مئی 4, 2013 - ایم بلال ایم
7 تبصر ے

ووٹ کس کے لئے؟

اللہ کے نام سے ابتدا، جو مہربان اور نہایت رحم کرنے والا ہے۔ وہ دلوں کے بھید خوب جانتا ہے۔

پاکستان میں الیکشن 2013 کی مہم اپنے عروج پر ہے۔ ٹوٹی سڑکوں پر خوبصورت گاڑیاں دوڑائی جا رہی ہیں۔ مشینوں اور ”پرنٹنگ پریس“ کے ساتھ ساتھ کئی انسان بھی دن رات چل رہے ہیں۔ ایک طرف اکثر چوہدری، وڈیرے اور سردار پاگل ہو کر بھیکاری بن چکے ہیں، تو دوسری طرف متوسط طبقے کے مخلص لوگ بھی امیدوار ہیں۔ ”چلو چلی“ کے اسی میلے میں عام زندگی کے علاوہ انٹرنیٹ پر بھی کئی احباب پوچھتے ہیں کہ پھر کس کو ووٹ دینے کا ارادہ ہے؟ میرا جواب ہوتا ہے کہ میں پچھلے دو انتخابات سے ووٹ دینے کے قابل ہوا ہوں۔ دونوں دفعہ اپنے دل کی آواز سنی اور اسے ووٹ دیا جس نے اس فرسودہ نظام کے خلاف تبدیلی کی صدا لگائی۔ اس دفعہ بھی اسی نظریے کے تحت ووٹ دوں گا۔

میں اس معاملے میں ہمیشہ ڈوبتی کشتی میں سوار ہوا، صاف پتہ چلتا تھا کہ یہ امیدوار کبھی نہیں جیتے گا لیکن پھر بھی میں نے اپنے ضمیر کی آواز پر ووٹ دیا۔ مجھے کسی کی ہار جیت سے کوئی فرق نہیں پڑتا، میں تو بس یہ دیکھتا ہوں کہ میں اچھائی کی طرف ہوں یا برائی کی طرف۔ ہمارے گاؤں کے لوگ برادری ازم کے تحت چلتے تھے، گو کہ ابھی تک حالات زیادہ تبدیل نہیں ہوئے لیکن پھر بھی پہلے کی نسبت تبدیلی آئی ہے۔ خیر ہمارے گاؤں میں جدھر برادری کہتی سارے ادھر ہی ووٹ دیتے، مگر میں نے اس معاملے میں کبھی برادری کی نہیں سنی۔ سوچ بچار کے بعد صرف اپنے دل کی سنی۔

2002ء میں جب کچھ مذہبی جماعتیں متحدہ مجلس عمل کے پلیٹ فارم پر جمع ہوئیں تو میں اتنے میں خوش تھا کہ چلو مذہبی جماعتیں متحد تو ہوئیں۔ جس حلقے میں ایم ایم اے کے گنے چنے ووٹ تھے، ان کی کشتی اس حلقے میں سو فیصد ڈوبی ہوئی تھی لیکن پھر بھی میں تبدیلی کی آواز سن کر اس کشتی میں سوار ہو گیا۔ ”ہم تو ڈوبے ہیں صنم تمہیں بھی لے ڈوبیں گے“ بالکل اسی طرح کئی احباب کو اپنے ساتھ ڈبویا۔ 😀 اور میں اس ڈوبنے پر خوش تھا بلکہ بہت مطمئن تھا۔ 2008ء والے انتخابات میں متحدہ مجلس عمل تو نہیں تھی لیکن اس دفعہ بھی پہلے کی طرح جو مجھے اچھا لگا اسے ووٹ دیا اور دوبارہ ڈوبتی کشتی میں سوار ہو گیا۔ 🙂

اب پھر انتخابات ہونے والے ہیں اور مجھے ”افسوس“ ہے کہ یار لوگوں کے رویے اور دلائل مجھے ووٹ ”نہ“ دینے پر قائل نہیں کر سکے۔ لہٰذا ووٹ تو ہم دیں گے اور جہاں تک ہو پا رہا ہے، اتنی انتخابی مہم بھی چلا رہے ہیں۔ کس کو ووٹ دینا چاہئے اس بارے میں میرا مشورہ ہے کہ رائے عامہ کا بہاؤ نہ دیکھیں بلکہ خود سوچ سمجھ کر جو بہتر لگے اسے ووٹ دیں۔ اپنے حلقے کے تمام امیدواروں کا موازنہ کریں، ہر امیدوار کا کردار دیکھیں، دیکھیں کہ وہ عوام کے کتنے قریب ہے، کیا آپ آج اور کل اس سے سوال و جواب کر سکتے ہیں وغیرہ وغیرہ؟

