اکتوبر 26, 2010
4 تبصر ے

ہماری مایوسی اور مثبت سوچ

اکثر مثبت سوچ کی ترویج کے لئے ایک بات کی جاتی ہے کہ ”گلاس کو آدھا خالی نہ دیکھو بلکہ آدھا بھرا ہوا دیکھو“۔ جو لوگ مشکل سر پر ہو لیکن اپنی آنکھیں بند کر لیتے ہیں ایسے لوگوں کی ہمت بڑھانے اور مشکل کا مقابلہ کرنے کے لئے حوصلہ دیتے ہوئے کہا جاتا ہے بلکہ اکثر تنقیدی انداز میں کہا جاتا ہے کہ ”بلی کو دیکھ کر کبوتر کی طرح آنکھیں بند کر لینا کسی مسئلے کا حل نہیں“۔ میں اکثر ان دونوں باتوں کی وجہ سے کافی ”کنفیوز“ ہو جاتا ہوں۔ جب کہیں پڑھتا یا سنتا ہوں کہ یہ ٹی وی اینکر، کالم نگار اور باقی لکھاری وغیرہ ملک کی خرابیاں ہی دیکھتے ہیں اور پھر دوسروں کو بتاتے ہیں۔ یہ لوگ ملک میں مایوسی پھیلا رہے ہیں۔ یہاں پھر وہی بات میرے ذہن میں آتی ہے کہ واقعی گلاس کو آدھا خالی نہیں دیکھنا چاہئے بلکہ آدھا بھرا ہوا بھی تو ہے۔ کچھ دیر اسی پر اتفاق رکھتا ہوں لیکن ساتھ ہی جب یہ خیال آتا ہے کہ بلی کو دیکھ کر کبوتر کی طرح آنکھیں بند کر لینا بھی تو کوئی سمجھداری نہیں تو پھر سوچتا ہوں، نہیں نہیں خرابیاں سب کے سامنے لائی جانی چاہئیں، تاکہ لوگوں کو پتہ چلے کہ ہمارے ملک میں کیا کیا گل کھلائے جا رہے ہیں، عوام کو جگایا جائے اور بتایا جائے کہ غفلت کی نیند سے جاگو اور ہوش کرو۔ مزید اس تحریر میں مایوسی اور مثبت سوچ پر بالکل تھوڑی سی بات کرتا ہوں۔←  مزید پڑھیے
ستمبر 25, 2010
31 تبصر ے

پیارے دوست خرم کو شادی مبارک

ادھر ہم پہنچے اور ادھر خرم بھائی کی برات راولپنڈی سے جہلم پہنچی۔ ہم بارات کے ساتھ شامل ہو گئے۔ لیکن خرم بھائی نے ہمیں نہیں دیکھا تھا بلکہ ہم نے دیکھا کہ ایک خوبصورت سا دولہا ہے اور ساتھ کچھ باراتی ہیں تو ہم سمجھ گئے یہ اپنے ہی بندے معلوم ہوتے ہیں تو ہم بھی برات کے قافلہ میں شامل ہو گئے۔ ڈھول کی تھاپ پر خرم بھائی کے دیگر دوست بھنگڑا ڈال رہے تھے، سلامیاں دی جا رہی تھیں، چٹے دودھ رنگ کے لباس میں چٹا دودھ دولہا ماشاءاللہ بہت ہی خوبصورت لگ رہا تھا۔ دولہا اندر سے اور ظاہری طور پر بھی بڑا چہک رہا تھا۔ اسی دوران میں نے بھی خرم بھائی سے پہلی ملاقات کا شرف حاصل کیا۔←  مزید پڑھیے
ستمبر 23, 2010
6 تبصر ے

ہم اور ہمارا کردار (سوئم و آخری)

