اپریل 19, 2012 - ایم بلال ایم
16 تبصر ے

میں نے انگلی سے زمین گھما دی

آج میں نے انگلی کے ہلکے سے دباؤ سے پوری زمین گھما دی۔ لگتا ہے آپ کو پتہ نہیں چلا۔ پتہ چلتا بھی کیسے؟ زمین تو پہلے ہی گھوم رہی ہے اور زمین کے ساتھ ساتھ اس کا پورا کرہ گھوم رہا ہے تو پھر آپ کو کیسے پتہ لگتا کہ آج میں نے پوری دنیا گھمائی؟ صرف چند ایک چیزوں سے پتہ چل سکتا تھا، جیسے جلد ہی دن یا رات ہو جاتی، مگر میں بھی بڑا سیانا ہوں۔ کچھ اس طرح گھمائی کہ دن اور رات میں کوئی فرق نہیں پڑا یعنی سورج کے حساب سے ہی گھمائی۔ البتہ اس وقت کوئی آسمان کی طرف دیکھ رہا ہوتا تو شاید بادلوں وغیرہ سے پتہ چل جاتا مگر آسمان پر غور کرنا تو ویسے ہی بڑے عرصے سے ہم پر ”حرام“ کر دیا گیا ہے۔ باقی جہاں رات تھی وہاں یقیناً تاروں کی وجہ سے پتہ چل جاتا لیکن آج کل تارے کون دیکھتا ہے؟ وہ زمانے گئے جب عاشق چاند کو دیکھتے ہوئے اور تارے گنتے ہوئے راتیں گزار دیتے تھے۔ اجی! آج کل زمانہ بدل گیا ہے۔ کوئی کسی کے ہجر میں نہیں روتا۔ اِدھر رات ہوتی ہے اُدھر ایک نئی دنیا آباد ہوتی ہے۔ جب سارا جگ سوتا ہے تبھی موبائل آن ہوتا ہے۔ وہ جو سارا دن سوتی ہیں وہ رات کو سڑکوں پر ہوتی ہیں۔

او ہو بات کہاں نکل گئی۔ ہاں تو میں کہہ رہا تھا کہ میں نے زمین کچھ اس طرح گھمائی کہ اوپر والے گھوم کر نیچے گئے اور نیچے والے اوپر آ گئے۔ کیسی عجیب بات ہے کوئی الٹا ہونے کی وجہ سے گرا کیوں نہیں۔ اجی گرتا کیسے کشش ثقل (Gravity) نے ہر چیز کو اپنی طرف جو کھینچ رکھا ہے۔ کبھی کبھی میں سوچتا ہوں کہ قطب شمالی سوچتا ہو گا کہ میں اوپر ہوں اور قطب جنوبی نیچے ہے مگر قطب جنوبی پر جا کر دیکھا جائے تو قطب شمالی نیچے ہو جاتا ہے۔ یہ زمین بھی عجب شے ہے۔ جہاں جاؤ وہاں اوپر آسمان اور نیچے زمین ہوتی ہے۔ آپس کی بات ہے زمین پر تو سمتیں ہوتی ہیں کیا زمین کے مدار سے باہر بھی سمتیں ہوتی ہیں؟ وہاں یقیناً سیانے لوگ یہ کہتے ہوں گے کہ ہمارے دائیں طرف زمین ہے اور بائیں طرف فلاں سیارہ۔ اس کا مطلب ہے انسان ہر چیز کی پہچان دوسری چیز کی وجہ سے کرتا ہے۔ جیسے برائی نہ ہوتی تو کیسے پتہ چلتا کہ اچھائی کیا ہے۔ گرمی نہ ہوتی تو ٹھنڈک کا کیسے پتہ چلتا۔ اندھیرہ نہ ہو تو پھر روشنی کی قدر کون کرتا۔ یا پھر کہیں ایسا تو نہیں کہ ایک چیز کی غیر موجودگی ہی دوسری چیز ہوتی ہے۔ جیسے اچھائی کی غیرموجودگی برائی، گرمی کی غیرموجودگی ٹھنڈک اور روشنی کی غیر موجودگی اندھیرہ۔