امیدوار کی پارٹی کے منشور کا تجزیہ کریں کہ آیا یہ صرف ”پبلسٹی سٹنٹ“ ہے یا یہ لوگ واقعی اپنے منشور پر عمل کر سکیں گے۔ پارٹی کا سابقہ منشور اور وعدے سامنے رکھیں اور دیکھیں کہ وہ ان پر پورا اتری تھی یا نہیں؟ اگر کوئی پارٹی ایسی ہے جو آج تک اقتدار میں نہیں آئی تو پھر دیکھیں کہ وہ پارٹی کتنی منظم ہے، اس میں کیسے لوگ موجود ہیں، ان کا کردار کیسا ہے اور کیا ان میں اتنا دم ہے کہ وہ کچھ بہتر کر سکیں؟ اگر پہلے کسی کو آزما چکے ہیں اور وہ اپنے منشور پر پورا نہیں اترا تو پھر ایسے گندے انڈوں کو بار بار نہ آزمائیں۔ اگر وہ اپنے منشور پر پورا اترے ہیں تو پھر یہ دیکھیں کہ اب ان کے مقابلے میں جو لوگ ہیں وہ ان سے اچھے ہیں یا نہیں؟

اشتہار بازی اور پیسے والوں سے متاثر نہ ہوں بلکہ سوچ سمجھ کر ووٹ دیں۔ شخصیت پرستی کے سحر اور گلیوں نالیوں کی سیاست سے باہر نکلیں۔ اپنے ذاتی مفادات چھوڑیں اور ملک کی فکر کریں۔ اگر ملکی نظام بہتر ہو گا تو یہ گلیاں نالیاں خودبخود بن جائیں گی۔ ہرگز یہ نہ دیکھیں کہ کون جیتے گا اور کون ہارے گا بلکہ اچھے اور قابل لوگوں کو ووٹ دیں۔ بے شک صاف پتہ چل رہا ہو کہ اچھا بندہ ہارے گا لیکن پھر بھی اپنے دل کی آواز سنیں اور اسے ووٹ دیں۔ اس سے آپ کا ووٹ ضائع نہیں ہو گا بلکہ ایک طرف اچھے لوگوں کو حوصلہ ملے گا اور وہ آئندہ بھی میدان میں اتریں گے، تو دوسری طرف برے بندوں کو یہ پیغام ملے گا کہ اب عوام ظلم کے خلاف کھڑی ہونا شروع ہو گئی ہے۔ اس طرح آہستہ آہستہ بہتری آئے گی۔ اس بات کو خاطر میں نہ لائیں کہ لوگ کیا کہیں گے، صرف یہی سوچیں کہ آپ کے ملک کے لئے کیا بہتر ہے۔ آپ سے پوچھا جاتا ہے کہ بتاؤ ان میں سے کونسا بندہ دوسروں کی نسبت بہتر ہے، تو پھر آپ کو بھی چاہئے کہ جو بہتر ہے اس کا اظہار بذریعہ ووٹ ضرور کریں۔

کچھ دن پہلے میں نے اپنی برادری کی شدید مخالفت کے باوجود اپنی رائے کا کھلم کھلا اظہار کیا اور کہا کہ مجھے فلاں بہتر لگتا ہے اس لئے میں تو اسے ہی ووٹ دوں گا۔ میں آزاد وطن کا آزاد شہری ہوں اور میں اپنی مرضی سے ووٹ دے کر اپنے حصے کا کردار ادا کروں گا۔ میں کسی کو یہ نہیں کہتا کہ فلاں کو ووٹ دو، صرف اتنی درخواست کرتا ہوں کہ خدارا! برادری ازم، شخصیت پرستی، تھانہ کچہری اور گلیوں نالیوں کی سیاست سے باہر نکلیں۔ سوچ سمجھ کر اچھے بندے منتخب کریں تاکہ پاکستان میں تبدیلی آئے اور ملک بہتری کی جانب گامزن ہو، ورنہ جو پہلے ہو رہا ہے وہ آپ کے سامنے ہے۔ میرے خیال میں اگر اب بھی ہم نے بہتر لوگوں کو ووٹ نہ دیا تو پھر ہمیں ملکی حالات پر شکوہ بھی نہیں کرنا چاہئے۔

