مئی 8, 2020 - ایم بلال ایم
تبصرہ کریں

ارطغرل غازی – ترک ڈرامہ – پہلا سیزن

”کیا ڈرامہ لگا رکھا ہے؟“ امید ہے کہ اس فقرے کا مطلب سمجھتے ہوں گے۔ وہ کیا ہے کہ فلمیں یا ڈرامے مکمل حقیقت نہیں ہوتے۔ ڈرامہ تو پھر ڈرامہ ہی ہوتا ہے۔ بے شک کسی تاریخی شخصیت وغیرہ پر فلم یا ڈرامہ بنا ہو، لیکن اس میں فکشن بھی ہوتی ہے۔ بلکہ کہانی کو جاندار و دلفریب بنانے کے لئے مرچ مصالحہ ڈالا جاتا ہے۔ تخیل کے گھوڑے دوڑا کر تصوراتی اور افسانوی باتیں شامل ہوتی ہیں۔ جیسا کہ تاریخی ناولوں میں ہوتا ہے۔۔۔ اور اگر بات کی جائے سلطنتِ عثمانیہ کی بنیاد رکھنے والے عثمان اول کے والد ارطغرل اور اس دور میں ”قائی“ قبیلہ کی تو تاریخ میں اس متعلق اتنی جزیات اور اتنا مواد سرے سے موجود ہی نہیں کہ حقیقت پر مبنی اتنا لمبا چوڑا ڈرامہ بنایا جا سکے۔ گویا ترک ڈرامے ارطغرل غازی میں حقیقت نہ ہونے کے برابر اور فکشن ہی فکشن ہے۔ لہٰذا برائے مہربانی اس ڈرامے کو ڈرامہ ہی رکھیں، نہ کہ تاریخی دستاویز بنائیں۔ اور مذہب سے جوڑنا تو سیدھی سیدھی حماقت ہو گی۔۔۔ اس کے علاوہ مزید جو لکھنے جا رہا ہوں، یہ سب میری رائے ہے۔ آپ اختلاف کر سکتے ہیں مگر ہوا کے گھوڑوں پر سوار ہونا ضروری نہیں۔ یہ اس لئے پیشگی کہہ رہا ہوں کہ میں نے دیکھا ہے اگر کوئی اس ڈرامے کا تنقیدی جائزہ لیتا ہے تو اس ڈرامے کے ”عاشقین و فدائین“ فتوے صادر فرمانے لگتے ہیں اور انہیں سازش کی بو آنے لگی ہے۔ حالانکہ میری نظر میں اس ڈرامے کے پہلے سیزن میں ایسا کچھ ہے ہی نہیں کہ کوئی اس کے خلاف سازش کی بھی زحمت کرے۔ بلکہ یہ تو تاریخی فکشن سے زیادہ رومانوی داستان کے زمرے میں آتا ہے۔۔۔

ارطغرل غازی سے پہلے ترک ڈرامہ ”یونس ایمرے“ دیکھ رکھا تھا۔ جس کا اردو ترجمہ ہمارے بلاگر دوست عمار ضیا اینڈ کمپنی نے کر کے اپنے چینل ”ٹیلیوستان“ پر پیش کیا۔ خوب تر ترجمہ تھا اور ڈرامہ تو کمال تھا ہی۔ کیا زبردست پروڈکشن تھی۔ خاص طور پر ڈائیلاگز تو لاجواب تھے۔ مجموعی طور پر اس ڈرامے نے میرے ذہن پر بہت اچھے اثرات چھوڑے۔ بہرحال جب ارطغرل غازی کا چرچا عام ہونے لگا تو سوچا کہ شاید یہ بھی یونس ایمرے کی طرح لاجواب ہو گا۔ مگر اسے ہاتھ نہ ڈالتا کہ اتنا لمبا ڈرامہ دیکھنے کا وقت بھلا کہاں سے دستیاب ہو گا۔ خیر پھر ہمت کی اور جیسے تیسے پہلا سیزن دیکھ ڈالا تھا۔ شروع میں ڈرامے نے کچھ کچھ باندھا تو سہی لیکن جلد ہی میں اکتانے لگا۔ کہانی تو جیسے ٹھہر گئی اور عجب سے چکر میں گھومنے لگی۔ پھر یہی سوچتے دیکھتا رہا کہ شاید کچھ اقساط بعد دلچسپ ہو جائے۔ چوہتر اقساط پر مشتمل اس سیزن کی آخری دس بارہ اقساط کچھ بہتر لگیں، ورنہ باقی تو۔۔۔آہو۔

