جولائی 11, 2012 - ایم بلال ایم
20 تبصر ے

ابتدائیہ – پربت کے دامن میں

سو چہروں والے قاتل پہاڑ کے دامن میں ہر سال جانے کا سوچتے، پروگرام بننا شروع ہوتا مگر کسی نہ کسی وجہ سے پروگرام پایہ تکمیل تک نہ پہنچ پاتا۔ کوئی دوست کہتا کہ دن بہت زیادہ لگ جائیں گے اور کاروبار متاثر ہو گا۔ کوئی لمبے سفر سے ڈر جاتا۔ آپس کی بات ہے کہ کاروبار متاثر اور لمبا سفر تو صرف بہانا ہوتا، حقیقت تو یہ تھی کہ ہر کسی کو ”بیوی“ سے اجازت نہ ملتی۔ 😀 ہمارا کیا ہے، جانے سے پہلے یا واپس آنے کے بعد دس دن ”ٹکا“ کر کام کریں گے تو کاروباری کمیاں دور ہو جائیں گی۔ فی الحال دوست ساتھ ہوں تو لمبے سے لمبا سفر بھی چھوٹا لگتا ہے اور شادی والا موتی چور کا لڈو کھانے کا ”ارمان“ خیر سے ابھی تک پورا ہی نہیں ہوا، اس لئے والدین سے اجازت لینی ہوتی ہے اور وہ سیروتفریح سے منع نہیں کرتے۔ خیر دوستوں کی اسی طرح کی کوئی نہ کوئی وجہ بن جاتی اور ہم ”پربت کے دامن میں“ نہ جا پاتے۔ یوں کہیں نزدیک ہی ایک دو دن کے لئے چلے جاتے۔ کہیں نہ بھی جاتے تو پھر اپنے چناب کے کنارے ”چلہ“ کاٹنے چلے جاتے۔

اب کی بار تمام جیالے دوستوں نے وقت نکالا ہے اور انہیں اپنی اپنی ”بڑی سرکار“ سے اجازتیں بھی مل گئی ہیں۔ یوں ہم سات دوست نانگا پربت کے دامن میں پہنچنے کے لئے نکل پڑے ہیں۔ جاتے ہوئے ہم بالترتیب جن شہروں/قصبوں سے گزریں گے، ان میں سے چند ایک کے نام لکھ دیتا ہوں۔ اپنے ضلع گجرات جو کہ سطح سمندر سے تقریباً 230میٹر بلند ہے، سے سفر کا آغاز ہو گا پھر جی ٹی روڈ (جرنیلی سڑک) پر سفر کرتے ہوئے لالہ موسیٰ، کھاریاں، جہلم، دینہ، گوجرخاں، مندرہ، روات، روالپنڈی، ٹیکسلا اور حسن ابدال سے جی ٹی روڈ کو چھوڑ کر دائیں طرف شاہراہ قراقرم (شاہراہ ریشم) پر سفر کرتے ہوئے ہری پورہزارہ، حویلیاں، ایبٹ آباد، مانسہرہ، شنکیاری، بٹگرام، تھاکوٹ، بشام، داسو،ثمر نالہ، شتیال، دیامیربھاشا ڈیم، چلاس، تتاپانی، رائے کوٹ پل اور پھر گلگت سے تقریباً ساٹھ کلومیٹر پہلے تھلیچی سے شاہراہ قراقرم کو خیر باد کہتے ہوئے دائیں طرف استور کے لئے مڑ جائیں گے۔ سنگلاخ پہاڑوں میں دریائے استور کے کنارے سفر کرتے ہوئے ڈویاں اور ہرچو سے ہوتے ہوئے استور شہر پہنچیں گے۔

