جنوری 28, 2021 - ایم بلال ایم
1 تبصرہ

اروڑ کا جبلِ محبت – پربتِ عشق

گزشتہ سے پیوستہ
رنی کوٹ قلعہ کے بعد رات گئے تک اندرونِ سندھ کے ویرانوں میں گاڑی چلتی رہی۔ ڈر؟ جی بالکل ڈر بھی آتا ہے مگر دنیا کی نظر میں سیاح اس حوالے سے تھوڑا سا بیوقوف سہی، لیکن اکثر اوقات اللہ توکل ہو کر وہ ڈر کے اُس پار اتر جاتا ہے۔ ہم نے بھی کچھ ایسا ہی کیا۔ سیہون کے اک ہوٹل پر کھانا کھانے کے بعد شہباز قلندر کے مزار پر فاتحہ خوانی کی اور پھر چلتے رہے۔ آدھی رات کو ضلع نوشھرو فیروز کے ایک شہر بھِریا میں جا ٹھہرے۔۔۔

اگلے دن بارش ہوتی رہی اور ہم سفر کرتے رہے۔ راستے میں سچل سرمست کے مزار پر فاتحہ خوانی کر کے آخرکار فیض محل دیکھنے خیرپور پہنچے۔ مگر خیر پور سے کوئی خیر کی خبر نہ آئی۔ محل کے دروازے پر موجود چوکیدار (پولیس والا) بیزار ہوا بیٹھا تھا۔ صبح غالباً بیگم سے کھری کھری سن کر آیا ہو گا۔ لاکھ کہا کہ سینکڑوں کلومیٹر دور سے آئے ہیں۔ تم اندر جا کر بتاؤ تو سہی۔ نہ جی نہ۔ ارے بھائی! باہر سے ہی ایک تصویر بنا لینے دو۔ نہ جی نہ۔ پیار سے انکار کرتا تو کوئی بات بھی ہوتی لیکن اس کی کھردری زبان پر ایک ہی بات تھی کہ واپس چلے جاؤ، جاؤ واپس جاؤ۔۔۔ آخر تنگ آ کر سوچا ”کول رکھو، ایڈا رہ گیا تہاڈا محل“۔ ظاہر ہے کہ جب نہ ملیں تو انگور کٹھے ہی ہونے تھے۔ اور اگر مل جاتے تو ہم اینٹ سے اینٹ بجانے والے نہیں بلکہ روڑے روڑے پر محبت کی پھونکیں مارتے ہیں۔۔۔ بہرحال بارش تیز ہو چکی تھی اور کھجوروں کے اس شہر میں بھائی صاحب کو پکوڑے کھانے تھے۔ مگر مجال ہے جو خیر پور والوں نے ایک پکوڑہ بھی تلا ہو۔ یوں ہم نے بھی اپنا لُچ تلنے سے گریز کیا اور خیرپور کو خیر آباد کہا۔

اب ہماری منزل سکھر روہڑی کے قریب ”اروڑ“ میں وہ میدان تھا کہ جہاں محمد بن قاسم اور راجہ دہر کی جنگ ہوئی تھی۔ وہیں پر محمد بن قاسم کی بنائی مسجد اور ”نیہ ٹکر“ دیکھنی تھی۔ مگر گوگل والی خاتون راستہ بتانے سے شدید قاصر تھی۔ یوں روہڑی بائی پاس کے شروع سے، ہر ہوٹل سے، ہر دکان سے پوچھا، مگر اکثریت کو علم نہیں تھا اور اقلیت ہمیں غلط کچے پکے راستوں پر خجل کراتی رہی۔ شاید میں جلدی ہمت ہار جاتا لیکن رہ رہ کر سکھر والوں کی بات یاد آتی کہ یہاں آؤ تو نیہ ٹکر ضرور دیکھنا۔ اوپر سے جب مسافرِشب (محمد احسن) کو معلوم ہوا کہ میں سندھو نگری جا رہا ہوں تو انہوں نے اس ٹکر سے ٹکرانے کی تاکیدِ مزید کر دی۔ لہٰذا ہم دل و جان سے کھوج لگاتے رہے۔ اور جب تلاشِ بسیار سے تھکنے لگے تو بھائی کو کہا کہ اب کسی آخری بندے سے پوچھتے ہیں، اگر معلوم ہو گیا تو ٹھیک ورنہ فی الحال اسے ”پُر کراؤ“ اور سکھر چلتے ہیں۔ ایک ویلڈنگ کی دکان کے سامنے گاڑی روکی اور پوچھا تو انہیں بھی معلوم نہیں تھا۔ واپس گاڑی میں بیٹھنے لگا تو ایک خیال آیا۔ موبائل پر نیہ ٹکر کی تصویر اس بندے کو دکھائی کہ یہاں جانا ہے۔۔۔ وہ: ”تو یوں کہو کہ دودان کوہ جانا ہے۔ یہاں سے ایسے جاؤ، وہاں سے یوں جانا اور لبِ سڑک ہی وہ پہاڑی آئے گی بلکہ دور سے ہی نظر آ جائے گی۔ ویسے ادھر کرنے کیا جانا ہے؟“۔۔۔ میں: ”بس پہاڑی دیکھنی اور اس کی تصویر بنانی ہے“۔۔۔
وہ نہایت حیرانی کے عالم میں بولا: ”اللہ تجھے مدینے لے جائے۔ اک تصویر کے لئے اس خراب موسم میں اتنی خجل خواری“۔
میں: ”بس جی! عشق پوائیاں زنجیراں…“