معافی چاہتا ہوں جناب! ایک تو بات بات پر دماغ کھسک جاتا ہے اور بات کہاں کی کہاں نکل جاتی ہے۔ ہاں تو میں کہہ رہا تھا کہ زمین پر سمتیں ہوتی ہیں۔ دائیں بائیں اوپر نیچے۔ اوپر نیچے سے یاد آیا کہ اگر ہم اوپر کی طرف سفر کریں تو سب سے پہلے زمین کے مدار سے نکل کر خلاء میں داخل ہو جائیں گے، پھر سفر کرتے ہوئے کئی سیاروں کو دیکھیں گے۔ فرض کریں اگر ہم زمین سے مخالف کسی ایک سمت میں مسلسل سفر کرتے رہیں تو آخری منزل کیا ہو گی؟ کیا سائنس کے پاس اس کا کوئی جواب ہے؟ کیا مذاہب عالم کے پاس اس کا کوئی جواب ہے؟ فرض کریں سائنس کہتی ہے کہ کہکشاں در کہکشاں سفر کرتے رہیں تو اتنے کروڑ نوری سال کے بعد آخر پر ایک بہت بڑی پرت آ جائے گی۔ تو پھر میں یہ جاننا چاہتا ہوں کہ اس پرت کی دوسری طرف کیا ہو گا اور اس دوسری طرف کے بعد کیا ہو گا؟ فرض کریں کوئی مذہب یہ کہتا ہے کہ آخر پر جنت یا دوزخ آ جائے گی تو میں جاننا چاہتا ہوں کہ اس جنت یا دوزخ سے پار کیا ہوگا؟ یہاں پر مولبی صاحب سے کچھ کہتا چلوں کہ مولبی جی آپ سے گذارش ہے کہ ہاتھ تھوڑا ”ہولا“ ہی رکھنا۔ وہ کیا ہے کہ میں (م بلال م) اللہ پر مکمل یقین رکھتا ہوں اور محمدﷺ کو آخری نبی مانتا ہوں۔ آپ سوچ رہے ہوں کہ مولبی یہاں کہاں سے آ گیا؟ تو جناب وہ کیا ہے کہ ہم نے انگلی ہلائی اور اتنی بڑی زمین گھمائی مگر پھر بھی کوئی تیر نہیں مارا لیکن ہمارے مولبی صاحب کی بس زبان ہلتی ہے، زمین تو کیا ساری خدائی گھومتی ہے۔ بس اس لئے مولبی صاحب کا تھوڑا سا ”ترلا“ کر لیا ہے۔

ہاں تو میں کہہ رہا تھا کہ اگر آسمان کی طرف سفر کریں تو آخری حد کیا ہو گی؟ فلاسفربہت مغز ماری کرے گا۔ سائنسدان حساب کتاب میں کھو جائے گا اور آخر کار کہے گا کہ یہ لامحدود (Infinite) ہے۔ حساب کتاب سے یاد آیا کہ اگر ہم گنتی گننا شروع کریں تو اس گنتی کی حد کیا ہو گی؟ اس کا جواب بھی یہی ہے کہ اس کی کوئی حد نہیں اور یہ لامحدود ہے۔ اس لفظ ”لامحدود“ کو ذہن میں رکھئے گا۔

