جون 7, 2013 - ایم بلال ایم
12 تبصر ے

وزیر اعلیٰ لاہور کا اقبال بلند ہو

وزیر اعلیٰ ”لاہور“ جناب سرکار محترم حضرت میاں شہباز شریف صاحب! آپ کا اقبال ہمالیہ سے بھی بلند ہو۔ بے شک لوگ آپ سے جلتے ہیں لیکن آپ ان کی فکر نہ کریں بلکہ سب سے پہلے تو تیسری مرتبہ وزیرِ اعلیٰ بننے پر مبارکباد قبول کیجئے۔ خیر سے قومی اسمبلی میں دو تہائی اکثریت مل گئی ہے، پھر بڑے بھائی صاحب ”امیر المومنین“ کب بن رہے ہیں؟ خیر انہیں چھوڑیں۔ قبلہ! میں آپ کا بہت بڑا ”پنکھا“ میرا مطلب ہے کہ ”فین“ یعنی مداح ہوں۔ آپ کیا کمال کی شخصیت ہیں۔ یوں تو آپ کا کوئی ثانی نہیں لیکن آپ کی وہ انگلی جس سے آپ انگلی کرتے، معذرت، معذرت جناب، غلطی ہو گئی، گستاخی معاف عالم پناہ، دراصل میری مراد یہ تھی کہ آپ کی وہ انگشتِ حکمیہ جس سے آپ سب کو ہانکتے ہیں وہ کسی جلاد کی تلوار سے کم نہیں۔ عوام چیختی رہے، لکھاری لکھ لکھ کر مر جائیں مگر کوئی فرق نہیں پڑتا، جبکہ آپ کی بایک جنبشِ انگشت سے پورا پنجاب ہل جاتا ہے، بڑے بڑے افسر معطل ہو جاتے ہیں اور اک انگشت کے کمال پر عوام انگشتِ بدنداں ہو جاتے ہیں۔ اوپر سے انتخابی مہم میں آپ نے اسی انگلی سے کیا خوب جوشِ خطابت دیکھایا۔ جس نے ایک طرف مائیک توڑ کر رکھ دیئے تو دوسری طرف ”دشمنوں“ کو بھی ناکوں چنے چبوائے اور عوام تو آپ پر قربان ہونے کو بیتاب ہے۔ واہ سبحان اللہ! وہ جو آپ نے لوڈ شیدنگ کے حل کا وقت چھ مہینے دیا، وہ بھی اچھا تھا مگر جس طرح آپ بیان پر بیان بدلتے ہوئے چھ مہینے سے ڈیڑھ سال، پھر دو سال اور پھر تین سال تک پہنچے، اس نے تو آپ کی شخصیت کو چار چاند لگا دیئے۔ بہت ہی اعلیٰ، سب سے اعلیٰ، وزیر اعلیٰ، وزیر اعلیٰ۔۔۔ یہ جو لوگ ان بیانات کو متنازعہ بناتے ہیں ان کو جواب دیجئے کہ ”ہے کوئی مجھ جیسا؟ جو صرف ایک سال“ بلکہ انگشتِ حکمیہ کے اشارے سے کہیں کہ ”ہے کوئی مجھ جیسا جو صرف ایک سال میں اتنے بیان بدلے؟“ یقین کریں آپ ان کو یہ ”چیلنج“ دیں تو بڑے بڑے سورما دُم دبا کر بھاگ جائیں گے۔

