جون 25, 2010 - ایم بلال ایم
18 تبصر ے

نعرے لگانا آسان مگر محنت کرنا بہت مشکل

بسم اللہ الرحمن الرحیم
انٹرنیٹ بنانے والے نے بھی کیا زبردست چیز بنا دی ہے۔ ایک وقت تھا تحریک آزادی اور دوسری تحریکوں کے سربراہ اور دیگر ممبران کو دور دراز علاقوں تک سفر کرنا پڑتا، آزادی کا شعور دینے اور اپنی آواز دوسروں تک پہنچانے کے لئے پرنٹ میڈیا کا سہارا لینا پڑتا پھر کہیں جا کر چند لوگوں تک آواز پہنچتی۔ دوسری طرف آج کا وقت ہے جس میں انٹرنیٹ جیسی سہولت دستیاب ہے اور مجھ جیسا پینڈو بھی اگر ہمت رکھتا ہو تو انٹرنیٹ کے ذریعے اپنی آواز چند لمحات میں پوری دنیا تک پہنچا سکتا ہے۔ بلاگ لکھ سکتا ہے، مختلف فورمز پر اپنے حق کی صدا لگا سکتا ہے۔ مختلف اداروں کی رپورٹس دیکھ سکتا ہے۔ لائبریری میں کتابیں تلاش کرنے کی بجائے گوگل اور دیگر سرچ انجن کے ذریعے چند منٹوں میں اپنی مطلوبہ معلومات حاصل کر سکتا ہے۔ سوچتا ہوں اب وہ وقت دور نہیں جب پاکستان کا بچہ بچہ یہ صدا لگائے گا کہ ہمیں ہمارا حق دو۔ کیونکہ سوشل نیٹ ورکنگ ویب سائیٹس کی وجہ سے لوگ ایک دوسرے کے خیالات سن رہے ہیں۔ تھوڑا اور آہستہ آہستہ سہی لیکن عوام کو شعور ضرور آ رہا ہے۔ سیاست دانوں کے فریب اور جھوٹے وعدے اگر کوئی بھولنا چاہے تو انٹرنیٹ اسے دوبارہ یاد کروا دیتا ہے۔ اور یہ سب انٹرنیٹ کی بدولت تیزی سے ہو رہا ہے۔
ایک خبر پڑھی تھی کہ ” قرآن پاک میں تحریف کا الزام، لاہور ہائیکورٹ کا یاہو،ایم ایس این، گوگل سمیت 9 ویب سائٹس بند کرنے کا حکم“۔ اس سے پہلے خاکوں والے معاملے پر فیس بک اور یوٹیوب کو بھی بین کیا گیا تھا۔ اکثر جب دوستوں میں بحث ہوتی تو میری یہی کوشش ہوتی کہ میں اس معاملے پر خاموشی اختیار کروں۔ مجھے ٹھیک طرح سمجھ نہیں آتی تھی کہ اس مسئلہ کا کیا حل ہے؟ جب کوئی زیادہ پوچھتا تو میرا جواب یہی ہوتا کہ اس مسئلہ کا کوئی نہ کوئی حل ضرور ہونا چاہئے لیکن یہ جو حل ہمارے لوگ کر رہے ہیں یہ کوئی بہتر حل نہیں۔ دیکھو جی جنہوں نے یہ گستاخی کی ہے اگر حقیقت کو تسلیم کیا جائے تو وہ اس وقت بادشاہ ہیں اور جنگل میں بادشاہ شیر ہی ہوتا ہے پھر چاہے شیر بچے دے یا انڈے اس کی مرضی۔ اگر بچے یا انڈے دینے پر اعتراض ہے تو خود شیر بنو۔ پھر کسی کی جرأت ہی نہیں ہو گی کہ وہ اس طرح کی گستاخیاں کریں۔ ایسے ویب سائیٹ بلاک کر کے تم اپنا ہی نقصان کر رہے ہو۔ عوام میں جو تھوڑا بہت شعور آ رہا ہے اسے بھی ختم کر دو گے۔
اگر اسلامی تاریخ دیکھی جائے اور خاص طور پر صلح حدیبیہ کا معاہدہ دیکھا جائے تو اس کی زیادہ تر شقیں ظاہری طور پر مسلمانوں کے حق میں نہیں تھیں جس کی سب سے بڑی مثال کہ” اگر کوئی مسلمان مکہ کے لوگوں کے کے پاس چلا جائے تو اسے واپس نہیں کیا جائے گا مگر کوئی مشرک مسلمان ہو کر اپنے بزرگوں کی اجازت کے بغیر مدینہ چلا جائے تو اسے واپس کیا جائے گا۔“ لیکن اس وقت مسلمان جنگ کی پوزیشن میں نہیں تھے اور حالات کا یہی تقاضا تھا کہ مسلمان کسی طرح جنگ سے بچ جائیں۔ اسی معاہدہ جس کی زیادہ شقیں ظاہری طور پر مسلمانوں کے حق میں نہیں تھیں کی بنا پر مسلمان جنگ سے بچ گئے اور پھر اگلے سال مکہ میں داخل ہوئے۔
