اپریل 28, 2013 - ایم بلال ایم
9 تبصر ے

جمہوریت کیا ہے؟

اللہ کے نام سے ابتدا۔ جو مہربان، رحم کرنے والا اور ہر چیز کا مالک ہے۔ وہ ہر بات اور دلوں کے بھید خوب جانتا ہے۔

جمہوریت خود کوئی دو ٹوک اور مکمل نظام نہیں بلکہ یہ تو نظام بنانے یا نافذ کرنے کا صرف ایک طریقہ ہے۔ اس طریقے میں اہلِ شعور کی رائے سے نظام ترتیب دیا جاتا ہے۔ میرے خیال میں اتفاق رائے سے کام کرنے کو جمہوری طریقہ کہا جائے گا۔ کہتے ہیں کہ جمہوریت کی آج تک کوئی واضح تعریف نہیں ہو سکی۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ نہ تو جمہوریت کی کوئی ایک قسم ہے بلکہ دن بدن جمہوریت کی نئی سے نئی شکلیں سامنے آ رہی ہیں اور دوسرا یہ کہ مختلف قسم کے جمہوری طریقوں سے مختلف ممالک میں مختلف نظام بنے ہیں اور دن بدن ان میں ترامیم ہو رہی ہیں۔ جمہوری طریقے سے بننے والے تقریباً تمام نظام ہی کسی نہ کسی حوالے سے ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔ البتہ جو نظام جمہوری طریقہ استعمال کر کے تیار ہوتا ہے یار لوگ اسے جمہوریت کہتے ہیں۔ خیر ہر کسی نے جمہوریت کی اپنے اپنے حساب سے تعریف کی ہے۔ اس وقت جمہوریت کے لئے سب سے مشہور الفاظ سولہویں امریکی صدر ابراہم لنکن کے ہیں، جن کا ترجمہ کچھ یوں بنتا ہے ”لوگوں کے لئے، لوگوں کے ذریعے، لوگوں کی حکومت“۔ میرا خیال ہے کہ جمہوریت کی آسان سی تعریف صرف اتنی ہے کہ لوگوں کی رائے سے نظام ترتیب دینے کو جمہوریت کہا جاتا ہے، یا دوسری صورت میں آپ یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ لوگوں کی رائے سے کیے گئے فیصلے کو جمہوری فیصلہ کہا جاتا ہے۔

اس وقت دنیا میں کئی طرح کی جمہوریت پائی جاتی ہے۔ کہیں پر عوام براہ راست حکومتی فیصلے کرتے تھے، کہیں پر اپنے نمائندے منتخب کر کے نظام ترتیب دیا جا رہا ہے تو کہیں پر ایک آئین ترتیب دے دیا جاتا ہے جس کے ماتحت حکومت چلتی ہے۔ عام طور پر ماہرین جمہوریت کی یہی تین اقسام یعنی بلاواسطہ، نمائندگانی اور آئینی جمہوریت پیش کرتے ہیں، جبکہ میرا خیال ہے کہ جمہوریت صرف ان تین اقسام تک محدود نہیں بلکہ اس کی مزید کئی اقسام بنائی جا سکتی ہیں۔ جیسے جیسے انسان ترقی کرتا جائے گا وہ اپنے لئے بہتر سے بہتر جمہوریت تشکیل دیتا جائے گا اور نئی سے نئی قسم وجود میں آتی جائے گی۔ اب تک جمہوری طریقے سے کئی ایک نظام ترتیب دیئے جا چکے ہیں۔ جمہوریت کے تحت بننے والے نظاموں میں اس وقت سب سے مشہور صدارتی اور پارلیمانی نظام ہیں۔

جمہوریت، نظام ترتیب دینے کا ایک طریقہ تو ہے مگر یہ ایک ایسا طریقہ ہے جس کا سوائے ایک اصول کے دوسرا کوئی مستقل اصول نہیں ، اور وہ ایک اصول یہ ہے کہ عوام کی رائے اور مشورے سے نظام ترتیب دیا جائے۔ جو لوگ صرف موجودہ ”ووٹنگ سسٹم“ یا مغربی طریقوں کو ہی جمہوریت سمجھتے ہیں، میرے خیال میں اگر وہ قصداً ایسا نہیں کرتے تو پھر وہ ایک بڑی غلط فہمی میں مبتلا ہیں، کیونکہ جمہوریت کی صرف ایک مغربی شکل ہی نہیں۔ اگر عوام کو موجودہ ووٹنگ سسٹم اور مغربی نظام پسند نہیں تو وہ باہمی مشاورت اور اتفاق رائے کے بعد کوئی دوسرا ووٹنگ سسٹم اور دیگر نظام ترتیب دے لیں۔ بات صرف اتنی ہے کہ جب تک عوام کی رائے اور مشورے سے نظام ترتیب دیتے رہیں گے تو وہ جمہوریت ہی رہے گی، لیکن جیسے ہی عوام کی رائے اور مشوروں کو چھوڑیں گے تو پھر پیچھے بادشاہت یا ڈکٹیٹر شپ تو ہو گی مگر جمہوریت نہیں۔

