اپریل 26, 2012 - ایم بلال ایم
16 تبصر ے

سوال: اردو بلاگ پر کم وزیٹر کی وجوہات – جواب: حد کر دی ہم نے

گذشتہ سے پیوستہ
اس سلسلہ کی پہلی تحریر اور دوسری تحریر میں اردو بلاگوں پر کم ٹریفک/وزیٹر/قارئین کی وجوہات پر بات کی تھی اور اب اسی بارے میں یعنی اردو بلاگوں پر کم وزیٹر ہونے کی وجوہات پر شعیب صفدر صاحب نے جو سوالنامہ شروع کیا تھا اس پر منتخب ہونے والےجوابات پر بات کرتے۔
سوال یہ تھا کہ ”اردو بلاگوں پر کم وزیٹر ہونے کی وجہ کیا ہے؟“ اس سوالنامہ میں اوّل آنے والا جواب یعنی جس کو سب سے زیادہ لوگوں نے منتخب کیا وہ کچھ یوں تھا۔

کافی سارے نکمے دوستوں کا نا ہونا۔
یعنی زیادہ لوگوں کا خیال ہے کہ اردو بلاگوں پر وزیٹر کم ہونے کی وجہ کافی سارے نکمے دوستوں کا نہ ہونا ہے۔ اگر اس جواب کا انتخاب مذاق میں کیا گیا ہے تو پھر سب جائز ہے اور اگر واقعی سنجیدگی سے یہ جواب منتخب کیا گیا ہے تو پھر میرا موڈ مزاحیہ ہو رہا ہے۔ خیر ”نکمے“ دوستوں کی فوج بھی بنا لی جائے تو پھر بھی دنیا میں ایک عام ویب سائیٹ یا بلاگ کو جتنی ٹریفک ملتی ہے اس کے مقابلے میں یہ ”نکمی“ فوج کسی کام کی نہیں، کیونکہ روزانہ کے وزیٹر ہزاروں میں ہوتے ہیں اور یہ فوج صرف چند سو ”نکموں“ تک ہی محدود ہوسکتی ہے۔ آپ زیادہ سے زیادہ کتنے ”نکموں“ کو دوست بنا لو گے؟ پانچ سو؟ ہزار دو ہزار؟ لیکن یہی نکمے روزانہ بلاگ تو نہیں پڑھیں گے، آخر نکمے ہیں تو پھر ”کڑیوں“ کی تلاش بھی تو فرض العین ہے۔ لہذا کم از کم میں اس جواب کو تسلیم نہیں کرتا۔

دوسرے نمبر پر رہنے والا جواب تھا ”دشمنیاں“۔
لے دس۔۔۔ ایک تو اس جواب سے بہت لطف اندوز ہوا اور ساتھ ہی یہاں پر مجھے وہ گانا یاد آ رہا ہے ”حد کر دی آپ نے، حد کر دی آپ نے“۔ یارو! دشمنیاں بلاگ کی ٹریفک کم نہیں کرتیں بلکہ یہ تو ٹریفک بڑھاتی ہیں۔ گو کہ اردو بلاگستان میں کوئی خاص دشمنی نظر نہیں آتی مگر پھر بھی اکادکا چھوٹی چھوٹی جھڑپوں نے تو لوگوں کے بلاگوں پر میلے لگا دیئے اور ایک آپ ہو جو کہہ رہے ہو کہ دشمنیاں ٹریفک کم کرتی ہیں۔ کبھی غور کرو تو پتہ چلے گا کہ آپ کے بلاگ پر سب سے زیادہ نظر آپ کے دشمن ہی رکھتے ہیں، البتہ اکثر اوقات دشمن تبصرہ کرنے سے گریز کرتے ہیں۔ خیر مذاق کے علاوہ بات یہ ہے کہ نظریات اور سوچ کا اختلاف ہونا کوئی بڑی بات نہیں بلکہ کسی نہ کسی جگہ ہر انسان کو دوسرے سے اختلاف ہو جاتا ہے، تو اس کا مطلب دشمنی تھوڑی ہوتا ہے۔ اگر ہم اختلاف کو دشمنی سمجھنے لگیں تو پھر ساری دنیا ہی ہماری دشمن ہے بلکہ ہم خود اپنے دشمن ہے کیونکہ کبھی کبھار ہمارے نفس اور ضمیر میں بھی تو اختلاف ہو جاتا ہے۔ نظریات اور سوچوں کے اختلاف کو دشمنیاں نہ سمجھو، تلواریں میانوں میں ہی رکھو اور بحث برائے تعمیر کو فروغ دیتے ہوئے ایک دوسرے کو اچھے طریقے سے سمجھو اور اپنی بات سمجھاؤ۔