سائنس کہتی ہے کہ اتنے کروڑ سال پہلے دنیا وجود میں آئی۔ میں سوچتا ہوں کہ ان کروڑوں سالوں سے پہلے کیا تھا؟ جب یہ دنیا ختم ہو جائے گی یا فرض کریں کہ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ دنیا کبھی ختم نہیں ہو گی تو پھر کیا کوئی بتا سکتا ہے کہ آخر یہ کب تک چلے گی؟ تو اس کا جواب بھی لامحدود ہی ملتا ہے۔ قیامت آئے گی، حساب کتاب ہو گا، جنت یا دوزخ ملے گی تو پھر اس کے بعد کی زندگی کب تک ہو گی، تو اس کا جواب بھی لامحدود۔ ہم تو آج تک یہی معلوم نہیں کر سکے کہ گنتی میں 1 کے بعد یہ جو 2 آتا ہے ان دونوں کے درمیان اور کتنے ہندسے آتے ہیں؟ یہاں بھی لامحدود کہہ کر جان چھڑائی جاتی ہے۔ یہ وقت کب شروع ہوا اور وقت سے پہلے کیا تھا؟ جب وقت ختم ہو گا تو اس کے بعد کیا ہو گا؟ ایٹم کے چھوٹے سے چھوٹے ذرے کے اندر کیا ہے اور پھر اس کے اندر کیا؟ بڑی بڑی چیزوں کی طرف عقل دوڑانے کی بجائے اتنا سوچتے ہیں کہ کسی چیز کو چھوٹے سے چھوٹا کریں تو وہ مائیکرو بن جائے گی مزید چھوٹا کریں اور مزید چھوٹا کریں، بے شک آنکھ کو نظر نہ آئے لیکن اس کو چھوٹا کرنے کی حد کیا ہے؟ کیا ”لا محدود“؟؟؟

کچھ لوگ کہتے ہیں کہ انتظار کرو اور دیکھو۔ مگر میں کیوں انتظار کروں؟ کل کیا ہو گا مجھے کیا معلوم، میں آج میں زندہ ہوں اور میں نے جو کرنا ہے آج ہی کرنا ہے۔ کیا مجھے کوئی بتائیے گا کہ یہ لامحدود ہے کیا؟ کیا یہ لامحدود کوئی روشنی ہے؟ کیا یہ لامحدود کوئی چیز ہے؟ کیا یہ لامحدود کوئی طاقت ہے؟ یا پھر کہیں ایسا تو نہیں کہ جو خود لامحدود ہے اس کی حدیں ، صورت یا وجود کا عقل کیسے احاطہ کر سکتی ہے کیونکہ عقل چاہے زمین کو ہلا دے لیکن اس کی ایک حد ہے اور جب اس کے گھوڑے دوڑائیں تو ہر چیز کی حدیں مقرر ہوتی ہیں اور جو عقل سے باہر ہو اسے لامحدود کہہ کر چلتے بنتے ہیں۔ آپس کی بات ہے آخر عقل کی حد کیا ہے؟؟؟

کبھی وقت ملے تو میری طرح اپنی عقل کی زمین گھمائیے گا، دماغ کا دہی بنائیے گا اور سوچئے گا کہ آخر یہ لامحدود ہے کیا۔ بہر حال ہمیں تو اس معاملے میں سکون ہے کیونکہ تھوڑا بہت دوڑنے کے بعد ہمیں تو صرف یہی ملا ہے کہ ”جب تھا نہ کچھ یہاں، تھا مگر تو ہی تو“ بلکہ تو بھی لامحدود ہے، جس کا عقل احاطہ کر ہی نہیں سکتی۔ تو لاشریک ہے۔ اس لامحدود کی اصل سمجھ صرف تجھے ہی ہے۔ تو تو کیا تیری بنائی ہوئی کسی ایک چیز کا عقل احاطہ کرنے چلے تو صدیاں بیت جائیں مگر پھر بھی عقل کے لئے وہ لامحدود ہی رہے گی۔ بس مجھے لگتا ہے کہ جو جتنے عقل کے گھوڑے دوڑائے گا، وہ اتنا فاصلہ طے کرے گا اور اتنا ہی اس لامحدود کے قریب پہنچے گا، گو کہ لامحدود پھر بھی لامحدود ہی رہے گا کیونکہ لامحدود سفر میں سے کچھ نکال بھی دیں تو وہ لامحدود ہی رہتا ہے، اعداد کے جادوگر اس بات کو اچھی طرح جانتے ہیں۔ خیر میں کہہ رہا تھا کہ جو جتنے عقل کے گھوڑے دوڑائے گا، وہ اتنا فاصلہ طے کرے گا اور اتنا ہی اس لامحدود کے قریب پہنچے گا، شرط صرف اتنی ہے کہ وہ انسانیت سے مخلص ہو اور انسانیت میں اس کا اپنا آپ سب سے پہلے آتا ہے۔ کئی دفعہ عقل کے گھوڑے دوڑانے کے بعد یہ بھی ہوتا ہے، جسے حکیم الامت علامہ محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ کچھ یوں بیان فرماتے ہیں۔
عطا اسلاف کا جذب دروں کر
شريک زمرۂ لا يحزنوں ، کر
خرد کی گتھیاں سلجھا چکا ميں
مرے مولا مجھے صاحب جنوں کر

