اکتوبر 17, 2012 - ایم بلال ایم
42 تبصر ے

حامد میر اور جاوید چودھری کے نام

پیارے پیارے، ببلو ببلو جاوید و حامد السلام علیکم!

ہم آپ سے خیریت دریافت نہیں کریں گے کیونکہ ہمیں معلوم ہے کہ سوشل میڈیا کا پاؤں آپ کے روایتی میڈیا کی دُم پر آنے سے آپ خیریت سے نہیں۔ حضور والا! ہم یہ سب نہایت عاجزی سے لکھ رہے ہیں۔ اگر ہمارے لہجے میں کہیں کوئی سختی آئے تو اسے چج دوآب (دریائے جہلم اور چناب کے درمیانی علاقے) کے پانی کا اثر سمجھا جائے۔ اس پانی کا اتنا اثر ہے کہ ہم مذاق میں بات کر رہے ہوں تو دوسرے علاقے والوں کو ہمارا لہجہ جارحانہ لگتا ہے۔

یوں تو عرصہ ہوا آپ دونوں حضرات کو ہم نے پڑھنا چھوڑ دیا ہے مگر یہ کمبخت سوشل میڈیا کبھی کبھار آپ کے کالم پڑھنے اور پروگرام (ٹاک شوز) کے کلپس دیکھنے پر مجبور کر دیتا ہے۔ حال ہی میں ”سوشل میڈیا اور عوام کے شور“ کے موضوع پر آپ کے کالم پڑھے تو سوچاکہ سوشل میڈیا کے پڑھے لکھے جاہل آپ کی خاطر مدارت کریں، اس سے پہلے ہم ہی آپ کو عاجزی سے میٹھی میٹھی باتیں سناتے ہیں۔ سب سے پہلے تو ہم اس سوشل میڈیا کی خامیوں کا اعتراف کرتے ہیں کہ یہاں ہر کوئی لیڈر ہے، جو چاہے جب چاہے کر گزرتا ہے، سوشل میڈیا پر کفر کے فتوی تھوک کے حساب سے ملتے ہیں وغیرہ وغیرہ۔ انہیں وجوہات کی بنا پر تو ہم نے خود ہی اپنے پیروں پر کلہاڑی ماری اور ”فیس بکیوں کی دھمالیں“ ڈال دیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ جہاں سوشل میڈیا تبدیلی لا رہا ہے وہیں پر اس کے بہت منفی پہلو بھی ہیں لیکن حضور ہم تو اس کے منفی پہلو کو اس کے اچھے پہلو کی قیمت سمجھتے ہیں۔ ویسے بھی ہماری نظر میں اس کے منفی پہلو کم اور مثبت پہلو زیادہ ہیں۔ اس موضوع پر بات پھر سہی۔۔۔

جناب حامد میر صاحب

آپ کے کالم کے دو چار اقتباس دے کر بات کرتا ہوں تاکہ کوئی غلط فہمی پیدا نہ ہو۔

کیسی ستم ظریفی ہے کہ عام آدمی کے لئے میڈیا امید ہے لیکن سوشل میڈیا پر پڑھے لکھے لوگ الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا پر دنیا کا ہر الزام لگاتے ہیں۔

میر صاحب! آپ کو یہ بہت بڑی غلط فہمی ہوئی ہے کہ روایتی میڈیا عام آدمی کے لئے امید ہے۔ وہ دن گئے جب کوئی اپنی بات کی سند کے لئے اخبار کا حوالہ دیتا تھا۔ اب لوگ اصلیت جان چکے ہیں اور آپ کے روایتی میڈیا کا حال یہ ہو چکا ہے کہ سوشل میڈیا کی آمد سے پہلے ہی لوگوں کا اخباروں سے اعتبار اٹھ چکا تھا بلکہ کسی بات کا جھوٹ لوگ اس طرح ثابت کرتے کہ چھوڑو چھوڑو یہ تو اخباری (جھوٹی) بات ہے۔ لگتا ہے آپ سٹوڈیو سے باہر نہیں نکلتے ورنہ عوامی سوچ کا آپ کو بخوبی اندازہ ہوتا۔

