مئی 26, 2013 - ایم بلال ایم
10 تبصر ے

بلال ذرا سوچ! سولہ بچے

اللہ کے نام سے ابتدا، جو دلوں کے بھید خوب جانتا ہے۔

گجرات کے علاقے منگوال کے قریب سکول وین میں آگ لگنے سے ایک استانی اور سولہ بچے ہلاک۔ سننے میں آیا ہے کہ استانی بچوں کو بچانے کی کوشش میں خود بھی آگ کی لپیٹ میں آگئی اور زندگی کی بازی ہار گئی۔ یااللہ! اس عظیم استانی اور بچوں کے درجات بلند فرما، جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام اور لواحقین کو صبر عطا کر۔ جو بچے زخمی ہوئے ہیں انہیں مکمل صحت اور لمبی عمر دے۔ یااللہ! سب کے بچوں کی خیر ہو۔۔۔آمین

چھوڑ یار کیا ہے، زیادہ حساس نہ بن، یہ تو اس بدنصیب عوام کے لئے معمول بن چکا ہے۔ لیکن بلال ذرا سوچ! سولہ بچے۔۔۔ یار کیا کیا سوچیں؟ اس ملک کے گلی کوچوں میں آئے دن ایسے واقعات ہوتے ہیں۔ لیکن بلال ذرا سوچ! سولہ معصوم بچے۔۔۔ میں کہہ رہا ہوں کہ مجھے جذباتی نہ کر، ایسا یا اس سے ملتا جلتا اس ملک میں آئے روز ہوتا ہے۔ لیکن بلال ذرا سوچ! سولہ معصوم بچے آگ میں جل گئے۔ میں نے تمہیں کہا ہے کہ خدا کے واسطے ایسا نہ کر۔ اپنی بدنصیبی پر کیا کیا سوچوں؟ کس سے شکوہ کروں؟ کس سے سوال کروں؟ کس کا گریبان پکڑ کر پوچھوں کہ بتا ایسا ہمارے ساتھ کیوں ہو رہا ہے؟

خدا کے لئے مجھ پر رحم کر۔ میں اس سوچ سے نکلنا چاہتا ہوں مگر تم ہو کہ بار بار مجھے یہ یاد کرواتے ہو کہ سولہ معصوم بچے۔ مجھے یاد نہ کروا کیونکہ اس طرح مجھے اور بہت کچھ یاد آنے لگتا ہے۔ مجھے ڈرون حملوں میں مارے جانے والے معصوم بچے یاد آتے ہیں۔ مجھے خودکش حملوں میں استعمال ہونے والے بچے یاد آتے ہیں۔ بھوک پیاس سے مرتے بچے یاد آتے ہیں۔ جعلی ادویات اور علاج نہ ہونے کی بنا پر مرنے والے بچے یاد آتے۔ تعلیم سے محروم سڑکوں پر مانگتے بچے یاد آتے ہیں۔ معصوم ہاتھ مزدوری کرتے اور مالک کی مارپیٹ کھاتے یاد آتے ہیں۔ مجھے زلزلے میں مرنے اور زخمی ہونے والے بچے یاد آتے ہیں۔ کلر کہار بس حادثے میں مرنے والے وہ تیس پینتیس بچے یاد آتے ہیں جو گھر سے سیروتفریح کرنے نکلے۔ مجھے وہ لمحے بھی یاد آتے ہیں جب جلالپورجٹاں میں سکول کی چھت گری اور ملبے سے معصوم لاشے نکلے۔ اسی شہر میں شراب کے نشے میں دھت پولیس والے کی گولیوں سے مرنے والے دو بچے یاد آتے ہیں اور پھر وہ پولیس والا واپس اپنی ڈیوٹی پر بحال ہو گیا۔ مجھے جنسی زیادتی کا شکار اور اس کے بعد قتل کیے جانے والے بچے یاد آتے ہیں۔ مجھے وہ معصوم بچیاں یاد آتی ہیں جنہیں اغواء کر کے عیاشی کا سامان پیدا کیا جاتا ہے۔ مجھے اونٹ دوڑ میں استعمال ہونے والے بچے یاد آتے ہیں۔ خدارا! مجھے یاد نہ کروا، مجھے کربلا یاد آتا ہے۔ سیالکوٹ کے علاقے میں دو بھائیوں کے ساتھ یزیدیت اور ظلم کی انتہا یاد آتی ہے جس میں دو بھائی سرعام۔۔۔افف۔۔۔ ہمیں سوچنے پر مجبور نہ کر کیونکہ اس طرح ہمیں بے شمار دردناک لمحے یاد آئیں گے جبکہ ہمارا تعلق تو بھول جانے والی قوم سے ہے۔ یاد نہ کروا کیونکہ یہاں یاد کرنے سے کچھ نہیں ہونے والا۔ یہاں بہتوں کے ساتھ ساتھ حکام بھی سو رہے ہیں۔