چلتے چلتے آپ کو بتاتا چلوں کہ میں نے انگلی کا ہلکا سا دباؤ کمپیوٹر کے ماؤس پر ڈالا اور گوگل ارتھ میں زمین گھوم گئی۔ آپس کی بات ہے آپ اصلی زمین بھی ہلا سکتے ہیں۔ یہ میں نہیں کہہ رہا بلکہ سنا ہے ارشمیدس نے کہا تھا کہ اگر مجھے کھڑے ہونے کی جگہ دے دو تو میں زمین کو لیور کی مدد ہلا سکتا ہوں۔ اب آپ کے لئے شرط یہ ہے کہ خلاء میں کھڑے ہونے کی جگہ خود تلاش کریں۔ مگر ”ہنوز خلاء دور است“ وہ کیا ہے کہ مولبی صاحب کہتے ہیں کہ آسمان کی طرف غور کرنا ٹھیک نہیں۔ بس چند عبادات ہی اصل چیز ہے جبکہ آسمان پر غور کرنا اور اس جیسے دیگر کام۔۔۔ خیر چھڈو جی۔۔۔

اے میرے اللہ میں تیرا ایک بہت ہی کمزور بندہ ہو۔ اب پتہ نہیں میرا شمار کہاں اور کس کھاتے میں ہوتا ہے، مگر میں نے اپنی طرف سے چھوٹی سی کوشش کی ہے اور مجھے تو ہر چیز ہی لامحدود نظر آئی۔ مجھے تو ہر سمت میں ایک لامحدود ہستی نظر آئی۔ میں مزید کوشش کروں گا کہ غور کر سکوں باقی اب مجھے ”مولبی“ اور سائنس کے غلاموں سے بچانا تیرا کام ہے۔
اے میرے اللہ مجھے سیدھا رستہ دکھا، رستہ ان لوگوں کا جن پر تو نے انعام کیا، نہ کہ گمراہوں کا۔۔۔آمین

نوٹ:- ”نظریاتی اختلاف“ اور ”نظریہ کی توہین“ کے درمیان فرق سمجھتے ہوئے آپ اختلاف کرنے اور مجھے درست بات سمجھانے کا پورا پورا حق رکھتے ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست 16 تبصرے برائے تحریر ”میں نے انگلی سے زمین گھما دی

  1. ثابت ہوا کہ مرشد معرفت کی لا محدود منازل کی طرف رواں دواں ہے۔ 😀
    خوب تحریر ہے !