حضور! ہمیں آپ جیسا ہی بندہ چاہئے مگر بڑے بھائی صاحب کو علیحدگی میں تھوڑا سمجھائیں۔ آپ کی سیاست پر ہی انہیں ووٹ ملے، لیکن اِدھر انہیں بھاری اکثریت حاصل ہوئی اور اُدھر وہ سرعام آپ کے خلاف بیان دینے لگے۔ لوڈشیڈنگ کے مسئلے پر کبھی اشاروں اشاروں میں آپ کو نفسیاتی مریض ثابت کرنے کی کوشش کرنے لگے تو کبھی آپ کی موجودگی میں بڑے دھڑلے سے کہہ دیا کہ آپ جوش خطابت میں الٹا سیدھا کہہ گئے۔ محترم وزیر اعلیٰ! ٹھیک ہے کہ یہ پہلے سے طے شدہ تھا کہ ایک بھائی وعدے کرے، ووٹ سمیٹے اور اگر جیت گئے تو دوسرا بھائی اس طرح کہہ کر سارے وعدوں کو ردی کی ٹوکری میں ڈال دے لیکن محترم یہ سب اندر کھاتے ہونا چاہئے تھا۔ سرِعام بڑے بھائی کا یوں کہنا، یقین کریں کئی سوال پیدا کر گیا ہے۔ بے شک انتخابی مہم کے دوران بڑے بھائی آپ کے بیانات سنتے رہے اور خاموش رہے حالانکہ انہیں تب آپ کو روکنا چاہئے تھا، لیکن حضور! اس طرح الیکشن جیتنے کے فوری بعد سب کے سامنے آپ کی ”بے عزتی“ کر دینا مناسب نہیں۔ آخر آپ وزیر اعلیٰ لاہور ہیں۔ بے شک وہ آپ کے بڑے بھائی ہیں اور آپ ان کی باتیں برداشت کر سکتے ہیں، مگر ہم جیسے آپ کے مداح یہ ہرگز برداشت نہیں کریں گے کہ کوئی آپ کو جھوٹا کہے۔ اس لئے بڑے بھائی کو سمجھائیں۔ ویسے مجھے تو خطرے کی بو آ رہی ہے۔ کیا آپ نے غور نہیں کیا کہ الیکشن سے پہلے آپ ہی آپ تھے مگر الیکشن کے بعد آپ بہت کم اور ہر جگہ بڑے بھائی آ جاتے ہیں۔ ٹھیک ہے وہ بڑے ہیں لیکن محترم یہ کرسی کا کھیل بڑا نرالا ہے۔

ہمارے دلیر وزیر اعلیٰ صاحب! وہ جو آپ نے فرمایا تھا کہ ”انتخابات کے بعد اگر آصف زرداری کو لاڑکانہ، کراچی، پشاور اور لاہور کی سڑکوں پر نہ گھسیٹا تو میرا نام شہباز شریف نہیں۔“ یقین کریں آپ کی اس بات نے دل خوش کر دیا تھا۔ آپ واقعی شیر ہیں، بس دُم کی کمی ہے اگر وہ بھی ہوتی تو آپ دونوں بھائیوں پر لوگ وہ گانا گاتے، اس جنگل میں ”تم“ دو شیر۔ خیر بڑے عرصے سے عوام نے کسی صدر کو گھسیٹنے کی تقریب نہیں دیکھی۔ اب عوام اس ”گھسیٹو تقریب“ کا بڑی شدت سے انتظار کر رہی ہے۔ امید ہے کہ آپ جلد ہی اس تقریب کے مکمل شیڈول کا اعلان کریں گے۔ حضور اب اس تقریب میں جلدی کیجئے، کہیں ایسا نہ ہو کہ آپ کے بیان کے مطابق آپ کا ”نام نہیں“ ہو جائے اور عوام آپ کو کوئی نیا نام دے۔ ویسے یہ بھی ہو سکتا کہ باقی بیانات کی طرح اس بیان کو بھی بڑے بھائی جوشِ خطابت کہہ جائیں۔ وہ کیا ہے کہ بڑے بھائی کے ارادے کچھ ٹھیک نہیں لگتے کیونکہ انہوں نے اسی زرداری سے وزارتِ عظمیٰ کا حلف اٹھایا اور اس سے بڑی گرمجوشی سے مل رہے تھے بلکہ ”فیملی فوٹو“ تک بنوایا۔ بہرحال بڑا مزا آئے گا جب ایک صدر کو سڑکوں پر گھسیٹا جائے گا اور یہ سب تاریخ میں جلی حروف سے لکھا جائے گا، جس سے آپ کا اقبال مزید بلند ہو گا۔

