی بچوں کی طرح اس کا بھی پسندیدہ کھلونا غلیل تھا۔ جس سے نشانے بازی کرنا اس کا خاص مشغلہ تھا۔ چھٹی کے دن غلیل بازوں کا گروہ اپنی جیبیں مناسب کنکریوں سے بھرتا اور چل دیتا۔ سبھی آوارہ پھرتے، کہیں کسی درخت کو نشانے لگاتے تو کبھی کسی دوسری چیز کو۔ وقت گزرا، وہ بچہ جوان ہوا تو غلیل کی جگہ بندوق نے لے لی۔ نوجوانوں کا گروہ بندوقیں لے کر نکلتا اور سارا سارا دن فاختہ، کبوتر اور بٹیر وغیرہ کا شکار کرتا۔ نوجوان کے والد اسے بہت کہتے کہ یوں پرندوں کو مارنا ٹھیک نہیں۔ مگر اس کا ایک ہی جواب ہوتا کہ ہم حلال پرندوں کا شکار کرتے ہیں، جس کی مذہب میں اجازت ہے۔ والد لاکھ سمجھاتے کہ وہ وقت گزر گیا، جب انسان کو خوراک کے لئے جنگلی جانوروں اور پرندوں کا شکار کرنا پڑتا تھا۔ اب جب خاص الخاص خوراک کے واسطے جانور پالے جاتے ہیں اور گوشت موجود ہے تو ایسی صورت میں جنگلی حیات کو نقصان پہنچانا نری جہالت ہے۔۔۔ مگر جوان خون ایسی باتوں پر کہاں کان دھرنے والا تھا اور والد سے چھپ کر شکار کو نکل جاتا۔

اور پھر ایک روز کمبخت شکاریوں کا گروہ مارا مارا پھرتا رہا مگر ایک بھی پرندہ شکار نہ ہو سکا۔ تھکے ہارے گاؤں سے دور ایک کنویں پر پانی پینے اور کچھ دیر سستانے رُکے۔ ایک دوست نے مذاق میں نوجوان کو کہا کہ ویسے تو بڑا شکاری بنا پھرتا ہے مگر آج تو تیرا ایک بھی نشانہ نہیں لگا۔۔۔ نوجوان نے کہا کہ ”چیلنج نہ کر! چل بتا کس چیز کو نشانہ لگاؤں؟“ وہیں پاس ہی پانی والی ”کھالی“ (نالی) پر ایک چھوٹا سا پرندہ پانی پی رہا تھا۔ دوست نے کہا کہ اس پرندے کو لگا کر دکھا۔ نوجوان نے شغل شغل میں نشانہ باندھے(شست لئے) بغیر ہی بس بندوق کی نالی پرندے کی طرف کی اور لبلبی دبا دی۔ کرنی ایسی ہوئی کہ چھرہ پرندے کو لگ گیا اور وہ گر گیا۔ اس کا گرنا تھا کہ نوجوان نے دوست کی طرف فاتحانہ انداز میں دیکھنے کی بجائے بندوق وہیں پھینکی اور پرندے کی طرف دوڑ لگا دی۔ پرندے کو اٹھایا مگر وہ مر چکا تھا۔ حالانکہ یہ تو معمول کی بات تھی مگر اُس روز نوجوان کو ناجانے کیا ہوا۔ اچانک سے قدرت نے اس کے دل و دماغ میں کچھ ایسا اتار دیا کہ دل پر عجیب سا بوجھ پڑنے لگا۔ خون میں لت پت چھوٹے سے پرندے کو اپنے ہاتھ پر دھرے، خاموشی سے بس دیکھے ہی جا رہا تھا۔ نوجوان کا دل پسیج چکا تھا۔ اسے اپنے کیے سے وحشت ہونے لگی۔ اسے اپنے آپ سے شرمندگی ہونے لگی۔ عجب سی بے بسی تھی۔ اس کا دل کر رہا تھا کہ کچھ انہونی ہو جائے اور یہ پرندہ واپس زندہ ہو جائے۔ وہ بس یہی سوچے جا رہا تھا کہ آخر میں نے اس خوبصورت پرندے کو کیوں مار دیا؟ فقط ہمارے اک شغل نے پرندے کی جان لے لی۔ نہیں! ایسا نہیں ہونا چاہیئے تھا۔ یہ ظلم ہے، یہ بربریت ہے، یہ وحشی پن ہے۔۔۔ اُس کی آنکھ سے ندامت کا آنسو ٹپکا۔ ربِ کریم سے معافی کا طلبگار ہوا اور آئندہ شکار سے نہ صرف توبہ کی، بلکہ اُس پرندے کی موت نے نوجوان کی زندگی ہی بدل دی۔ جہاں دیگر بہت کچھ تبدیل ہوا، وہیں اسے چرند پرند سے عجب سی محبت بھی ہو گئی۔ شکار کا تو سخت مخالف ہو گیا۔ خاص طور پر فقط اپنی عیاشی اور سواد کے لئے بے گناہ جنگلی جانوروں کو مارنا اس کے نزدیک بہت بڑا ظلم ٹھہرا، سفاکیت ٹھہری۔ وہ سمجھ گیا کہ ایسا شکار تو اپنی طاقت کی تسکین کے سوا کچھ بھی نہیں۔ جس کا کہیں اور زور نہیں چلتا، وہ ان معصوم جانوروں پر چلاتا پھرتا ہے۔