اللہ تعالیٰ ہمارے ملک پاکستان کی حفاظت فرمائے اور اسے ترقی کی راہ پر گامزن کرے۔۔۔آمین

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست 7 تبصرے برائے تحریر ”ووٹ کس کے لئے؟

  1. مفت مشورے دینے کا شکریہ۔۔۔ ضمیر کی آواز پر لبیک کہیں گے لیکن “نقارخانے” میں طوطی کی آواز۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ضمیر کی صداوں کو سنے گا کون۔۔۔؟؟ غنودگی میں ڈوبا یہ ضمیر اور اس کی نحیف سی آواز۔۔۔۔ الیکشن کے دن تک ایک ہفتہ ہے شائد ضمیر مکمل جاگ جائے ۔۔۔۔ اللہ ہی جگائے اسے۔

  2. بھائی جی آپ نے ڈھیر سارے مشورے عنایت فرما دیے لیکن یہ نہیں بتایا کہ آپ اس مرتبہ ووٹ کس کو دے رہے ہیں۔ بتا دیں شاھد ہم بھی آپ کی پیروی کر لیں۔

  3. یار اتنی مختصر پوسٹ تھی تو نے ایویں لمیاں‌ لگائیں
    صاف صاف لکھ دیتا کہ ووٹ عمران کو ڈالنا اور بلے پہ مہر لگانا، نہیں تو فیر تیار ہو جاؤ دوبارہ سے ۔۔۔۔ پیٹنے کو

  4. ضمیر کی آواز اور دل کی پکار جس طرف لے جائے کشاں کشاں بڑھے چلو صرف یہ سوچ کر کہ ملک کو تبدیلی چاہیے اس نظام سے اور ہم نےایک چڑیا کی طرح اپنا فرض ادا کرنا ہے سود وزیاں سے آزاد ہو کر –

  5. صرف اتنا ہی کافی ہے ”اپنے حلقے کے تمام امیدواروں کا موازنہ کریں، ہر امیدوار کا کردار دیکھیں، دیکھیں کہ وہ عوام کے کتنے قریب ہے، کیا آپ آج اور کل اس سے سوال و جواب کر سکتے ہیں وغیرہ وغیرہ“۔ منشور کی فکر کی ضرورت نہیں ۔ جہاں آئین اور قانون پر عمل نہیں ہوتا وہاں منشور پر کون کرے گا

  6. ” ووٹ کس کے لیئے ” کےسلسلے میں گزارش ہے کہ امیدوار اگر حال ہی میں عوام کے قریب ہوا ہے تو یہ قریب ہونا صرف ووٹ کے لیئے ہے نہ کی آئندہ خدمت کے لیئے اسی طرح اس کا کر دار اگر حال ہی میں اچانک درست ہوگیا ہے تو یہ محض ووٹ کے حصول کے لیئے ہے اس سے پہلے وہ کہاں تھا یہ تو ذرا اس سے پوچھ لیں ۔لہٰذا میری گزارش ہے کہ ایسے امیدوار جو امیدوار بننے سے پہلے بھی عوام کے قریب تھے اور ان کاکردار پہلے بھی قابل رشگ تھا اور اب بھی اس میں کمی نہیں آئی تو یہ کام کا امیدوار ہو سکتا ہے اور ووٹ امانت سمجھ کر اس کے حوالے کر دیں کردار میں خدمت خلق کا جذبہ اور خلوص اولین شرائط ہیں۔ میں پاکستان سے 7 برس چھوٹا ہوں ہوش سنبھالنے کے بعد آج تک مجھے تو کوئی امانت دارنظر ہی نہیں آیا جسے ووٹ کی امانت سپرد کرتا کیوں کی اسلام میں جس امانت دار کی بابت بتایا گیا ہے شاید وہ پاکستان کی تاریخ میں پیدا ہی نہیں ہوا ۔

تبصرہ تحریر کریں۔

Your email address will not be published. Required fields are marked *