تصویر والی وہی پہاڑی ہے۔ اس کے کئی نام ہیں۔ ویلڈنگ والے نے اسے ”دودان کوہ“ کہا۔ شاید اس لئے کہ اس پہاڑی کے قریب اسی نام کا ایک گاؤں بھی ہے۔ نیہ ٹکر؟ لغت کے مطابق ”ٹکر“ سندھی میں پہاڑی کو بولتے ہیں۔ اور ہمارے دوست یونس عباسی کے مطابق آبشار کے مصداق بہتے ہوئے پانی کو ”نیہ“ کہتے ہیں۔۔۔ اس کے علاوہ اس پہاڑی کو دیگر کئی ناموں سے بھی پکارا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر شتن/چھتن شاہ ٹکر، چار تلوار پہاڑ اور نينهن جبل یعنی جبلِ محبت، بولے تو کوہِ محبت، پربتِ عشق (Mountain of Love)۔ مجھے تو ان سب میں سے ”پربتِ عشق“ نام زیادہ پسند آیا۔ مگر افسوس کہ اس نام کی وجہ یا روایت وغیرہ معلوم نہ ہو سکی۔ البتہ خوشی اس بات کی ہے کہ جہاں کسی نے میدانِ جنگ سجایا، لہو بہایا، آج عین وہیں یہ پہاڑی محبت کی صدائیں لگا رہی ہے۔ تلوار ہار گئی، عشق جیت گیا۔۔۔ بہرحال پہاڑی کے اوپر اک خانقاہ بھی بنی ہوئی ہے اور اوپر تک جانے کا راستہ تھوڑا مشکل ہے۔ پہاڑی میں موجود دراڑ کے متعلق مقامی روایت یہ بھی ہے کہ علی نامی کسی مسلم جنگجو نے اس پر تلوار مار کر پہاڑی کے چار ٹکرے کر دیئے تھے۔ بہرحال جو بھی ہو یہ پہاڑی اپنی شکل و صورت میں منفرد ضرور ہے۔ بعض زاویوں سے کسی پھول کی پنکھڑیوں کی مانند کھلی ہوئی لگتی ہے۔۔۔ یہ ایسے کیونکر ہے؟ آیا صدیوں سے ہواؤں کی رگڑ نے اپنا کام دکھایا یا اترتا سمندر اپنی نشانیاں چھوڑ گیا؟ ان کے جوابات یہ پہاڑی جانے اور ماہرین جانیں۔ ہمارا یہ کام نہیں۔ ہم نے تو بس پربتِ عشق پر حاضری دینی تھی، سو دے دی۔ اس کے علاوہ ہمارا جو کام تھا، وہ تو ہم نے تیز ہوا کے باوجود بھی کیا۔ گویا پرندو اڑانے کا خطرہ مول لے لیا تھا۔ حالانکہ بیچارہ چیختا رہا کہ ہوا تیز ہے، مجھے خطرہ ہے، میں گر جاؤں گا، مجھے نیچے اتارو۔۔۔ خیر جلدی جلدی ویڈیو اور تصویریں بنا کر پرندو بادشاہ کی بات مان ہی لی، اسے اتارا اور اگلی منزل کی طرف چل دیئے۔ ویسے بھی شام ہونے والی تھی اور ہمیں اندھیرہ چھانے سے پہلے پہلے سکھر روہڑی کی ایک خاص تصویر کے لئے بہترین مقام کی کھوج لگانی تھی۔۔۔
جاری ہے۔۔۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”اروڑ کا جبلِ محبت – پربتِ عشق

  1. پڑھ کر بہت لطف آیا۔ بہترین تحریر اور اچھی منظر کشی۔ ہمت والے لوگ ہی ایسی سیاحت کرتے ہیں۔ بہت خوب۔
    سید عرفاان علی یوسف

تبصرہ تحریر کریں۔

Your email address will not be published. Required fields are marked *