پربت کی سیاحت کا نقشہ
پربت کی سیاحت کا نقشہ
استور ہمارے ٹور کا مرکز ہو گا یعنی یہیں سے تمام اطراف کو نکلیں گے۔ خیر استور پہنچنے کے بعدسب سے پہلے وادی راما جائیں گے، وہاں سے واپس استور آ کر گوری کوٹ سے ہوتے ہوئے چُورت اور پھر تری شنگ پہنچیں گے۔ تری شنگ سے آگے، وادی روپل سے ہوتے ہوئے نانگا پربت کے میسنر (روپل) بیس کیمپ تک جائیں گے اور پھر واپس گوری کوٹ آ کر وہاں سے میکیال، پکورہ، کشنت، زائیل، ہمے داس، گودائی، شکانگ، کھرم، داس کھرم، داس بالااور چلم سے ہوتے ہوئے دیو سائی میں شاؤسر جھیل اور کالا پانی تک جائیں گے۔ ایک طرف راما جھیل (بلندی 3500 میڑ)، دوسری طرف نانگا پربت کا بیس کیمپ (بلندی 3570 میٹر) اور تیسری طرف دیو سائی میں شاؤسرجھیل (بلندی 4150 میٹر) اور کالاپانی (بلندی 3985 میٹر) ہماری آخری منزل ہو گی۔ واپسی پر دیکھیں گے کہ کس راستے سے واپس آیا جائے، آیا شاہراہ قراقرم پر جس رستے سے جا رہے ہیں اسی سے واپس آیا جائے یا پھر چلاس سے بابوسر ٹاپ کے رستے وادی ناران میں اترا جائے۔ خیر یہ فیصلہ وہاں پہنچ کر ہو گا۔ اس لئے فی الحال کچھ نہیں کہہ سکتا۔ مندرجہ بالا جو شہر، قصبے اور گاؤں لکھے ہیں ان تک پہنچنے کے لئے کسی جگہ جیپ کا سفر ہو گا تو کسی جگہ پیدل بھی چلنا پڑے گا۔ اس کی وضاحت سفر کے احوال میں آپ کو مل جائے گی۔

سو چہروں والا قاتل پہاڑ یعنی نانگا پربت سطح سمندر سے 8126 میٹر بلند ہے۔ یہ پاکستان کی دوسری اور دنیا کی نویں بلند ترین چوٹی ہے مگر کہا جاتا ہے کہ کوہ پیماؤں کی دنیا میں یہی بلند ترین چوٹی ہے کیونکہ اسے سر کرنا سب سے مشکل ہے اور جس نے اسے سر کر لیا سمجھو اس نے دنیا کی ساری چوٹیاں سر کر لیں۔ انیسویں صدی میں ہی اسے سر کرنے کی کوششیں شروع ہو گئی تھیں، مگر اس قاتل پہاڑ نے کسی کو اجازت نہ دی اور کئی کوہ پیما لقمہ اجل بن گئے اور ابھی تک بن رہے ہیں۔ خیر بیسویں صدی کے وسط میں 3 جولائی 1953ء کو جرمن کوہ پیما ہرمن بہل (Hermann Buhl) نے اسے پہلی دفعہ سر کیا۔ نانگا پربت کے آس پاس رہنے والوں میں سے کوئی ہرمن بہل کو جانتا ہے یا نہیں مگر تیسری دفعہ سر کرنے والے اٹلی کے رین ہولڈ میسنر (Reinhold Messner) کو اس کے سر کرنے والے واقعے اور خاص طور پر اس کی نانگا پربت کے آس پاس دی گئی امداد کی وجہ سے ہر دوسرا بندہ میسنر کے نام اور کام سے واقف ہے۔

29جون2012ء تاریخ بدل چکی ہے۔ ابھی نئی تاریخ شروع ہوئی ہی ہے تو سب سے پہلے عبدالستار کا ایس ایم ایس آیا ہے کہ ”ہون آ وی جاؤ“۔ دراصل ہمارا رات کو ہی نکلنے کا پروگرام ہے۔ میں ساری تیاری مکمل کر چکا ہوں۔ کپڑے، دوربین، ٹارچ اور دیگر ضروری چیزوں کے ساتھ ساتھ موبائل اور کیمروں کی بیٹریاں چارج کرنے کے لئے سولر پینل بھی رکھ چکا ہوں۔ بس اب گھر والوں سے ملنا ہے اور خاص طور پر امی جی کی دعائیں سمیٹنی ہیں۔ لیں جی ادھر میں لکھنے میں مصروف ہوں ادھر دروازہ کھٹکا ہے اور امی جی سوئی اٹھ کر آئیں ہیں اور کہہ رہیں ہیں کہ بلال بارہ بج چکے ہیں، کیا تم نے جانا نہیں؟