لیکن بلال ذرا سوچ! سولہ معصوم بچے۔۔۔ تجھے خدا کا واسطہ، مجھے سولہ بچے بھولنے دے۔ نہیں تو مجھے روتے رشتہ دار اور تڑپتی، پاگل ہوتی، دھاڑیں مار کر روتی مائیں، یاد آتی ہیں۔ سولہ بچے۔۔۔ مجھے وہ آگ کے شعلے یاد آتے ہیں اور ان شعلوں میں دم توڑتے۔۔۔۔۔

خدایا! رحم کر۔۔۔ میرا دماغ کام کرنا چھوڑ رہا ہے، مجھے نہیں پتہ کہ یہ سب کیا ہے، ہمارے ساتھ ایسا کیوں ہو رہا ہے؟ آیا یہ عذاب ہے یا امتحان ہے اور اب ہمیں کیا کرنا چاہئے؟ میری سمجھ میں کچھ نہیں آ رہا۔ یا خدا! میں تجھ سے رحم طلب کرتا ہوں۔ میرے اللہ! ہماری خطائیں معاف کر، ہمیں سیدھے راستے پر چلا اور ہمیں ایسے سانحوں سے بچا۔ میرے اللہ! رحم رحم رحم۔۔۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست 10 تبصرے برائے تحریر ”بلال ذرا سوچ! سولہ بچے

  1. اتنا شور مچانا ۔۔۔اپنی انرجی ضائع کرنے والی حرکت ہے۔۔
    چھ ماہ کی بچی کو آٹھویں منزل سے باہر اچھال دیا گیا۔
    چند دن پہلے کی ہی خبر نظر سے گذری تھی۔۔
    سکتے سے نکلنے کے بعد میں نے کچھ اس طرح سو چا تھا۔
    پالتے پوستے پڑھاتے لکھاتے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔پھر شادی بیاہ جہیز کا خرچہ اٹھاتے۔۔
    الفاظ میں کہنا آسان ہے۔لیکن بیٹیوں والوں کیلئے یہ دورانیہ عذاب ہوتا ہے۔
    معاشرے میں جب تک بچے سب کی اجتماعی طور اگلی نسل ہے کا احساس پیدا نہیں ہو گا۔
    انسان کے بچے ہوں یا کسی بھی جاندار کے اس طرح کے واقعات کے بعد بس دکھ ہی محسوس کیا جاسکتا ہے۔

  2. یہ آگ جب تک لگانے والوں کے گھر تک نہ پہنچے اُن کو احساس نہیں ہوتا اور ہم اپنے گھروں میں بیٹھنے والے بھی اگر اسے ایک خبر جان کر صرف‌ نظر کر دیں تو ہمیں مکافات َعمل سے ڈرنا چاہیے ،اس لیے جس کی جتنی صلاحیت ہے وہ آواز اُٹھائے -بےحسی بانجھ نہیں ہوتی اس کی کوکھ سے کبھی نہ کبھی آزمائش جنم لے ہی لیتی ہے ہمیں‌اس وقت سے ڈرنا چاہیے -اللہ اُن معصوم بچوں اور اس استاد کے گھر والوں کو صبر َجمیل عطا فرمائے، اللہ تعالٰی آپ پر اپنا کرم جاری رکھے اور ہم سب کو بھی سیدھی راہ پر چلنے کی
    تو فیق دے -آمین-

    1. یہ آگ جب تک لگانے والون کے گھر تک نہ پہنچے !!!
      کیسے پہنچے اور کون پہنچائے— ایسا وہ خود بھی کرلیتےہین تب بھی الزام ہم پر ڈال دیتے ہین ایک ایسی سوچ جو دشمن کی فکر کو شکست دے سکے کون سوچے گا؟؟؟

  3. کل سے شیئر ہوتے خبروں کے لنک نظر انداز کئے جا رہا ہوں میں، بار بار کبھی اس تصویر پہ کلک کر اور کبھی اس پہ۔۔۔۔ بس کسی طرح یہ خبر اور اس کی تفصیلات نہ سننے یا پڑھنے کو ملیں۔۔۔ لیکن صرف ایک لمحے کیلئے سوچنا ہی کافی ہے، ایک لفظ پڑھتے ہی لرزا طاری ہو جاتا ہے۔ پتا نہیں کیسے یہ خبر پڑھی ہوگی لوگوں نے، کیسے اس کے “بقیہ” والے صفحے تک گئے ہوں گے۔ شکر ہے یہاں ٹی وی نہیں ہے میرے پاس۔۔ اور وہ مائیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بس اس سے آگے کچھ سوچنا ہی محال ہے۔ یا اللہ رحم!

