ستمبر 19, 2012 - ایم بلال ایم
18 تبصر ے

دنیا کا چوہدری اور گستاخانہ فلم

چوہدری چھوٹی چھوٹی بات پر کمیوں (غریبوں) کو ڈانٹتا۔ جب چاہتا گالیاں دیتا۔ کمیوں کی اور ان کے جذبات کی توہین کر کے رکھ دیتا۔ وقتاً فوقتاً ایسے واقعات بھی ہوتے جب کمیوں کی خوبصورت لڑکی چوہدری کی ہوس کا شکار بھی ہو جاتی۔ کئی دفعہ کوئی کمی یا اس کا جوان جوشیلا بیٹا احتجاج بھی کرتا۔ کبھی کبھار معاملات یہاں تک پہنچ جاتے کہ چوہدری قتل بھی کر دیا جاتا۔ کئی دفعہ اس جوان کے جوش کو محلاتی سازشیں ”ہائی جیک“ کر لیتی تو کئی دفعہ چوہدری کے دیگر حریف جوان کے جوش سے فائدہ اٹھا جاتے۔ چوہدری کے قتل ہونے کی صورت میں چوہدری کی آل اولاد اس قاتل کو سزا کے طور پر قتل کرتے یا بذریعہ قانون کرواتے، کیونکہ چوہدری امیر ہوتے، قانون و قاضی چوہدری کے ہی تیار کردہ جو ہوتے۔ چوہدری لوگ پراپیگنڈہ کرتے۔ یوں ظالم مظلوم بن جاتا اور دوسری طرف کمی، بیٹی کی عزت لٹوا کر، جوان بیٹا گنوا کر در بدرکی ٹھوکریں کھا رہا ہوتا۔ وقت تیزی سے گذرتا اور پھر وہی سب کچھ پہلے جیسا ہو جاتا، جس میں چوہدری چوہدری ہوتا۔

کمیوں کو سب نظر بھی آتا، ساری کہانی سے واقف بھی ہوتے مگر آخر ایسی کونسی وجہ تھی کہ سب خاموشی سے اپنا تماشا بنتے دیکھتے رہتے؟ اس خاموشی کی سب سے پہلی وجہ کمیوں کا متحد نہ ہونا۔ بس یہ سوچ کر چپ کر جانا کہ چلو ہم تو محفوظ ہیں۔ دوسری اور اہم وجہ ان کی غریبی تھی۔ ظاہر ہے جب چوہدری کے محتاج تھے اور چوہدری کی ہی زمین پر کام کرنا۔ چوہدری سے لے کر کھانا۔ چوہدری کے تلوے چاٹ کر پیٹ بھرنا ہوتا تو پھر کیسے چوہدری کے خلاف بغاوت کر سکتے تھے۔ اگر کوئی بغاوت کرتا بھی تو بڑے بوڑھے اسے سمجھاتے کہ چپ کر جا نہیں تو روٹی کے لالے پڑ جائیں گے۔ بڑے بوڑھے اپنی جگہ درست بھی ہوتے کیونکہ انہوں نے بچپن سے یہی سیکھا ہوتا کہ بس چوہدری کی خدمت کرو، اس سے لے کر کھاؤ اور ہر بات پر چپ کر جاؤ۔ خیر پھر بھی اگر کوئی بغاوت کرتا، وہ تنہا ہونے کے ساتھ ساتھ غریب بھی ہوتا اور بغاوت کے جرم میں لٹکا دیا جاتا۔

یہ بغاوت ذاتی انتقام کی خاطر ہوتی۔ کوئی معاشرے کی بہتری کے لئے بغاوت نہیں کرتا تھا۔ ویسے بھی زیادہ تر، جس کے پیٹ میں روٹی نہیں ہوتی، اس کو سیاست اور معاشرت وغیرہ سے کوئی لینا دینا نہیں ہوتا اور نہ ہی اس کا کوئی ”ایمان“ ہوتا ہے۔ اگر کبھی سیاست، معاشرت، دین و مذہب وغیرہ کے لئے نکلتا بھی ہے تو پھر بھی درحقیقت وہ روٹی کے لئے ہی نکلتا ہے۔ اس کے لئے ہمیشہ ”دو اور دو چار روٹیاں“ ہی ہوتیں ہیں۔