سب کو مل ملا کر روانہ ہو رہا ہوں۔ چھوٹا بھائی جلالپور تک چھوڑنے جا رہا ہے۔ گاڑی چل پڑی اور چھوٹا بھائی چلا رہا ہے۔ میں ساتھ ساتھ کچھ ضروری باتیں اور خاص طور پر کسی ایمرجنسی میں کیا کرنا ہے اس کے بارے میں چھوٹے بھائی کو بتا رہا ہوں۔ خیر باتوں باتوں میں جلالپور آ چکا ہے اور چھوٹا بھائی مجھے چھوڑ کر واپس جا چکا ہے۔ عبدالستار اپنی فیکٹری کے باہر ہی میرا انتظار کر رہا ہے اور اس کے پاس سلیم کی گاڑی کھڑی ہے۔ سلیم اپنی گاڑی چھوڑ کر خود جہلم جا چکا ہے اور اسے وہیں سے ساتھ لیں گے۔ غلام عباس بھی اپنی گاڑی لے کر آگیا ہے، نجم اور میر جمال بھی آچکے ہیں۔ اب عبدالرؤف کو اس کے گھر سے لینا ہے کیونکہ پہلے دن کا کھانا ہم گھر سے پکوا کر لے جا رہے ہیں اور یہ کھانا عبدالرؤف نے پکوایا ہے اور اسی لیے اسے گھر سے اٹھائیں گے ورنہ تو۔۔۔ 🙂

ہمارے سفری سامان کا ڈھیر
ہمارے سفری سامان کا ڈھیر
باقی دوستوں نے بھی میری طرح چند اپنی ذاتی ضروریات کی چیزیں باندھی ہیں۔ بس غلام عباس اور سلیم کے ذمہ کچھ اضافی کام تھے جیسے سلیم نے سب کے لئے سلیپنگ بیگ اور خیمے تیار کرنے تھے اور غلام عباس نے میڈیکل کِٹ تیار کرنی تھی۔ اس میڈیکل کِٹ میں فرسٹ ایڈ سے لے کر اینٹی بائیو ٹک ادویات، سردی لگ جانے کی صورت میں اس کے توڑ کی ادویات اور چند ضروری انجکشن موجود ہیں۔

ہم سب جمع ہو چکے ہیں اور سلیم کو جہلم سے لینا ہے۔ ویسے اگر آپ کا، جی بالکل آپ کو، ارے اے پڑھنے والے آپ کو ہی کہہ رہا ہوں کہ اگر آپ کا بھی ہمارے ساتھ جانے کا پروگرام ہو تو آ جائیں۔ آپ کو بھی لئے چلتے ہیں مگر یاد رہے خرچہ اپنا اپنا۔ چلیں آپ بھی کیا یاد کریں گے، آپ کو مفت میں ان تحاریر اور تصاویر کے ذریعے سیر کروائے دیتے ہیں۔

ہم اپنی گاڑیوں پر جہلم تک پہنچ چکے ہیں۔ دراصل ہوا کچھ یوں ہے کہ ہمیں کم کرایہ پر گاڑی جہلم سے ملی ہے۔ وہ کیا ہے کہ ہمارا دوست سلیم جہلم کا رہنے والا ہے مگر اس کا کاروبار اور سسرال جلالپور میں ہیں۔ اجی سلیم گھر داماد نہیں بلکہ اس نے جلالپور میں اپنا علیحدہ گھر لے رکھا ہے اور مزے کی بات ہے کہ یہ جلالپور والے گھر میں اکیلا رہتا ہے جبکہ اس کے بیوی بچے جہلم میں ہی رہتے ہیں اور یہ ہر جمعرات کو ان سے ملنے جہلم جاتا ہے۔ سورج نکلنا بھول سکتا ہے مگر سلیم جمعرات کو جہلم نہ جائے یہ نہیں ہو سکتا۔ خیر ہم رات کے ڈیڑھ بجے جہلم سلیم کے گھر پہنچ گئے ہیں اور اسے فون کر کے اٹھایا ہے کہ لالہ جی اٹھو اور چلیں۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ جس گاڑی پر جانا ہے وہ ابھی تک نہیں آئی۔ سلیم کی بیٹھک میں بیٹھے ہیں، کچھ دوستوں کو نیند آ رہی ہے۔ سلیم چائے بنوا کر لے آیا ہے۔ ویسے مجھے یقین کی حد تک شک ہے کہ ”بنوانے“ کا تو بس کہہ رہا ہے، جبکہ خود بنا کر لایا ہو گا۔ وہ کیا ہے کہ آدھی رات کو دوستوں کے لئے چائے بنوانا ایک شادی شدہ بندے کے لئے نقصان دہ ثابت بھی ہو سکتا ہے۔۔۔ میں مہمان نہیں بلکہ سلیم کا دوست ہوں اس لئے چائے کے ساتھ کچھ کھانے کو بھی مانگ لیا ہے۔ سلیم تازہ انجیر لے آیا ہے جو کہ بہت لذیذ ہیں۔