ریگولر میڈیا اور سوشل میڈیا کا یہی فرق ہے۔ ریگولر میڈیا پر آپ کسی کو گندی گالی نہیں دے سکتے۔ آپ کسی پر آسانی سے کوئی بے بنیاد الزام نہیں لگا سکتے کیونکہ ایک خبر نگار، کالم نگار یا ٹی وی اینکر اپنے قارئین اور ناظرین کو جوابدہ ہے۔ قارئین اور ناظرین اس کے نام، چہرے اور ای میل ایڈریس سے لے کر اس کے فون نمبر تک کو جانتے ہیں لیکن سوشل میڈیا پر کوئی بھی شخص اپنا نام بدل کر، کسی اور کا چہرہ لگا کر آپ کو دنیا کی سب سے گندی گالی دے سکتا ہے۔ دنیا کا سب سے بڑا جھوٹ بول سکتا ہے اور اس کی کوئی پکڑ نہیں۔

حضور! کیسی بات کرتے ہو؟ گندی نہ سہی مگر گالی کے بارے میں کیا خیال ہے؟ بے بنیاد الزام کی بات نہ کیجئے۔ ہم خود کئی بے بنیاد الزاموں کے گواہ ہیں۔دور جانے کی ضرورت نہیں میں تو اپنے ضلع گجرات پر کئی بے بنیاد الزام اور جھوٹی خبریں بتا سکتا ہوں۔ اجازت ہو تو ضلع گجرات میں ایڈز والی بات مشہور کرنے اور اس کی مد میں پیسے کمانے والی کہانی سناؤ یا پھر گجرات کو وزیرستان جیسا دہشت زدہ علاقہ قرار دینے والی بات سناؤ؟ چھوڑیں سب کو آپ ”میڈیا لایا ایجادیوں کی بارات“ پڑھیے۔ آپ کو کافی افاقہ ہو گا۔ ساتھ ساتھ یہ بھی پتہ چلے گا کہ سوشل میڈیا والی ”جاہل عوام“ بڑے جھوٹ بولتی ہے یا پھر روایتی میڈیا پر بیٹھے ہوئے سیاہ و سفید کے مالک بڑے جھوٹ بولتے ہیں۔

رہی بات جوابدہ کی تو، روایتی میڈیا اور جوابدہ؟ یقین کرو، سوشل میڈیا سے پہلے آپ یہ بات کسی کو کہتے تو لوگ آپ کے اس لطیفے پر لوٹ پوٹ ہو جاتے۔ ویسے ایک چھوٹی سی مثال بھی دے دیجئے کہ فرض کریں کوئی آپ سے جواب طلبی چاہتا ہے تو پھر وہ کیسے آپ تک پہنچ کر یا کسی اور ذریعے سے جواب طلبی کر سکتا ہے؟ ہاں سوشل میڈیا نے جو آپ لوگوں (روایتی میڈیا) کی دم پر پاؤں رکھا ہے اس سے واقعی اب آپ لوگ خود کو جوابدہ سمجھ رہے ہو ورنہ پہلے تو آپ ہی سیاہ و سفید کے مالک تھے۔ ہم آپ کے چہرے تو جانتے ہیں مگر ان چہروں کے پیچھے کیا ہے یہ کوئی نہیں جانتا۔ میڈیا کے ای میل اور فون نمبر؟ افسوس کہ یہ سب شو شا کے لئے ہیں ورنہ آپ کو تو شاید یہ بھی نہیں پتہ ہو گا کہ میڈیا کے 99 فیصد ای میل ایڈریس جو اخباروں پر چھپے ہوتے ہیں وہ کوئی چیک ہی نہیں کرتا اور اگر کوئی ای میل کرتا ہے تو اسے منہ کی کھانی پڑتی ہے۔ اب ہمیں اس ای میل والی بات پر نہ چھیڑیے گا نہیں تو ہم نے اگر صرف اپنی ای میلز جو میڈیا کو بھیجیں ان کا ذکر کیا تو ایسا پلندہ تیار ہو گا کہ آپ ساری زندگی انہیں ہی پڑھتے گزار دو گے۔