کوئی بھی یہ نہیں کہتا کہ جمہوریت کی موجودہ شکل سو فیصد درست ہے، بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ جمہوریت کی موجودہ شکل میں کئی ایک خامیاں موجود ہیں۔ اس کے علاوہ اگر جمہوریت کا لیبل لگا کر بادشاہت چلائی جائے تو صرف لیبل لگا دینے سے نظام جمہوری نہیں ہوتا۔ خیر جہاں دن بدن جمہوریت کے تحت بننے والے نظاموں میں تبدیلیاں ہو رہی ہیں، وہیں پر خود جمہوری طریقہ دن بدن نکھرتا جا رہا ہے۔ جمہوری طریقے میں موجود خامیوں کو ختم کرنے پر تحقیق ہوتی رہتی ہے۔ جیسے جیسے دنیا میں مزید شعور اجاگر ہوتا جاتا ہے، ویسے ویسے وہ اپنے اپنے جمہوری نظاموں میں بہتری لا رہے ہیں۔ بہرحال یہ تو حقیقت ہے کہ جمہوریت جیسی بھی ہے لیکن پھر بھی بادشاہت اور ڈکٹیٹر شپ سے لاکھ درجے بہتر ہے۔

چونکہ جمہوریت میں لوگوں کی رائے سے نظام ترتیب دیا جاتا ہے، اس لئے یہ عوام پر ہوتا ہے کہ وہ نظام چلانے کے لئے خود قانون بنانا پسند کرتے ہیں یا پھر پہلے سے بنے ہوئے قوانین (جیسے مذہبی قوانین) نافذ کرنا پسند کرتے ہیں۔ لوگوں کے اتفاق رائے سے مذہبی قوانین کی زیرِنگرانی نظام ترتیب دینے کو آپ ”مذہبی جمہوریت“ کہہ سکتے ہیں۔ میرے حساب سے اسلام کی زیرِنگرانی مسلمانوں کی رائے اور باہمی مشاورت سے نظام ترتیب دیا جائے تو اسے ”اسلامی جمہوریت“ کہا جائے گا۔ اگر اہلِ مغرب یا کوئی اور یہ کہے کہ بنے بنائے قوانین نافذ کرنے کی بجائے عوام خود قانون سازی کرے تو ہی جمہوریت ہو گی۔ اس پر میرا جواب صرف اتنا ہے کہ جب آپ خود کہتے ہو کہ جمہوریت میں عوام کی مرضی سے عوام کی حکومت ہوتی ہے، تو اگر عوام اپنی مرضی سے مذہبی قوانین نافذ کرنا چاہتے ہیں تو پھر اعتراض کاہے کا؟ جب عوام کی مرضی مذہبی قوانین کا نفاذ ہو تو پھر خود سے قانون سازی کرنے پر زور دینا الٹا جمہوری روح کے خلاف ہے۔

پتہ نہیں یار لوگ جمہوریت کو صرف مغرب کے تیار کردہ نظاموں سے ہی کیوں منسوب کرتے ہیں اور صرف یہی کیوں سوچتے ہیں کہ جمہوریت صرف وہی ہے جو مغرب میں رائج ہے، جبکہ حقیقت تو یہ ہے کہ جمہوریت کے تحت بے شمار نظام وجود میں آ سکتے ہیں۔ اگر ایک طرف اہلِ مغرب نے جمہوریت کے تحت اپنی پسند کے نظام بنا رکھے ہیں، جن میں وہ سارا اختیار عوام کو دیتے ہیں، تو دوسری طرف مسلمان جمہوریت کے تحت اپنی پسند کا نظام یعنی اسلامی نظام نافذ کر سکتے ہیں۔ اہلِ مغرب نے اتفاق رائے سے یہ نظام ترتیب دیا ہے کہ قانون سازی کا اختیار عوام کو ہے، جبکہ مسلمان اتفاق رائے سے ایسا نظام ترتیب دے سکتے ہیں جس میں اسلام کا قانون نافذ ہو۔ جمہوریت کے تحت ہر ملک اپنے اپنے حساب سے نظام واضح کر لیتا ہے۔ کسی نے کوئی نظام بنایا تو کسی نے کوئی نظام نافذ کیا۔ نظام تو وہی وجود میں آئے یا نافذ ہو گا جو عوام چاہے گی۔ عوام اسلامی نظام چاہتی ہے تو اسلامی نظام ہی رائج ہو گا۔ اگر کوئی عوام کی رائے کے خلاف چل کر کسی بھی قسم کا نظام نافذ کرنا چاہتا ہے تو پھر اس کے پاس صرف ”تلوار“ والا طریقہ رہ جاتا ہے کیونکہ کوئی نظام نافذ کرنے کے لئے دنیا میں فی الحال صرف دو ہی طریقے ہیں۔ ایک بزورِ تلوار اور دوسرا جمہوری طریقہ یعنی لوگوں کے اتفاق رائے اور مشاورت سے۔ بات تو یہ بھی سوچنے والی ہے کہ اسلام کس طریقے کو ترجیح دیتا ہے؟ خیر اس موضوع پر ”خلفاء راشدین کیسے منتخب ہوئے“ پڑھیے، باقی پھر کبھی تفصیلی بات کریں گے، کیونکہ فی الحال موضوع جمہوریت ہے۔