ڈیڑھ گھنٹہ انتظار کے بعد گاڑی آ ہی گئی ہے۔ ویسے گاڑی اپنے ٹھیک وقت پر آئی ہے، بس ہم کچھ جلدی ہی جہلم پہنچ گئے تھے۔ گاڑی والے نے ایک عجب مسئلہ بنا دیا ہے، وہ یہ کہ وہ اپنے ساتھ ایک بندہ بطور معاون ڈرائیور لے آیا ہے۔ ایسا ہمارے ساتھ پہلی دفعہ ہوا ہے کہ ایک گاڑی اور دو ڈرائیور۔ تمام دوست اس بات کو پسند نہیں کر رہے اور ہم نے گاڑی کے اصل مالک و ڈرائیور سے بھی یہ بات کر دی ہے کہ آپ میں سے ایک بندہ ہی جائے گا۔ ڈرائیور نے اپنی رام کہانی سنانی شروع کر دی کہ اتنا لمبا سفر ہے اور میرے ساتھ دوسرا ڈرائیور بھی ہونا چاہئے۔ ہم نے کہا کہ اگر گاڑی چلانے کا مسئلہ ہے تو پھر ہم میں سے چار بندے ڈرائیور ہیں۔ ہم تیرا ہاتھ بٹاتے رہیں گے۔ ہم نہیں مان رہے مگر ڈرائیور ترلے منتوں پر آ گیا ہے کہ آپ کی مہربانی ہے کہ میرے ساتھ بندہ جانے دیں۔ اس کے منتوں بھرے انداز سے میں نے کچھ اندازہ لگایا اور اسے کہا کہ اگر تجھے کچھ پینا پلانا یا کوئی سُوٹا شوٹا لگانا ہے تو ہم تجھے نہیں روکیں گے، اس لئے تو دوسرا بندہ رہنے دے مگر وہ توبہ توبہ کرنے لگا کہ اللہ معاف کرے ایسی کوئی بات نہیں اور ساتھ ہی دوبارہ دوسرا بندہ ساتھ لے جانے کے لئے ترلے منتیں کرنے لگا۔ یہ نشہ بھی عجب چیز ہے، انسان کو بہت حد تک گرا کر رکھ دیتا ہے۔ خیر اس کے ترلے منتوں نے ہمیں متاثر کر ہی دیا اور ہم مان گئے۔

اپنی گاڑیوں کی بجائے کرائے کی گاڑی پر جانے کی بڑی وجہ یہ ہے کہ اپنی دو گاڑیاں لے جانی پڑتیں۔ یوں کچھ دوست ادھر تو کچھ ادھر ہو جاتے اور ہلہ گلہ مزے کا نہ ہوتا۔ خیر یہ ٹیوٹا کی ہائی ایس ہے۔ ایل سی ڈی لگی ہوئی ہے۔ بقول ڈرائیور اے سی بھی چالو ہے، وہ تو جب لگے گا تو پتہ چلے گا کیونکہ ابھی تو موسم ویسے ہی بڑا خوشگوار ہے۔ گاڑی کی آخری سیٹ پہلے ہی نکلوا دی تھی اور وہاں پر ہم نے اپنا سامان رکھ دیا ہے۔

اگلا حصہ:- سفر کی شروعات – پربت کے دامن میں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست 20 تبصرے برائے تحریر ”ابتدائیہ – پربت کے دامن میں