تیسرے نمبر والا جواب تھا ”سرچ انجن میں خاص اردو میں تلاش نہ کرنا“۔
یہ جواب میں نے شامل کیا تھا اور میری نظر میں یہی سب سے بڑی وجہ ہے۔ اس وجہ پر تفصیلی بات ”اردو بلاگ کی ٹریفک کیسے بڑھائیں؟“ والی تحریر میں کر چکا ہوں۔ ویسے اس جواب کے شامل کرنے سے پہلے بھی ایک جواب موجود تھا جو کہ یوں تھا ” is tarah search karnay walay loag “۔ اس سے مراد یہ ہے کہ رومن اردو میں تلاش کرنے والے لوگ۔ مسئلہ صرف رومن اردو میں تلاش کا ہی نہیں بلکہ اردو مواد کے لئے انگریزی میں تلاش کا زیادہ ہے تو اس لئے میں نے ”سرچ انجن میں خاص اردو میں تلاش نہ کرنا“ شامل کیا تھا۔

دو جواب یہ تھے کہ ”کم مواد“ اور ” اردو بلاگنگ دنیا سے باہر نہ دیکھنا“۔
میرے خیال میں یہ دونوں وجوہات بھی ہیں اور ان پر تفصیلی بات ”اردو بلاگوں پر تھوڑے قارئین کی وجوہات“ والی تحریر میں کر چکا ہوں۔

ایک جواب تھا ”عام لوگوں کو پتہ ہی نہ ہونا کہ بلاگ کیا ہے“۔
انٹرنیٹ صارفین کو اس سے کوئی لینا دینا نہیں ہوتا کہ آپ کی ویب سائیٹ، بلاگ ہے یا دیگر کسی قسم کی ہے۔ صارفین کو بس اپنی مطلوبہ چیز چاہئے، وہ بلاگ سے ملے یا کہیں اور سے۔ اس لئے صارف کو پتہ ہو یا نہ ہو کہ وہ جس جگہ موجود ہے وہ بلاگ ہے یا کچھ اور ہے، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ البتہ اردو بلاگران کی تعداد میں سست اضافے کو اس تناظر میں دیکھا جا سکتا ہے جبکہ میری نظر میں کم وزیٹر کی یہ وجہ نہیں ہو سکتی۔

یکسانیت“ اور ”محدود سوچ“ بھی جوابات میں شامل تھے۔
ویسے مجھے تو کوئی خاص یکسانیت نظر نہیں آتی۔ ہر بلاگر اپنا ایک الگ انداز رکھتا ہے۔ اگر آپ ایک بلاگر کے ایک ہی طرزِ تحاریر کو یکسانیت کہہ رہے ہیں تو پھر میں کچھ نہیں کہہ سکتا کیونکہ میرے خیال میں ایسی یکسانیت ہر جگہ ہوتی ہے۔ ہر انسان کا اپنا ایک انداز اور کسی خاص طرف زیادہ لگاؤ ہونے کی وجہ سے یکسانیت آ ہی جاتی ہے۔ رہی بات محدود سوچ کی تو اس پر صرف اتنا کہوں گا کہ اگر پاکستانی اردو بلاگران کی سوچ محدود ہے تو پھر پاکستانی انگریزی بلاگران کی سوچ بھی محدود ہی ہے کیونکہ ہمارے بلاگ اور ہماری تحاریر ہماری سوچ کی عکاس ہیں اور ان پر ہمارے معاشرتی حالات و واقعات کا اثر تو ضرور ہونا ہے۔ لہذا محدود سوچ ہونے کی وجہ سے انگریزی بلاگوں کو وزیٹر مل رہے ہیں تو پھر اردو کو کیوں نہیں؟