صدر سے یاد آیا ایک وہ بھی صدر تھا جس نے آپ کی ”خاندانی حکومت“ برطرف کر دی اور آپ معافی مانگ کر پاکستان سے بھاگ گئے تھے۔ ایسے صدر کو بھی ہرگز نہ بخشیں۔ اس بات کو چھوڑیں کہ اس نے ملک و قوم کو کیا نقصان پہنچایا بلکہ یہ دیکھیں کہ اس نے آپ لوگوں کے ساتھ کیا کیا۔ آپ بھی اسے ویسے ہی ”ذلیل“ کیجئے گا۔ اس سے آپ کو تو خوشی ہو گی ہی لیکن ساتھ ساتھ عوام بھی ”سواد“ لے گی۔ ویسے بھی آپ سیاسی بدلے لینے اور سیاسی داؤپیچ میں کافی ماہر ہیں۔ یاد کیجئے زرداری کو اتنے سال جیل میں بھی تو آپ کے دور حکومت میں ڈالا گیا تھا، پھر وقت آنے پر ”فرینڈلی اپوزیشن“ اور معاہدے، پھر انتخابی مہم میں اسی کے خلاف بیانات اور اب پھر اسی کے ساتھ مصافحے اور تصویریں۔ ویسے آپ کے اتار چڑھاؤ اور موقعہ پرست پالیسی کا بھی جواب نہیں۔

حضور! بھولی عوام کی ذرا بھی فکر نہ کریں اور سکون سے مزے لوٹیں۔ البتہ گذشتہ دور کی طرح روٹی سستی کر دیجئے بے شک اس کی نگرانی نہ کریں اور سستی روٹی والا آٹا مارکیٹ میں مہنگے داموں فروخت ہوتا رہے۔ ویسے بھی سستی روٹی والے آٹے سے مہنگی روٹی بنے ، تو بھلا یہ کوئی چھوٹا کرتب ہے۔ محترم! دن رات کام کیجئے اور پڑھے لکھوں کو ٹیکسی ڈرائیور بنائیں اور ان پڑھ جعلی ڈگریوں والوں کو وزیر بنائیں۔ اس میں بھلا آپ کا کیا قصور، یہ تو قسمت کے کھیل ہیں کہ ”جاہل وزیر، پڑھے لکھے فقیر“۔ جناب ہم نے سنا ہے کہ آپ نے اپنا دائرہ کار لاہور کے ساتھ ساتھ چند دیگر بڑے شہروں تک بڑھا دیا ہے۔ حضور بڑے شہروں تک تو ٹھیک ہے مگر خدارا اس سے آگے نہ بڑھیے گا،بھلا چھوٹے شہروں اور دیہاتوں میں کونسا انسان بستے ہیں۔ جاہل پینڈو لوگ ہیں ان کی طرف توجہ دینے کی ذرہ برابر ضرورت نہیں۔ آپ لاہور میں دو چار اور میٹروز چلائیں، ہم آپ کے ساتھ ہیں۔ چھوٹے شہروں اور دیہاتوں والے تو کچی اور ٹوٹی سڑکوں پر بھی سفر کر لیں گے۔ ویسے بھی صوبے کو بجلی سے زیادہ سڑکوں کی ضرورت ہے۔ سڑکوں سے یاد آیا، عالم پناہ! چھوٹے شہروں اور دیہاتوں میں اور خاص طور پر جی ٹی روڈ پر گجرات سے گکھڑ تک سفر ہرگز نہ کیجئے گا کیونکہ ادھر کئی جگہوں پر ایسے عجیب و غریب کھڈے ہیں کہ رات کے وقت نظر نہیں آتے اور جب گاڑی ان میں لگتی ہے تو ٹائر پھٹنے کے ساتھ ساتھ ”رِم“ تک ٹوٹ جاتے ہیں۔ ابھی پچھلے دنوں میری گاڑی کے ایک ساتھ دو ”رِم“ ٹوٹ گئے اور میں بہت ذلیل ہوا۔ اس لئے اگر آپ کو سفر کرنے کا شوق ہو تو لاہور کی سڑکوں پر ہی دل پشوری کر لیجئے گا یا ”پبلسٹی سٹنٹ“ کے لئے رکشہ بہترین ہے۔ کہیں غلطی سے بھی چھوٹے شہروں میں نہ جائیے گا، نہیں تو آپ جیسا نازک شیر خجل ہو کر رہ جائے گا۔