ارطغرل ڈرامے کا پہلا سیزن پورا دیکھنے کے بعد اس کا جو مرکزی خیال میرے ذہن میں بن پایا، وہ کچھ یوں تھا کہ اک خانہ بدوش قسم کا قبیلہ قحط وغیرہ سے پریشان، اپنی بقا(سروائیول) کے لئے بھاگ دوڑ کر رہا ہوتا ہے۔ ڈرامے کے شروع میں ہی قبیلے کے ایک شہسوار و شمشیر باز ”ارطغرل“ کو حالات کی ماری ایک شہزادی سے پیار ہو جاتا ہے اور پھر باقی ڈرامہ اسی کے گرد گھومتا ہے۔ مثلاً اس پیار اور قبیلے کی بقا کے تانے بانے آپس میں جڑنے لگتے ہیں۔ اس دوران وہی کہ تخت کا کھیل، عورت کا انتقام اور ”ساس بھی کبھی بہو تھی“ جیسے ڈراموں کے حالات کہ ”میں ایہدے نال ویاہ کرانا اے، میں اوہدے نال نئیں کرانا۔ توں ایہنوں پھسا لے، توں اونہوں“۔ بے شک یہ بھی زندگی کے جز ہیں اور دکھانا غلط نہیں، مگر ان سب کو اتنا طول دے دینا کہ اصل کہانی پر حاوی ہو جائیں، یقیناً اس سب نے ڈرامے کی نوعیت ہی بدل کر رکھ دی۔۔۔ خیر پہ در پہ مشکلات آنے لگتی ہیں اور ہیرو صاحب ہر مشکل کا مقابلہ عقل سے زیادہ بزورِ شمشیر کرتے جاتے ہیں۔ ڈرامے کے درمیان مگر آخر پر اس پیار و بقا کی جنگ پر اخلاقیات اور خاص طور پر مذہب کا غلاف چڑھانے کے واسطے وقتاً فوقتاً ڈائیلاگ بولے جاتے ہیں۔ آخر پر ہیرو کو پیار بھی مل جاتا ہے اور قبیلے کے حالات بھی درست ہونے لگتے ہیں اور پھر سب ہنسی خوشی رہنے کی بجائے ڈرامے کے اگلے سیزن کی طرف اشارے کرتے پائے جاتے ہیں۔