اگر ہم اپنے آج کے حالات دیکھیں تو ہم بھی جنگ کی پوزیشن میں نہیں۔ کیا یہ بہتر نہیں کہ ہم پہلے ترقی کریں۔ جب ہم ترقی کر جائیں گے اور بادشاہ ہوں گے تو اول غیر مسلموں کو گستاخی کی جرأت ہی نہیں ہو گی اور اگر انہوں نے کوئی ایسی حرکت کی تو ہم منہ توڑ جواب دے سکیں گے۔ لیکن اس طرف کوئی نہیں آئے گا۔ کیونکہ یہ کام یعنی مستقل مزاجی، ایمانداری، جذبے اور لگن کے ساتھ ترقی کرنا نعرے لگانے، جلوسوں میں اپنے ہی بھائیوں کے کاروبار تباہ کرنے اور ویب سائیٹ بلاک کرنے سے بہت مشکل ہے۔
نبی پاکﷺ کی عظمت پر جان قربان کرنے کا نعرہ لگانا بہت آسان ہے لیکن اس کے حقیقی معنوں پر عمل کرنا بہت مشکل ہے۔ ایک طرف ہم انہیں گستاخی کرنے والوں کے ملکوں سے امداد لے کر چلتے ہیں اور دوسری طرف انہیں سے تعلق ختم کرنا چاہتے ہیں۔ ایک طرف ہم انہیں کی پروڈکٹ استعمال کر کے ان کی معیشت مستحکم کرتے ہیں اور پھر کہتے ہیں کہ وہ گستاخی کیوں کرتے ہیں۔ اگر حقیقت کو تسلیم کرو تو سچ یہی ہے کہ اگر ان میں گستاخی کی جرأت ہے تو یہ سب ہماری کمزوری ہے کیونکہ انہیں پتہ ہے مسلمان کمزور ہیں زیادہ سے احتجاج کریں گے، اپنے ہی ملک کی املاک کو نقصان پہنچائیں گے، پھر چپ ہو جائیں گے، ہم سے امداد لے کر کھائیں گے اور ہماری معیشت کو طاقت ور بنائیں گے۔
کبھی کبھی سوچ آتی ہے کہ یہ سب کیا ہے ایک طرف ہم کاربونیٹڈ واٹرز کے ذائقہ تک کے معیار کو قربان نہیں کر تے اور نہ ہی ان کا متبادل بناتے ہیں اور اگر بنائیں تو ہمارے لوگ کہتے ہیں ، جی امپورٹڈ چیز تو پھر کمال کی ہوتی ہے۔ اور پھر دوسری طرف چیختے ہیں کہ وہ گستاخی کر گئے۔ کبھی سوچا ہے ایک سوئی تک ہم نہیں بنا سکتے۔ ہمارا نوجوانوں کا بس ایک ہی خواب ہے کہ کسی اچھے ملک جا کر سیٹ ہو جائیں۔ کبھی سوچا ہے یہی ہمارا ٹیلنٹ وہاں جا کر انہیں ترقی دیتا ہے اور پھر ان میں جرأت پیدا ہوتی ہے۔ نہیں یہ نہیں سوچیں گے ہم کیونکہ یہ سوچیں تو پھر بہت کچھ قربان کرنا پڑے گا اور ہم قربانی نہیں دینا چاہتے بس نعرے ہی لگا سکتے ہیں۔ کبھی سوچا کہ یہ کمپیوٹر، انٹرنیٹ، گاڑیاں حتیٰ کہ وہ بندوق جو ہماری فوج استعمال کرتی ہے، وہ جہاز جن پر ہم حج کے لئے جاتے ہیں، وہ ماربل کاٹنے کی مشینیں جنہوں سے ماربل کاٹا اور حرم پاک میں لگا، وہ گھڑی جس سے وقت دیکھ کر ہم نماز کا وقت معلوم کرتے ہیں۔ ان سب کی ٹیکنالوجی کس نے بنائی؟ میں یہ نہیں کہتا کہ ان کی پروڈکٹ استعمال نہ کرو ان کی ٹیکنالوجی استعمال نہ کرو بلکہ انہیں کی چیزیں، معلومات اور ٹیکنالوجی استعمال کر کے خود ترقی کرو۔ ان کے ملکوں میں جاؤ ان سے تعلیم حاصل کرو۔ جدید ترین ٹیکنالوجی سیکھو۔ ان کے ساتھ امن سے رہو اور یہ سمجھو کہ ہم نے معاہدہ کیا ہوا ہےاور پھر ہر چیز خود تیار کرو، اپنے دوسرے بھائیوں کو سیکھاؤ اپنے ملک میں آ کر وہی تعلیم، وہی ٹیکنالوجی استعمال کرو اور زبردست قسم کی چیزیں تیار کرو۔ اپنے ملک کو ترقی دو، اپنی معیشیت مستحکم کرو اور پھر دیکھو وہ گستاخی کرتے ہیں یا نہیں؟ لیکن ہم یہ سب نہیں کریں گے کیونکہ ویب سائیٹس بلاک کرو اور بس کام ختم، مستقبل جائے بھاڑ میں۔
او خدا کے بندو! پہلے ترقی کرو، خود کو اتنا مستحکم کرو کہ آج جس ٹیکنالوجی کو وہ کنڑول کر رہے ہیں مستقبل میں تم کنٹرول کرو اور پھر اگر کوئی گستاخانہ ویب سائیٹ بناتا ہے یا فیس بک جیس ویب سائیٹ پر صفحہ بناتا ہے تم اسے ایک منٹ سے پہلے ختم کر سکو۔ مگر یہ کام، یہ محنت کرے کون؟ کیونکہ نعرے لگانا آسان مگر محنت کرنا بہت مشکل ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست 18 تبصرے برائے تحریر ”نعرے لگانا آسان مگر محنت کرنا بہت مشکل