وقت گزرتا گیا۔ وہ نوجوان پڑھتا پڑھاتا، لکھتا لکھاتا، اپنی کھوج کے واسطے سیاحت کی وادیوں میں اترا۔ سیروسیاحت کے دوران مختلف مناظر سے کھیلتا اور ان خوبصورت مناظر کی فوٹوگرافی کے لئے جو کیمرہ اٹھایا تو پھر منظر در منظر پر تانے ہی رکھا۔ کسی زمانے میں اسے جو نشانہ بازی میں مزہ آتا تھا، اس سے بھی بڑھ کر فوٹوگرافی میں آنے لگا۔ اس کی کھوج کی تسکین ہونے لگی۔ ویسے فوٹوگرافی بھی بندوق سے شوٹ کرنے جیسا ہی اک شوٹ تھا۔ مثلاً پہلے منظر کو تاڑو، بندوق کی جگہ کیمرے کی شست لو، سانس روکو اور لبلبی کی بجائے شٹر دبا دو۔ مگر ان دونوں اقسام کے شوٹ میں ایک بہت بڑا فرق بھی ہے اور وہ یہ کہ بندوق زندگی ختم کرتی ہے جبکہ کیمرہ کسی منظر کو عکس میں اتار کر ہمیشہ کے لئے امر کر دیتا ہے۔

ماضی کا وہ شکاری اب ایم بلال ایم دا منظرباز کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اب وہ طاقت کی تسکین کی بجائے کھوج کی تسکین چاہتا ہے۔ وہ دیگر مناظر کے ساتھ ساتھ جنگلی حیات کو بھی عکس بند کر کے ہمیشہ کے لئے امر کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ اب وہ شکار کی بجائے مناظر کے لئے مارا مارا پھرتا ہے اور چرند پرند کو ہنستے کھیلتے دیکھ کر خوش ہوتا ہے۔ منظرباز کو لگتا ہے کہ شکار سے توبہ اور فطرت سے محبت کی مثبت شعاعیں آج بھی اس کے ساتھ ہیں۔ اور یہ شعاعیں ماحول پر اثر انداز ہو کر اُس کے لئے مناظر کو پرت در پرت کھول دیتی ہیں۔

٭٭٭٭٭٭٭
تاریخِ تصویر: مارچ 2022ء
پرندے کا دیسی نام : ٹٹیری
انگریزی نام : Lapwing
دریائے چناب کے پانیوں میں نہاتے ہوئے
مقام : ہیڈ مرالہ (شمال مغربی کنارہ)، گجرات

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”بندوق سے کیمرے تک – شوٹ سے شوٹ تک

تبصرہ تحریر کریں۔

Your email address will not be published. Required fields are marked *