مارچ 28, 2022 - ایم بلال ایم
تبصرہ کریں

ٹلہ جوگیاں کے مور – طاؤسِ ٹلہ

ماضی کے جوگیوں، مقامی لوگوں اور محکمہ جنگلات کے ملازمین وغیرہ کو چھوڑ کر یعنی بطور سیاح بہت کم لوگ اتنی دفعہ ٹلہ گئے ہوں گے کہ جتنی دفعہ جوگی منظرباز جا چکا ہے۔ اس سیروسیاحت میں ٹلہ کا چپا چپا چھان مارا مگر قسمت دیکھیئے کہ کوشش کے باوجود بھی کبھی موروں کا دیدار نہ ہوا۔ طاؤسِ ٹلہ کی فقط اک جھلک بھی نصیب نہ ہوئی۔ بس ایک دو دفعہ جنگل میں مور پنکھ ملے تو میں انہیں ہی اعزاز سمجھ لیتا۔ حالانکہ بہت سارے لوگوں نے ٹلہ پر مور دیکھے اور چند ایک ان کی تصویریں بنانے میں بھی کامیاب ہوئے۔ ویسے میری معلومات کے مطابق ٹلہ جوگیاں پر مور کی سب سے پہلی تصویر ہمارے مرحوم دوست سید رضوان بخاری نے 2008ء میں بنائی تھی۔ اور وہ تصویر پہلے شیئر کر چکا ہوں۔

دنیا کو نظریہ ارتقا دینے والے چارلس ڈارون نے کہا تھا کہ ”جب میں مور پنکھ کو دیکھتا ہوں تو حیران و پریشان ہو جاتا ہوں“۔ دراصل کہتے ہیں کہ شروع میں ڈارون کا نظریہ ارتقا مور پنکھ سے مطابقت نہیں رکھتا تھا اور وہ سوچتا تھا کہ ارتقا سے یہ پنکھ بھلا کیسے بن سکتے ہیں؟ آج بھی موروں کو لے کر نظریہ ارتقا پر بڑی بحثیں ہوتی ہیں۔ گویا ان موروں نے پہلے ڈارون کو اور اب دیگر سائنسدانوں کو بھی وختا ڈالا ہوا ہے۔ ایسے میں ہم بھلا کس کھیت کی مولی ہیں۔ بہرحال ٹلہ جوگیاں کے جنگلی مور دیکھنے کی میری خواہش دن بدن بڑھتی ہی گئی اور جب ہجر اپنے مقام کو پہنچا تو وصل کی صدا آئی۔ حالیہ ”بہارِ ٹلہ“ کی پہلی یاترا ہوئی تو صبح فجر کے وقت جنگلوں کو نکل گیا۔ اور پھر ایک جگہ دور مور نظر آیا تو جیسے سانسیں تھم سی گئیں، میں ساکت ہو گیا۔ کچھ دیر اسے تسلی سے دیکھا اور جب تصویر بنانے کے لئے کیمرہ پکڑا، گویا ہلکی سی حرکت ہوئی تو مور نے دوڑ لگا دی۔ بھاگتے مور کی بس دھندلی سی اک جھلک ہی کیمرے کی پکڑ میں آئی۔۔۔ پھر بھی میں خوش تھا، میں رقصاں تھا۔ اِدھر جوگی ناچا اور اُدھر جنگل میں کہیں یقیناً مور بھی ناچا ہو گا۔

بتاتا چلوں کہ مور کی اس قسم کو طاؤسِ ہند (ہندوستانی مور) کہتے ہیں۔ اور ماہرین کے مطابق مور ٹلہ جوگیاں اور سارے کوہستان نمک کا تو کیا، پاکستان کا بھر کا بھی مقامی پرندہ نہیں۔ یہ بعد میں انسان نے یہاں خود آباد کیا ہے۔ اسی طرح کچھ موروں کی نرسری میں افزائش نسل کر کے 2005-2006ء میں تیس جوان مور ٹلہ جوگیاں پر بھی چھوڑے گئے۔ نرسری میں پیدا ہونے کی وجہ سے شروع میں یہ انسانوں سے کافی مانوس تھے تو قریب بھی آ جاتے۔ مگر اب وہ وقت رہا نہ وہ مور۔ اب کی نسل مکمل جنگلی ہے اور انسان کو دیکھتے ہی جنگل میں روپوش ہو جاتی ہے۔ وہ کیا ہے کہ ان موروں کی جنگلوں میں طبعی عمر دس سے پچیس سال ہوتی ہے۔ خیال کیا جاتا ہے کہ جو مور ٹلہ پر چھوڑے گئے تھے، اب سولہ سترہ سال میں ان کی اکثریت مر چکی ہو گی اور زیادہ تر وہی مور ہیں کہ جو جنگل میں پیدا ہو کر پروان چڑھے اور یہ مکمل جنگلی (وائلڈ) ہیں۔