  1. بلال۔۔
    مجھے آپ میں‌ایک لیڈر چھُپا ہوا نظر آرہا ہے۔ 😉 میں تو کہتا ہوں کہ اردو بلاگستان میں الیکشن کروالیتے ہیں۔ آپ منتخب ہو جائیں تو یہ تمام مطالبات اور شکایات قوم کے آگے رکھ دی جائیں۔
    بات درست ہے۔۔۔لیکن ہم کیا کریں۔ ہمیں ڈھنگ سے کوئی ردعمل دکھانا آتا ہی نہیں۔ پابندیاں ہی لگا سکتے تھے وہ لگا لیں‌گے۔

    ویسے اردو بلاگستان میں بھی کچھ اصحاب ہیں جو فیس بُک پر پاپندی کی حمایت میں‌پوسٹیں‌لکھتے رہے ہیں۔ سوچتا ہوں‌۔۔اگر گوگل، بلاگ سپاٹ اور ورڈ پریس پر بھی پابندی لگ گئی۔۔۔تو تب اُن کا موقف کیا ہوگا؟۔۔۔اُمید ہے وہ انٹرنیٹ پر آنا اور بلاگ لکھنا ہی چھوڑ دیں گے۔۔ :dontknow:
    .-= عثمان کے بلاگ سے آخری تحریر … ہوزے ساراماگو۔۔۔ایک عہد کا خاتمہ! =-.

