ستمبر 20, 2019 - ایم بلال ایم
تبصرہ کریں

منہ فوٹو واسطے پورا لیکچر – ایڈا توں فوٹوگرافر

دیوسائی میں ریچھ صاحب نے مسٹر مارموٹ کو تصویر بنانے کا کہا نہ مارموٹ نے ریچھ کو، لیکن لیپرڈ اور عقاب سمیت سبھی ایک دوسرے کی تصویریں بناتے پائے گئے۔ ٹھیک ہے کہ کیمرے کے ویوفائنڈر سے دیکھنے والا کیمرے کی پشت پر ہی زیادہ اچھا لگتا ہے، لیکن کبھی کبھار کچھ ”ششکا“ ہونے میں حرج نہیں۔ آخر جانور بھی انسان ہوتا ہے 😀 اور فوٹوگرافر دل رکھتا ہے۔ اگر اس کی اپنی”منہ فوٹو“ بھی بن جائے تو کیا مضائقہ؟ اور مزہ دوبالا تب ہوتا ہے کہ جب کسی سفر(سیروسیاحت) پر دو یا زیادہ فوٹوگرافر دوست ایک ساتھ ہوں۔ اور اگر ڈائریکٹر عقاب بھی ساتھ ہو تو پھر کیا ہی کہنے۔ یوں جہاں فوٹوگرافرز دیگر اچھی تصاویر بناتے ہیں، وہیں پر ایک دوسرے کی بھی چند ”نیچرل“ تصویریں بنا دیتے ہیں۔ اور ڈائریکٹر کی وجہ سے کام میں نکھار بھی آ جاتا ہے۔ اگر یہ سب نہ ہو اور پورے گروپ میں ایک ہی فوٹوگرافر ہو تو پھر اس بیچارے کی اپنی اچھی منہ فوٹو شریف نہ ہونے کے برابر ہوتی ہیں۔ اور جو ایک آدھ ہوتی بھی ہیں تو ان کے لئے وہ کافی تردد کرتا ہے۔ مثلاً ٹرائی پاڈ یا کسی مناسب جگہ پر کیمرہ لگاتا، فریم اور فوکس درست کرتا اور پھر ریموٹ کے ذریعے یا ٹائمر آن کر کے بھاگتا ہوا فریم میں جا گھستا ہے۔ کم از کم مجھے گروپ فوٹو کے علاوہ خاص اپنی منہ فوٹو کے لئے ایسا کرنا بڑا عجیب سا لگتا ہے۔۔۔

ویسے ایک صورت یہ بھی ہوتی ہے کہ کسی دوسرے کو کیمرہ دے کر کہا جائے ”یہ ذرا احتیاطاً میری تقریباً تصویر تو بنا دیجئے“۔۔۔ اس میں مسئلہ یہ ہوتا ہے کہ اکثر اوقات اگلا بندہ مطلوبہ فریم اور زاویہ ہی درست نہیں رکھ پاتا۔ اگر درست رکھ بھی لے تو ہر بندہ کیمرہ اور خاص طور پر ڈی ایس ایل آر کیمرہ آپریٹر نہیں ہوتا۔ جبکہ اکثر لوگ کیمرے اور تصویر کے متعلق ویسا ہی سوچتے ہیں، جیسے نیا بندہ موسیقی کا کوئی آلہ دیکھ کر سوچتا ہے کہ بس اس پر ہاتھ رکھوں گا تو سُر بکھیر دوں گا اور جب واقعی ہاتھ رکھتا ہے تو سُر دور کی بات ”چیں چاں پوں پاں“ بھی نہیں نکلتی۔ بالکل ایسے ہی عموماً لوگوں کا خیال ہوتا ہے کہ بس کیمرہ آنکھ کو لگا کر بٹن دبائیں گے تو دھانسو تصویر بنا دیں گے۔ لیکن جب بنانے لگتے ہیں تو پھر معلوم ہوتا ہے کہ کس بھاؤ بکتی ہے۔ بے شک ڈی ایس ایل آر کیمرے سے محض تصویر اتارنا کوئی راکٹ سائنس نہیں، لیکن اکثر اوقات معاملہ اتنا سیدھا بھی نہیں ہوتا، جتنا کہ کئی لوگ سمجھتے ہیں۔ آپ کو شاید میری باتیں عجیب لگیں مگر فوٹوگرافی کے حوالے سے میرے ساتھ ایسے کئی عجیب واقعات ہو چکے ہیں۔ مثلاً ایک دفعہ کسی کو تصویر بنانے کا کہا۔ ابھی ٹھیک طرح کہا بھی نہیں تھا اور بات میرے منہ میں ہی تھی کہ چکنے پکوڑے کھاتا ایک چِکنا ”لاؤ کیمرہ! یہ کونسا مسئلہ ہے“ کہتے ہوئے کیمرے پر ایسے جھپٹا کہ اپنے ہاتھوں کو لگی ساری چکناہٹ لینز کے عدسے پر تقریباً مَل دی۔ اور پھر تصویر کیا بنوانی تھی، میں تو لگا لینز صاف کرنے۔ اسی طرح ایک دفعہ غلطی سے ایک ”نیم فوٹوگرافر“ کو کیمرہ پکڑاتے ہوئے تصویر بنانے کا کہہ بیٹھا۔ جناب اپنے حساب سے سیٹنگز کرنے کے لئے کیمرے کے موڈ ڈائل پر زور آزمائی کرنے لگے حالانکہ اس کیمرے میں بٹن دبا کر ڈائل گھومنا تھا۔ اس سے پہلے کہ کچھ ٹوٹتا، وہ تو شکر ہے کہ میں نے بروقت کیمرہ واپس پکڑ لیا۔ ورنہ نیم حکیم خطرۂ جان کی طرح نیم فوٹوگرافر خطرۂ کیمرہ ثابت ہونے کی پوری تیاری میں تھا۔

