ستمبر 21, 2010 - ایم بلال ایم
11 تبصر ے

ہم اور ہمارا کردار (دوم)

بسم اللہ الرحمن الرحیم
گذشتہ سے پیوستہ
پچھلی تحریر میں لکھا تھا کہ ”اپنے اصلی کردار کی پہچان کرنی ہو گی اور وہی کام کرنا ہو گا جس کے لئے ہم بنائے گئے ہیں۔“
ہماری روزمرہ زندگی میں کچھ بنیادی کام ایسے ہوتے ہیں جو عموماً ہر بندہ کرتا ہے۔ جیسے کھانا، سونا اور اسی طرح کے باقی کام۔ اس سے تھوڑا آگے جائیں تو مختلف لوگوں کی طرزِ زندگی کے حساب سے کچھ مزید کام ہوتے ہیں۔ جیسے لکھنے اور پڑھنے کا علم ہونا وغیرہ۔ آج کل ٹیکنالوجی کا دور ہے تو ٹیکنالوجی کی تھوڑی بہت سمجھ کا ہونا بھی ضروری ہوتا جا رہا ہے۔ اب جیسے کئی لوگ اپنے روزمرہ کے کاموں میں موبائل فون، کمپیوٹر اور دیگر ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہیں۔ یہ سب وہ کام ہیں موجودہ دور میں جن کا پتہ ہونا تقریبا ایک عام انسان پر ایک حساب سے لازم ہے۔ آپ یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ ان سب کاموں کا آنا اور بنیادی باتوں کا علم ہونا میرے حساب سے جنرل نالج میں آتا ہے۔ جو جتنا چاہے جنرل نالج حاصل کرے۔ جبکہ ہمارا اس دنیا میں کردار کیا ہے اور ہم کس کام کے لئے بنائے گئے ہیں یہ ایک علیحدہ چیز ہے۔ میں اپنے موضوع کی وضاحت کچھ اس طرح کروں گا کہ ہماری منزل کیا ہے اور ہم نے اس تک پہنچنے کے لئے کونسا راستہ منتخب کرنا ہے۔ دراصل ہمیں اس کی پہچان کرنی ہے۔
اگر آپ سوچ رہے ہیں کہ میں آپ کو منزل کی پہچان کروانے لگا ہوں تو ایسا کچھ نہیں۔ میں تو بس ان مسائل کو زیر بحث لانا چاہ رہا ہوں جن کی وجہ ہم اپنا راستہ اور منزل منتخب نہیں کر پاتے۔ پچھلی تحریر میں ایک وجہ یہ بھی لکھی تھی کہ ہم ہر کام میں ٹانگ اڑاتے ہیں اور اپنا کردار ادا کرنے کی بجائے دوسروں کا کردار ادا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ جس سے ہم ٹھیک طریقے سے کام نہیں کر پاتے اور جس کا کام تھا اس کو بھی ذلیل کرتے ہیں۔ ہم روز نئے نئے راستوں پر نکلتے ہیں اور آخر کار تھک ہار کر شام کو واپس وہاں پہنچ جاتے ہیں جہاں سے چلے تھے۔ ایک دن ایک کام میں دلچسپی لیتے ہیں تو دوسرے دن جب کسی کو کوئی دوسرا کام کرتے دیکھتے ہیں اور نظر آتا ہے کہ فلاں بندہ تو وہ کام بڑے زبردست انداز سے کر رہا تھا۔ مزید اس میں اضافہ تب ہوتا ہے جب کام کرنے والا بندہ پیسے بھی اچھے بنا رہا ہو۔ تب ہم اپنے آپ کو اور اپنی قابلیت کو دیکھے بغیر اس کام کی طرف چل پڑتے ہیں۔ پہلے سے جو بندہ کام کر رہا تھا وہ تو اس چیز کا ماسٹر تھا اس لئے وہ اچھے انداز سے کام کر رہا تھا۔ لیکن جب ہم وہ کام ٹھیک طریقے سے نہیں کر پاتے تو پھر اسے چھوڑ کر کسی نئے کام کی تلاش میں نکل پڑتے ہیں۔ یہ سلسلہ ہماری زندگی کے ساتھ ساتھ چلتا رہتا ہے اور ہماری اکثریت اسی طرح اپنی زندگی بے مقصد گزار دیتی ہے۔ نہ ساری زندگی خود کامیاب ہوتے ہیں اور نہ ہماری وجہ سے ملک و قوم کو کوئی خاص فائدہ ہوتا ہے۔ تھوڑا تھوڑا ہر کام تو کر لیتے ہیں لیکن ماسٹر کسی چیز کے نہیں بن پاتے۔ مگر جو لوگ اس طرح نہیں کرتے بلکہ اپنے اندر کے ماسٹر کی پہچان کرتے ہیں، اپنے کردار کے حساب سے دور کہیں یا نزدیک اپنی منزل منتخب کرتے ہیں اور پھر اس منزل پر پہنچنے کے لئے کسی ایک راستے پر چل پڑتے ہیں تو ایسے لوگ دن بدن اپنی منزل کے قریب ہوتے جاتے ہیں۔
چلیں یہاں اس کا ایک چھوٹا سا حل بھی دیکھتے ہیں۔ میری نظر میں ہمیں سب سے پہلے اپنے اندر کے ماسٹر کی پہچان کرنی ہو گی کہ ہم کونسا کام اچھے طریقے سے کر سکتے ہیں، جو ہماری فطرت کے مطابق بھی ہو اور وہ کام کرتے ہوئے ہمیں اچھا بھی لگے۔ یوں ہماری ایک منزل منتخب ہو جائے گی۔ پھر اس منزل تک پہنچنے کے لئے ہمیں راستہ منتخب کرنا ہو گا اور پھر سفر شروع کرنے سے پہلے سفر کی ضروریات دیکھتے ہوئے اپنا سامان باندھنا ہو گا اور پھر اللہ کا نام لے کر سفر شروع۔ دوران سفر کئی لوگ ملیں گے، بہت کچھ نیا دیکھنے کو ملے گا، کئی جگہ پر تھکاوٹ کی وجہ سے پاؤں تھوڑے بہت رک بھی جائیں گے، بہت احتیاطی تدابیر کے باوجود کہیں ڈاکو سب کچھ لوٹ کر بھی لے جا سکتے ہیں اور اسی طرح کئی دیگر مشکلات بھی ہو سکتی ہیں۔ لیکن کامیاب وہی ہو گا جس نے یہ سب ہونے کے باوجود چاہے آہستہ آہستہ ہی کیوں نہ سہی لیکن منزل کی طرف سفر جاری رکھا۔ فرض کریں اگر ہم منزل پر پہنچ گئے تو پھر آگے کیا ہو گا تو میں اس منزل کو کچھ اس طرح دیکھتا ہوں کہ ایک بار شمالی علاقہ جات کی سیر کے دوران میں نے اپنے ایک دوست سے پوچھا کہ یار اس پہاڑ کی دوسری طرف کیا ہے تو اس نے جواب دیا ”ایک اور پہاڑ“۔ ہماری منزل بھی کچھ ایسے ہی ہے کہ ایک منزل کے بعد دوسری منزل اور یہ ایک ایسا سلسلہ ہے جو شاید زندگی میں کبھی ختم ہونے والا نہیں۔ لیکن کامیاب وہی انسان ہوتے ہیں جو منزل کی جانب سفر کرتے ہیں۔
ہمارے معاشرے میں اور خاص طور پر نوجوان نسل میں ایک عجیب بے چینی ہے۔ منزل تو دور راستہ تک کی سمجھ نہیں آ رہی ہوتی۔ اسی بے چینی کی وجہ سے ہم ڈپریشن کا شکار ہوتے ہیں اور کئی بار غلط ہاتھوں بھی استعمال ہو جاتے ہیں۔ جہاں تک میں اس بے چینی کو سمجھ سکا ہوں تو اس کی جہاں ایک طرف وجہ ہمارے ملک کے حالات بھی ہیں تو دوسری طرف اور بڑی وجہ یہ ہے کہ ہم کرنا تو بہت کچھ چاہتے ہیں لیکن عملی طور پر کرتے کچھ نہیں۔ کیونکہ ہم اندر کے ماسٹر کو نہیں دیکھتے بلکہ دنیا کی بھیڑچال کو دیکھ کر چلنا چاہتے ہیں۔ ایک دن ایک کاروبار کا پلان بناتے ہیں تو دوسرے دن جب کسی کو کسی دوسرے کاروبار میں کامیاب دیکھتے ہیں تو اس طرف چل پڑتے ہیں۔ پھر تیسرے دن تیسری طرف۔ جبکہ اگر ہم سب سے پہلے اپنے اندر کے ماسٹر کی پہچان کریں اور پھر اس حساب سے کام کرنا شروع کر دیں، اپنے کام کے علاوہ کسی دوسرے کام میں ٹانگ نہ اڑائیں تو ہم بھی کامیاب اور معاشرہ بھی خوشحال ہو۔