باقی ہم آپ کی یہ بات تسلیم کرتے ہیں کہ سوشل میڈیا پر کوئی بھی شخص اپنا نام بدل کر گندی گالیاں دے سکتا ہے۔ حضور پریشان نہ ہوں اس معاملے میں ہم بھی آپ کی طرح ہی ہیں، گالیاں ہمیں بھی پڑتی ہیں اور یہ اس اچھائی، اس اچھے تربیتی پروگرام اور شعور کی بہتری کی قیمت ہے جو اس سوشل میڈیا کے ذریعے آسانی سے عام انسان تک پہنچ رہا ہے۔

عام طور پر یہ کہا جاتا ہے کہ میڈیا معاشرے کا آئینہ ہوتا ہے۔ معاشرے کی تمام خوبیاں اور خامیاں میڈیا کے آئینے میں منعکس ہوتی ہیں لیکن آج کل معاشرے کا اصل آئینہ اخبار یا ٹی وی نہیں بلکہ فیس بک، ٹوئیٹر، یو ٹیوب، ای میل اور ایس ایم ایس ہے۔ سوشل میڈیا پر اپنے نام بدل کر اور چہرے چھپا کر گالی گلوچ کرنے والی مخلوق ہمارے معاشرے میں موجود جھوٹ اور منافقت کی اصل نمائندگی کرتی ہے۔ بدقسمتی سے ان میں کوئی بھی جاہل نہیں ہوتا۔

واہ واہ واہ! آپ نے روایتی میڈیا کی اصلیت خود ہی بتا دی۔ محترم اگر ہمارا روایتی میڈیا معاشرے کی خوبیوں اور خامیوں کا آئینہ بن جاتا تو آج ہمیں یہ دن نہ دیکھنے پڑتے اور نہ ہی لوگ اس طرح سوشل میڈیا پر دھمالیں ڈالتے۔ پچھلے 65 سالوں میں آپ نے صرف اپنی ریٹنگ کا خیال کیا، کبھی چڑھتے سورج کو سلام کیا تو اگر عوام نے دباؤ ڈالا تو آپ لوگوں نے دباؤ کو سلام کیا۔ بس پھر جب آپ معاشرے کا آئینہ نہ بنے تو عوام نے اپنا آئینہ سوشل میڈیا کو بنا لیا۔ ویسے سوشل میڈیا کے آئینے سے دل برداشتہ نہ ہوں بلکہ یہ تو عوام کی سوچ سمجھنے کے لئے آسانی پیدا کر رہا ہے۔ اس سے آئیڈیاز لیں، عوام کی سوچ کو سمجھیں اور معاشرے کی تربیت کریں۔

بدقسمتی سے ان میں کوئی بھی جاہل نہیں ہوتا۔ یہ سب پڑھے لکھے لوگ ہیں اور میں یہی گزارش کرنا چاہتا ہوں کہ پاکستان کو اصل خطرہ جاہلوں سے نہیں بلکہ پڑھے لکھے لوگوں سے ہے۔