محترم میں آپ کی توجہ چند دیگر باتوں کی طرف بھی مبذول کروانا چاہتا ہوں۔ آپ کی لیپ ٹاپ سکیم بڑی ہی زبردست ہے، اسے جاری رکھیئے۔ یہ علیحدہ بات ہے کہ پہلی دفعہ دیئے جانے والے ڈیل کے لیپ ٹاپ میں فنی خرابی کی شرح کافی زیادہ ہے اور اوپر سے ”ان باکس“ وارنٹی کلیم سنٹر والے بھی کیا خوب تماشے ہیں، لیکن اس میں آپ کا تو کوئی قصور نہیں۔ آخر حواریوں نے اپنے کرتوت بھی تو پورے کرنے تھے۔ گو کہ کئی ناشکرے لوگ یہ بھی کہتے ہیں کہ آپ نے ان پر کوئی احسان نہیں کیا، کونسا لیپ ٹاپ اپنی جیب سے دیئے ہیں بلکہ نوجوان نسل کو ساتھ ملانے اور ووٹوں کے لئے ہمارے ہی پیسوں (قومی خزانے) سے دیئے ہیں۔ لیکن حضور آپ ایسے کم ظرف لوگوں کو خاطر میں نہ لائیں اور اپنا مشن جاری رکھیں۔ جتنی میں آپ کی مدح سرائی کر رہا ہوں آپ کے ”اندھے کا ریوڑی بانٹ اصول“ کے مطابق تو ایک لیپ ٹاپ میرا بھی بنتا ہے۔ قبلہ! ابھی میں کل ہی سوشل میڈیا پر دیکھ رہا تھا کہ ”کمبخت“ لوگ آپ کے ہی دیئے ہوئے لیپ ٹاپ کے ذریعے آپ کی ”بیان بدل پالیسی“ کی وجہ سے آپ کو کئی خطاب دے رہے تھے۔ جاہل لوگ آپ کو ”ماہرِ بیان بدل“ اور ”جوشِ خطابت والی سرکار“ وغیرہ کہہ رہے تھے۔ جب آپ کی شان میں ایسی گستاخی دیکھی تو میرا دل کیا کہ ان لوگوں کی زبان کھینچ لوں، لیکن حضرت میں کمزور بندہ ہوں اور دل ہی دل میں گالیاں دیں۔ اگر آپ کے کئی ایک دوسرے مداحوں کی طرح ہوتا تو آن دی ریکارڈ کم از کم دو چار ”ٹیکنیکل گالیاں“ ضرور دیتا۔ بادشاہو! میں آپ کو آگاہ کر دیتا ہوں کہ ایک تو آپ پہلے ہی سارے خطاب اپنے نام کر چکے ہیں اور اگر اب آپ نے ”زرداری گھسیٹو تقریب“ جلد منعقد نہ کروائی تو لوگ سوشل میڈیا پر آپ کا جینا حرام کر دیں گے۔ سوشل میڈیا سے یاد آیا، گو کہ آپ کے میری طرح کے مفت و مفت مداح، نَونی مداح، زرخرید مداح اور چند دیگر مداح سوشل میڈیا پر آپ کے دفاع کے لئے موجود ہیں لیکن حضورِ والا! سوشل میڈیا پر آپ کو پٹواری اور شوباز شریف کہنے والے گستاخوں کی تعداد بھی تھوڑی نہیں۔ عالم پناہ! جب آپ کی شان میں ایسی گستاخیاں پڑھتے ہیں تو ہمارا خون کھولتا ہے۔ ہمارا کیا ہے ہم تو لوڈشیڈنگ کی وجہ سے ویسے ہی جل رہے ہیں لیکن آپ کے لئے مشورہ ہے کہ یا تو مزید لوگوں کو خرید کر اپنے ساتھ ملاؤ، یا پھر کم از کم اس فیس بک کا کوئی بندوبست کرو۔ یوٹیوب پہلے ہی بند ہے، اب اس فیس بک کے متعلق اپنے کہانی نویسوں سے کوئی گوٹی فِٹ کراؤ اور اسے بند کروا دو۔ حضور! خاکسار کے مشورے تو اور بھی تھے لیکن فی الحال اتنے ہی کافی ہیں۔ وزیر اعلیٰ لاہور کا اقبال بلند ہو۔ اس دعا کے ساتھ امید کرتا ہوں کہ نَونی اور زرخرید مداح اس حقیروفقیر عاجز بندے کی ”خاطر“ نہیں کریں گے اور حقیقت کو پہچانتے ہوئے اس ناچیز کو اپنا معاون سمجھیں گے۔
وزیر اعلیٰ کا اقبال بلند ہو۔ وزیر اعلیٰ لاہور زندہ باد۔۔۔
ہر لحاظ سے ستائی عوام کو کچھ مزے بھی لینے دو۔ دل پہ مت لے یار۔۔۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست 12 تبصرے برائے تحریر ”وزیر اعلیٰ لاہور کا اقبال بلند ہو