  1. اللہ آپ سب کو اپنے حفظ و امان میں رکھے اور ہر دم آپ کی رہنمائی فرمائے ۔ اب تو گاڑی میں بیٹھ کر بھی پہاڑ پر جانے کی اجازت نہیں ۔ وہ وقت بھی تھا کہ پیدل چڑھا کرتے تھے اور لوگ ہمیں بیوقوف یا پاگل کہا کرتے تھے

    1. چچا جان دعاؤں کا بہت بہت شکریہ۔ اللہ تعالیٰ آپ کو صحت، لمبی عمر اور بے شمار خوشیاں دے۔۔۔آمین
      ویسے پہاڑ چڑھنا ایک عجب جنون ہے اور جن میں یہ جنون نہیں‌ہوتا وہ یہی کہتے ہیں کہ بھلا پہاڑ چڑھ کر کیا ملے گا۔ ویسے مجھے آج تک یہ سمجھ نہیں آ سکی کہ آخر یہ جنون انسان میں کیوں پیدا ہو جاتا ہے۔ اگر آپ کے پاس اس بارے میں کوئی معلومات ہو تو بتائیے گا۔

  2. اچھی تحریر ہے کافی انفرمییشن مہیا کی ہے آپ نے۔ برائے مہربانی رہ جانے والے دوستوں کے کٹھے چٹھے نہ کھولنے بیٹھ جانا آخر آپکے دعا گو ہیں

    1. ساتھ جانے والے اور نہ جانے والے مگر دعاگو سب برابر کے شریک ہیں۔ وہ کیا ہے کہ خود کام کرنا یا کسی دوسرے کی اس کام میں مدد کرنا ایک ہی ہوتا ہے۔ اس لئے آپ بھی برابر کے شریک ہو۔ 😀

    1. بھائی میں تو لکھ چکا ہوں مگر سوچا روزانہ کی ایک قسط شائع کر دوں گا تاکہ اگر کوئی پڑھنا چاہے تو اس کے لئے آسانی ہو۔ ویسے اگلی قسط تھوڑی دیر میں ہی شائع کرتا ہوں۔

  3. اللہ تعالٰی کامیابی عطاء فرمائے، اپنی حفظ و امان میں رکھے ، آمین ثم آمین
    آیت الکرسی کا ورد جاری رکھیں ، اللہ تعالٰی تمام بلیات اور مصائب کو دور رکھتا ہے۔

    اللہ حافظ وناصر ، فی امان اللہ۔

  4. واہ جی، ہم گلگت کے ہوتے بھی گلگت نہ گئے، اور آپ روانہ ہوگئے۔ حالات نے کبھی اجازت نہ دی، گلگت کے یہ سارے علاقے امی سے سنے ہوئے ہیں، میں محسوس کرسکتا ہوں۔ اللہ آپ کو اور آپ کے دوستوں کو سلامت رکھے۔

  5. واہ بلال بھائی خوب مزہ آیا ہوگا۔
    ویسے انہی دنوں میں میں فیملی کے ساتھ کشمیر کے ٹور پہ تھا۔ پوری وادی نیلم دیکھی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ ناران، کاغان اور جھیل سیف الملوک کا دیدار بھی کیا ہے۔
    یار میں تقریبا کافی حد تک شمالی علاقہ جات دیکھ چکا ہوں، لیکن جو سرور، سکون اور لطف وادی کشمیر میں ملا ہے وہ کہیں بھی نہیں پایا جاتا۔

    1. بھائی جان ایسے ہی تو نہیں کہتے کہ کشمیر جنت ہے۔ ویسے ہمارے شمالی علاقہ جات اور کشمیر ایک ہی پٹی میں آتے ہیں اور یہ سب ملتے جلتے ہیں۔ گو کہ کہا جاتا ہے کہ پہاڑ سبھی ایک جیسے ہوتے ہیں مگر میرا ذاتی خیال ہے کہ ہر جگہ اپنا اپنا ایک الگ مزہ ہے۔ بہرحال میں نے وادی نیلم نہیں دیکھی، جتنی تعریف سن رہا ہوں لگتا ہے دیکھنی ہی پڑے گی۔ ویسے میں وادیوں کی خوبصورتی کے ساتھ ساتھ اس عظیم شاہکار حضرت انسان کی سوچ کو بھی دیکھ کر سیر کرتا ہوں، وہ کیا ہے کہ جس علاقے کے لوگ اچھے اور مہمان نواز ہوتے ہیں تو وہ وہاں کی خوبصورتی کو چار چاند لگا دیتے ہیں۔
      میرا خیال ہے کہ چاہے پورا سفر نامہ نہ سہی مگر وادی نیلم پر کم از کم تھوڑا بہت کچھ ضرور لکھیں تاکہ ہمیں بھی جاننے کا موقعہ ملے۔