ابھی بھی ایسے حالات دنیا میں کئی جگہوں پر ہیں، مگر ہمارے علاقے میں ایسا نہیں۔ یہاں تو اگر کسی چوہدری نے کسی ”کمی“ کو کوئی کام کہنا ہو تو بھائی کہہ کر بلانا پڑتا ہے، بلکہ ترلے منت سے کام کہا جاتا ہے یا پھر دوستی کی بنیاد پر۔ آخر اتنی بڑی تبدیلی کیونکر آئی۔ اس کی سیدھی سی وجہ یہ ہے کہ کمیوں کی نئی نسلوں کو آہستہ آہستہ ہوش آنا شروع ہوا کہ عام نوعیت کی بغاوت کر کے اپنے اور اپنے گھر والوں کو زندہ درگور کرنے کی بجائے اصل بغاوت کرو جس کے دیر پا اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ یعنی اس غریبی اور چوہدری کی محتاجی سے آزادی کا کوئی حل سوچو۔ چوہدری کے محتاج ہونے کی بجائے اپنے پیروں پر کھڑے ہونے کی راہیں تلاش کرو۔ نہ رہے گی غریبی اور پھر نہ رہیں گے چوہدری کے ظلم۔ پھر اتنی طاقت ہو گی کہ کمی بھی چوہدری کی سوچ اور فیصلوں پر اثر انداز ہو سکیں گے۔

وقت گذرتا گیا اور پھر ایسا ہی ہوا۔ کمیوں کی نئی نسل چوہدری کی محتاج ہونے کی بجائے اپنے کام کرتی ہے۔ اپنا کماتے اور اپنا کھاتے ہیں۔ وہ کسی چوہدری کے تلوے نہیں چاٹتے۔ اس لئے اب چوہدری بھی احتیاط کرتا ہے کہ اگر کچھ الٹا کہا تو کمی چیر پھاڑ کر رکھ دیں گے۔

یہ باتیں سنانے کا مقصد یہ ہے کہ اگر غور کریں تو آج کے ترقی یافتہ ممالک (امریکہ و یورپ وغیرہ) اس دنیا کے چوہدری بنے بیٹھے ہیں۔ عالمی قوانین اور یو این او جیسا قاضی اسی چوہدری کا بنایا ہوا ہے۔ غریب ممالک کا شمار کمیوں میں ہوتا ہے اور انہیں غریب ممالک کی حکومتیں کمیوں کے وہ بڑے بوڑھے ہیں جو جب کوئی بغاوت کرنے لگتا ہے تو اسے سمجھاکر چپ کروا دیتی ہیں۔ آج کے چوہدری ممالک جب چاہتے ہیں، کمی ممالک کو ڈانٹتے اور گالیاں نکالتے ہیں۔ کبھی کبھار تو کمی ممالک کی عزت بھی لوٹ لیتے ہیں اور جب چاہتے ہیں کمیوں کے مذہب اور مذہبی شخصیات کی توہین کر دیتے ہیں۔ جوابی کاروائی میں چند کمی لوگ بغاوت (احتجاج یا قتل) کرتے ہیں۔ بدلے میں چوہدری ممالک کسی نہ کسی طرح انہیں قتل (احتجاج کو خاموش) کروا دیتے ہیں۔ وقت گذرتا ہے اور پھر وہی پہلے جیسا ہو جاتا ہے، جس میں چوہدری کی من مانیاں اور کمی کی غلامی۔

آپ کو یقیناً غریب ممالک اور خاص طور پر مسلمانوں کو ”کمی“ کہنے پر غصہ آیا ہوگا۔ مجھے بھی آتا ہے۔ جب سوچتا ہوں کہ ہر ”ایرا غیرا نتھو خیرا“ ہمارے نبیﷺ کی شان میں گستاخی کر دیتا ہے تو راتوں کو نیند نہیں آتی۔ حالیہ گستاخانہ فلم نے سب حدیں عبور کر دیں۔ میں خود سے اور آپ سے پوچھتا ہوں کہ اس فلم کے بعد، اب اور کیا باقی ہے؟ رات کے اس پہر میرا دل کر رہا ہے کہ اونچی جگہ چڑھ کر چیخوں کہ اے مسلمانو! اتنا سب ہونے کے باوجود تمہیں کیسے نیند آ گئی؟ عظمت رسولﷺ کے نعرے لگانے والو! کیا یہ سونے کا وقت ہے؟ تم نے یہ سب کیسے برداشت کر لیا؟ آپ میری سوچ اور جذبات کا اندازہ نہیں کر سکتے۔ میں وہ بد نصیب ہوں جس کو یہ سب دیکھنے سے پہلے موت کیوں نہ آئی۔ میں تو کیا ہم سب وہ بدنصیب ہیں جن کے ہوتے ہوئے، ہر حدیں عبور کرتی ہوئی گستاخانہ فلم بن گئی۔ جنہوں نے دیکھی ہے ان کو تو اندازہ ہو گا مگر جنہوں نے نہیں دیکھی ان کو بتاتا چلوں کہ فلم اس طرح کی ہے کہ کم از کم وہ میرے لئے ناقابل بیاں ہے۔ سارے حالات برداشت سے باہر ہو رہے ہیں۔ ہمیں یہ کس چیز کی سزا مل رہی ہے؟ آخر ہم ”کمی“ کیوں بنے بیٹھے ہیں؟ اب یہ سب دیکھ اور سن چکے ہیں، حالات واضح و حقیقی تصویر کشی کر رہے ہیں کہ ہماری حالت ان کمیوں سے بھی گئی گزری ہے۔ اس سب کے باوجود ہم یہ غلامی کی زنجیر توڑنے کی کوشش کیوں نہیں کر رہے؟ حکیم الامت علامہ محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ نے کہا تھا کہ

