جون 19, 2008 - ایم بلال ایم
تبصرہ کریں

کیا واقعی ہم سب بھکاری ہیں؟

زمانہ بچپن میں اپنے بڑوں سے سنا تھا کہ سڑکوں، گلی، محلوں یا گھر گھر پیسے، روٹی، کپڑا یا آٹا مانگنے والوں کو بھکاری کہتے ہیں۔ ساتھ ساتھ یہ بھی سننے کو آیا تھا کہ ان میں زیادہ تر فریبی ہوتے ہیں۔ حقیقتاً مجبوری کی بنا پر مانگنے والے بہت کم ہوتے ہیں۔

بڑوں نے کہا، ہم نے مان لیا۔ اسی تصور کو لے کر وقت گزار دیا اور ہم جوانی کو پہنچ گئے۔ اب وہ وقت تھا جب ہر چیز کے بارے میں سوچ سمجھ آنے لگی، ہر بات کے جواب میں ”کیوں، کب، کہاں اور کیسے“ کہنا شروع کر دیا۔ پھر کیا دیکھا کہ بھکاری کی تعریف ہمیں غلط بتائی گئی تھی بلکہ حالات تو کچھ اور بتاتے ہیں۔ صدر اور وزراء کے علاوہ سب بھکاری ہیں اور کوئی فریبی نہیں سب حقیقتاً مجبور ہیں۔

ہر شہر، سڑک، گلی، محلہ، اور گھر، اور تو اور انٹرنیٹ پر بھی زیادہ تر لوگ بھکاری ہیں اور سب چیخ چیخ کر التجاء کر رہے ہیں۔۔۔

• خدا کے لئے اب تو جینے دو۔ سڑک پر چلتے، گاڑی میں سفر کرتے ہر وقت دل ڈرتا ہے کہ کہیں یہی بم دھماکہ نہ ہو جائے اور ہمارا تندرست جسم قصائی کے بنائے ہوئے گوشت جیسا نہ ہو جائے۔

• اللہ تعالیٰ سے ڈرو ظالمو! بچے بھوکے تڑپ رہے ہیں، مر رہے ہیں خدا کے واسطے آٹے کا مذاق نہ کرو۔ گوداموں سے نکالو اور غریب کی دعا لو۔

• اللہ تعالیٰ تمہارا بھلا کرے گا اگر روشنی کی چند کرنیں رات کو بھی نصیب ہونے دو تاکہ پاکستان کا مستقبل پڑھ لکھ سکے۔ دن کو کارخانے چلنے دو تاکہ غریب کچھ کما سکے یہ بجلی کا بحران حل کرو۔

• قیامت کے دن تمہیں بھی انصاف ملے گا، اُس کو یاد رکھو اور ججوں کو بر طرف نہ کرو۔ من پسند ججوں سے من پسند فیصلے نہ کراؤ۔ وکلا، صحافیوں، طلبہ اور معاشرے کے ہر فرد کو تشدد کا نشانہ نہ بناؤ۔

• اللہ تعالیٰ کے واسطے اتنی غربت نہ دو کہ مستقبل بنانے والے ہاتھ ڈاکو، چوروں اور دہشت گردوں کے ہاتھ بن جائیں۔

جب حال کچھ یوں دیکھا تو اگلے لمحے دل سے لہر اُٹھی اور ایک جذباتی آواز آئی کہ کیا دیکھتا ہے! تو بھی ان بھکاریوں میں شامل ہے۔

ویسے پاکستان کی سیاست بھی ایک پُر جوش و پُر لطف تماشا ہے۔ الیکشن کے دنوں میں تمام ضروریات زندگی مہیا کرنے کا وعدہ کیا جاتا ہے اور الیکشن کے بعد پھر وہی ذلالت۔ اس تماشے کا سب سے حسین منظر کچھ یہ ہے کہ الیکشن میں سیاست دان بھکاری ہوتے ہیں جو کہ چند دن اور پھر الیکشن کے بعد ہم لوگ جو کہ سالہا سال۔ اب تو دل کی جذباتی آواز سن سن کر دماغ یہ سوچنے پر مجبور ہو گیا ہے کہ کیا واقعی ہم سب بھکاری ہیں؟

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

تبصرہ تحریر کریں۔

Your email address will not be published. Required fields are marked *