یہاں ایک بات واضح کر دوں کہ ابھی عام طور پر پیش آنے والے حالات بیان کر رہا ہوں۔ ورنہ ان ساری باتوں سے کسی کا مذاق اڑانا مقصود ہے نہ کوئی تضحیک کرنا۔ ویسے بھی کیمرہ چلانا (آپریٹ کرنا) نہ آنے میں مذاق یا شرمندگی والی کوئی بات ہے بھی نہیں۔ یہ لازمی تو نہیں کہ ہر بندہ کیمرہ چلانا بھی سیکھے۔ ساری دنیا ڈاکٹر یا ہر بندہ ہر کام کا ماہر نہیں ہوتا۔ اگر کوئی بندہ کیمرہ آپریٹر نہیں تو اس میں عیب یا مسئلے والی کوئی بات نہیں۔ جبکہ مسئلہ تو تب ہوتا ہے کہ جب کوئی بندہ مطلوبہ کام نہ جانتے ہوئے بھی اسے عزت کا مسئلہ بنا لیتا ہے اور معذرت کرنے کی بجائے زورآزمائی کرنے لگتا ہے۔ یوں خود تو ”پھاوا“ ہوتا ہی ہے لیکن دوسروں کی بھی مت مار دیتا ہے۔

بہرحال جب ایسے بندے کو کیمرہ پکڑا کر تصویر بنانے کا کہا جائے کہ جسے آپریٹ کرنا نہ آتا ہو تو پہلے اُسے یہ بھی بتانا پڑتا ہے ”لینز کے آگے ہاتھ نہ لگائیو“۔ عموماً لوگ اس بات پر بُرا مناتے ہوئے کہتے ہیں ”سانوں وی پتہ اے“۔ خیر اس کے بعد وہ بھی سمجھانا پڑتا ہے کہ جو فوٹوگرافرز کے لئے نہایت معمولی باتیں ہیں۔ جبکہ میری طرح کا ایک ”کورا بندہ“ جس نے کبھی کیمرہ پکڑا تک نہ ہو اور جب اسے پہلی دفعہ چلانا پڑتا ہے تو اس کے لئے یہ باتیں معمولی ہرگز نہیں ہوتیں۔ اسے یہ بھی سمجھانا پڑتا ہے کہ ویوفائنڈر میں وہ جو نقطہ یا ڈبہ سا ہے، وہ فوکس پوائنٹ ہے اور جس چیز کو فوکس کرنا ہے، پہلے اس پر فوکس پوائنٹ لے جاؤ اور پھر کیمرے کے اس ”شٹر ریلیز بٹن“ (جس بٹن کو دبانے سے تصویر بنتی ہے) کو ہاف پریس کر کے فوکس کرو اور جب فوکس ہو جائے گا تو ہلکی سی ”ٹیں“ کی آواز آئے گی یا فوکس پوائنٹ والا ڈبہ فلاں رنگ کا ہو جائے گا۔ بس پھر بٹن کو مکمل دبا دینا تو ”کَڑی چم“ کی آواز آئے گی۔ ارے بھئی! دھیان سے پڑھو ”کَڑی چم“ لکھا ہے۔ کہیں ”کُڑی چُم“ پڑھ کر کسی اور راہ نہ چل دینا۔ خیر نئے بندے کو بتانا پڑتا ہے کہ فوکس کے بعد بٹن مکمل دبانے سے تصویر بن جائے گی۔ گویا نئے بندے سے فوٹوگرافر کو اپنی تصویر بنوانے کے لئے فوٹوگرافی یا کہہ لیں کہ کیمرہ آپریٹ کرنے کا پورا ابتدائی لیکچر دینا پڑتا ہے۔ جبکہ دوسری طرف بعض ”اگلے“ اس بات پر منہ بسورتے ہیں کہ سمجھا کیوں رہا ہے۔ کئی صاحب یا ”صاحبیاں“ یقیناً دل میں کہتے ہوں گے ”ایڈا توں فوٹوگرافر“۔ بلکہ کئی تو باقاعدہ کہہ بھی دیتے ہیں کہ اتنی تفصیل سمجھانے کی ضرورت نہیں۔ ہم اتنے بھی گئے گزرے نہیں کہ فقط ایک تصویر نہ بنا سکیں۔ ہم نے بڑے بڑے کیمرے چلائے ہیں۔۔۔ بندہ پوچھے کہ اگر نہ بھی چلائے ہوتے تو بھلا اس میں برائی کونسی ہے؟ اگر کسی نے سمجھا دیا تو کونسی شان میں گستاخی کر دی۔ ویسے ایسی باتوں کو لے کر ہمارے معاشرے نے بہت عجب معیارات اپنا رکھے ہیں۔۔۔ خیر وہ جو سمجھانے پر منہ بناتے پائے جاتے ہیں، ان پر جب تصویر بنانے کا مرحلہ آتا ہے تو کئی دفعہ عملی حالات ایسے ہوتے ہیں کہ جناب شٹر بٹن کو ہاف پریس کر کے فوکس تو کرتے ہیں مگر ساتھ ہی بٹن سے انگلی اٹھا لیتے ہیں۔ یوں دوبارہ بتانا پڑتا ہے کہ بٹن کو چھوڑیں نہیں بلکہ ہاف پریس کیے رکھیں اور جب فوکس ہو جائے تو بغیر چھوڑے ادھر سے ہی مکمل دبا دیں۔۔۔ یوں کئی تو تصویر بنانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں مگر بعض بار بار بتانے کے باوجود بھی نہیں ہوتے۔ اور ان میں سے کچھ لوگ تو الٹا غصہ کرتے ہوئے کہتے ہیں ”بڑا ہی نکما کیمرہ ہے۔ ایک تصویر بھی نہیں بنا پا رہا“۔ گویا کیمرہ ہی قصوروار ہے۔ خیر بعض سمجھدار لوگ بڑے اچھے انداز میں ”سوری ہم سے نہیں ہو گا“ کہہ کر کیمرہ واپس لوٹا دیتے ہیں۔۔۔

اک تصویر بنوانے کے لئے اتنا ”وخت“۔ لہٰذا اکثر اوقات فوٹوگرافرز ایسے تردد میں نہیں پڑتے اور کئی اہم مقامات پر بھی اپنی تصویر کو نظرانداز کر جاتے ہیں۔ ویسے جب مجھے اپنی منہ فوٹو بنوانی ہی بنوانی ہو تو کیمرے کو ”آٹو موڈ“ پر کر کے دوسروں کو پکڑاتا ہوں اور اگر اس سے بھی کام نہ چلے تو پھر سمارٹ فون سے ہی سمارٹ تصویر بنوا لیتا ہوں۔ خیر سے سمارٹ فون تو اب اکثریت بڑے سمارٹ انداز میں استعمال کر لیتی ہے۔ بہرحال ان مشکلات سے بچت تب ہوتی ہے کہ جب جناب لیپرڈ، مسٹر مارموٹ اور ریچھ صاحب وغیرہ ساتھ ساتھ ہوں۔ یوں سبھی کی موجاں ای موجاں۔۔۔ ایک دوسرے کی منہ فوٹوز بنانے کے ساتھ ساتھ ایک دوسرے سے سیکھتے بھی ہیں۔ بلکہ ایک حساب سے فوٹوگرافی کی ورکشاپ سی بھی سفر میں ساتھ ساتھ چلتی ہے۔۔۔ لیں جی! آپ نے کیمرہ آپریٹنگ کے متعلق چند ابتدائی باتوں اور احتیاطوں کا پوچھا تھا۔ سیدھے سیدھے بورنگ لیکچر کی بجائے شغل شغل میں لیکچر مکمل ہو گیا۔ ”ہور کوئی ساڈے لائق“؟ ویسے ایسے ہی شغل میلے میں کئی لیکچر پہلے بھی لکھ چکا ہوں۔۔۔ ”جے تہاڈی نظر وچوں نئیں گزرے تے میرا کوئی قصور نئیں“۔۔۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

تبصرہ تحریر کریں۔

Your email address will not be published. Required fields are marked *