جمہوریت کے تحت بننے والے مغربی نظام کی بے شک مخالفت کریں بلکہ میں خود مغربی نظام کی برائیوں اور خرابیوں کے خلاف ہوں مگر خراب نظام بننے میں جمہوریت یعنی نظام ترتیب دینے کے طریقے کا کوئی قصور نہیں، جبکہ خراب نظام بنانا ”جمہور“ (عوام) کا قصور ہے۔ جیسی عوام ویسے حکمران اور پھر ویسا ہی نظام۔

ایک نظر ہماری فریاد ”خدارا بتاؤ کہ مسلمان جائے تو کدھر جائے؟“ پر بھی ہو جائے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست 9 تبصرے برائے تحریر ”جمہوریت کیا ہے؟

  1. میں دو جماعت پاس ناتجربہ کار ہونے کی وجہ سے آج تک جمہوریت کو نہیں سمجھ سکا ۔ ویسے سقراط نے زہر کا پیالہ اسلئے پیا تھا کہ وہ کہتا تھا حکومت چُننے کا حق صرف اُن لوگوں کو ہونا چاہیئے جو اچھے اور بُرے کی تمیز رکھتے ہیں ۔ آج کی ہردل عزیز جمہوریت کا حال یہ ہے کہ جسے عوام چُن کر اسمبلی میں بھیجتے ہیں وہ وہاں عوام کو بھول جاتا ہے اور اپنے پیٹ کو یاد رکھتا ہے ۔ قانون ایسے بناتا ہے جس سے عوام کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا اور اگر ہونے کا ڈر ہو تو اس پر عمل نہیں کیا جاتا ۔ کیا جمہوریت ایک بہت بڑا ڈھونگ نہیں ؟

    1. محترم چچا جان میں نے لکھا ہے کہ ”جیسی عوام ویسے حکمران“۔ اب عوام ایسے لوگوں کو منتخب کرتے ہیں جو اسمبلی میں پہنچ کر عوام کو بھول جاتے ہیں تو پھر قصور نظام کا ہے یا پھر عوام کا؟

  2. آپ کے نزدیک اگر جمہوریت ہی آئیڈیل ھے تو اس سے کبھی بھی غلط بندے حکمران نہیں بننے چاھیں ، مگر حقیت حال یہ ھے کہ انتہائی درجہ غلیظ بندے بھی اس کی وجہ سے حکمران بنے ہیں

    1. میں نے کہیں نہیں لکھا کہ میرے نزدیک جمہوریت ہی آئیڈیل ہے بلکہ میں نے تو یہاں تک لکھا ہے کہ ”جمہوریت کی موجودہ شکل میں کئی ایک خرابیاں ہے“۔ اب پتہ نہیں آپ کو یہ کیسے لگا کہ میرے نزدیک جمہوریت آئیڈیل ہے۔
      رہی بات جمہوریت کی وجہ سے غلط بندے بھی حکمران بنے ہیں تو آپ کی یہ بات ٹھیک ہے اور میں مانتا ہوں۔ جوابی طور پر میں دوسری طرف باپ کے بعد بیٹا بادشاہ بنتا آیا کی طویل فہرست پر بمعہ حوالہ جات تنقید کر سکتا ہوں لیکن نہیں کروں کیونکہ یہ اپنے ہی پیٹ سے کپڑا اٹھانے کے مترادف ہو گا۔

  3. جلال پادشاہی ہو کہ جمہوری تماشا ہو
    جدا ہو دین سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی
    (ڈاکٹرعلامہ محمد اقبال)