حضور! ایسی باتیں کر کے کیوں عوام کے سامنے اپنا پیٹ ننگا کرتے ہو۔ یہ پڑھے لکھے جاہل دراصل بہت ”کھوچل“ ہیں۔ ابھی یہ آپ سے سوال کر لیں گے کہ چلو یہ سوشل میڈیا والے جاہل تو سات آٹھ سال پہلے وجود میں آئے مگر آپ جو پڑھے لکھے لوگ 65 سالوں سے اس ملک کے میڈیا کی نمائندگی کر رہے ہو، اس میں آپ نے کونسا تیر مارا تھا۔ عوام سوال کرے گی کہ کوئی ایک چھوٹی سے چھوٹی بات بتائیں جس پر آپ نے عوام کی تربیت کی ہو بلکہ ہر فتنے کو ہوا دینے والے بھی آپ لوگ ہیں۔ محترم دعا کریں کہ عوام آپ سے یہ سوال نہ پوچھے ورنہ آپ کو سر دبانے کے لئے کہیں ریت بھی نہیں ملے گی۔ باقی حضور! آپ کے کالم میں موجود ملالہ والی بات پر ہم اپنا نقطہ نظر پہلے ہی شائع کر چکے ہیں اس لئے اس پر بات نہیں کریں گے۔ ویسے نیچے جاوید چودھری صاحب کی خدمت میں بھی کچھ عرض کر رہا ہوں۔ آپ بھی پڑھیے گا تو آپ کو اندازہ ہو جائے گا کہ اس عوام کو اس دلدل تک لانے میں کون سب سے آگے تھا اور ہے۔ عوام کی سوچ کو دو انتہاؤں تک لانے والا آخر ہے کون؟ کس نے اپنی ذمہ داری نہیں نبھائی تو آج ہمیں یہ سب دیکھنا پڑ رہا ہے۔

جناب جاوید چودھری صاحب

چودھری صاحب تہاڈی کیا ای باتاں نیں۔۔۔ چھوڑو اس روایتی میڈیا کو آؤ دو بیلوں کی جوڑیاں یا ٹریکٹر خریدتے ہیں۔ مل کر کھیتی باڑی کرتے ہیں، موجاں ای موجاں۔۔۔

آپ نے اس عوام پر میڈیا کے لمبے چوڑے احسانات گنوائے ہیں کہ ہر بات کی خبر آپ کے اس روایتی میڈیا نے ہی دی۔ جی ہم مانتے ہیں کہ اکثر خبریں آپ نے ہی دیں مگر سب خبریں نہیں دیں۔ حضرت آپ بڑی جنرل نالج کی باتیں کرتے ہو اور ہمیں آپ کی واحد یہی بات پسند ہے، چلیں آج ہم آپ کو کچھ جنرل نالج کی باتیں بتاتے ہیں۔ کیا آپ کو پتہ ہے کہ تصویر کے دو رخ نہیں بلکہ تین رخ ہوتے ہیں مگر آپ کا روایتی میڈیا تین تو کیا صرف ایک رخ بھی تب بتاتا ہے جب کوئی نہ کوئی بات سوشل میڈیا پر آ جاتی ہے۔ دور کیا جانا ہے برما والے فسادات دیکھ لیجئے۔ آپ کا کام ہے غیر جانبدار رہنا مگر آپ لوگ تصویر کے تین رخوں میں سے اپنی مرضی کے رخ کا انتخاب کرتے ہوئے شور مچا دیتے ہو۔ محترم آپ کو ان فراڈیوں کے نام تو یاد ہوں گے جن کو آپ کے اس میڈیا نے قوم کا ہیرو بنا دیا۔ نہیں یاد تو آپ بھی ”میڈیا لایا ایجادیوں کی بارات“ پڑھیے۔ اس کے ساتھ ساتھ عمار افضل کی حقیقت بھی یاد کیجئے، جس کو آپ کے میڈیا نے قوم کا ہیرو بناتے ہوئے انتہا کر دی اور تو اور کالم نگار ”عمار چودھری“ نے اسے ایسے انداز میں پیش کیا کہ وہ کالم پڑھتے ہی مجھ جیسے جاہل کو اندازہ ہو گیا تھا کہ یہ سب جھوٹ ہے۔ حضور! یہ وہی ”جاہل عوام“ ہے جس نے تحقیق کی اور ان دو نمبریوں کا پول کھولا، مگر آپ کے روایتی میڈیا نے کب اخلاقی جرات کرتے ہوئے اپنی غلطی تسلیم کی۔ اب سوشل میڈیا کا پاؤں آپ کے روایتی میڈیا کی دم پر آ رہا ہے تو چیختے کیوں ہو۔ یہ ہو کر ہی رہنا ہے حضرت۔