آخری جواب تھا ”غیر معیاری مواد“۔
یہ ایسا جواب ہے جسے کسی نے منتخب نہیں کیا تھا اور اسے منتخب ہونا بھی نہیں چاہئے تھا، کیونکہ میرے خیال میں زیادہ تر اردو بلاگوں کا مواد معیاری ہے۔ عام طور پر میں نے جو دیکھا ہے اس کے مطابق میرا خیال ہے، جو کہ غلط بھی ہو سکتا ہے کہ اگر آپ اردو بلاگوں کے مواد کا اپنے پاکستانی انگریزی بلاگران کی yap, yup قسم کی انگریزی میں لکھی ہوئی تحریر سے موازنہ کریں تو خود اندازہ ہو جاتا ہے کہ کونسا مواد معیاری ہے اور ساتھ ساتھ یہ بھی پتہ چل جاتا ہے کہ کون اپنی بات بہتر اور آسان انداز میں دوسروں تک پہنچا رہا ہے۔ میں اکثر دوستوں کو کہتا ہوں کہ یہ سب ترقی، پیٹ بھرے اور بڑی سرکار ہونے کی باتیں ہیں، جو ”ہیری پوٹر“ اتنی کامیاب ہو گئی ورنہ ہمارے عمروعیار کی زنبیل میں ایسی ہزاروں کہانیاں موجود ہیں۔

یاد رہے یہ تجزیہ بین الاقوامی بلاگران سے موازنہ کر کے نہیں کیا گیا بلکہ یہ اپنے پاکستانی انگریزی بلاگران کو دیکھتے ہوئے کیا گیا ہے کیونکہ وہ بھی اسی معاشرہ کا حصہ ہیں اور انہیں تو ٹریفک مل رہی ہے مگر اردو بلاگ ہی عدم تخفظ کا شکار معلوم ہوتے ہیں۔ موازنہ کریں تو اردو بلاگر کسی سے کم نہیں بلکہ دو قدم آگے ہی ہیں۔ آپ خود اندازہ کریں کہ ہر چیز کی کمی کے باوجود اردو بلاگنگ کا سفر رواں دواں ہے اور دن بدن ترقی کر رہا ہے۔ ویسے پاکستانی انگریزی بلاگر اور اردو بلاگر کا تفصیلی موازنہ پھر کبھی سہی۔ چلتے چلتے یہ بات بھی ذہن میں رکھیں کہ پاکستانی انگریزی بلاگران سے ہمیں کوئی دشمنی نہیں بلکہ وہ بھی ہمارے اپنے ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست 16 تبصرے برائے تحریر ”سوال: اردو بلاگ پر کم وزیٹر کی وجوہات – جواب: حد کر دی ہم نے

  1. اسلام علیکم
    ١. ہمیں مختلف موضوعات پر مضامین کو اردو میں ترجمہ کر کے بلاگ کرنے چاہیں (سائنسی، طبی، ادبی، فنی، مذہبی، کھیل، ملکی غرض ہر قسم کی تحریر )
    ٢. مشہور ویب سائٹس کے آپس میں رابطے قائم کرنے چاہیں (فسبوک ، گوگل ، ٹوٹر ورڈ پرس، لایو جرنل وغرہ )

    1. السلام علیکم
      بھائی جان کیا ہم فیس بک / ٹویٹر کے بغیر کامیاب نہیں ہوسکتے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم اپنے طور پر ان جیسا کام نہیں کرسکتے ہیں۔ کوئی اور راستہ نہیں ہے۔