    ہرشخص کی یہ آوازہے کہ’’ بس جمہوریت ‘‘اور’’ بس جمہوریت‘‘ ہونی چاہیے۔ لیکن جمہوریت کی حقیقت کیا ہے یہ کوئی نہیں جاننا چاہتا ۔ یہ آئی کہاں سے اور اس کے اثرات کیا نکلیں گے اس پر غور کرنے کے لئے کسی کے پاس فرصت نہیں ہے۔جمہوری نظام اسلامی خلافت کے نظام کے جیسا ہے یا شریعت کی ضد ہے اس پر کبھی ہم نے سوچنا ہی نہیں چاہا۔ کیونکہ اسلام تو ہماری بنیادی ترجیحات میں شاید شامل ہی نہیں رہا۔کیا اسلام صرف ایک مذہب ہے؟ اور بس نماز، روزہ ، زکوٰۃ اور حج ادا کر دینے کا نام ہے؟ یا اسلام اس زمین پر پایا جانے والا واحد مذہب ہے جو پورا دین ہے اور زندگی کے ہر معاملے میں انسانیت کو موجودہ دور کے لحاظ سے رہنمائی دیتا ہے؟

    ابراہم لنکن نے جمہوریت کو کچھ اس انداز میں بیان کیا:
    ’’لوگوں کی حکومت، لوگوں کے ذریعے، لوگوں کے لئے‘‘
    اس کو اگر ہم اپنی زبان میں بیان کرنا چاہیں تو یہی تعریف کچھ یوں بن جاتی ہے:
    ’’لوگوں کا ڈنڈا، لوگوں کے ہاتھ سے ، لوگوں پر برسنا‘‘
    اقبال نے بھی جمہوریت کو بہت خوب بیان کیاہے:
    اس راز کو اِک مرد فرنگی نے کیا فا ش
    ہر چند کہ دانا اسے کھولا نہیں کرتے
    جمہوریت اِک طرز حکومت ہے کہ جس میں
    بندوں کو گِنا کرتے ہیں، تولا نہیں کرتے