افسوس، صد افسوس کہ شاہیں نہ بنا تو
دیکھے نہ تری آنکھ نے فطرت کے اشارات
تقدیر کے قاضی کا یہ فتوی ہے ازل سے
ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات!

فطرت بے شمار اشارے کر رہی ہے کہ یہ سب اسی لئے ہو رہا ہے کہ تم ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے ہو، تم کمزور ہو، تم غریب ہو، تم کمی کمین ہو۔ یہ سب ہمیں جرمِ ضعیفی کی سزا مل رہی ہے۔ اس سے پہلے کہ یہ ہمارے لئے مرگ مفاجات ہو، ہمیں سنبھل جانا چاہئے اور اس کا کوئی مستقل حل کرنا چاہئے۔

اس کا حل:- حقیقت کو پہچانو۔ سیدھی سی بات ہے کہ ان میں نبی پاکﷺ کی شان میں گستاخی کی جرأت صرف اسی لئے ہوتی ہے کہ انہیں پتہ ہے مسلمان کمزور لوگ ہیں۔ زیادہ سے زیادہ احتجاج کریں گے اور اس احتجاج میں بھی اپنا ملک ہی جلائیں گے، وقت گذرے گا اور پھر چپ کر جائیں گے۔

ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم عارضی احتجاج کرتے ہیں بلکہ اس میں اتنے جذباتی ہو جاتے ہیں کہ تمام اسلامی احکامات کی حدیں بھی عبور کر جاتے ہیں۔ اسلام کہتا ہے کہ سفیر کو امان حاصل ہے مگر ہم جذباتی پن کا مظاہرہ کرتے ہوئے سفیر قتل کر دیتے ہیں۔ ہم اپنے ہی ملک اور مسلمانوں کی املاک کو نقصان پہنچاتے ہیں۔ یک دم اٹھتے ہیں اور پھر جاگ کی طرح بیٹھ جاتے ہیں۔ چند دن جوش دکھانے کے بعد اپنی اسی پرانی روش پر چل دیتے ہیں۔ جس میں ہم اپنے ہی بھائیوں کی ٹانگیں کاٹ رہے ہوتے ہیں۔ اپنے ہی ملکوں کو کمزور کرتے ہیں۔ اسلام جن کاموں سے منع کرتا ہے انہیں کو اپناتے ہیں اور تو اور اسلام کے نام پر ایسے ایسے کام کرتے ہیں کہ جن کا اسلام سے دور دور تک کوئی تعلق نہیں ہوتا۔

غیرت کا تقاضا یہ نہیں کہ بس عارضی احتجاج کرو اور پھر غفلت کی نیند سو جاؤ بلکہ غیرت کا تقاضا یہ ہے کہ ابھی احتجاج کرو اور اس کے ساتھ ساتھ اپنے آپ کو طاقت ور کرو۔ حضرت محمدﷺ ہمارے لئے مشعلے راہ ہیں۔ اگر ہم ان کی زندگی کا مطالعہ کریں تو میرا خیال ہے کہ اس سے بھی یہی سبق حاصل ہوتا ہے کہ جب تم جتنا کر سکتے ہو اتنا کرو اور ساتھ ساتھ خود کو طاقتور کرو اور سب سے زیادہ اپنی معیشت کو طاقتور بناؤ کیونکہ اسی معیشت سے عوام کی سب طاقتیں جنم لیتی ہیں۔ جب پیٹ میں روٹی ہوتی ہے تو دماغ بھی تبھی ٹھیک کام کرتا ہے۔