  2. السلام علیکم
    بلال محمود بھاٰئ، میرے لئے بلاگز کی دریافت فیس بک کے ذریعے اتفاق سےہوئ- اور ف ب میں بھی میں صرف تقریبا ایک سال پہلے ہی شامل ہوئ تھی-کیونکہ اسکے مضر اثرات کے خوف نے مجھے روکا ہوا تھا-
    تو کسی نے ف ب گروپ پر ایک بلاگ کا لنک لگایا اور یوں ایک کے بعد دوسرے بلاگ کے دروازے مجھ پر کھلتے گئے-
    تو میرا خیال ہے میری طرح اور بھی لوگ ہوں گے جو اس دنیا سے نا آشنا ہیں اور انکو انکے جمگھٹے میں جا کر یہاں لانا ہو گا-

  3. جناب بلال بھائی
    میرے خیال میں یہ میں ہی تھا جس نے بلاگرز کا عام لوگوں کو پتہ نہ ہونے کی پخ ماری تھی
    میں ایسا اس لیے سوچتا ہوں کیونکہ بلاگ ایک انٹرنیٹ رسالے کی طرح ہے۔ کئی لوگوں کو میں جانتا ہوں جو روز آن لائن اخبار پڑھتے ہیں۔جبکہ وہ اردو لکھنے اور تلاشنے سے انٹرنیٹ پر قاصر ہیں۔لیکن انہوں نے مختلف اخباروں کی ایڈریس ذہن میں رکھی ہوئی ہے اور باقاعدگی سے لاگ آن ہوتے ہیں تو اگر انکو پتہ ہو کہ سیارہ کس بلا کا نام ہے اور کچھ اخباروں رسالوں کے علاوہ بھی کچھ باقاعدگی سے اپ ڈیٹ ہوتا ہے تو وہ ادھر بھی ضرور آئیں گے۔
    یہ تو ہے میرا ناقص خیال آگے آپ قابل بندے ہیں ہم تو ایویں ہی منہ اٹھا کر اس طرف آگئے۔ اپکا اس بارے کیا خیال ہے ضرور بتائیں

    1. سب سے پہلے تو عرض ہے کہ مجھے قابل اور خود کو ایویں ہی کہہ کر مجھے شرمندہ نہ کریں کیونکہ میں تو اردو بلاگستان میں سب سے تھکا ہوا بلاگر ہوں۔
      باقی میں آپ کی بات سے اتفاق کرتا ہوں کہ اخبار پڑھنے والے لوگوں تک اردو سیارہ وغیرہ کی بات پہنچانی چاہئے اور یوں اردو بلاگستان کے قارئین میں اضافہ ہو گا۔ لیکن بھائی جیسا کہ میں نے اس سلسلہ کی سب سے پہلی تحریر میں عرض کیا تھا کہ اس طرح آپ بے شک لاکھوں لوگوں کو کھینچ لیں لیکن کسی ویب سائیٹ کے وزیٹر کی جو اصل تعداد سرچ انجن سے آتی ہے وہ اس کے مقابلے میں کئی گنا زیادہ ہوتی ہے۔ بے شک اس طریقہ سے بھی وزیٹر بڑھائے جا سکتے ہیں لیکن اگر لوگوں کی اس معاملے میں بنیاد ہی مضبوط کر دی جائے یعنی سرچ انجن میں اردو میں تلاش تو پھر دیکھیں، موجودہ چند سو وزیٹر کی جگہ کیسے لاکھوں وزیٹر ہو جائیں گے۔
      یہ میری رائے ہے جوکہ غلط بھی ہو سکتی ہے۔

  4. آپ کی تحریر سے متفق ہوں۔
    لیکن علی کی بات میں زور ہے۔
    اگر عام بندہ انٹرنیٹ پر اردو اخبارات پڑھتا ہے تو وہ اگر سیارہ یا اردو کے سب رنگ تک پہونچ جائے تو میرے خیال میں ہم بلاگرز کے وزیٹر لاکھوں سے زیادہ ہو جائیں،
    اردو بلاگرز کو کوئی ایسی حکمت عملی اختیار کرنی چاھئے کہ سیارہ یا اردو کے سب رنگ کے تشہیر ہو جائے اور انٹر نیٹ یوزر جو اردو پڑھتے ہیں ان کے علم میں ہو کے وہ اردو مواد وافر مقدار میں پڑھ سکتے ہیں۔
    میری خواہش صرف اتنی ہے کہ جیسے میں جاپان میں ہر موضوع پر جاپانی میں پڑھ سکتا ہوں، اسی طرح اردو پڑھنے والے یوزر بھی اردو میں ہر موضوع پڑھ سکیں۔
    اس سے ایک نمایاں تبدیلی عوام میں آئے گی کہ ان کی سوچوں میں وسعت پیدا ہوگی۔۔۔۔