    مختصر یہ کہ جمہوریت کا مطلب یہ ہے کہ عوام کو بظاہر انکی مرضی کی قانون سازی کا اختیار دیا جاتا ہے۔مثال کے طور پر ایک نمائندہ انتخابات کے لئے کسی علاقے سے کھڑا کر دیا جاتا ہے۔ وہ ایک بندہ جس نے زیادہ ووٹ حاصل کئے ان سب لوگوں کی رائے اور نظریہ پارلیمنٹ میں لے جائے گا۔ ادھر ایک بندہ بات کرے گا تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ سب لوگ بات کررہے ہیں کیونکہ ان سب لوگوں نے اس کو ووٹ دیا ہے۔ اب جب بہت سارے پارلیمنٹ میں آگئے تو یہی پورے ملک اور پوری قوم کی رائے لائے۔جب یہ تین سو لوگ بولتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ پورا ملک بولتا ہے۔ تو یہ تین سو لوگ ملکی نظام چلانے کے لئے قانون بناتے ہیں۔ پھر اس پر ہر رکن دستخط کرتا ہے۔
    امت مسلمہ نے خلافتِ راشدہ کے مبارک دور کے بعد تین بڑی خلافتوں؛ خلافتِ امویہ، خلافتِ عباسیہ اور خلافتِ عثمانیہ کا نظارہ کیا۔ خلافت کے اِس شجرِ سایہ دار تلے جہاں ایک طرف یہ امت اپنے دین پر بلا روک ٹوک عامل رہی، وہیں اس کو کفارِ عالم پر غلبہ اور عروج بھی حاصل رہا۔ امت کا دین بھی محفوظ رہا اور اس کی جان، مال اور عزت بھی محفوظ۔اگرچہ بعض مراحل میں خلافت کے اس ادارے میں کمزوریاں بھی دیکھنے کو ملیں، لیکن کمزوریوں کے باوجود بھی فقط اس کا وجود ہی مسلمانوں کے لئے بہت بڑے سہارے کا موجب رہا اور وہ صدیوں تک ایک مرکز پر ایک قیادت تلے متحد رہے۔بیسوں صدی کے آغاز میں جب دشمنان اسلام کی کوششوں سے خلافت عثمانیہ کا سقوط ہواتو پورے عالم اسلام پر غلامی کے بادل چھا گئے۔
    دشمنان اسلام کے لئے یہ دور بڑی اہمیت کا حامل تھا کیونکہ جس نظام خلافت کو وہ صدیوں کی کوششوں کے بعد توڑنے میں کامیاب ہوئے اس کے دوبارہ قیام کے خطرے کو ہمیشہ کے لئے ختم کرنے کے لئے ایک متبادل کھلونے کی ضرورت تھی جو کہ مسلمانوں کو بہلانے کے لئے ان کے ہاتھ میں دیا جائے اوران کی توجہ خلافت کے دوبارہ قیام کی طرف نہ جاسکے۔بس کچھ ایسا کر دیا جائے کہ مسلمان ساری عمر بس اپنے ہی مسائل میں الجھے رہیں۔ لہذٰا مسلمانوں کے سامنے جمہوریت کو ایک سہانے خواب کی شکل میں پیش کیا گیا۔ اور اس کے مدمقابل آمریت کا بھیانک منظررکھاگیا۔بہرحال وہ اس مقصد میں کامیاب ہوگئے۔اس کے بعد سے آج تک مسلمان کسی پلیٹ فارم پر متحد نہیں ہو سکے۔ حتیٰ کہ بیت المقدس بھی ہاتھ سے چلی گئی۔لیکن اس امت کی آنکھیں نہیں کھل سکیں۔ظاہر ہے کہ جب مرکز ہی ایک نہ رہا تو سب کو اپنی اپنی پڑ گئی۔
    جمہوریت صرف الیکشن لڑنے، ووٹ ڈالنے اور اپنے پسندیدہ حکمران چننے کا نام ہی نہیں بلکہ یہ ایک اایساکفر نظام ہے جس کے ذریعے اانسانوں کو قانون سازی کا اختیار دیکر انہیں اللہ تعالیٰ کا شریک ٹھہرایا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔
    ’’حکم دینا تو صرف اللہ کے لئے ہے‘‘ (سورہ یوسف ۴۰)
    ’’ اور جو کوئی بھی اس کے نازل کردہ احکامات کے ذریعے حکمرانی نہ کرے تو ایسے ہی لوگ کافر ہیں‘‘۔
    (المائدہ ۴۴)
    ’’ اور جو کوئی بھی اس کے نازل کردہ احکامات کے ذریعے حکمرانی نہ کرے تو ایسے ہی لوگ ظالم ہیں‘‘۔ (المائدہ ۴۵)
    ’’ اور جو کوئی بھی اس کے نازل کردہ احکامات کے ذریعے حکمرانی نہ کرے تو ایسے ہی لوگ فاسق ہیں‘‘۔ (المائدہ ۴۷)
    جبکہ جمہوریت میں پارلیمنٹ کو اس بات کا اختیار دیا جاتا ہے کہ وہ لوگوں کی اکثریت کی بنیاد پر جس چیز کو چاہے حلال قرار دے دے اور جسے چاہے حرام ٹھہرا دے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم مسلمانوں کی سر زمین پر دیکھ سکتے ہیں کہ سود، انشورنس، سٹاک مارکیٹ اور اس جیسے بہت سے غیر اسلامی کام اسمبلیوں کے ذریعے جائز کر دیے گئے ہیں۔ جبکہ اسلام میں قانون بنانے کا اختیار صرف اللہ کو ہے۔

