دسمبر 22, 2020 - ایم بلال ایم
تبصرہ کریں

ٹلہ جوگیاں کی ستاروں بھری رات

گذشتہ سے پیوستہ
جب ہم غروبِ آفتاب اور شفق کے نظاروں سے لطف اندوز ہو کر ریسٹ ہاؤس اور کیمپنگ سائیٹ کی طرف آئے تو محسن رضا نے گرما گرم لذید سوپ تیار کر رکھا تھا اور ساتھ میں چکن پکوڑا۔۔۔ واہ جی واہ! یہ تو جنگل میں شدید منگل ہو گیا۔ ”زیادہ حیران نہ ہوں، ابھی تو بدھ جمعرات بھی ہو گا“ محسن نے کہا۔۔۔ اور پھر ہم نے دیکھا کہ صرف بدھ جمعرات ہی نہیں بلکہ جمعہ ہفتہ اتوار بھی ہو گیا۔ وہ کیا ہے کہ سوپ کے بعد ایک طرف چاول تو دوسری طرف ساسوں کی موجودگی میں باربی کیو بننا شروع ہوا۔ ویسے وہاں تو کئی اقسام کی ساسیں تھیں، کوئی چھوٹے پیری پیری ساس، کوئی پچھل پیری ساس تو کوئی ننگی پیری۔ او ہو، یہ ذرا زبان پھسل گئی تھی، ورنہ میرا مطلب تھا کہ ساسز(Sauces) یعنی طرح طرح کی چٹنیاں۔ جن میں آلو بخارے کی چٹنی بھی تھی اور وہ بہت لذیذ تھی۔
کھانے کے دوران کسی نے کہا کہ محسن یار! وہ اونٹ والے بھائی اور ان کے دیگر صاحبان کو کھانا دے دیا؟ جواب میں محسن بولا کہ بے فکر رہو، ان کو بھی دے دیا ہے اور ساتھ ساتھ اونٹ اور گدھوں کو بھی کھلا رہا ہوں۔۔۔ ”ایہہ تے بے عزتی جئی نئیں ہو گئی“؟؟؟ نہیں جی، نہیں ہوئی۔ وہ کیا ہے کہ اتنے بندوں کے کھانے پینے اور کیمپنگ کا سامان ہی اتنا زیادہ تھا کہ ہمیں ٹلہ بیس کیمپ(بھیٹ گاؤں) سے بطور پورٹر ایک اونٹ، ایک گدھا اور تین عدد انسان ساتھ لینے پڑے تھے اور وہ رات ٹلہ ٹاپ پر ہمارے ساتھ ہی ٹھہرے تھے۔۔۔ کمال کرتے ہو پانڈے جی، حالانکہ ساتھ ٹھہرنے سے مراد یہ ہے کہ انسان خیموں اور ریسٹ ہاؤس کے اندر جبکہ اونٹ اور گدھا باہر تھے۔

جنگل میں ایسے کھانے نے منگل تا اتوار تو کیے لیکن پھر گاجر کے حلوے نے سوموار کر کے اخیر ہی کر دی۔ واہ محسن رضا واہ! آپ واقعی فوڈگرو ہو۔۔۔ کھانے کے بعد گپ شپ کا دور چلا اور ایسا چلا کہ خدا کی پناہ۔ ایک دوسرے کو ڈرانے کے واسطے ایسے ایسے اعلیٰ پائے کے جھوٹ بول کر کہانیاں سنائی گئیں کہ سیاستدانوں کے جھوٹ بھی ان کے آگے شرمائیں۔ کسی نے کٹی گردن کے انسانوں کو ٹلہ پر دکھایا تو کسی نے انسانی ڈھانچوں کا ناچ کرایا۔ حد تو یہ ہے کہ اتنی محنت کے بعد بھی کوئی نہ ڈرا۔ آخری حربہ کے طور پر کچھ لوگ گھپ اندھیرے میں آثارِ قدیمہ اور جنگل کی طرف ”گھوسٹ ہنٹنگ“ کے لئے گئے۔ میں نے اپنے تئیں گپیں تو بہت ہانکیں بلکہ جنگل میں ایک کنویں تک لے گیا، جس کے اندر ہڈیوں کا ڈھیر تھا۔ کمبخت کوئی بھی نہ ڈرا، الٹا فلیش آن کر کے تصویریں بناتے رہے۔

دل تھا کہ تاروں سے بھرے آسمان تلے، الاؤ جلے اور اس کے اردگرد بیٹھ کر کافی کا دور چلے۔ کافی کا دور تو چلا لیکن ساتھ کچھ احباب کو بحثوں کا دورہ بھی پڑ گیا اور اکثر احباب الاؤ جلانے سے کترانے لگے۔ خیر ٹلہ ہو، تاروں بھرا آسمان ہو اور الاؤ نہ جلے، رات کی ایسی بے حرمتی کم از کم اپنی برداشت سے باہر ہے۔ آخر میں اور کچھ دوست الاؤ جلانے چل دیئے۔ تھوڑی لکڑیاں آسانی سے مل گئیں اور پھر مزید خشک لکڑیوں کے لئے جنگل میں جانا تھا۔ اور اس بلی کے گلے گھنٹی باندھنے مزمل بھائی، عباس صاحب اور میں چل دیئے۔ ہاتھ تو زخمی ہوئے لیکن گھپ اندھیرے میں جیسے تیسے اتنی لکڑیاں اکٹھی کر لائے کہ رات گئے تک الاؤ روشن رہا۔ اسی دوران یہ تصویر بھی بنائی تھی۔ ”سٹار ٹریل“ کی یہ تصویر کیمرہ ٹرائی پاڈ پر لگا کر لانگ ایکسپوژر تکنیک سے بنی ہے۔ دائیں ہاتھ درخت پر اور میدان میں الاؤ کی روشنی ہے، جبکہ میدان کے درمیان سے ٹارچ گھماتا آثارِ قدیمہ کی طرف گیا اور وہاں جا کر مختلف دیواروں پر روشنی پھینکتا رہا اور اس دوران کیمرہ یہ روشنیاں اور ستاروں کی حرکت اپنے سینسر پر چھاپتا رہا اور یہ سب تقریباً تیس منٹس تک ہوتا رہا اور وہ ٹلہ جوگیاں کی ستاروں بھری کیا ہی شاندار رات تھی۔ آخر فوٹوگرافی کا مال سباب سمیٹ کر میں دوبارہ آگ تاپنے والوں میں شامل ہو گیا۔ اب کے گانوں کا دور چلا۔ محسن رضا نے کیا ہی خوب گیت سنائے۔۔۔
کچھ رِیت جگت کی ایسی ہے، ہر ایک صبح کی شام ہوئی
تو کون ہے تیرا نام ہے کیا، سیتا بھی یہاں بدنام ہوئی
پھر کیوں سنسار کی باتوں سے بھیگ گئے تیرے نیناں
کچھ تو لوگ کہیں گے، لوگوں کا کام ہے کہنا
چھوڑو بیکار کی باتوں میں کہیں بیت نہ جائے رینا

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

تبصرہ تحریر کریں۔

Your email address will not be published. Required fields are marked *