اکتوبر 29, 2008 - ایم بلال ایم
2 تبصر ے

تحقیق سے دوری مسائل کا باعث اور ہمارا المیہ

بسم اللہ الرحمن الرحیم

پاکستان آج جس جگہ آ پہنچا ہے اِن نازک حالات میں عوام کو ایک جان ہونے کی ضرورت ہے لیکن ہماری عوام ابھی تک ذاتی بحث و مباحثہ، فرقہ واریت اور ناجانے کن کن مسائل میں الجھ رہی ہے۔

جہاں پاکستان کے بے شمار مسائل ہیں۔ وہاں ہماری عوام کا ایک بہت بڑا مسئلہ تحقیق سے دوری ہے۔ زیادہ تر لوگ اپنے مطلب کی سنی سنائی اور میڈیا کی پھیلائی ہوئی باتوں پر عقل کی کھڑکیاں بند کر کے یقین کرتے ہیں۔ اسی طرح کچھ لوگ اپنے ارد گرد کے ماحول کے زیادہ لوگ جو ایک سوچ کے ہوتے ہیں ان کی سوچ اپنے اوپر مسلط کر لیتے ہیں۔ اس طرح جب ایک عام پاکستانی جس سوچ کو یا جس گروہ کے نظریات کو اپنے اوپر مسلط کرتا ہے پھر اس پر مکمل قائم رہتا ہے۔ چاہے کچھ بھی ہو جائے اپنی سوچ کا اور اپنے گروہ کا دفاع کرتا ہے بے شک اسے جھوٹ کو سچ اور سچ کو جھوٹ ہی کیوں نہ ثابت کرنا پڑے۔ اس طرح کی مثالیں ہمیں روز مرہ ہر موڑ، ہر فورم اور ہر جگہ ملتی ہیں۔ جیسے اب ایک انسان افغانی طالبان کے حق میں ہے تو وہ افغانی طالبان کے ہر جائز و ناجائز کاموں کی حمایت کرے گا اور ساتھ ساتھ بہتی گنگا میں خود کش حملے کرنے والے پاکستانی طالبان کی بھی حمایت کر دے گا۔ اسی طرح جو امریکہ کے حق میں ہے تو وہ امریکہ کے ہر جائز و ناجائز کاموں کی مکمل حمایت کرے گا۔ اور یہی حال ہمارا پاکستانی سیاست کے بارے میں ہے اگر کوئی زرداری کا حامی ہے تو وہ زرداری کے ہر جائز و ناجائز کاموں کی حمایت اور جو نواز کا حامی ہے تو وہ نواز کے ہر جائز و ناجائز کاموں کی حمایت کرے گا۔ اور جو کسی کا حامی نہیں وہ ان دونوں کے ہر جائز و ناجائز کا کی مخالفت کرے گا۔

اگر ہم افغانی طالبان کو دیکھیں تو میڈیا ہی کے ذریعے ان کے اچھے اخلاق کی مثال برطانوی صحافی مریم(یو آنے رڈلے (پرانا نام)) کی کتاب، پوست کی کاشت پر پابندی کے بارے میں سب جانتے ہیں اور دوسری طرف ہمیں میڈیا ہی کے ذریعے پتہ چلنے والی دوسری غیر اخلاقی باتیں بھی سب کے سامنے ہیں۔ اسی طرح امریکہ کی اپنے شہری اور کئی دوسرے ممالک کے شہریوں کے لے لئے بے شمار حقوق، سائنسی ایجادات اور کئی اچھی چیزیں موجود ہیں اور دوسری طرف “کاما” جیسے افغانستان کے کئی چھوٹے بڑے دیہات اور شہروں کے بے گناہ شہریوں پر بمباری، گوانتا ناموبے کے قیدیوں کی حالت اور عراق کے حالات وغیرہ وغیرہ سب کے سامنے موجود ہیں۔