    شریعت میں کثرتِ رائے معیار حق و باطل نہیں
    دین اسلام میں انسانوں کی اکثریت کا کسی ایک جانب آجانا حق و باطل کا فیصلہ کرنے کے لئے بنیادی حیثیت نہیں رکھتا۔ اسی لئے اکثریت کو قرآن حکیم نے حد درجہ غیربنیاد قرار دیا ہے اور دین و ملک اور دیانت و سیاست کے تمام ہی دائروں میں اکثریت کی بے وقعتی اور بے اعتباری کھلے الفاظ میں بیان کی ہے۔ قرآن حکیم میں ایک سے زائد جگہوں پہ ارشاد ہے:
    ’’ اور اکثر لوگ ایمان نہیں لاتے گو آپ کا کیسا ہی جی چاہتا ہو‘‘۔ (سورہ یوسف ۱۰۳)
    ’’لیکن اکثر لوگ ایمان نہیں لاتے‘‘۔ (سورہ ھود ۱۱۷)
    ’’بلکہ ان میں سے اکثر لوگ نہیں سمجھتے‘‘۔ (سورہ عنکبوت ۶۳)
    ’’ اور لیکن اکثرآدمی علم نہیں رکھتے‘‘۔ (سورہ الاعراف ۱۸۷)
    ’’لیکن ان میں سے اکثر لوگ جہالت کی باتیں کرتے ہیں‘‘۔ (سورہ انعام ۱۱۱)
    ’’ اور ان میں اکثر آدمی حق کو نہیں جانتے بلکہ اس سے منہ پھیرنے والے ہیں‘‘۔ (سورہ الانبیاء ۲۴)
    ’’ اور ان میں سے اکثر لوگ صرف بے اصل خیالات پر چل رہے ہیں اور یقینََا بے اصل خیالات امر حق میں ذرا بھی مفید نہیں‘‘۔ (سورہ یونس ۳۶)
    ’’ اور اکثر لوگوں میں ہم نے وفائے عہد نہ دیکھی، اور ان میں سے اکثر جھوٹے ہیں‘‘۔
    (سورہ الاعراف ۱۰۲)
    ’’ اور ان سے پہلے بھی اگلے لوگوں میں اکثر گمراہ ہو چکے ہیں‘‘۔ (سورہ الصافات ۷۱)
    ’’ ان میں سے اکثر لوگوں پر بات ثابت ہو چکی ہے، سو یہ لوگ ایمان نہ لائیں گے‘‘۔ (سورہ یٰس ۷)
    ’’ اور بہت سے ایسے ہیں جن پر عذاب ثابت ہو گیا ہے‘‘۔ (سورہ الحج ۱۸)
    ’’ بارہا چھوٹی چھوٹی جماعتیں بڑی بڑی جماعتوں پر خدا کے حکم سے غالب آگئیں‘‘۔ (سورہ البقرہ ۲۴۹)
    ’’اللہ تعالیٰ نے بے شمار مواقع پر تمہاری مدد کی اور حنین کے دن بھی کی، جبکہ تمہیں تمہاری کثرت نے دھوکے میں ڈال دیا تھا، پھر وہ کثرت تمہارے کچھ کام نہ آئی اور زمین باوجود اپنی فراخی کے تم پر تنگ ہونے لگی، پھر تم پیٹھ پھیر کر بھاگ کھڑے ہوئے‘‘۔ (سورہ التوبہ ۲۵)
    ’’ آپ فرما دیجیے کہ ناپاک اور پاک برابر نہیں، گو تمہیں ناپاک کی کثرت تعجب میں ڈالتی ہو‘‘۔
    (سورہ مائدہ ۱۰۰)
    ’’ اور دنیا میں زیادہ لوگ ایسے ہیں کہ اگر آپ ان کا کہا ماننے لگیں تو آپ کو اللہ کی راہ سے بے راہ کردیں، اور وہ محض بے اصل خیالات پر چلتے ہیں اور اٹکل پچو لڑاتے ہیں‘‘۔ (سورہ انعام ۱۱۶)
    پس قرآن نے دنیا کی اکثریت سے ایمان کی نفی کی، عقل کی نفی کی، علم کی نفی کی، محبت حق کی نفی کی، تحقیق کی نفی کی، بیداری اور فہم کی نفی کی، ایفائے عہد کی نفی کی، ہدایت کی نفی کی، ثواب آخرت اور جنتی ہونیکی نفی کی، جہاد میں اکثریت کے گھمنڈ پر فتح و نصرت کی نفی کی، اور قابل استعمال اشیاء میں اکثریت کے معیار پر حلال و طیب ہونیکی نفی کی۔ گویا واضح کر دیا کہ دنیا میں ہر دائرے کی اکثریت معیار حق نہیں ہے۔ کیونکہ امر واقع یہ ہے کہ دنیا کی اکثریت حماقت، جہالت، کراہت حق، اٹکل کی پیروی، غفلت، بد عہدی، ضلالت، عذاب اخروی، جہنم رسیدگی اور شکست خوردگی وغیرہ کا شکار ہے۔ چنانچہ محض عددی اکثریت اسلام کے مطابق کہاں قابل وقعت قرار پاسکتی تھی کہ اسے حقوق کے لئے فیصلہ کن تسلیم کیا جاتا۔