آج ہم کمزور ہیں۔ ہمارے احتجاجوں سے گستاخوں کو فرق نہیں پڑتا۔ اگر پڑا بھی تو عارضی ہو گا اور پھر کچھ عرصہ بعد یہی سب دوبارہ ہو گا۔ اس طرح یوٹیوب اور دیگر ویب سائیٹیں بند کرنے سے انہیں کوئی فرق نہیں پڑنے والا۔ یہ پہلے بھی بند ہوئی تھیں مگر اب پھر انہوں نے دوبارہ گستاخی کی اور پہلے سے زیادہ کی بلکہ تمام حدیں ہی عبور کر گئے۔ اس لئے یہ بند کرو یا نہ کرو مگر اس کا کوئی مستقل حل سوچو۔ میری نظر میں اس کا حل یہ ہے کہ اپنے آپ کو طاقتور بناؤ۔ کبھی آپ نے غور کیا ہے کہ بھلا ڈرون کے مقابلے میں ہم ایف سولہ کیسے اڑا سکتے ہیں کیونکہ ایف سولہ بھی تو اسی امریکہ کی دین ہے۔ سلالہ پر ہمارے فوجی مارنے والوں کی سپلائی ہم کیسے بند کر سکتے ہیں کیونکہ ہماری اسی فوج اور عوام کے لئے بجٹ بھی تو امریکہ کے قرضوں سے ملتا ہے۔ ہم امریکی قرضوں سے کیسے ہاتھ کھینچ سکتے ہیں کیونکہ ہم اسی چوہدری کے کمی کمین ہیں تو پھر بھلا اس کے ہاتھ سے اپنی عزتیں نہیں لٹوائیں گے تو اور کیا کریں گے۔ وہ جس ملک پر جب چاہتے ہیں یو این او کی اجازت حاصل کرتے ہوئے حملہ کر دیتے ہیں۔ انسانی حقوق کے ان نام نہاد علمبرداروں کو کروڑوں مسلمانوں کے حقوق اس لئے نظر نہیں آتے کیونکہ وہ طاقتور ہیں۔

اے عظمت رسولﷺ کے پاسبانو! اے غیور مسلمانو! اُٹھو، خواب غفلت بہت ہو گیا، جاگو! حکمت عملی تیار کرو اور پھر اس پر مستقل طور پر عمل کرتے ہوئے اپنا کماؤ اور اپنا کھاؤ۔ ہر وہ ہاتھ کاٹ دو جو ان گستاخوں کے آگے پھیلتا ہے۔ ہر وہ رستہ بند کر دو جو ہمیں ان سے قرضے لینے پر مجبور کرتا ہے۔ نبیﷺ کی شان میں گستاخی کرنے والوں کے مقابلے میں خود کو تیار کرو۔ اپنا معاشرہ، معیشت، جنگی سامان، حسن سلوک وغیرہ کو جنگی بنیادوں پر بہتر کرنے لگ جاؤ۔ اپنے اندر مستقل مزاجی پیدا کرو۔ آج کے اس عارضی پُرامن احتجاج کے ساتھ ساتھ قسم یہ کھاؤ کہ ہم نے ہر چڑھتے سورج کے ساتھ ترقی کی ایک نئی منزل تہہ کرنی ہے، ہم نے ہر صبح بہتری کی ایک نئی کرن روشن کرنی ہے، ہم نے ہر پل مسلمانوں اور اپنے ملک کے لئے کچھ نہ کچھ اچھا ضرور کرنا ہے۔ ہم نے جھوٹ، دھوکہ، فریب اور کم ناپ تول وغیرہ کی بجائے سچائی اور حق کا علمبردار بننا ہے۔ اپنی معیشت کو طاقتور کرو اور گستاخوں کی مصنوعات سے پرہیز کرو تاکہ ان کی معیشت تمہارے مقابلے میں کمزور ہو۔ جب ہمارے پاس طاقت ہو گی تو یہ گستاخ مردود چوہدری نہیں ہوں گے اور پھر ان میں گستاخی کی جرأت بھی پیدا نہیں ہو گی۔ اگر پھر بھی انہوں نے ایسی ویسی کوئی حرکت کی تو ہم ان کو ایسا منہ توڑ جواب دیں گے کہ ان کی نسلوں میں سے بھی کوئی ایسی حرکت کرنے کا سوچے گا بھی نہیں۔ پھر ہم اس جنگل (دنیا) کے شیر ہوں گے اور نبیﷺ کی شان میں گستاخی کرنے والے کو چیر پھاڑ کر رکھ دیں گے، مگر ایسا تب ہو گا جب ہم طاقتور ہوں، جب خود کمائیں گے، جب ہماری معیشت طاقتور ہو گی۔