اس بہارِ ٹلہ میں جب دوسری دفعہ جانا ہوا تو ساتھ لوگ ہی اتنے تھے کہ مور تو مور رہے، جوگیوں کی روحیں بھی کانپ گئی ہوں گی۔ خیر تیسری دفعہ خاص الخاص مشن ”ٹلہ کے مور“ بنا کر گئے۔ اور پھر صبح سویرے طاہر منظور عاطر اور محمد ابراہیم جہلمی مور کی تلاش میں جنگلوں کو نکلے، جبکہ رات بھر فوٹوگرافی کرنے کے بعد مجھ میں صبح چلنے پھرنے کی ہمت نہ تھی۔ یوں خیمے میں ہی بیٹھا رہا۔ اس دوران مور تو نہ آیا مگر پاکستان کے قومی پرندے چکور کی خوبصورت ویڈیوگرافی ہو گئی۔ اس کے علاوہ بھی ٹلہ کے کئی پرندوں سے ”مکالمہ“ ہوا۔ منطق الطیر کو حقیقت میں سنا۔۔۔ اور پھر ہم ناشتہ بنانے میں مصروف ہو گئے، جبکہ عاطر صاحب نے جنگل میں ڈیرے ڈالے اور آخرکار ایک مور کی تصویریں بنا کر لوٹے۔ یوں ہمارا ”مشن مور“ آدھا مکمل ہوا۔ آدھا اس لئے کہ ہمیں ویڈیو بھی چاہیئے تھی اور وہ بھی ٹلہ کے حوالے سے، یعنی ایسی تصویریں اور ویڈیوز بنیں کہ جن میں مور کے ساتھ ساتھ ٹلہ کے آثارِ قدیمہ بھی کیپچر ہوں۔ گویا پتہ تو چلے کہ مور ٹلہ جوگیاں پر تھا۔ جب سورج سوا نیزے پر آیا تو دوست ٹلہ سے رخصت ہوئے اور پیچھے رہ گیا تنہا منظرباز۔ پھر شروع ہوئی اک نئی داستان۔ ٹلہ پر بہت سانپ پائے جاتے ہیں، لہٰذا سانپوں کا خطرہ، مگر پھر بھی منظرباز کا جنگل میں بیٹھنا، شدید کانٹوں والی جھاڑیوں میں پھنسنا اور زخمی ہونا۔ بے شک انگلی کٹوا کر شہیدوں میں نام لکھوایا، مگر ہم نے اس عشق کو اپنے خون سے سینچا۔ خیر مٹی میں لت پت ہو کر آخرکار مور کی تصویریں اور ویڈیوز بنانے میں کامیاب ہو جانا۔ رات کے اندھیرے میں واپسی کرنا اور خوف کے اس پار اترنا اور چند دن بعد پھر ٹلہ جانا اور یہی سب دوبارہ ہونا۔۔۔ خیر یہ داستان تھوڑی لمبی ہے اور اس کہانی میں کئی انوکھے موڑ ہیں، لہٰذا یہ پھر سہی۔ ویسے بھی موروں کی بڑی تصویریں بنائی ہیں، ایک تصویر میں دو دو مور بھی ہیں، داستان ان تصویروں کے ساتھ سنائیں گے۔ فی الحال مور کی یہ تصویر دیکھیں اور یہ کہ مور صبح سویرے یا پھر پچھلے پہر شام کے قریب جب پیٹ پوجا کے لئے نکلتے ہیں، تبھی نظر آتے ہیں۔ اس کے درمیان وہ جنگلوں میں چھپ کر بس آوازیں ہی لگاتے ہیں۔ اور اگر تسلی سے مور دیکھنا ہو تو تمہیں خود جوگی نہ سہی مگر کم از کم جوگی کا بہروپ ضرور بنانا ہو گا۔ یعنی چپ کر کے، ہلے جلے بغیر بس ایک جگہ مجسمہ سا بن کر بیٹھنا ہو گا۔ اور کیا تمہیں معلوم ہے کہ یوں بیٹھنا آسان نہیں ہوتا۔ ہاتھ پیر سُن ہونے لگتے ہیں اور ”تشریف“… آہو۔۔۔ ویسے اک جوگی نے اتنی تپسیا کر دی ہے کہ اب اِدھر جوگ کا رباب بجتا ہے تو اُدھر طاؤس(مور) ناچنے لگتا ہے۔ بلکہ ایک دفعہ تو جوگی کا مور سے مکالمہ بھی ہوا۔ آخر پر مور بولا کہ اتنا تردد کیوں کرتا ہے۔ یہ میں کھڑا ہوں، آ میرے قریب آ صنم اور بنا لے جتنی تصویریں بنانی ہیں۔۔۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

تبصرہ تحریر کریں۔

Your email address will not be published. Required fields are marked *