    1. بلال بھائی اور عثمان بھائی ۔
      آپ کے خیالات قابل ستائش ہیں – لیکن ہر ایک شہری کو قربانی کے لئے کیسے تیار کیا جائے ؟ ہر بندہ سسٹم کی جکڑ میں ایک طرح سے قربانی دے رہا ہے لیکن اس قربانی کا فائدہ صرف لیڈر حضرات لے رہے ہیں ۔ یہ الیکشن آمریت اور سب طریقے آزمائے جا چکے ہیں ۔ کوئی اور طریقہ نکالیں ۔ ہر طبقہ کے سرکردہ لوگ علماء اُستاد میڈیا وغیرہ وغیرہ لوگ باتیں کر رہیں ہیں لیکن اس کا تیکنیکی حل اور اُسکی شروات سامنے نہیں آ رہی ۔ سیاست اور مذہب میں اتنے گروپ ہیں کہ ملغوبہ سا بن گیا ہے ۔ اگر اس میں ایک ادھ گروپ پُرخلوص بھی ہو تو دوسرے اسکے ساتھ کیسے مل کر کام کریں ؟ مفاہمت بھی بندر بانٹ سے زیادہ نتائج فراہم نہیں کر رہی –

  2. آپ کی باتیں سو فیصد درست ہیں۔توہین آمیز خاکوں پر یہاں احتجاج کر نے کی پلاننگ کر نے والوں سے میں نے عرض کیا تھا کہ اگر احتجاج ہی کرنا ھے تو جلوس نہ نکالیں۔چار چار کی ٹولیاں بناتے ہیں اور تمام اسلامی ممالک کی ایمبیسیز کے سامنے احتجاج کرتے ہیں اور مطالبہ کرتے ہیں کہ اقوام متحدہ میں ان اسلامی ممالک کے حکمران قرار داد دیں اور کوئی قانون پاس کروایں جس سے مسلمانوں کی دل آزاری نہ ھو۔ایسے ھی جیسے یہودیوں کے حقوق یا دل آزاری نہ کرنے کا یورپین ممالک میں قانون ھے۔ ھو سکتا ھے میری تجویز ناقص ھو۔لیکن نام نہاد لیڈری کے شوقین حضرات کا جواب کچھ اس طرح تھا کہ اتنا وقت کس کے پاس ھے۔اور اخراجات بھی آئیں گے۔تو محترم کیسی دین کی محبت اور کیسی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت!!۔میرے خیال میں کسی بھی سیاسی یا مذہبی لیڈر یا اہل دانش نے کوئی اس طرح کی یا اس سے بہتر اورمزید پائیدار اس مسئلے کے کی تجویز نہیں دی۔اگر ایسی کوئی تجویز ھے بھی تو احتجاج مسلسل ھونا چاھئے نہ کہ دوبارہ اسطرح کا مسئلہ کھڑا ھو اور جلوس نکال کر روڈبلاک کریں اور جب دل کی بھڑاس نکل جائے یا لیڈری کا شوق پورا ھو جائے تو گھر جا کر لمبی تان کر سو جائیں۔مسلمان حکمران بے حس ہیں لیکن ہم عوام مسلمانوں کی سوچ بھی کچھ ایسی ھی ھے۔

  3. تين پرانے واقعات ہيں جنہيں ياد کر کے اپنی قوم کی عقل پر رونا پڑتا ہے ۔
    ايک پڑھے لکھے صاحب نے کپڑا خريدا اور ساتھ کی دکان پر دو جاپانی کچھ خريد رہے تھے ۔ اُن کی ستائش حاصل کرنے کيلئے کپڑے پر لگے ليبل کو اُنہيں دکھايا جو جاپانی زبان ميں لکھا تھا ۔ وہ دو نوں جاپانی ہنسنے لگے ۔ جب وہ شخص چلا گيا تو ميں نے اُن سے پوچھا کہ آپ ہنسے کيوں ؟ بولے کہ جاپانی ميں لکھا تھا پاکستان کا بنا ہوا
    کراچی ميں ايک بہت پرانی پلاسٹک کے برتنوں وغيرہ کا کارخانہ ہے ۔ ميں وہاں گيا ہوا تھا تو مالک سے کہا کہ آپ کا معيار بہت اچھا ہے تو اپنا مال ملک ميں پھيلاتے کيوں نہيں ؟ بولے کيا کريں لوگ باہر کا بنا مال پسند کرتے ہيں چاہے گھٹيا ہو ۔ بھاۓي کيا بتائيں ہماری اپنی اماں دبئی گئيں اور وہا سے ايک ٹب لے آئيں کہا اماں ہم سے کہا ہوتا يہ وہاں سے لانے کی کيا ضرورت تھی بوليں ارے تم کہاں ايسا بناتے ہو تو ميں نے اُلٹا کر کے ماں کو دکھايا ہمارے کارخانے کا بنا تھا
    ايک پاکستانی نوجوان لندن سے پتلون خريد لائے اور بڑے فخر سے مجھے دکھا کر کہنے لگے يہ ديکھو کتنی بہترين ہے ہمارے ملک ميں تو ايسا مال بنتا ہی نہيں ۔ ميں تجسس سے پتلون اند باہر سے ديکھنے لگا اچانک ميری نظر ايک ليبل پر پڑی جو پتلون کے اند لگا تھا ۔ لکھا تھا پاکستان کی ساختہ پاکستانی کپڑے سے
    .-= افتخار اجمل بھوپال کے بلاگ سے آخری تحریر … لطيفے شعبہ انجنئرنگ کے =-.