    “اتنا ہی اس لامحدود کے قریب پہنچے گا” از مرشدی
    نہیں ، لامحدود سے قربت ممکن نہیں، فاصلہ جتنا مرضی طے ہوجائے ، بقیہ فاصلہ بھی لامحدود ہی رہے گا۔ 🙂

  2. ہم نام بھائی!
    بہت خوشی ہوئی تخیل کے پنچھی کے پر تو کھولے آپ نے۔ اب اس کو اڑنے دیں جہاں تک اڑ سکے۔ بالآخر تھک جائے گا۔ تب اسے پتا چلے گا جو کچھ وہ کائنات کی وسعتوں میں تلاش کرتا رہا وہ سب اس کے اندر موجود تھا۔
    چور دلے دے اندر سی
    کثرت فریبِ نظری ہے ، وحدت عین حقیقت۔
    علموں بس کریں او یار
    اکو الف تینوں درکار
    ایک لمحہ کی قید میں مقید اس زمان و مکاں کی وسعتیں
    سمٹے تو دلِ عاشق، پھیلے تو زمانہ ہے۔
    اگر ایٹمی طبیعات کا ایک موضوع Atomic Fission آپ کی نظر سے گزرا ہو تو سمجھتے ہوں گے کہ تقیسم در تقسیم کے پیچھے وحدت ہی ہے۔ جس کو ہم کثیر و لا متناہی سمجھ رہے ہیں۔
    احباب اختلافِ رائے کا حق محفوظ رکھتے ہیں
    بہر حال کبھی تشریف لائیے گا۔ ہمارے غریب خانے پر۔ اردو کمپیوٹنگ پر آپ کی خدمات یقینا تاریخ میں سنہری حروف میں لکھے جانے کے قابل ہیں۔
    والسلام مع الاکرام
    خوش رہیں ، بہت جئیں
    احقر
    ملک بلال

  3. آپ کے اٹھائے گئے تمام سوالات ہر اس عام آدمی کے سوال ہیں‌جو غور کرتا ہے۔
    بہت عمدہ لکھا ہے۔ آپ کی پہلی تحریر ہے جو میں حرف بحرف ایک ہی نشست میں پڑھ گیا۔
    اعلی