میں تمہیں چیخ چیخ کر کہہ رہا ہوں کہ اے عظمتِ رسولﷺ کے پاسبانو! بھلا تمہیں کیسے نیند آ سکتی ہے جبکہ یہ وقت دن رات ترقی کرنے، ایجادات کرنے، اپنی معیشت مضبوط کرنے اور دنیا پر چھا جانے کا ہے۔

اسی موضوع پر 2010ء میں بھی ایک تحریر ”نعرے لگانا آسان مگر محنت کرنا بہت مشکل“ لکھی تھی۔ اگر وقت ہو تو پڑھیے گا۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست 18 تبصرے برائے تحریر ”دنیا کا چوہدری اور گستاخانہ فلم

  1. ہم دینی مہا بیغرت ہیں ۔
    لمبی تان کر سوتے ہیں۔
    ہماری صفوں ایسے “دیوث” شامل ہیں ،
    کہ ان خبیثوں کو سارا فساد اسلام میں ہی نظر آتا ہے۔
    یہ فساد چاھے ہمارے مسالک کا ہو یا ہمارے نیم خواندہ مفاد پرست و موقع پرست مولوی یا ذاکر کا پیدا کرتا ہو۔
    خدا کی قسم ہمیں بھی خوب علم ہے کہ حکمت محمدی ﷺ کیا ہے۔
    لیکن حرمت محمدیﷺ کیلئے ہمارے اس گناہگار ووجود کی کیا اہمیت۔
    اس موقع پر تحمل کا درس دینے والوں سے میرا سوال ہے۔
    پینسٹھ سال سے پاکستان پر انہی نام کے مسلمانوں روشن خیالیوں سیکولر ازم کے پجاریوں کی ہی حکومت ہے۔
    انہوں نے عوام کیلئے کیا کیا؟
    تعلیم و تربیت کی؟
    عوام کا جینا آسان کیا؟
    مولوی کو ہم بھی گالی دیتے ہیں مولوی کے تضاد کا رونا ہم بھی روتے ہیں۔
    تو یہ جو مولوی مخالف ہیں انہوں نے کونسی عوام اور دین کی خدمت کی ہے؟

    1. یاسر صاحب کو میرا جواب ملے :
      کہ جب آپ کی پیدائش ہوئی تو انہوں مولویو ں نے تمہارے کان میں اذاان دی ،اور جب آپ اس دنیا سے جاؤ گے تو یہ مولوی تمہارا جنازہ پڑھائے گئے۔ ابھی بھی انہوں نے تمہارے لئے کچھ نہیں کیا؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟

  2. نیند نہیں آتی۔بس جسم تھک ہار کر ۔ بستر پہ گر جاتا ہے۔ اتنے دن ہوگئے اسکرین کو گھورتے۔ دل دکھا ہوا ہے۔ ڈوب مرنے کا مقام ہے۔مسلمان کمزور نہیں ہوئے ۔ بلکہ انھیں غلام بنا دیا گیا ہے۔ اپنے ہی قبیلوں سے جنم لینے والے ۔ اپنے ہی جیسے دیوثوں کا غلام۔ ہمیں تو علم ہی نہیں ۔ کہ ہم کیا کریں۔ بس ایک بے بسی کی چادر تنی ہے یہاں سے وہاں تک۔
    اللہ ہم مسلمانوں کو توفیق دے۔
    جزاک اللہ

  3. آپ کی پوسٹ سے متفق ہوں۔
    یاسر جاپانی صرف ریکارڈ کی درستگی کے لیے عرض‌کرتا چلوں ضیاء‌الحق کے دور میں جماعت اسلامی اور دوسرے مولویوں‌نے حتی الامکان مزے لوٹے ہیں۔ اس دور میں‌کی گئی کوڑھ کی کاشت آج ہمارے حلق کا پھندا بنی ہوئی ہے۔ صوبہ سرحد میں‌ پانچ سال اسلام پسندوں‌کی حکومت رہی، اور وہاں‌ گاڑیوں‌سے ٹیپیں‌اتروانا، سینماؤں سے بل بورڈز اتروانا وغیرہ وغیرہ جیسے عظیم اسلام کام سر انجام دئیے گئے۔
    یہ روشن خیال و تاریک خیال کی تقسیم نہیں۔ یہ ایک مجموعی قومی بے غیرتی ہے جو اس قوم کے لیڈروں‌جمع قوم پر طاری ہے۔ آپ اسے صرف نام نہاد روشن خیالوں‌ پر رکھنا چاہیں تو آپ کی سوچ کو سرخ سلام ہے۔

    1. صوبہ سرحد میں‌ پانچ سال اسلام پسندوں‌کی حکومت رہی، اور وہاں‌ گاڑیوں‌سے ٹیپیں‌اتروانا، سینماؤں سے بل بورڈز اتروانا وغیرہ وغیرہ جیسے عظیم اسلام کام سر انجام دئیے گئے۔
      ۔
      ۔
      ۔
      واقعی شاکر صاحب گویا یہ اسلام صرف انہیں کاموں کا نام ہے۔اور یہ بھی اس طرح ہوتا کہ دوسروں کی گاڑیوں سے تو ٹیپ اُترواتے لیکن اپنی گاڑیوں کا اندرونی حال ۔!!!!!!!!!!!!!