    الیکشن یا ووٹنگ کی شرعی حیثیت
    جمہوریت پر اسلا م کا لیبل لگانے کے لئے جمہوریت کے حامی فورََا سے یہ کہہ دیتے ہیں کہ جی اسلام میں بھی تو مشورہ لینے کا حکم ہے، جو کام مجلس شوریٰ انجام دیتی ہے اور یہی کام جمہوری نظام میں پارلیمنٹ انجام دیتی ہے، لہذا جموریت بھی عین اسلامی طریق پر نظام حکومت ہے۔ ایسے لوگوں کے ساتھ سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ وہ بنا سوچے سمجھے ہی اپنے ہر کام کو اسلام کا لیبل لگانے کی ناکام کوشش کرتے ہیں نہ کہ اسلام سے اپنے ہر کام کے متعلق رہنمائی لینا چاہتے ہیں۔ اگر تھوڑی سی عقل کا استعمال کیا جائے توجمہوریت اور اسلامی نظام خلافت میں اس کے علاوہ اور کوئی مماثلت نہیں پائی جاتی، اور اگر تھوڑا سا عقل کا استعمال اور کیا جائے تومعلوم ہوتا ہے کہ یہ ایک مماثلت بھی سو فیصد نہیں ہے۔ اسلام میں مشورہ لینے کے لئے کچھ شرائط بھی ہیں۔ اب یہ تو نہیں ہے کہ شراب کے حلال اور حرام ہونے سے متعلق بھی مشورہ کیا جائے گا۔ جب اسلام میں شراب ہے ہی حرام توکثرت رائے اسے حلال قرار نہیں دے سکتی ہے۔ اسی طرح اسلام میں جس چیز کی حرمت واضح کر دی گئی اس کے نافذ العمل ہونے یا نہ ہونے کا معیار کثرت رائے نہیں ہے۔ لہذٰا اس کے لئے ووٹنگ نہیں کی جائے گی۔جہاں تک تعلق ہے الیکشن یا ووٹنگ کے ذریعے نمائندہ منتخب کرنے کا، تو یہ محض ایک اسلوب ہے جس سے کسی شخص کو کسی خاص ذمہ داری کے لئے منتخب کیا جاتا ہے ۔ مثلاََ سفر کے لئے ایک نمائندہ یعنی امیر منتخب کرنا، یا مجلسِ شوریٰ کا نمائندہ منتخب کرنا جس کی شریعت میں اجازت ہے مگر شریعت کی رو سے کثرت رائے صرف ایک صورت میں معتبر ہے، جب مسئلے کے دہ پہلوہوں اور دونوں ہی مباح ہوں۔ ایسے میں کثرت رائے کے ذریعے کسی ایک پہلو کو ترجیح دی جا سکتی ہے، مگر اس کے لئے بھی کچھ شرائط ہیں۔ مثلاََ یہ کہ:
    *یہ اکثریت دیانتدار لوگوں کی ہونی چاہیے، ورنہ خائنوں اور فاسقوں کی اکثریت کے مقابلے میں بلا شبہ ان افراد کی اقلیت قابل ترجیح ہوگی جن کی دیانت و امانت مسلم اور جن کا فہم و ذوقِ سلیم معروف ہو۔
    * ایک پہلو کو دوسرے پہلو پر ترجیح دینے سے منصوص احکامات میں خلل نہ پڑے۔
    * اکثریت جس پہلو کو ترجیح دے اس پر اتنا زور بھی نہ دیا جائے کہ جانب مخالف قابل ملامت قرار پا جائے۔ یعنی اگر کسی مباح کام کے متعلق ( جس کے کرنے یا نہ کرنے کا شریعت نے اختیار دیا ہے) کثرت رائے سے اس کا کرنا ترجیح پائے تو اس کام کے ترک کو مکروع یا ممنوع نہ ٹھہرایا جائے، اور اسی طرح اگر اس کام کو ترک کرنا راجح قرار پائے اس کام کا کرنا قابل نکیر و ملامت نہ سمجھا جائے۔ اگر ایسا کیا گیا تو وہ کام مباح نہیں رہے گا بلکہ اباحت کی حدود سے نکل کر واجب یا حرام کی حدود میں آجائے گا اور کسی کام کو واجب و حرام بنانا اللہ کے سوا کسی کا حق نہیں ہے۔ پس اگر ایسا کیا گیا تو یہ بدعت کہلائے گی جس کی مذمت سے شریعت بھری پڑی ہے۔
    * اکثریت بھی عوام کی نہیں بلکہ ان اہل علم و فضل کی معتبر ہے جو ذوقِ تشریع اور حکمت شریعت سے بہرہ ور ہوں، ورنہ عوام الناس کی اکثریت اگر کلیتََا بھی کسی مسئلے پر متفق ہو جائے تو اس کی کوئی وقعت نہیں۔
    خلاصہ کلام یہ ہے کہ اکثریت صرف اسی صورت معتبر ہے جب مسئلہ مباحات میں سے ہو اور اکثریت عوام کی بجائے اہل علم و فضل کی ہو اور وہ اکثریت بھی اپنی حدود میں رہے۔ مثلاََ ایک عمارت کی تعمیر میں کونسا اور کتنا میٹیریل ٹھیک رہے گا اس کے لئے سول انجینئرز سے مشورہ ہو گا نہ کہ نیورو سرجن سے جو کہ بلا شبہ اپنے شعبہ میں مہارت رکھتا ہے۔پس منصوصات یعنی فرائض و واجبات، سنن و مستحبات اور مکروہات و محرمات وغیرہ میں کثرت رائے کا کچھ اعتبار نہیں۔ یوں یہ دائرہ کار بہت ہی تنگ ہو جاتا ہے۔الیکشن اور ووٹنگ بذات خود حرام عمل نہیں لیکن جب اس عمل کو جمہوری نظام کے ساتھ نتھی کیا جاتا ہے تو یہ بھی حرام ہو جاتا ہے۔ یہ جمہوریت کا ایک حصہ ہے نہ کہ پوری جمہوریت۔