      1. بلال بھائی ان شاء اللہ میں کچھ نہ کچھ ضرور لکھتا ہوں وادی نیلم کے بارے میں فی الحال تو آپ یہ پوسٹ پڑھیں یہ بھی وادی نیلم سے متعلق ہے۔
        http://adnanshahid.com/historical-background-sharda-university/

        اور بھائی کشمیری لوگ بہت مہمان نواز ہیں اور شمالی علاقہ جات کی نسبت یہاں پہ زیادہ سکون ہے اور یہاں لوگوں کا زیادہ رش بھی نہیں ہوتا۔ اور کبھی ٹائم نکال کر وادی نیلم کی سیر ضرور کریں

  6. آپ نے “گزشتہ سے پیوستہ” پر تو لنک لگا دیئے ہیں جن سے پیچھے آنا آسان ہو گیا ہے لیکن “جاری ہے”کی جگہ پر “اگلا”کا لنک نہ ہونے کی وجہ سے اگلا بلاگ ڈھونڈھنے میں دشواری ہوتی ہے۔ جہان اتنا تردد کرتے ہیں وہاں تھوڑا سا تردد اور کر لیں۔
    اللہ کرے زورَبازو اور زیادہ۔۔۔۔
    ٹریکیر ہونا اچھی بات ہے اور اس سے بھی اچھی بات رائیٹر ہونا ہے۔
    خدا کرے آپ کا زور قلم اور زیادہ۔۔۔
    قاری کی توجہ باندھنے میں اگر لکھاری کامیاب ہو جائے تو وہ اچھا لکھاری ہوتا ہے اور آپ اچھے لکھاری ہو۔۔۔
    اچھی تحریر کا شکریہ۔۔۔

    1. سب سے پہلے تو میرے لئے نیک تمناؤں کا بہت بہت شکریہ۔ اللہ تعالیٰ آپ کو خوش رکھے۔۔۔آمین
      رہی بات لنک کی تو محترم جیسے ہی سفر نامہ کی نئی قسط شائع کرتا ہوں تو ساتھ ہی پچھلی قسط میں نئی کا لنک شامل کر دیتا ہوں۔ ہر قسط کے آخر پر اگلا حصہ اور ساتھ میں اگلی قسط کے عنوان پر لنک موجود ہیں۔ ایسا شروع سے ہی کر رہا تھا۔ ویسے آپ کی بات بھی درست ہے کیونکہ اب تک کی آخری دو قسطوں میں نئی قسط کا لنک دینا یاد نہیں رہا تھا۔ دشواری کی معذرت چاہتا ہوں اور اب انہیں بھی ٹھیک کر دیا۔ اس طرف توجہ دلانے کا شکریہ۔

      1. السلام علیکم
        آپ کا شکریہ اپ نے معاملے کو فوری ہینڈل کیا۔ 11 اگست کے بعد کوئی تحریر نہیں آئی۔ اگلی قسط کا انتطار ہے
        میں نے کنفیوشس کو اردع میں ترجمہ کیا ہے فیس بک سے اسے پڑھا بھی جا سکتا ہے اور ڈاون لوڈ بھی کیا جا سکتا ہے۔ یہ پتا نہیں اپ کے مطلب کی بات ہے یا نہیں۔ کیونکہ اپ کو بلاگ درکار ہے جب کہ میرے پاس فیس بک ہے۔ بحرحال لنک حاضر ہے۔
        https://www.facebook.com/ConfuciusInUrdu
        شکریہ اگلی قسط کا انتظار ہے۔
        یونس خان

تبصرہ تحریر کریں۔

Your email address will not be published. Required fields are marked *