  4. بڑی مشکل سے پڑھنے کی ہمت کی۔ جب سے آپ نے پوسٹ کیا ہے تب سے لنک کھولنے کی ہمت ہی نہیں ہو ری تھی۔
    کچھ کہنے کے لئے الفاظ نہیں ملتے ۔کیا کہیں کیا سنیں۔ دماغ میں آندھیاں چل رہی ہیں لیکن کچھ سمجھ نی آ رہا کہ کیا بولوں۔ حکمرانوں کی نا اہلی کا رونا روؤں یا اجتماعی ضمیر کی موت کا ماتم کروں۔ یا پھر ان معصوم کلیوں کے والدین کو پرسہ دوں۔
    یا اللہ رحم

  5. فقط رحم۔۔۔! یا اللہ ہم پر رحم فرما۔۔۔۔ہم تباہی کے د ھانے پر کھڑے ہیں۔۔رحم۔۔۔

  6. یقینا اس سانحے کا ذمہ دار کسی حد تک تو یہ ڈرائیور بھی ہے مگر سچ تو یہ ہے کہ ہم سب بھی کسی نہ کسی حد تک اس سانحہ کے ذمہ دار ہیں ، سب سے پہلے تو ہمارے وہ ادارے کہ جو گاڑیوں کی فٹنس اور اُن میں موجود حفاظتی انتظامات کی دیکھ بھال کے ذمہ دار ہیں ، پھر سڑکوں اور بازاروں میں موجود ٹریفک وارڈن ، پولیس کہ جو سوائے اپنی جیبیں بھرنے کے ایسی گاڑیوں کے خلاف کوئی عملی اقدام نہیں کرتے اور پھر ہم لوگ خود کہ جو اپنے بچوں اور پیاروں کو ایسے چلتے پھرتے بموں پر سوار کراتے وقت ذرا بھی نہیں سوچتے ، کاش ان بچوں کے والدین ہی اگر اس گاڑی کے ڈرائیور سے اُس کا فٹنس سرٹیفکٹ یا اُس کے سی این جی سیلنڈر کا فٹنس سرٹیفکٹ دیکھ لیتے تو یقینا آج وہ اس حادثے کا شکار نہ ہو تے ۔
    یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں ! ہر واقعہ کے بعد ہم لوگ سوچتے ہی کہ ایسا ہمارے ساتھ نہیں ہو گا ، ہم اپنی ذمہ داریوں سے بچنے کے لیے مجبوریاں اور بہانوں کی آڑ ڈھونڈھ لیتے ہیں ہر غلط کام کے ہمارے پاس ہزار ہا بہانے اور دلیلیں ہو تی ہیں ۔
    پوری دُنیا میں ، سی این جی اگر ٹرانسپورٹ میں استعمال ہوتی بھی ہے تو وہ صرف پبلک ٹرانسپورٹ میں استعمال ہوتی ہے ، ذاتی استعمال کی گاڑیوں میں صرف پیٹرول اور ڈیزل کا استعمال ہی ہوتا ہے ، اور اگر کچھ ممالک میں سی این جی عام گاڑیوں میں استعمال کی بھی جاتی ہے تو وہاں سیلنڈر اور اس کے پورے سسٹم کی فٹنس جانچنے کا موئثر نظام ہوتا ہے ۔
    مشرف کے زمانے میں اپنے سیاسی حلیفوں کو نوازنے کے لیے دھڑا دھڑ سی این جی کے لائسنس دئیے گئے ، کسی نے یہ نہ سوچا کہ اگر سی این جی گاڑیوں میں استعمال ہو گی تو گھریلوں صارفین کیا کرینگے ؟ صنعتی یونٹس کیسے چلینگے ؟ بجلی کیسے پیدا کی جائے گی ؟ اور ممکن ہے سوچا بھی ہوں مگر اس طرح کہ جب بجلی نہ ہو گی تو لوگ بجلی پیدا کرنے کے لیے جنریٹر خریدیں گے ، اور یوں جنریٹر برآمد کرنے کے لائسنس دئیے جائینگے اور ملک میں ایک نئی صنعت شروع ہو گی ، جنریٹرز کی برامد کے بعد پیٹرول کو مزید مہنگا کیا جا سکے گا ، یہ ایک عجیب و غیرب جال ہے ، جتنا بھی کھولا جائے اتنا ہی اُلجھتا جاتا ہے ۔
    کاش ہم لوگ بھیثیت ایک قوم کے اپنی ذمہ داریاں سمجھ سکیں ۔
    آصف احمد بھٹی

تبصرہ تحریر کریں۔

Your email address will not be published. Required fields are marked *