  4. چلو دوبارہ لکھ دیتے ہیں۔۔۔
    بلال بھائی:: :notlistening: میں نے نہیں سننا یہ سب۔۔۔۔ ویسے اپکی اور میری سوچ ایک معاملے میں ایک سی ہے: “اکثر جب دوستوں میں بحث ہوتی تو میری یہی کوشش ہوتی کہ میں اس معاملے پر خاموشی اختیار کروں۔ مجھے ٹھیک طرح سمجھ نہیں آتی تھی کہ اس مسئلہ کا کیا حل ہے؟ “۔۔۔۔۔ 😉
    عثمان:: صحیح کہا، میرا ووٹ بھی بلال بھائی کیلئے ہی ہوگا۔۔۔ بس ذرا بلال بھائی اپنی عمر بتا دیں۔۔کیونکہ میں نوجوان قیادت کا قائل ہوں!! :peace: :angel:
    .-= عین لام میم کے بلاگ سے آخری تحریر … ڈائری لکھنا =-.

  5. اقتباس» عثمان نے لکھا: بلال۔۔
    مجھے آپ میں‌ایک لیڈر چھُپا ہوا نظر آرہا ہے۔:wink:میں تو کہتا ہوں کہ اردو بلاگستان میں الیکشن کروالیتے ہیں۔ آپ منتخب ہو جائیں تو یہ تمام مطالبات اور شکایات قوم کے آگے رکھ دی جائیں۔
    بات درست ہے۔۔۔لیکن ہم کیا کریں۔ ہمیں ڈھنگ سے کوئی ردعمل دکھانا آتا ہی نہیں۔ پابندیاں ہی لگا سکتے تھے وہ لگا لیں‌گے۔ویسے اردو بلاگستان میں بھی کچھ اصحاب ہیں جو فیس بُک پر پاپندی کی حمایت میں‌پوسٹیں‌لکھتے رہے ہیں۔ سوچتا ہوں‌۔۔اگر گوگل، بلاگ سپاٹ اور ورڈ پریس پر بھی پابندی لگ گئی۔۔۔تو تب اُن کا موقف کیا ہوگا؟۔۔۔اُمید ہے وہ انٹرنیٹ پر آنا اور بلاگ لکھنا ہی چھوڑ دیں گے۔۔ :dontknow:

    عثمان بھائی آپ کی لیڈر والی بات سے ایک بات یاد آگئی۔ یہاں گاؤں میں لوگ اکثر ایک بات کرتے ہیں کہ جس دفعہ فصل اچھی ہو جائے تو شریکوں کا دل کرتا ہے کہ اسے الیکشن لڑوا دیا جائے تاکہ جو رقم اس کے پاس اکٹھی ہوئی ہے وہ ختم ہو جائے۔ :rotfl:
    بھائی جی یہ لیڈری اور الیکشن افففففف۔ ویسے میں اس کے خلاف نہیں بس میری کوشش تو یہی ہے کہ ہم عوام اپنے ووٹ کی اہمیت جان سکیں۔ اور اس اہمیت کو اجاگر کرنے کے لئے اگر میں کوئی کردار ادا کر سکوں تو یہ میرے لئے خوشی کی بات ہو گی۔ باقی لیڈر بنا نہیں جاتا بلکہ اصل لیڈر تو عوام خود ہے۔
    میں نے بھی وہ تحاریر جو فیس بک پر پابندی کے حق میں ہیں وہ پڑھی تھیں۔ میں ان سب کے موقف کی قدر کرتا ہوں اور میں یہ کہتا ہوں کہ اس مسئلے کا کوئی حل ہونا چاہئے بلکہ گستاخی کرنے والے کو منہ توڑ جواب دینا چاہئے۔ اب میری نظر میں ان کا منہ کیسے توڑنا ہے اسی کی وضاحت کے لئے یہ تحریر لکھی تھی۔ باقی سب کا اپنا اپنا موقف ہے۔ ویسے ابوشامل بھائی کی تحریر ”ہم چھوڑ چلیں ہیں محفل کو“ پر ایک تبصرہ تھا جس کا ایک فقرہ مجھے بہت پسند آیا تھا وہ یہ کہ ”اگر یہ جنگ ہے تو محاذ مت چھوڑیں ہمت سے جنگ لڑیں۔“