ہماری اکثریت پسِ پردہ کام کرنے کو تیار ہی نہیں بلکہ سب کو ہیرو بننے کا شوق ہے۔ جو بھی تھوڑا بہت کام سمجھ جاتا ہے وہ پھر اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد بنا کر بیٹھ جاتا ہے۔ میری نظر میں یہ بھی ہماری ناکامی کی ایک بہت بڑی وجہ ہے۔ اس کی مثال آپ کو عام زندگی سے لے کر انٹرنیٹ تک ہر جگہ ملے گی۔ عام زندگی میں اس کی سب سے بڑی مثال ہماری سیاسی جماعتیں ہیں اور انٹرنیٹ پر میں اس کی مثال مختلف ویب سائیٹس اور فورمز کے ممبران سے معذرت کے ساتھ پیش کرتا ہوں۔ آپ دیکھ لیں، اتنے ہمارے فورمز استعمال کرنے والے ممبر نہیں جتنے اب فورمز بن رہے ہیں۔ ذہانت کا ذخیرہ ٹوٹ ٹوٹ کر بہت جگہوں پر بکھرا پڑا ہے۔ ہیرو بننے کے چکروں میں سب شروع سے پہیہ ایجاد کر رہے ہیں۔ کسی نے تھوڑا زیادہ کر لیا ہے اور کسی نے کم۔ اگر یہی کام ایک پلیٹ فارم پر ہوتا تو اب تک پہیہ تو کیا کئی قسم کی گاڑیاں بن جانی تھیں۔ جب ایک پلیٹ فارم سے کام زیادہ ہوتا تو پھر نیا منصوبہ بنایا جاتا اور نئے فورمز، لیکن ایسا کچھ نہیں۔ کبھی غور کیا آخر ایسا کیوں ہو رہا ہے؟ ایک چھوٹی سی وضاحت کرتا جاؤں کہ سب کی بات نہیں کر رہا بلکہ اکثریت ایسی ہے۔ اگر مقصد اور منزل مختلف ہو پھر تو ظاہر ہے علیحدگی ہی بہتر ہے لیکن اگر مقصد ہو اچھا مسلمان بننے کی تو پھر ہر کوئی اپنی اپنی مسجد کیوں بناتا ہے؟ ایک دوسرے کے ساتھ کیوں نہیں چل سکتے؟ ہاں تو کبھی آپ نے غور کیا آخر ایسا کیوں ہو رہا ہے؟ تو میری نظر میں اس کی چند وجوہات ہیں۔ ←  مزید پڑھیے
ستمبر 21, 2010
11 تبصر ے

ہم اور ہمارا کردار (دوم)

میری نظر میں ہمیں سب سے پہلے اپنے اندر کے ماسٹر کی پہچان کرنی ہو گی کہ ہم کونسا کام اچھے طریقے سے کر سکتے ہیں، جو ہماری فطرت کے مطابق بھی ہو اور وہ کام کرتے ہوئے ہمیں اچھا بھی لگے۔ یوں ہماری ایک منزل منتخب ہو جائے گی۔ پھر اس منزل تک پہنچنے کے لئے ہمیں راستہ منتخب کرنا ہو گا اور پھر سفر شروع کرنے سے پہلے سفر کی ضروریات دیکھتے ہوئے اپنا سامان باندھنا ہو گا اور پھر اللہ کا نام لے کر سفر شروع۔ دوران سفر کئی لوگ ملیں گے، بہت کچھ نیا دیکھنے کو ملے گا، کئی جگہ پر تھکاوٹ کی وجہ سے پاؤں تھوڑے بہت رک بھی جائیں گے، بہت احتیاطی تدابیر کے باوجود کہیں ڈاکو سب کچھ لوٹ کر بھی لے جا سکتے ہیں اور اسی طرح کئی دیگر مشکلات بھی ہو سکتی ہیں۔ لیکن کامیاب وہی ہو گا جس نے یہ سب ہونے کے باوجود چاہے آہستہ آہستہ ہی کیوں نہ سہی لیکن منزل کی طرف سفر جاری رکھا۔ فرض کریں اگر ہم منزل پر پہنچ گئے تو پھر آگے کیا ہو گا تو میں اس منزل کو کچھ اس طرح دیکھتا ہوں کہ ایک بار شمالی علاقہ جات کی سیر کے دوران میں نے اپنے ایک دوست سے پوچھا کہ یار اس پہاڑ کی دوسری طرف کیا ہے تو اس نے جواب دیا ”ایک اور پہاڑ“۔ ہماری منزل بھی کچھ ایسے ہی ہے کہ ایک منزل کے بعد دوسری منزل اور یہ ایک ایسا سلسلہ ہے جو شاید زندگی میں کبھی ختم ہونے والا نہیں۔ لیکن کامیاب وہی انسان ہوتے ہیں جو منزل کی جانب سفر کرتے ہیں۔←  مزید پڑھیے
ستمبر 20, 2010
13 تبصر ے

ہم اور ہمارا کردار (اول)

سیانے کہتے ہیں کہ جو جس چیز کا ماسٹر ہو، اگر وہ وہی کام کرے گا تو خود بھی فائدے میں رہے گا اور باقی بھی اس کی وجہ سے سکھی رہیں گے۔ اگر کوئی ہیرو بننے کی کوشش میں ہر جگہ ٹانگ اڑائے گا تو اس کی اپنی ٹانگ تو ٹوٹے گی لیکن ساتھ ساتھ دوسروں کو بھی نقصان پہنچائے گا۔ اس لئے ہمیں اپنے اندر کے ماسٹر کی پہچان کرنی ہو گی اور وہی کام کرنا ہو گا جس کے لئے ہم بنائے گئے ہیں۔ جس طرح ہم سے پہلے لوگ اس دنیا کے سٹیج پر اپنا کردار ادا کر کے چلے گئے ہیں ویسے ہی ہم نے بھی←  مزید پڑھیے