لیکن مجھے ایک بات سن کر، دیکھ کر بہت عجیب لگتا ہے کہ ہمارے پاکستانیوں کی زیادہ تعداد بس جو سنا یا دیکھا اور اگر اُن میں سے ایک بھی بات دل کو لگی تو پھر بس اس کی اندھی پیروی کرنے لگتے ہیں اور پھر آہستہ آہستہ وہ باتیں ان کے لاشعور میں بیٹھ جاتیں ہیں کہ یہ لوگ بالکل مکمل طور پر ٹھیک ہیں اور فلاں مکمل طور پر خراب اور راہ ہدایت سے بھٹکے ہوئے لوگ ہیں۔ لیکن پتہ نہیں ہمیں یہ سمجھ کیوں نہیں آتی کہ ایک جھوٹ بولنے والا لازمی نہیں کہ ہر بار جھوٹ ہی بولے اور ایک سچا انسان لازمی نہیں کہ ہر بات پر راہ ہدایت پر ہو۔ بے شک عملوں کا دارومدار نیتوں پر ہے۔ لیکن کسی اچھی نیت کے ساتھ کوئی کام کرنے یا کسی کے حق یا مخالفت میں بولنے سے پہلے کم سے کم خود تحقیق ضرور کر لینی چاہئے کہ جو کام ہم نیک نیتی سے کرنے جا رہے ہیں کیا اُس عمل سے کوئی نقصان تو نہیں ہونے والا۔ تحقیق کے بعد ہمیں چاہئے کہ اچھے راستے کو اختیار کرتے ہوئے عمل کر جائیں اور نتائج اللہ تعالیٰ پر چھوڑ دیں۔ لیکن کم از کم خود سے کوئی تحقیق تو کریں، عقل کی تمام کھڑکیاں کھول کر غور تو کریں۔ لیکن یہاں معاملہ الٹ ہو چکا ہے۔ میں کسی کی نیک نیتی پر شک نہیں کر رہا لیکن یہاں کام تو نیک نیتی سے کیا جاتا ہے لیکن اپنے عمل پر ذرا سا بھی غوروفکر نہیں کیا جاتا کہ ہم کیا کر رہے ہیں۔ جیسے ہمارے کچھ دوست امریکہ کے اچھے کاموں کو ہی دیکھ بس امریکہ امریکہ کرنے لگتے ہیں اور اسی طرح کچھ طالبان کے اچھے کاموں کو دیکھ کر طالبان طالبان کرنے لگتے ہیں۔ اب دونوں کی نیتوں پر شک نہیں کیونکہ دونوں اطراف کے لوگ دونوں گروہوں کی کسی نہ کسی اچھی بات سے متاثر ہوئے ہیں اور نیک نیتی سے میدان میں اتریں ہیں لیکن یہ بھول جاتے ہیں کہ ہم امریکہ امریکہ اور طالبان طالبان کرتے ہوئے دونوں کے جائز و ناجائز کاموں کی حمایت میں ضد کر دیتے ہیں اور پھر یوں امریکہ اور طالبان کو چھوڑ کر ہم ذاتی انا کی جنگ شروع کر دیتے ہیں۔ جس سے ہم اپنے آپ کو گروہوں میں تقسیم کر دیتے ہیں اس کا فائدہ کسی کو ہو نہ ہو لیکن نقصان پوری امتِ مسلمہ کو ہو رہا ہے۔
اب ہمارے کچھ دوست نیک نیتی سے جہاد کی فضیلت بیان کرتے ہیں لیکن جب کوئی دوسرا بات کرتا ہے تو بحث میں جہاد اور فساد میں فرق کئے بغیر بس دوسرے کو زیر کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ٹھیک اسی طرح فساد کی مخالفت کرنے والے بحث میں اتنے آگے نکل جاتے ہیں کہ فساد کی مخالفت کے ساتھ ساتھ جہاد کے حقیقت بھی دُھندلی کر دیتے ہیں۔اب اس بات میں کسی کا فائدہ ہو نہ ہو لیکن جہاد کی حقیقت اور جہاد کے معنوں کو ضرور نقصان ہوتا ہے۔ اور یہی حال فرقہ واریت کی جنگ کا ہے۔ دوستو! اسلام تو وہ مذہب ہے جو اقلیتوں تک کو تخفظ فراہم کرتا ہے۔