  1. بہت اعلی بلال بھای۔۔ جی آپ نے تو جناب کی اچھی خاصی بلندو بالا تعریف کردی اور کافی کچھ تو آپ نے جناب کے فرمان یاد کروا ہی دے ۔۔اور شاہد آپ اک اور فرمانِ شوبعاز بھول ہی گے- جس میں جناب فرما رہے تھے کے میں دو سال میں بجلی ہی ختم کر دو گا۔۔۔۔اور بڑے بھای صاحب کا جو فرمان ہے وہ تو آپ نے اور سب نے سن ہی لییا ہو گا کہ جناب فرما رہے ہیں کے خزانہ ہی خالی ہے ۔۔۔مان لیتے ہیں خزانہ خالی ہے ۔۔کیا یہ ان کو الیکشن سے پہلے نہیں پتا تھا ؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟

    1. اگر ہمیں لیپ ٹاپ نہ ملا ہوتا تو پھر آپ ضرور یہ کہہ سکتے تھے کہ بوئے کباب آرہی ہے۔ جبکہ ایسا نہیں بلکہ جس مشین سے کمنٹ کر رہا ہوں یہ لیپ ٹاپ سکیم والی ”اسکریپ بک“ ہی ہے۔ 😀

  2. لیپ ٹاپ نہ ملنےکا غصہ نکالا 🙄

    اور اگر لیپ ٹاپ ملنے کا کوئی چانس ہوا تو اس اقبال بلندی پوسٹ پر تبصرہ کرنے والوں کا حق بھی بنتا ہے، بھانویں ھال روڈ سے کوئی پرانا کھوکھا ہی دلوا دینا۔ 😀

    1. لیپ ٹاپ نہ ملنے والی بات درست نہیں بلکہ جس مشین سے کمنٹ کر رہا ہوں یہ لیپ ٹاپ سکیم والی ”اسکریپ بک“ ہی ہے۔ 😀

  3. آئن اسٹائن نے کہا کہ یہ دیوانگی ہے کہ آپ ایک ہی عمل دہراتے رہیں اور مختلف نتائج کی توقع رکھیں۔ یہ جاگیردار بزنس مین پہلے کیا کر چکے ہیں جو اب کوئی تیر مار لیں گے؟ ان لوگوں‌کا کوئی وژن نہیں‌ہے کہ ملک کے لوگوں‌کے فیوچر کے بارے میں، سائنسی تعلیم کے بارے میں یا اپنے لوگوں‌کو اس آگے جاتی دنیا میں آگے بڑھانے کی باتیں‌سوچ سکیں۔ یہ لوگ حکومت میں‌زاتی فائدے کے لئیے آتے ہیں۔ اور یہ قوم کی دیوانگی ہی ہے جو ان کو بار بار اپنے سر پر سوار کررہی ہے۔ پاکستان ایک دائرے میں سفر کررہا ہے۔ جہاں سے شروع کیا وہیں پر شام کی۔

  4. میں کچھ نہیں کہونگا صرف یہی ۔۔۔۔ دل جلے ۔۔۔۔ 🙂 شاندار نمائش جاری ہے :mrgreen: :mrgreen: :mrgreen:
    بس کمنٹ پوسٹ کرنے سے پہلے یہ دعا ہے کہ ماڈریشن نا لگی ہوئی ہو ۔۔۔ ورنہ ہم یہ گئے اور وہ گئے :mrgreen: :mrgreen:

  5. میرا خیال ہے تُسی غصہ ای کڈیا۔لیکن پھر بھی آپ کی کئی باتوں سے متفق ہوں ۔
    یاد رکھو سوشل میڈیا کے جیالو بلال صاحب کے جو حالات ہیں کل کلاں کسی ملک میں سیاسی پناہ ڈھونڈتے نہ پائے جائیں۔

  6. 🙄 ؔاپ نے بہترین تبصرہ لکھا ہے۔ جن سے میں متفق ہوں ۔ اس ملک میں جو بھی حکمران ؔایا اس نے عوام کا کچھ خیال نہ کیا ۔ کیا یہ اسلامی جمہوریہ پاکستان ہے جس کے لئے ہمار ے بڑوں نے قربانیاں دیں، یہ ملک جواسلام کے نام پر بنا۔ لیکن اسلام نام کی کوئی چیز نظر نہیں ؔا رہی۔ کونسا خادم ؟ جو اپنے محلات میں ؔارام کی نیند سوتا ہو اور غریب عوام جن کی نیندیں حرام ہو گئیں ہوں، کبھی لوڈشیڈنگ کا مسئلہ، کبھی بجلی کے یونٹ ریٹ میں اضافہ، کبھی پیٹرول کی قیمتوں میں اضافہ اور کبھی مہنگائی کے بم عوام پر گرتے ہیں۔ کیاہمارے محترم خادم پنجاب اور ان کے وڈے پائی جان کو علم نہیں ؟ کہ جب حضرت عمرفاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہہ نے اقتدار حکومت سنبھالا تو وہ رات کو گلیوں میں چکر لگاتے تاکہ پتہ چلے کہ کوئی ان کی ریاست میں بھوکا تو نہیں۔ اگر ان کو پتہ چل جاتا کہ میری ریاست میں کوئی بھوکا ہے تو اس کے لئے بندوبست کرتے بلکہ اپنے مبارک کندہوں پر راشن اٹھا کر ان کے گھر پہنچاتے ۔ یہ کام خلفائے راشدین کے دور میں اسوقت کے امیرالمومنین کرتے جو اپنے ؔاپ کو عوام کا خادم کہتے تھے۔
    کیا ؔاج کسی پڑہے لکھے کو بغیر رشوت کے اور سفارش کے نوکری مل رہی ہے؟ کتنے فیصد نوجوان لکھ پڑھ کر بیروزگار ہیں ؟ ملک کی معاشی حالت تباہ ہوچکی ہے۔ ملک میں ہر سوُ افراتفری ہے۔ کسی کی عزت سر عام نیلام ہورہی ہے۔ حواکی بیٹیاں بےؔابرو ہورہی ہیں۔ یہاں تک کہ اس ملک میں جو اسلام کے نام پر بنا تھا اس لئے کہ لوگ اپنے علیحدہ وطن میں عزت و احترام سے زندگی بسر کریں گے۔ اپنا وطن ہوگا ہر قسم مذہبی، سیاسی و سماجی زندگی میں ؔازادی ہو گی اور قانون کی بالادستی ہوگی۔ لیکن ؔاج ان مائو ں سے پوچھئے جن میں سے کسی کی چھ سالہ، کسی کی گیارہ سالہ اور کسی کی بارہ سالہ بیٹی کے ساتھ زیادتی کی گئی۔ کیا بنا ان کا؟ کاش! اس ملک میں ایسااسلامی طرز حکومت قائم ہو تا اور ان مجرموں کو کیفرکردار تک پہنچانے کے لئے کوئی سزا مقرر کی گئے ہوتی ۔ ؔاج اس مادروطن کو 🙄 ایسے نیک اور ایماندار حکمرانوں کی ضرورت جو اپنی عوام کو ان کے گھر کی دہلیز پر انصاف مہیا کر سکیں ، عوام کو روزگار مہیا کرسکیں ، مہنگائی کو ختم کرسکیں اور قانون کی بالادستی قائم کر سکیں اور اپنی زاتی خواہشات سے بالاتر ہوکر عوام کی صحیح خدمت کر کے اللہ کی بارگاہ میں سُر خرو ہو سکیں۔ کاش! ایسا ہو۔ ؔامین۔

تبصرہ تحریر کریں۔

Your email address will not be published. Required fields are marked *