    اقتباس» عثمان نے لکھا: ویسے آپ ایک بات بتائیے۔۔۔یہ آجکل آپ آدھی آدھی رات کو جاگ کر پوسٹیں کیوں لکھ رہے ہیں؟؟:neutral:

    جناب یہ واپڈا کی مہربانی ہے۔ وہ کیا ہے کہ بجلی نہیں ہوتی ڈیسک ٹاپ کمپیوٹر نہیں چل سکتا تو کوئی کتاب پڑھ لیتا ہوں، بلاگ پڑھتا ہوں، اردو محفل پڑھتا ہوں اور اگر کچھ دماغ میں آ جائے تو پوسٹ بھی لکھ دیتا ہوں۔ ویسے اب یہ نہ ہو کہ آپ کہیں کہ بجلی اور جائے :rotfl: :rotfl: :rotfl:

    اقتباس» محمودالحق نے لکھا: باتیں تو آپ ٹھیک کہہ رہے ہیں ۔ ایسی بات سمجھانا بلی کے گلے میں گھنٹی باندھنی والی بات ہےاب ۔

    بس جی اس معاملے میں ہم جو کر سکتے ہیں ہمیں وہ کرنا چاہئے اور میں نے بھی ایک لمبی خاموشی کے بعد وہی کیا۔ گھنٹی باندھنے کی کوشش میں لگے رہنا چاہئے۔ باقی سب اللہ پر چھوڑ دینا چاہئے۔

  6. اقتباس» یاسر خوامخواہ جاپانی نے لکھا: آپ کی باتیں سو فیصد درست ہیں۔توہین آمیز خاکوں پر یہاں احتجاج کر نے کی پلاننگ کر نے والوں سے میں نے عرض کیا تھا کہ اگر احتجاج ہی کرنا ھے تو جلوس نہ نکالیں۔چار چار کی ٹولیاں بناتے ہیں اور تمام اسلامی ممالک کی ایمبیسیز کے سامنے احتجاج کرتے ہیں اور مطالبہ کرتے ہیں کہ اقوام متحدہ میں ان اسلامی ممالک کے حکمران قرار داد دیں اور کوئی قانون پاس کروایں جس سے مسلمانوں کی دل آزاری نہ ھو۔ایسے ھی جیسے یہودیوں کے حقوق یا دل آزاری نہ کرنے کا یورپین ممالک میں قانون ھے۔ ھو سکتا ھے میری تجویز ناقص ھو۔لیکن نام نہاد لیڈری کے شوقین حضرات کا جواب کچھ اس طرح تھا کہ اتنا وقت کس کے پاس ھے۔اور اخراجات بھی آئیں گے۔تو محترم کیسی دین کی محبت اور کیسی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت!!۔میرے خیال میں کسی بھی سیاسی یا مذہبی لیڈر یا اہل دانش نے کوئی اس طرح کی یا اس سے بہتر اورمزید پائیدار اس مسئلے کے کی تجویز نہیں دی۔اگر ایسی کوئی تجویز ھے بھی تو احتجاج مسلسل ھونا چاھئے نہ کہ دوبارہ اسطرح کامسئلہ کھڑا ھو اور جلوس نکال کر روڈبلاک کریں اورجب دل کی بھڑاس نکل جائے یا لیڈری کا شوق پورا ھو جائے تو گھر جا کر لمبی تان کر سو جائیں۔مسلمان حکمران بے حس ہیں لیکن ہم عوام مسلمانوں کی سوچ بھی کچھ ایسی ھی ھے۔