  4. اچھی تحریر ہے ، ویسے مولوی حضرات کو بلاوجہ بیچ میں گھسیٹا گیا ہے ۔ آپ اگر ہماری بات کو اپنی توہین نہ سمجھیں تو ہمیں بتائیں گے کہ آسمان میں غور کرنے پر کس مولوی نے فتوی لگایا ہوا ہے، ہاں اللہ کی‌ذات پر غوروفکر سے منع ضرور کیا جاتا ہے اس میں بھی حکمت ہے اور اس موضوع پر کافی لکھا پڑا ہے۔مولوی حضرات کی ہلال کمیٹیاں آسمان پر ہی تو سرچ کرکے آپ کے لیے عید کا چاند نکالتی ہیں : ) مسئلہ تو اہل سائنس کی طرف ہے وہ آسمان کے وجود کو ہی نہیں مانتے اور کہتے ہیں کہ ستارے سارے فضا میں گھوم رہے ہیں۔ ویسے عقل سے تو آسمان کا وجود اور عدم ظنی ہیں اس لیے برابر ہیں لیکن ایک مسلمان کی حیثیت سے ہم قرآن سے دلیل قطعی ضرور رکھتے ہیں ۔ خیر یہ الگ بحث ہے ۔
    عقل کی بحث واقعی پریشان کن ھے، اس نے بڑے بڑے عقلا کو تباہ کیا ہے ۔ اس کا حد سے بڑھنا نقصان دہ ہے ، مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ اسکی مثال دیا کرتے تھے کہ یہ ایسی ہے جیسے گھوڑا پہاڑ پر چڑھنے والے کے لیے۔ اب تین قسم کے لوگ ہیں ، ایک وہ جو گھوڑے پر سوار ہوکر پہاڑ تک پہنچے اور پھر پہاڑ پر بھی اس پر سوار ہو کر چڑھنے لگے ، یہ غلطی پر ہیں ضرور کسی سیدھی چڑھائی پر سوار اور گھوڑا دونوں گریں گے، دوسرے وہ ہیں جو یہ سمجھ کر کہ گھوڑا پہاڑ پر تو کام دیتا ہی نہیں اس سے سڑک پر بھی کام لینے کی ضرورت نہیں ہے ، گھر سے ہی پیدل چل پڑے ، نتیجہ یہ ہوا کہ پہاڑ تک پہنچ کر تھک گئے ، دونوں نہ چڑھ سکے، پہلی جماعت نے گھوڑے کو ایسا باکار سمجھا کہ اخیر تک اسی سے راستے طے کرنا چاہا اور دوسرے نے ایسے بے کار سمجھا کہ پہاڑ تک بھی اس سے کام نہ لیا۔ صحیح بات یہ ہے کہ گھوڑا پہاڑ تک تو کار آمد ہے اور پہاڑ پر چڑھنے کے لیے بیکار ہے ، اس کے لیے کسی اور سواری کی ضرورت ہے، یہی حال عقل کا ہے کہ عقل سے بالکل کام نہ لینا بھی حماقت ہے اور اخیر تک کام لینا بھی غلطی ہے۔ پس دین کے معاملے میں عقل سے اتنا کام تو لو کہ توحید و رسالت کو سمجھو اور کلام اللہ کا اللہ کا کلام ہونا معلوم کرلو، اس سے آگے فروع اور غیب میں عقل کے گھوڑے نہ دوڑاؤ، بلکہ اب قاصد الہی جس کے حق ہونے کو تم تسلیم بھی کرتے ہو، پر اعتماد کرتے ہوئے دونوں قسم کی وحی کے آگے سر جھکادو، چاہے اس کی حکمت عقل میں آئے یہ نا آئے۔ ویسے بھی ہم دنیا کے کئی معاملات میں بھی عقل کو چھوڑتے ہیں جیسے جب بیمار ہوتے ہیں تو عقل سے اتنا تو کام لیتے ہیں کہ تحقیق کرتے ہیں کہ ڈاکٹرو ں میں سے کون ذیادہ تجربہ کار ہے ، جب طبیب کا بہترین ہونا معلوم ہوجاتا ہے تو پھر اس کے بتائے گئے نسخہ بغیر چوں چراں کے قبول کرلیتے ہیں یہ نہیں پوچھتے یہ فلاں دوا کیوں لکھی اور فلاں کیوں نہیں لکھی ؟ اس میں کیا کیا شامل کیا ہوا ہے ؟ جو الجھتے ہیں اس کو بیوقوف سمجھا جاتا ہے یہی حال شریعت کا بھی ہے جب ہم نے طبیب امت کو بھیجا ہوا تسلیم کرلیا ہے ، اس کے نسخے کو حکیم اعظم کا بھیجا ہوا نسخہ بھی سمجھتے ہیں تو پھر نسخہ اوراسکی تفصیل پر اعتراض کیوں ہے ؟ غیب کے معاملات میں ہماری مثال وہی جیسے ایک اندھے نے کہا تھا کہ یہ تو بڑی ٹیڑھی کھیر ہے۔
    بات آپکی طرح کہاں سے کہاں نکل گئی :ڈڈ آسان الفاظ میں یہ بتانا مقصود ہے کہ عقل کی بھی ایک حد ہے اور اس سے بڑھ جانا مضر ہے کیونکہ افراط عقل کا نتیجہ اوہام و شکوک میں مبتلا ہونا ہے جس سے قلب و دماغ دونوں ضعیف ہوجاتے ہیں ، مزید اور عقل بڑھتی گھٹتی بھی نہیں، بلکہ وہ علم ہوتا ہے جو بڑھ رہا اور گھٹ رہا ہوتا ہے۔ عقل ایک فطری شہ ہے۔
    اے بے خبر بکوش کہ صاحب خبر شوی
    تاراہ بیں نہ باشی کے راہبر شوی
    در مکتب حقائق پیش ادیب عشق
    ہاں اے پسر بکوش کہ روزے پدر عشق