      معاشرئے کی فلاح کیلئے کوئی کام نہ ہوا۔اتنا بھی نہ کرسکے کہ اپنے لئے ائیندہ پانچ سالوں کیلئے ووٹرز ہی بنا سکیں۔

    2. یہ یار لوگوں کا تانہ بانہ صرف جماعت اسلامی پہ ہی آکر ٹوٹتا ہے۔ ذرا پتہ تو چلے کہ جماعت اسلامی ضیاء الحق کے دور میں کتنے عرصے حکومت میں رہی؟ چلو جی ہم فرض کرلیتے ہیں کہ ضیاء کے اگیارہ سال اسلام پسندوں کی حکومت رہی تو پاکستان پر باقی کے 50 سال کون حکومت میں رہا اور اگیارہ اور پچاس کا کیا موازنہ ہیں جی؟
      اور سابق صوبہ سرحد کی حکومت کی کارکردگی کا جائزہ لینا ہو تو ورلڈ بنک اور دیگر ملکی اور غیر ملکی اداروں کی جائزہ رپورٹ دیکھنے سے افاقہ ہوسکتا ہے ساتھ ہی یہ بات بھی کہ ان کے کسی وزیر پہ کرپشن کا کوئی داغ نہیں جو کہ بقول جاپانی
      صیب ان خبیث دیوثوں کا شیوہ رہا ہے۔ ان بیچاروں کی تان اسی پہ ٹوٹتی ہے کہ فحاشی کے اڈے سلامت رہیں رواں دواں رہیں۔۔۔

  4. یہ زندہ باد اور مردہ باد کے نعرئے تو شائد اسلئے ہے کہ کسی کے اندر کام کرنے کا دم اور جذبہ ہے تو بس اسکو ان نعروں میں ضائع کیا جائے۔کیونکہ ان نعروں کے بعد وہ کسی قسم کے کام کا نہیں رہے گا۔

    ہمیں اگر واقعی مقابلہ کرنا ہے تو جس طرح شیطانی لشکر لگا ہوا ہے اسی طرح ہمیں رحمانی لشکر کی مدد کرنی ہے اور اسمیں شمولیت اختیار کرنا ہے۔ اجر اس جنگ کو اپنی جنگ سمجھیں گے تو اسی وقت کام بنے گا ،ورنہ صرف زند باد مردہ باد کسی کام کے نہیں۔

  5. حضور ۔ مسئلے کا حل مختصر اور سادہ الفاظ میں بتایئے اور اس پر عمل کرنے کا طریقہ بھی بتایئے ۔ کیا قوم و ملک لو اس نہج پر پہنچانے کے ذمہ دار لگ بھگ 70 فیصد وہ پڑھے لکھے لوگ نہیں ہیں جو نہ تو ووٹ ڈالنے جاتے ہیں اور نہ وہ کسی دیانتدار کو اُمیدوار تجویز کر کے اُسے جتانے کیلئے تھوڑی سی محنت کرنا چاہتے ہیں ؟ اور کیا اس کا سبب یہ نہیں کہ اپنے آپ کو مسلمان کہنے والے صرف نام کے مسلمان ہیں

  6. مسلمانوں کو اس امر کا احساس کرناچاہئے کہ آج ان کے پیغمبر کی توہین اس لئے ہورہی ہے کہ وہ دنیا میں کمزورو ناتواں ہیں اور بین الاقوامی سطح پران کاکوئی وزن اور ان کی کوئی وقعت و اہمیت نہیں ہے۔ اگر آج وہ تنکے کی طرح ہلکے نہ ہوتے تو کس کی مجال تھی کہ ان کے پیغمبرﷺ کی طرف آنکھ اُٹھا کر بھی دیکھتا۔ لہٰذا مسلمانوں کو چاہئے کہ اپنا احتساب کریں ، اپنی کمزوریاں دور کریں اور اسبابِ ضعف کا خاتمہ کریں ۔ اپنے دین سے محکم وابستگی اختیار کریں اور اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگی میں احکامِ شریعت پر عمل کریں کہ یہی ان کے لئے منبع قوت ہے اور گہرے ایمان اور برتراخلاق کے ساتھ ساتھ علم و تحقیق اور سائنس و ٹیکنالوجی میں بھی متحد ہو کر آگے بڑھیں اور طاقتور بنیں تاکہ دنیاان کی بھی قدر کرے اور ان رہنمائوں کی بھی جنہیں وہ مقدس سمجھتے اور محترم گردانتے ہیں ۔