ہم یہ کیوں نہیں سمجھتے کہ اگر ہم ایسے ہی نیک نیتی کے ساتھ لیکن بغیر تحقیق کے چلتے رہے تو ہم ایک اندھیر نگری میں خود تو جائیں گے لیکن ساتھ باقیوں کو بہت نقصان پہچانے کے ساتھ ساتھ اسلام کو بھی کمزور کرتے جائیں گے۔۔۔
اے میرے ہم وطنو، اے میرے مسلمان بھائیوں اور بہنوں! ذرا ٹھنڈے دماغ سے سوچو!
اب اسی تناظر میں ایک خود کش حملہ آور کو دیکھتے ہیں۔۔۔
آج کے دور میں، پاکستان میں ایک خود کش حملہ آور ایسے ہی تو جان دینے کے لئے تیار نہیں ہو جاتا۔ اب جو خود کو مسلمان بھی کہتا، خود کش حملے کو جہاد بھی کہتا ہے اور امید کرتا ہے کہ اسے شہادت مل رہی ہے۔۔۔ ذرا سوچو! اُس کی نیت کیا ہے؟؟؟ اُس کے اپنے جذبات کیا ہیں؟؟؟ ایک لمحہ کے لئے ایسا ہی لگے گا کہ اُس کو اپنے نظریات پر مکمل یقین ہے کہ وہ جو کر رہا ہے ٹھیک کر رہا ہے۔ لیکن وہ انسان جو کام کرنے جا رہا ہے یا کرتا ہے۔ کم از کم مجھے تو نہیں لگتا کہ وہ ٹھیک کر رہا ہے اور میرے خیال میں آپ تمام لوگ بھی اس کام (خود کش حملے) کو غلط ہی کہیں گے۔ خود کش حملے میں بے گناہوں کو مارنا کسی لحاظ سے بھی ٹھیک قدم نہیں اس کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے۔ لیکن اب اُس کا انسان کا کیا کریں جو اپنی نیت اپنے ارادوں کو بہتر سمجھ کر رہا ہے؟؟؟

یہاں مسئلہ بھی وہی ہے جو میں پہلے بیان کر چکا ہوں کہ ہماری اکثریت سنی سنائی باتوں پر یقین کرتی ہے خود سے کوئی تحقیق نہیں کرتی اور اپنی سوچ کی اندھی پیروی کرتی ہے۔ جیسا کہ اُس (خود کش حملہ کرنے والے) نے کسی سے سنا کہ خود کش حملے میں دشمن کے بے گناہ لوگوں کو مارنا بھی جہاد ہے۔ اُس نے جہاد کی خاطر نیک نیتی سے بات مان لی لیکن خود سے تحقیق کرنے کی زحمت تک نہیں کی کہ خود کش حملے میں بے گناہوں کو مارنا ٹھیک بھی ہے یا نہیں؟؟؟ خود سے تحقیق نہ کرنے کی وجہ سے وہ خود کش حملہ آور جہاد کے نام پر غلط ہاتھوں اور فساد میں استعمال ہو گیا۔۔۔

اب خود کش حملہ آور ایک تو سرا سر غلط عمل کر رہا ہے اور اوپر سے اس کے عمل سے مسلمانوں کو اور پاکستان کو اتنا نقصان ہو رہا ہے کہ اُس کی سوچ سے بھی باہر ہے۔۔۔ یوں ایک خود کش حملہ کن وجوہات کے اثرات سے ہوا وہ تو آپ لوگ سمجھ گئے ہوں گے۔۔۔
اس لئے ہم سب کو چاہئے کہ سنی سنائی، میڈیا میں پھیلائی، مختلف تقاریر، سیمینار اور جلسوں میں سنی ہوئی باتوں اور کسی خاص گروہ کی ہر بات پر یقین کرنے سے پہلے خود اچھی طرح تحقیق کر لیں، اس پر اچھی طرح سوچ بیچار کر لیں، مختلف مکاتب فکر سے مشورہ کریں، خود قرآن و حدیث کا مطالعہ کریں اور جب اچھی طرح ہر پہلو کا جائزہ لے لیں اور سمجھ لیں پھر کسی بات کی مخالفت یا تائید کریں اور ساتھ ساتھ یہ بھی ذہن میں رکھیں کہ لازمی نہیں کہ ایک بندہ یا میڈیا جو بھی کہے وہ سب ٹھیک ہے یا سب غلط ہے۔۔۔

دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں تحقیق کرنے، نظریات کو درست کرنے اور اسلام کی خدمت کرنے کی توفیق دے۔۔۔آمین

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست 2 تبصرے برائے تحریر ”تحقیق سے دوری مسائل کا باعث اور ہمارا المیہ

  1. ہماری قوم کی اکثریت علم حاصل کرنے کی بجائے سندیں اکٹھا کرنے میں لگی ہوئی ہے نتیجہ یہ ہے کہ تحیقیق سے دور چلے گئے ہیں ۔ ہمارے موجودہ حالات ہمااری دین سے عملی دوری کا نتیجہ ہیں

  2. جی بالکل ہماری موجودہ حالت دین سے عملی دوری کا نتیجہ ہی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ دین کا علم حاصل کرنے کے لئے تحقیق نہ کرنا بھی ہماری حالت کو دن بدن کمزور کر رہا ہے۔

تبصرہ تحریر کریں۔

Your email address will not be published. Required fields are marked *