    آپ نے جو احتجاج کا طریقہ بتایا مجھے وہ بہت پسند ہے اور میرے خیال میں پر امن احتجاج ہی ہونا چاہئے۔ لیکن مسئلہ پھر وہی ہے کہ اگر آپ میں دم نہیں تو پھر کسی قسم کا احتجاج کچھ نہیں کرنے والا۔ پہلے ہمیں خود کو بہتر اور مضبوط کرنا ہو گا پھر جا کر ہمارا احتجاج بھی کام کرے گا۔ لیکن چاہے احتجاج کام کرے نہ کرے لیکن میرے خیال میں ظلم کے خلاف آواز ضرور اٹھانی چاہئے کیونکہ اس سے کم از کم ہمارے باقی بھائیوں کو تو ہوش آئے گا اور پھر ہم کامیابی کی طرف چلنے لگیں گے۔

    اقتباس» افتخار اجمل بھوپال نے لکھا: تين پرانے واقعات ہيں جنہيں ياد کر کے اپنی قوم کی عقلپر رونا پڑتا ہے ۔
    ايک پڑھے لکھے صاحب نے کپڑا خريدا اور ساتھ کی دکان پر دو جاپانی کچھ خريد رہے تھے ۔ اُن کی ستائش حاصل کرنے کيلئے کپڑے پر لگے ليبل کو اُنہيں دکھايا جو جاپانی زبان ميں لکھا تھا ۔ وہ دو نوں جاپانی ہنسنے لگے ۔ جب وہ شخص چلا گيا تو ميں نے اُن سے پوچھا کہ آپ ہنسے کيوں ؟ بولے کہ جاپانی ميں لکھا تھا پاکستان کا بنا ہوا
    کراچی ميں ايک بہت پرانی پلاسٹک کے برتنوں وغيرہ کا کارخانہ ہے ۔ ميں وہاں گيا ہوا تھا تو مالک سے کہا کہ آپ کا معيار بہت اچھا ہے تو اپنا مال ملک ميں پھيلاتے کيوں نہيں ؟ بولے کيا کريں لوگ باہر کا بنا مال پسند کرتے ہيں چاہے گھٹيا ہو ۔ بھاۓي کيا بتائيں ہماری اپنی اماں دبئی گئيں اور وہا سے ايک ٹب لے آئيں کہا اماں ہم سے کہا ہوتا يہ وہاں سے لانے کی کيا ضرورت تھی بوليں ارے تم کہاں ايسا بناتے ہو تو ميں نے اُلٹا کر کے ماں کو دکھايا ہمارے کارخانے کا بنا تھا
    ايک پاکستانی نوجوان لندن سے پتلون خريد لائے اور بڑے فخر سے مجھے دکھا کر کہنے لگے يہ ديکھو کتنی بہترين ہے ہمارے ملک ميں تو ايسا مال بنتا ہی نہيں ۔ ميں تجسس سے پتلون اند باہر سے ديکھنے لگا اچانک ميری نظر ايک ليبل پر پڑی جو پتلون کے اند لگا تھا ۔ لکھا تھا پاکستان کی ساختہ پاکستانی کپڑے سے

    بہت خوب کیا زبردست واقعے لکھے ہیں۔ لیکن مجھے اس بات کی سمجھ نہیں آئی کہ آپ نے یہ کس بات کے جواب میں لکھے ہیں یعنی آپ نے سوئی بنانے والی بات کے جواب میں لکھے ہیں کہ دیکھو ہم بہت کچھ بناتے ہیں پھر تم کیوں کہہ رہے ہو کہ ہم سوئی تک نہیں بنا سکتے۔ یا پھر اس بات کے جواب میں کہ ہمارے لوگ امپورٹڈ چیزیں پسند کرتے ہیں جبکہ ہماری چیزیں پوری دنیا میں دستیاب ہیں۔
    ویسے سوئی بنانے والی تو ایک مثال دی ہے باقی بنانے کو تو بہت کچھ ہم بنا رہے ہیں۔ لیکن مسئلہ وہی ہے کہ ایک تو اپنے ملک میں اس کا استعمال بہت کم لوگ کرتے ہیں دوسرا اپنی چیز چاہے بہت اچھے معیار کی ہو لیکن ہمارے لوگ امپورٹڈ ہی پسند کریں گے چاہے امپورٹڈ کسی کام کی نہ ہو۔