    ہو اگر عشق تو ہے کفر بھی مسلمانی
    نہ ہو تو مردِ مسلماں بھی کافر و زندیق
    (اقبال)

  7. بلال صاحب، ہم امریکہ کے غلام نہیں بلکہ اپنے آپ کے غلام بن گئے ہیں۔ ہم اپنی خواہشات کے پیچھے لگے ہوے ہئں۔ اللہ کا فرمان ھے “جس نے خواہش کی پیروی کی اس کا ٹھکانہ جہنم ھے” ہئ وہ وجہ ھے جس نے ہمیں سست اور بے حس کر دیا ھے، بلکہ انسان سے حیوان بنا دیا ھے۔ بہت مشہور قول ھے کہ انسان اور حیوان میں فرق یہ ھے کہ انسان عقل کی پیروی کرتا ھے اور حیوان خواہش کی پیروی کرتا ھے۔ امیر ہونا ضروری نہیں، کیا صحابہ کرام بھی امیر تھے، نہیں وہ امیر نہیں تھے بلکہ اپنی خواہش کو چھوڑ کر اللہ اور اس کے رسول کی پیروی کرتے تھے۔۔ آج ہم ہیں کہ پوچھتے پھر رہے ہیں کیا کریں۔

  8. اسلام و علیکم
    آپ کی تحریر واقعی سوچنے کی دعوت دیتی ھے -ایسے وقت میں‌جب کوئی ایسی جسارت کرتا ھے -بڑا جوش دکھایا جاتا ھے – لیکن کچھ وقت گزرنے کے بعد پھر سب ٹھیک ھے -سمجھ لیا جاتا ھے – کیا ھمارا ایمان بس نعروں تک محدود ھو کر رہ گیا ھے -نہیں‌ہمارا ایمان ہم سے محبت وفا واحدانیت حق وصداقت اور سوچنے کا متقاضی ھے -ھمیں واقعی ایسا لائحہ عمل مرتب کرنا ھے -جوھمکو ھماری منزل تک لے جائے -اللہ کرے اب بھی مسلمانوں کی آنکھیں کھل جائیں اور گستاخوں کے لیے ہم للکار بن جائیں – اتنی طاقت حاصل ھو جائے کہ رسالت کا نعرہ لگائیں تو کافروں‌کی روح تک کانپ جائے –

  9. السلام علیکم محترم بلال اور تمام مسلمانان ِ عالم
    عبدالرزاق قادری حاضر ہے۔
    میں نے آپ کی معرکہ آراء تحریر اپنے بلاگ پر لگا دی ہے۔ میرے دل کی آواز تھی۔ اگر میں لکھتا تو ہو بہو لکھتا۔ لیکن یہ آپ ہی کا اعزاز ہے۔
    اللہ عزوجل سے دعا ہے کہ یہ قوم اب جھاگ کی طرح مت بیٹھے۔
    اللہ اسے وحدت امت ، خدمت امت اور استحکام امت نصیب فرمائے۔غلبہء اسلام کے دن نزدیک نظر آئیں۔ اور ناامیدی کے سائے چھٹ جائیں۔ آمین
    اس کے لیے واقعی اپنا اپنا حصہ ڈالنا ہو گا اور جدوجہد کرنا ہو گی۔ ان شاءاللہ