ویسے اگر آپ تنگ آ چکے ہیں تو بلا ججھک بتا دیں۔ اس کو یہیں ختم کیے دیتے ہیں۔

اگلا حصہ:- ہم اور ہمارا کردار (سوئم و آخری)

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست 11 تبصرے برائے تحریر ”ہم اور ہمارا کردار (دوم)

  1. السلام علیکم ورحمۃ وبرکاتہ،
    بہت خوب بلال بھائی، اب ذراحل کی طرف بھی توجہ دیں وہی آپ کی بات سےمتفق ہوں کہ ہماری منزل کی نامزدنہیں توہم منزل تک کیسےپہنچےگےہم لوگ توواقعی اس بھیڑچال کی طرح ہی ہیں کہ لوگ جسطرف چلےہم بھی اسی طرف نکل پڑے۔ہمیں دراصل اپنےآپ کوپرکھناپڑےگاکہ ہم کس کام کواچھےطریقےسےکرسکتےہیں اوراس میں ماسٹربن سکتےہیں۔ اس میں جاویدچوہدری صاحب کی ان یوٹیوبرزمیں کافی کچھ ہےکہ ایک آدمی جوکہ ایک کلرک ہےلیکن کوئی ایکسڈنٹ ہوجاتاہےتووہ اس جگہ پرآگروکالت شروع کردیتاہےدراصل وہ وکالت اچھی کرلیتاہےلیکن افسوس کہ وہ کلرک ہےاوراسی طرح ہرانسان میں کچھ خوبیاں ایسی ہوتی ہیں کہ وہ دوسروں میں نہیں ہوتی لیکن ان کوآگےلےجانےکی کوشش کرنی چاہیے۔ اللہ تعالی ہم کوصحیح علم سمجھنےاوراس پرعمل کرنےکی توفیق عطاء فرمائیں۔ آمین ثم آمین
    والسلام
    جاویداقبال

  2. السلام علیکم ورحمۃ وبرکاتہ،

    بلال بھائی تحریر بہت اچھی لگی، اسے جاری رکھئیے۔۔۔ تنگ آنے والوں میں سے ہم ہیں نہیں۔ یہ تحریر ایسی ہے جو جس راستے کو اپنانے کا سوچ ریے ہیں ان کو اس راستے کو پانے کا جزبہ پیدا ہو گا۔
    :pray:

  3. جعفر میں نے اب تک تھری ایڈیٹ نام کی بلا نہیں دیکھی لیکن اسکے بارے میں سنا اتنا ہے کہ لگتا ہے کہ سو بار دیکھ چکا ہوں۔
    بہرحال بلال اچھی تحریر ہے۔ موضوع بھی اچھا ہے اور آپ نے سوچ کے بھی دیپ خوب جلائے ہیں۔ جاری رکھیں ہم اکتائے نہیں۔

  4. بلال کی یہی خوبی ہے ۔۔ کم کم لکھتے ہیں لیکن خوب لکھتے ہیں ۔۔۔۔ اب مجھے ان کے کم لکھنے کی وجہ سمجھ آ گئی ہے ویسے تو یہ اپنے مصروف ہونے کا بہانہ کرتے ہیں ۔۔ لیکن لگتا یہی ہے کہ پہلے بہت کچھ سوچتے ہیں ۔۔ اور پھر ان میں رنگ بھرتے ہیں ۔ اللہ پاک زور قلم اور زیادہ

تبصرہ تحریر کریں۔

Your email address will not be published. Required fields are marked *