تاریخی شخصیت ارطغرل اور اس کے قبیلے قائی کے متعلق جو تھوڑا بہت پڑھا سنا، اس کے مطابق دیکھا جائے تو پہلے سیزن میں ڈرامہ نویس اور ڈائریکٹر وغیرہ اس قبیلے کی عکاسی کرنے میں بری طرح ناکام ہوئے ہیں۔ میرا ذہن نہیں مانتا کہ قائی قبیلہ ایسا گیا گزرا ہو گا کہ جیسا ڈرامے میں دکھایا گیا۔ مثال کے طور پر مخبری (جاسوسی) کا نظام کسی بھی سلطنت اور جنگ کی جیت کا ضامن ہوتا ہے۔ ویسے بھی جنگیں جیتنے کے لئے دشمن سے ایک قدم آگے چلنا پڑتا ہے۔ جبکہ اس ترک ڈرامے کے مطابق قائی قبیلے کا مخبری(جاسوسی) کا نظام سرے سے تھا ہی نہیں۔ قبیلہ دشمن سے آگے چلنا تو دور بلکہ دشمن کی چالوں کے پیچھے پیچھے چلتا دکھایا گیا ہے۔ قبیلے کے سردار کو معلوم ہی نہ ہوتا کہ اندر کھاتے کیا کیا گُل کھلائے جا رہے ہیں۔ ایسی کُلی بے خبری میں سرداریاں تھوڑی ہوتی ہیں۔ ہیرو جب کہیں پھنستا تو خود سے کوئی تدبیر کرنے کی بجائے اچانک اور اتفاقاً کوئی مددگار پہنچ جاتا یا پھر آجا کر غائبی مدد پہنچتی۔ ایسا ایک آدھ بار ہونا تو ٹھیک ہے لیکن ہر دفعہ یہی سب ہونا حقیقت پسندی نہیں اور قبیلے کی اپنی کارکردگی پر سوال اٹھاتا ہے۔ ڈرامے والے قبیلے کی دورِ اندیشی اور حکمت کا اندازہ اس سے کر لیں کہ یہ معلوم ہوتے بھی کہ قبیلے میں کوئی غدار ہے، بلکہ غدار کا آئیڈیا بھی ہو گیا کہ فلاں شخص ہے۔ مگر اس کو پھانس سکے نہ کوئی ثبوت ڈھونڈ سکے۔ وہ تو آخر کار خود غدار نے کھلی بغاوت کی تو پکڑ میں آیا۔ دشمنوں کے درمیان پھنسا ایسے چال چلن والا قبیلہ کہ جس کے بڑے بزرگ نرے ٹہگے اور ”جنے لایا گلیں، اوہدے نال چلی“ جیسے ہوں، تو ایسا قبیلہ ایک دن سروائیو نہیں کر سکتا، چہ جائیکہ جنگیں جیتے اور کل کو کسی بڑی سلطنت کی بنیاد رکھے۔ ٹھیک ہے کہ ڈرامہ ہے اور فکشن ہے مگر جب تاریخی فکشن کا انتخاب کیا تو پھر کچھ حقیقت پسندی کا مظاہرہ کرنا تو بنتا تھا۔ ویسے ڈرامے میں جو اور جس انداز میں دکھایا گیا ہے، اس سے تو اصل ارطغرل اور قائی قبیلے کی روحیں تک تڑپ گئی ہوں گی۔

آج کے جدید دور میں ڈرامہ اور فلم سازی جس معیار تک پہنچی ہوئی ہے، اگر اس لحاظ سے تکنیکی طور پر دیکھا جائے تو میری رائے میں ارطغرل ڈرامے کا پہلا سیزن اوسط سے بھی نیچے اور کمزور پروڈکشن ہے۔ دو تین مرکزی واقعات ہیں، مگر کہانی کو ضرورت سے زیادہ کھینچا گیا۔ غیرضروری جزویات کی بھرمار کی گئی۔ بلکہ کئی جگہوں پر تکرار سی محسوس ہوتی۔ اگر مکالموں(ڈائیلاگز) پر غور کیا جائے تو مجھے ان میں چاشنی اور خاص طور پر ادبی چاشنی تو نہ ہونے کے برابر لگی۔ ویسے عاشق معشوق جوڑوں سے عشق و محبت کے متعلق شاندار ڈائیلاگز اور ایسے ہی قبیلے کے بزرگ سردار اور ابنِ عربی جیسے کرداروں سے نصیحت آموز اور فلسفے کی گہرائیوں سے بھرپور ڈائیلاگ کہلوائے جا سکتے تھے۔۔۔ اب اس کا مطلب یہ بھی نہیں کہ ایسے ڈائیلاگ بالکل بھی نہیں۔ میری مراد یہ ہے کہ چوہتر اقساط میں اگر دوچار کام کے ڈائیلاگز ہوں تو یہ آٹے میں نمک برابر بھی نہیں ہوتے۔۔۔ معلوم نہیں اصل (ترک زبان والے) ڈائیلاگز ہی ایسے تھے یا پھر ترجمہ کی کمزوری ہے۔ خیر جس اردو ترجمے کے ساتھ میں نے دیکھا ہے اور انگلش ترجمہ اور پی ٹی وی والے ترجمے کا آپسی تھوڑا بہت موازنہ کرنے کے بعد یہی کہوں گا کہ پی ٹی وی کا اللہ ہی حافظ ہے۔ اس کے علاوہ ڈرامے میں شش و پنج اور حیرت(سسپنس) کا معیار یہ کہ چند اقساط بعد ہی ناظر کا ایسا محاورہ ہو جاتا ہے کہ اسے پہلے سے معلوم ہونے لگتا ہے آگے کیا ہونے والا ہے۔ سینماٹوگرافی میں بھی کوئی خاص جان نہیں اور بی رول (B-roll) تو ”مگروں ای لائے نیں“۔ آسان الفاظ میں یونہی سمجھیں کہ مکالموں (ڈائیلاگز) کے علاوہ باقی جو مناظر ہوتے ہیں، انہیں بی رول کہتے ہیں، خیر پہلے سیزن کے بی رول بھی نہایت گئے گزرے ہیں۔ آ جا کر کیمروں کے دو چار زاویے اور چند محسوس شاٹس اور ہلکی پھلکی تبدیلی کے ساتھ انہیں ہی بار بار دہرایا جاتا رہا۔ حالانکہ جیسے علاقے اور جن حالات میں قائی قبیلہ رہتا تھا، یعنی تیرھویں صدی کا زمانہ، خانہ بدوشی، پہاڑ، چراگاہ، جنگل، مال مویشی، گھوڑے، تلواریں، خیمے، قلعے، شاہی محل، کارواں سرائے اور حلب شہر وغیرہ، ان سب کو لے کر تو ایسا شاندار بی رول شوٹ ہو سکتا تھا کہ لوگ بس اسے ہی دیکھتے رہ جاتے۔۔۔