  10. السلام علیکم !
    آپ نے بہت پائیدار باتیں کی ہیں۔ نجانے مسلم امہ کہاں گُم ہو کے رہ گئی۔
    ؎؎ یہ ناداں گر گئے سجدے میں جب وقتِ قیام آیا
    مجھے آپ کی باتیں پڑھ کر یہی سمجھ آئی کہ آپ وقتی جذبے اور گردش دوراں سے بیزار ہیں۔ اور مسلم امہ کی حیات جاوداں کے ساز و سامان کے بارے متفکر ہیں۔ یہ نو نہیں پتہ کہ آپ پر کیا تنقید ہو چکی ہے۔ کیونکہ میں نے آپ کا لکھا کم ہی پڑھا ہے۔ ویسے آپ کی باتیں میری سمجھ میں آئیں۔
    جب دوسرے ممالک یو ٹیوب کے معاملے میں پہلے سے معاہدات کیے ہوئے ہیں تو پی۔ٹی۔اے کیوں ابھی تک سو رہا ہے۔
    لیکن گستاخی کا اطلاق ہر گستاخ پر ہوتا ہے نہ کہ مذہب کا معاملہ۔۔۔ ! یہ عیسائیت سے یا یہودیت کے خلاف جوش و جذبہ نہیں ہے۔ کیونکہ رسول اللہ کے گستاخ کا کوئی دین و مذہب نہیں ہوتا۔ مذاہب تو اس طرح کے گھٹیا کام کی اجازت دیتے ہی نہیں۔ سلمان تاثیر اس ڈاکٹر تاثیر کا بیٹا تھا جس نے غازی علم دین شہید کے جنازے کو کندھا دینے میں سبقت کی۔ یہ مذہب کی جنگ نہیں۔ دین و الحاد کی بھی نہیں۔ حتیٰ کہ کچھ مُلحد بھی چیخ اٹھے ہیں، احادیث میں بے شمار واقعات سے گستاخ مشرک و کافر کو موت کے گھاٹ اتارا جانا ثابت ہے۔ مثلا فتح مکہ کے دن سب دشمنوں کو معاف فرما دینا لیکن گستاخ رسول کو اس دن بھی حرم کعبۃ اللہ میں قتل کروا دینا۔ اول اذکر دشن تھے آخرالذکر گستاخ۔ یہ بات تو حدیثوں سے ہی واضح ہے۔
    سفارت کاروں کو مارنا عقل مندی تو یقینا نہیں، پر احتجاج کا حق ہمارے پاس رہنے دیں۔ جب حکومت میں ایسے لوگ ہیں جو ذہنی طور پر وہی ہیں جنہیں تیار کرنے کے لیے میکالے کا فارمولا استعمال کیا گیا۔ اب عوام کہیں نہ کہیں تو سر پھوڑیں گے ہی ناں! عوام بے بس ہیں۔ ان اصلی اور نقلی انگریزوں نے شیروں کو زنجیروں میں جکڑ کر مروایا ہے۔ عوام پس ماندہ ہیں۔ ان کا قائد کون ہے؟ کہ وہ اس کی قیادت میں اپنے قوانین بنائیں اور پاس بھی کروائیں۔
    وہی بات کہ ہمیں اس معاشرے میں اپنا ایک معاشرہ تخلیق دینا ہے۔ ورنہ ان کی پابندیوں میں جکڑے رہیں گے۔ ہم میں وحدت نہیں، اخوت نہیں، نظم نہیں، عمل نہیں، باتیں ہیں، ہر طرح کی ہر رنگ کی؟ اپنی صلاحیتوں کو استعمال کرنے کا شعور نہیں۔ کیسے ہم اس طلسم کو توڑ سکتے ہیں۔ کیسے اس ہوش رُبا قید سے فرار ممکن ہو۔
    سمجھ نہیں آتی۔
    سلطان عبدالحمید دوئم کا واقعہ مشہور ہے۔ اس دور تک بھی مسلمانوں میں انتی قوت باقی تھی کہ وہ صرف سفارتی طور پر ہی اپنی بات منوا لینے کے قابل تھے۔ آج تو وہ مارتے ہیں ہمیں جوتے۔ مگر ہم ہوش میں آتے ہی نہیں، مزید کا انتظار کرتے ہیں۔ دعا ہے کہ اللہ ہمیں اس لعنت (مادر پدر آزادجمہوریت) سے جان چھڑانے کے لیے عمل کرنے کی توفیق دے۔

  11. السلام علیکم و رحمۃ اللہ
    بھائی جان گستاخ رسول کی سزا سیرت کی ہر کتاب میں موجود ہے مگر ہماری بے حسی ، بے ہمتی ، بی غیرتی ، اور اسلام اور مسلمان امت سے بے رخی کفار کو ہمارے سر چڑھارہی ہے ورنہ ان کفار کو ان کا نسب نامہ یاد دلانا مسلمان امت کو کبھی بھی مشکل نہیں رہا ہے۔۔۔۔۔ ❓

  12. بالکل ٹھیک اور سچ بات کی ہے، دراصل یہی باتیں اور اپنے آپ کی درستگی کا طریقہ کار ہماری اکثریت نہیں سمجھتی۔ اللہ ہم سب کو ہدایت دے۔

تبصرہ تحریر کریں۔

Your email address will not be published. Required fields are marked *