    اقتباس» عین لام میم نے لکھا: میرے پہلے دو تبصرے کہاں گئے۔۔۔۔؟ میں نے سائیٹ ایڈرس غلط لکھ دیا تھا۔۔۔ یا ماڈریشن کی وجہ سے؟

    آپ کے دونوں تبصروں کو Akismet نے دبوچ لیا تھا اور سپیم میں ڈال دیا تھا جبکہ ان دونوں تبصروں میں ایسی کوئی بات نہیں تھی کہ انہیں سپیم قرار دیا جائے۔ خیر آپ نے مزید تبصرہ کر دیا ہے اس لئے میں انہیں ختم کر دیتا ہوں۔

    اقتباس» عین لام میم نے لکھا: چلو دوبارہ لکھ دیتے ہیں۔۔۔
    بلال بھائی:::notlistening:میں نے نہیں سننا یہ سب۔۔۔۔ ویسے اپکی اور میری سوچ ایک معاملے میں ایک سی ہے: “اکثر جب دوستوں میں بحث ہوتی تو میری یہی کوشش ہوتی کہ میں اس معاملے پر خاموشی اختیار کروں۔ مجھے ٹھیک طرح سمجھ نہیں آتی تھی کہ اس مسئلہ کا کیا حل ہے؟ “۔۔۔۔۔:wink:
    عثمان:: صحیح کہا، میرا ووٹ بھی بلال بھائی کیلئے ہی ہوگا۔۔۔ بس ذرا بلال بھائی اپنی عمر بتا دیں۔۔کیونکہ میں نوجوان قیادت کا قائل ہوں!!:peace: :angel:

    عین لام میم بھائی بہت شکریہ کہ آپ نے دوبارہ تبصرہ کیا۔ دراصل میں اس معاملے میں اس لئے خاموش رہتا تھا کہ یہ بڑا نازک معاملہ ہے اور اس پر جو کہنا ہو سوچ سمجھ کر کہنا چاہئے۔
    رہی بات الیکشن اور ووٹ کی تو حضرت اردو بلاگستان میں اس ناچیز سے کئی بلاگر بلکہ سارے بلاگر ہی بہتر ہیں اس لئے ان میں سے کوئی لیڈر تلاش کرتے ہیں چلو میں بھی آپ کے ساتھ ہوں۔
    ویسے میری عمر ”میرے بارے میں“ جو صفحہ ہے اس میں لکھی ہوئی ہے۔ اس اکتوبر میں میں ستائیس سال کا ہو جاؤں گا۔ لیکن پچھلے ایک سال سے عمر ستائیس لکھ دی ہوئی ہے۔ کیونکہ 26 تو پچھلے سال مکمل ہو گئے تھے اس لئے ستائیسواں شروع ہو گیا تو ہم نے 27 کر دی۔

    اقتباس» پھپھے کٹنی نے لکھا: خود ميری دادی ايک دن جدہ سے ريڈی ميڈ فراک لائيں بچوں کے ليے اوپر لکھا تھا ميڈ ان پاکستان

    تو کیا بچوں نے ہنسی خوشی پہن لئے یا پھر انکار کر دیا۔

  7. پاکستان سے ٹیکسٹائل کی مصنوعات باہر جاتی ہیں وہاں پر باہر کاٹھپا لگتا ہے اور پھر وہ مہنگی کرکے بیرون ممالک بیچی جاتی ہیں بڑے بڑے ناموں سے :eyeroll:

  8. باقی بات آپ کی بالکل سچ ہے مگر ہے محنت طلب اور محنت ہم اور بہت سے کاموں میں کرتے رہتے ہیں تعلیم اور ترقی میں نہ سہی :silly:

  9. دیکھیں یہ فلوریڈا والے چرچ کو میڈیا میں مسلمانوں نے دو دو ہات لیا۔ اچھے طریقے سے اسلامی نقطہ نظر پیش کیا تو پادری نے اپنا ارادہ ترک کر دیا۔ ایسے موقع پر مسلمانوں کو صورتحال اپنے مفاد کے مطابق موڑ لینی چاہیے ۔ جلوسوں اور نعروں سے کچھ حاصل نہیں ہوتا۔

تبصرہ تحریر کریں۔

Your email address will not be published. Required fields are marked *