    پارلیمنٹ
    پارلیمنٹ جمہوریت کا مرکزی اور بنیادی ادارہ ہے اور قانون سازی کی ساری قوت اس کے ذریعے ظاہر ہوتی ہے۔ اس کے ممبران کو قانون سازکہا جاتا ہے۔ جمہوریت وہ نظام حکومت ہے جو دین اور دنیا کی علیحدگی یعنی سیکولرزم کی فکر پر قائم ہے اور اسکی رو سے عوام کے منتخب نمائندوں کی مجلس قانون ساز یا پارلیمنٹ کا وجود لازم ہے جو اس جمہوری نظام حکومت کی روح رواں ہے۔
    پارلیمنٹ کے دو کام ہیں:
    ۱۔ عوام کی نفسانی خواہشات کے مطابق قانون سازی
    ۲۔ حکومت کی تشکیل
    جمہوری نظام میں لوگوں کو اپنی خواہشات کے مطابق حکومت کرنے کا مکمل اختیار حاصل ہے۔ جمہوریت میں اس کا عمل ثبوت یوں دیکھا جا سکتا ہے کہ لوگوں کی نمائندہ پارلیمنٹ اور سینٹ کو اختیار ہے کہ وہ اکثریت کی بنا پر کسی بھی نوعیت کا قانون بنا سکتے ہیں۔
    اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔
    ’’ کسی مومن مرد اور عورت کو یہ حق نہیں ہے کہ جب اللہ اور اس کا رسولﷺ کسی معاملے کا فیصلہ فرما دیں تو پھر اسے اپنے اس معاملے میں خود فیصلہ کرنے کا اختیار حاصل رہے۔ اور جو کوئی اللہ اور اس کے رسولﷺ کی نافرمانی کرے تو وہ صریح گمراہی میں پڑ گیا‘‘۔ (الاحزاب)

    اسلام کی رو سے وہ نظام جس پر انسان کو چلنا چاہیئے اسے اللہ تعالیٰ نے انسان کے لئے وضع فرما دیا ہے اور اللہ تعالیٰ نے حضرت محمدﷺ پر اس نظام کو شریعت کی صورت میں معبوث فرمایا ہے اور آپﷺ نے اسے انسانوں تک پہنچا دیا ہے۔ اب انسان کے لئے حتمی و لازمی ہے کہ وہ اعمال کی بجا آوری اللہ تعالیٰ کے امرو نہی کے مطابق کرے۔ گویا انسان کو شریعت سازی یا قانون سازی کا کوئی اختیار نہیں۔ اور یہی وہ بنیادی فرق ہے کہ جس کی وجہ سے جمہوریت جو کہ انسان کا بنایا ہوا نظام ہے اس میں اور اسلامی نظام حکومت میں کوئی مطابقت نہیں۔ پس جمہوریت ہر شکل میں خواہ وہ پارلیمانی ہو یا صدارتی، کفر نظام ہی ہے، کیونکہ یہ لوگوں کو قانون سازی کا اختیار دیتی ہے اور اس کی اسلام میں کوئی جگہ نہیں۔ اسی لئے جمہوریت کو اختیار کرنا، اسے تقویت دینا اس میں حصہ لینا حرام ہے۔

  4. آپ نے جو کچھ لکھا ، یہی حقیقت ہے، اس کے علاوہ تو مجھے فی الحال کوئی طریقہ نظر نہیں آتا کہ کوئی قابل عمل نظام نافذ کیا جا سکے۔
    جمہور کا جیسا رویہ ہوگا ،ویسے ہی حکمران منتخب ہوں گے ۔یا ہم مذہبی نقطہ نظر سے کہہ سکتے ہیں ویسے ہی حکمران مسلط کر دیئے جائیں گے۔
    اگر عوام اچھے کردار کے لوگوں کو منتخب کرکے مجلس شوری میں بھیجیں گے تو عوام کیلئے ہی بہتری کا نظام وجود میں آئے گا۔
    اور جس شے کی عوام کو مانگ ہوگی وہ ہی شے ان کے نمائیندہ انہیں مہیا کرنے کی قانونی سازی اور اس پر عمل کی کوشش کریں گے۔باقی رہے نام اللہ کا۔

تبصرہ تحریر کریں۔

Your email address will not be published. Required fields are marked *