محفوظات برائے ”سیر و سیاحت“ زمرہ     ( صفحہ نمبر 5 )
دسمبر 31, 2020
تبصرہ کریں

اے سالِ رفتہ 2020ء

زندگی کی کیسی خوبصورتی ہے کہ ہم مرنے کے بعد بھی کسی کیڑے کی خوراک، کسی درخت کی شاخ، کسی پھول کی پتی بن کر زندہ رہیں گے۔ یہ بات کرنے والا ہمارا پیارے دوست بھی اسی سال بچھڑا اور ہمیں روتا چھوڑ گیا۔ ہمارے لئے اس سال 2020ء کا آغاز بہت دل دہلا دینے والا تھا۔ دیکھتے ہی دیکھتے وبا نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ وہ دن مشکل تو تھے مگر ہم دیہاتیوں کے لئے ویسے ہرگز نہیں تھے کہ جیسے شہری لوگوں کے لئے تھے۔ کھلی فضاؤں میں سانس لینے کے لئے لہلہاتیں فصلیں اور قریب ہی بہتا چناب۔ اور پھر وہ جو گاؤں ویران کر کے شہروں میں جا بسے تھے، وہ بھی وبا کے ڈر سے بھاگے تو←  مزید پڑھیے
دسمبر 28, 2020
تبصرہ کریں

میں منظرباز ہوں مقابلہ باز نہیں

میرے لئے سیاحت صرف سیروتفریح اور فوٹوگرافی صرف تصویروں کا نام نہیں، بلکہ بات اس سے آگے کی ہے۔۔۔ اور اس کے لئے جو راستہ اپنایا ہے اس پر چلتے ہوئے ایک ایک لمحہ مجھے خوشی دیتا ہے۔ میں اس میدان میں اس لئے نہیں کہ مجھے کچھ ثابت کر کے کسی کو دکھانا ہے۔ مجھے تو بس اس منظربازی کے ذریعے ایسا عرق کشید کرنا ہے کہ جو روح کو تازہ دم اور زندگی کو سرشار کر دے۔ لہٰذا گزارش فقط اتنی سی ہے کہ مجھے اپنا مدِ مقابل (حریف) ہرگز نہ سمجھیئے۔ کیونکہ میں ایسی کسی دوڑ کا بندہ سرے سے ہوں ہی نہیں۔ مجھے کچھ ثابت نہیں کرنا، مجھے کوئی ریکارڈ نہیں بنانا اور آپ کی ان لڑائیوں←  مزید پڑھیے
دسمبر 22, 2020
تبصرہ کریں

ٹلہ جوگیاں کی ستاروں بھری رات

لذیذ کھانوں نے ٹلہ جوگیاں کے جنگل میں صرف منگل ہی نہیں بلکہ بدھ جمعرات بھی کر دیا۔ اونٹ اور گدھے گھوڑوں نے مل کھایا۔ تاروں سے بھرے آسمان تلے، الاؤ جلے۔ لیکن اکثر احباب الاؤ جلانے سے کترانے لگے۔ خیر ٹلہ ہو، تاروں بھرا آسمان ہو اور الاؤ نہ جلے، رات کی ایسی بے حرمتی کم از کم اپنی برداشت سے باہر ہے۔ آخر جنگل سے لکڑیاں لینے گیا اور میں تو خیر خیریت سے واپس آ گیا لیکن پھر کچھ لوگ گھپ اندھیرے میں جنگل کی طرف ”گھوسٹ ہنٹنگ“ کے لئے چلے۔ چلتے چلتے میں انہیں جنگل میں ایک کنویں تک لے گیا، جس کے اندر ہڈیوں کا ڈھیر تھا اور پھر ←  مزید پڑھیے
دسمبر 21, 2020
تبصرہ کریں

مقامِ غروب – ٹلہ جوگیاں

او میری جان دے ٹوٹے! تم “مرکھائی“ سے چھلانگ لگا کر خودکشی نہ کرنا۔ وہ کیا ہے کہ ”مر کے بھی چین نہ پایا تو کدھر جائیں گے“۔ ویسے بھی ہم جو تیری یاد میں مرے جا رہے ہیں، وہ کیا کم ہے؟ اب تم بھی مر کر کیا ہماری دنیا ویران کرو گے؟ چل چھوڑ! ٹلہ ٹاپ پر چلتے ہیں۔۔۔ لو جی پہنچ گئے۔ اب بس جلدی جلدی خیمے لگاؤ اور ان میں سامان رکھو۔ باقی باتیں بعد میں ہوں گی۔ پہلے مقامِ غروب پر جا کر غروبِ آفتاب کا نظارہ تو کر لیں۔۔۔ ویسے کیا تمہیں خوف کے اُس پار جانا ہے؟ فطرت کو روح تک سمانا ہے؟ اور اپنے اندر دیا جلانا ہے؟ تو کبھی یہاں چپ چاپ بیٹھ کر غروبِ آفتاب کا نظارہ کرنا اور کسی جوگی منظرباز کی طرح←  مزید پڑھیے
دسمبر 19, 2020
1 تبصرہ

مقامِ طلوع – ٹلہ جوگیاں

رات کے آخری پہر ابھی پرستان کے دروازے پر ہی پریوں سے ہیلو ہائے ہو رہی تھی کہ ساتھ والے خیمے میں اچانک ”ٹاں ٹاں“ کی آواز بلند ہوئی۔ میں سمجھ گیا کہ آفت نازل ہونے والی ہے۔ آخر آفت سے جو واہیات مکالمہ ہوا، وہ بھی آگے بتاتا ہوں لیکن اس سے پہلے جان لیں کہ منہ اندھیرے جاگ کر جب مقامِ طلوع پر پہنچے تو عجب کیفیات سے دوچار ہوئے۔ ابھی سورج نہیں نکلا تھا اور شفق کی روشنی لاجواب تھی۔ نیچے وادی میں کہیں کہیں دھند کا پہرہ تھا۔ ہلکی ہلکی پُروا یعنی بادِصبا، نسیم سحر چل رہی تھی۔ وہ منظرنامہ شدید الشدید دلفریب تھا۔ اور جب منظرباز ایسے نظاروں میں محو ہوتا ہے تو ”تم“ میں کھو جاتا ہے اور تم←  مزید پڑھیے