  5. جی بس حد کردی آپ نے اور اب ہم حد کرنے جا رہے ہیں
    اردو بلاگ پر کم وزیٹر کی وجوہات – جواب: ہمیں اور اکثریت کو نہ تو براوزر میں اردو لکھنا آتی ہے اور اگر آپ کا بلاگ پڑھ کر لکھنا شروع کریں جو حال ہوتا ہے مندرجہ ذیل پتہ کی سیر کے بعد آپ کو اندازہ ہوجائےگا۔
    http://ammar.x90x.net/urdu
    برائے مہربانی ان مسائل پر بھی توجہ دیں۔

  6. یار لوگ ایویں ادھر اُدھر ٹکراں مار رہے۔ حالانکہ اردو بلاگز پر ٹریفک ڈاؤن ہونی کی وجہ بڑی سیدھی سی ہے۔ ❗
    اور وہ یہ کہ خاکسار نے بلاگ لکھنا جو چھوڑ دیا ہے۔ 😳

    1. واقعی یہ وجہ بہت اہم ہے۔ 🙂 ادھر آپ نے بلاگنگ شروع کی ادھر اردو بلاگستان میں میلے لگ گئے۔ آپ کے بعد تو کوئی خاص تہوار بھی نہیں منایا گیا۔ 😆 😆 😆

  7. آپکی تحریر سے اتفاق کرتا ہوں اور اُمید کرتا ہوں کہ اگر اِسی طرح آپ سب اُردو اور اُردو بلاگز کی تشہیر کیلئے سرگرم اور فکرمند رہے تو مستقبل قریب میں یہ تمام مسائل بھی حل ہوجائیں گے۔
    عمر فاروق اور علی بھیا کی باتوں سے بھی متفق ہوں

  8. محترم بلال بهاى صاحب    بڑى محنت سے  وجوهات تلاش كئے اور ان پر قابو پانے كى تركيبين نكالين 
    ليكن اصل جڑ كو چهـوڑ ديا كيونكۂ اسكا علاج  نهين. اصل بات يه هيكۂ اردو دان طبقے كى بڑى اكثريت
    كمپيوٹر استعمال   كرنے كى معاشى قابيليت سے محروم هے ١٩٧٠كے بعد تعليم يافتۂ اردو دانون كا وه طبقۂ جو معاشى قابيليت ركهـتا هے انكى اكثريت انگلش ميڈيم سےتعليم يافتۂ هے اور رومن اردو تو پڑهتا هے ليكن اردو رسم الخط سے تقريبا نابلد هے چند سالون مين اردو رسم الخط پڑهنے والے اهستۂ اهستۂ. اجل كو پيارے هوسكتے هين اور پهر نۂ اردو بلاگر هونگے نۂ انكے مهمان پڑهنے والے

  9. کم وزیٹر کی وجوہات میرے خیال میں اردو ویب سإئٹ پر تعمیری اور مفت مواد کا کم ہو نا ہے، آج کل جو رجحان ہے وہ ذیادہ ترفری سوفٹ ویر کا حصول اور اس ہی طرح کتابیں وغیرہ، دراصل ہم پاکستانی (یہ کہتے ہوے مجھے شرم بھی آرہی ہے)مفت خورے بن چکے ہیں فری اور بغیر محنت کے جو مل جاے حاصل کرلیتے ہیں۔

تبصرہ تحریر کریں۔

Your email address will not be published. Required fields are marked *