آخر پر ایک مرتبہ پھر کہوں گا کہ یہ باقی فکشن کی طرح بس ایک ڈرامہ ہے اور اس کو لے کر کوئی ”ڈرامہ“ لگائیں نہ اسے اسلام و کفر کی جنگ بنائیں اور نہ ہی تاریخی دستاویز سمجھیں۔ باقی اگر آپ کے پاس وافر وقت نہیں اور آپ صرف معیاری مواد کے قائل ہیں، چیدہ چیدہ فلمیں یا ڈرامے دیکھتے ہیں اور ان سے انٹرٹینمنٹ کے ساتھ ساتھ کچھ نیا سیکھنا پسند کرتے یا کسی تاریخی، سائنسی یا سماجی مسئلہ کی گہرائی میں کی گئی شاندار عکاسی دیکھنا پسند کرتے ہیں تو پھر یہ ڈرامہ(پہلا سیزن) آپ کے لئے نہیں۔ وہ کیا ہے کہ کچھ نیا اور ہلکی پھلکی عکاسی تو اس میں ہے مگر اتنے طویل دورانیہ کے بعد آ جا کر رتی برابر کچھ ہاتھ آئے تو اس کی بجائے یہ وقت کہیں اور صرف کر لینا چاہیئے۔ یہاں ایک بات واضح کر دوں کہ میری نظر میں یہ ڈرامہ بُرا ہرگز نہیں لیکن اس میں ایسی کوئی گہرائی بھی نہیں کہ جسے لے کر یار لوگوں نے ”ہوا“ بنایا ہوا ہے۔۔۔ بس ٹھیک ہی ہے یا کہہ لیں کہ گزارے لائق ہے۔ لہٰذا اگر آپ کے پاس وافر وقت ہے اور ہلکی پھلکی انٹرٹینمنٹ چاہتے ہیں یا وقت گزاری کے لئے کچھ بھی دیکھ لیتے ہیں تو پھر بند کمروں میں شوٹ ہوئے اور آ جا کر ساس بہو کے طعنے و کوسنے والے ڈراموں سے تو ارطغرل کئی گنا بہتر ہے۔ ویسے ہیرو تو شہسوار ہے ہی لیکن ہیروئن بھی گھوڑا دوڑاتی ماشاء اللہ۔۔۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

تبصرہ تحریر کریں۔

Your email address will not be published. Required fields are marked *