    1. اجی ہماری کیا مجال جو ”مولوی“ حضرات کو گھسیٹیں۔ اللہ معاف کرے، ہم تو ایسا سوچ بھی نہیں سکتے۔ البتہ ”مولبی“ یعنی جو خودساختہ مولوی بنے بیٹھے ہیں ان سے ہماری ذرا بھی نہیں لگتی۔
      رہی بات فتوی کی تو اگر اس غوروفکر کے خلاف فتوی موجود نہیں تو اس غوروفکر کے حق میں تبلیغ بھی کہیں نظر نہیں آتی۔ یہ جو دین کے ٹھیکیدار بنے بیٹھے ہیں ان کے ساتھ کافی لمبا عرصہ گزارا ہے اور جو ان کے اور ان کے چیلوں کے حالات و واقعات ہیں انہیں کی وجہ سے آج ہم اتنا بیزار ہوئے بیٹھے ہیں۔ گوکہ کبھی ہمارا شمار بھی چیلوں میں ہی ہوتا تھا۔
      آپ نے کہا مسئلہ تو اہل سائنس کی طرف سے ہے اور ہمیں یہی دکھ ہے پچھلے کئی سو سالوں سے مسلمانوں میں اہل سائنس کیوں پیدا نہیں ہو رہے جبکہ قرآن تو بات بات پر غوروفکر کی دعوت دیتا ہے اور ایک ہمارے مولبی حضرات ہیں جنہوں نے اس غوروفکر کی کبھی دعوت ہی نہیں دی۔
      باقی مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کی مثال واقعی زبردست ہے اور اس نے کم از کم میرے لئے کافی آسانی پیدا کی ہے۔
      اللہ تعالیٰ آپ کو بے شمار خوشیاں دے۔۔۔آمین

      1. بلال بھائی میں سمجھتا ہوں کہ کمزوری ہمارے اندر ہی ہے کہ نا اہل لوگ نا صرف ہماری حکومتی انتظامی سیٹوں پر آبیٹھے ہیں بلکہ انہوں نے اپنے پیٹ کے چکروں کے پیچھے ہمارے دینی منصبوں پر بھی قبضہ جمانے کی کوشش کی ہے، ان کا مقصد چونکہ ذاتی اغراض کو پورا کرنا ہے اس لیے ان سے ایسی ہی توقع کی جاسکتی ہے ۔بحرحال یہ معدود طبقہ ہے علمائے حق کی ایک بہت بڑی تعداد اب بھی موجود ہے اور موجود رہے گی جو ہر حال میں حق بات کرتے اور اسکی تبلیغ کرتے نظر آتے ہیں۔ مزید علم الکلام کا موضوع پیجیدہ اور حساس ہے اس کے متعلق اپنے طور پر تحقیق شکوک و شبہات میں الجھا کر گمراہی کے راستے پر ڈال سکتی ہے، میرے پاس عقل اور اسکے دائرہ کار کے موضوع پر کافی اچھا مواد موجود ہے اگر آپ کو مزید پڑھنے کی خواہش ہوتو آپ کو میل کے ذریعے فراہم کرسکتا ہوں۔
        دعا دینے کا شکریہ

  5. السلام علیکم
    جب میں چھوٹا تھا تو اس طرح کے سوال ذہن میں بہت آتے تھے لیکن “ڈر” کر کسی سے پوچھتا نہیں تھا۔ ہمیشہ ذہن میں ہی گھومتے رہے، زمین کی طرح۔ میرا بھتیجا بہت بے جھجھک ہے، شاید ہر نئی نسل ہوتی ہے، وہ ایسے ٹیڑھے سوالات بہت کرتا ہے اور ظاہر ہے کبھی اسے جواب دے دیتے ہیں اور کبھی “جواب” دے دیتے ہیں۔ یہ سوچ شاید سب کے ذہنوں میں ہو، کوئی اسے تنہائی میں رکھتا ہے اور کوئی اسے آپ کی طرح بلاگ زد عام کر دیتا ہے۔ اور میرے خیال میں تو اس میں ایسا کچھ نہیں کہا آپ نے جو اتنا “ڈر” رہے ہیں۔

  6. بس مجھے لگتا ہے کہ جو جتنے عقل کے گھوڑے دوڑائے گا، وہ اتنا فاصلہ طے کرے گا اور اتنا ہی اس لامحدود کے قریب پہنچے گا، گو کہ لامحدود پھر بھی لامحدود ہی رہے گا کیونکہ” لامحدود سفر میں سے کچھ نکال بھی دیں تو بھی وہ لامحدود ہی رہتا ہے،”
    بالکل ٹھیک ۔۔۔،یہ وہی بات ہے جسکی دعوت قُرآن دیتا ہے ۔۔۔
    لیکن مولبی حضرات لامحدود کو محدود کرنے کے درپے ہیں ،وہ لامحدود کی مرضی معلوم کرنے کا آسان سا نسخہ بتاتے ہیں کہ “استخارہ ” کرو اور لامحدود کی مرضی معلوم کرلو۔۔۔ اب اجازت دیں ۔۔۔آپکا بُہت شُکریہ۔۔۔ احسان مند۔ (ایم۔ ڈی)۔

  7. سائنس اور لامحدود؟
    آپ نے موت کے کنوئے میں چلتا ہوا موٹر سائیکل تو ضرور دیکھا ہو گا اگر وہ چلتا رہے چلتا رہے تو کیا اس کا سفر ختم ہو جائے گا؟ کیا اس کا سفر لامحدود ہے؟ کیا موت کا کنواں لامحدود ہوتا ہے؟ میرے خیال میں سائنس میں لامحدود کا تصور بھی دائرے جیسا ہی ہے کہ آپ جہاں سے چلتے ہیں وہیں پہ پہنچ جاتے ہیں۔ اور سائنس یہ بھی کہتی ہے کہ دنیا میں کوئی خط سیدھا نہیں ہوتا بلکہ اگر آپ کسی ویکٹر کی میگنیٹیوڈ ایک ہی سمت میں بڑھاتے جایں تو ایک دن وہ ضرور اپنی ہی دم سے مل جائے گا اور یہ ہی حال ہماری فضا کا ہے۔ ہم کائنات میں سفر کرتے ہوئے جہاں سے چلتے ہیں ایک دن وہیں پہنچ جاتے ہیں اس لیے ہمیں کوئی حد نظر نہیں آتی جس طرح دائرے کا کوئی سرا نہیں ہوتا۔
    باقی اللہ والوں کی اللہ ہی جانے! وہ تو کہتے ہیں سب کچھ ہی اللہ ہے اور اللہ ہی سب کچھ ہے اور تو کچھ ہے ہی نہیں۔

    1. بھائی جی ، معاف کیجیے گا، نہ صرف یہ کہ آپ کی دی گئی مثالیں غلط ہیں بلکہ آپ سائنس کے متعلق سنگین ترین لاعلمی کا شکار ہیں۔ 😛

        1. بات موضوع سے کافی آگے نکل جائے گی اور مرشد نے اوپر سے وارننگ لگا رکھی ہے کہ پوسٹ کے موضوع پر ہی تبصرہ کیا جائے۔ اس لئے صرف دعائے خیر پر اکتفا کیجیے۔ 😀

  8. بہت شکریہ آپ کا!
    ویسے میں سیکھنے کے لیے پر امید ہو گیا تھا۔
    میں تو امید کئے بیٹھا تھا کہ
    کہ fabric of time space پر کچھ بات ہو گی، curvature of space پر کچھ سیکھنے کو ملے گا، General relativity کے کچھ تصورات زیربحث آیں گے، Quantum mechanics کی باریکی سمجھائی جائے گی اور روائتی سکول ٹیکسٹ بکس سے کچھ آگے کا دیکھنے کو ملے گا مگر آپ تو کنی کترا گئے۔ 😛
    چلیں جناب پھر کبھی پر امید دھر چھوڑتے ہیں۔ اب آپ کے مرشد کو ناراض تو نہیں کرنا نا! 🙂

تبصرہ تحریر کریں۔

Your email address will not be published. Required fields are marked *