جناب ہم جاہل لوگ ہیں۔ ہمیں احسانات نہ گنوائیں، اگر ہم نے اخلاقیات اور میڈیا کے کردار پر لیکچر دینے شروع کیے تو یقین کریں آپ ہمارا شمار ”مسنگ پرسن“ تک میں کروانے کو تیار ہو جاؤ گے۔ آپ دو چار بڑے مسائل کا ذکر کرتے ہوئے ہم پر احسان جتاتے ہو۔ جناب! یہ ایسے مسائل تھے جن پر آپ نہ بولتے اور عوام کو اِدھر اُدھر سے پتہ چل جاتا تو آپ لوگوں کا حال آج سے بھی برا ہونا تھا اس لئے آپ اپنی پگڑی کے چکر میں بولے۔ 65 سالوں میں آپ کے میڈیا نے جو ریاست کا ستون ہونے کا ثبوت دیا ہے، وہ یہ ”جاہل عوام“ اچھی طرح جانتی ہے۔

حضور! یہ تو ہمیں بھی سیاحت کا تھوڑا بہت شوق ہے تو ہم نے آپ کی سیاحت والے کالم پڑھ لئے، جس سے پتہ چل گیا کہ آپ کا جنرل نالج اور تحقیق کتنے پانی میں ہے۔ حضرت آپ ہم جاہل عوام کو اپنے اخلاق کی صفائیاں نہ دو، ہم بولے تو بات دور تک جائے گی اور لوگوں کو پتہ چل جائے گا کہ نانگا پربت کو کتنے کوہ پیماؤں نے سر کیا ہے۔ حضور اس میں غصہ والی تو کوئی بات نہیں۔ ہم نے آپ کو اطلاع بھی کر دی تھی کہ آپ چار جگہوں پر غلطی فرما رہے ہو۔ آپ میں جرأت تو بدرجہ اتم موجود ہے مگر آپ یہ اخلاقی جرات نہیں کر سکے کہ قارئین کو آگاہ کر دیتے کہ فلاں کالم میں ہم سے غلطی بلکہ غلطیاں سرزد ہو گئی تھیں۔ حضور! غصہ تھوک دیجئے ورنہ ہم اس بندے کے بھی گواہ ہیں جس کو ایک وزیر کے جیالوں نے کار پر چھوٹا سا ”سکریچ“ لگنے کی وجہ سے خوب پھینٹی لگائی۔ تب سوشل میڈیا نہیں تھا تو وہ اپنی فریا لے کر ریڈیو، اخبار اور نہ جانے کس کس کے دروازے تک پہنچا مگر کسی نے اسے منہ ہی نہ لگایا۔ اجی یہ عوام کے سوشل میڈیا کا ہی کمال ہے کہ وزیراعلیٰ ایک بیکری والے کی پھینٹی پر اپنے ہی خاندان کے خلاف ایکشن لینے پر مجبور ہو گئے ورنہ آپ کا میڈیا تو ایسے کاموں پر لفافے سے کام چلاتا آیا ہے۔

حضور آپ کے اس روایتی میڈیا کی شان میں کہنے کو تو ہمارے پاس بہت کچھ ہے مگر کیا کریں ایک پہلے ہی سوشل میڈیا پر لوگ ہاتھ دھو کر آپ لوگوں کے پیچھے پڑے ہیں اوپر سے ان ”کمبخت“ اردو بلاگروں کو پہلے ہی پتہ چل چکا ہے کہ آپ کبھی کبھی ان کی نقل بھی لگاتے ہو۔ باقی ہمارا مقصد ہرگز یہ نہیں کہ روایتی میڈیا نہ رہے یا ہمیں اس سے کوئی دشمنی ہے، بس عرض یہ ہے کہ حضور یہاں اگر عوام اور سوشل میڈیا دودھ کا دھلا نہیں تو کرتوت روایتی میڈیا کے بھی۔۔۔

باقی ہم نے نشاندہی اس لئے کی ہے آپ سے ہو سکے تو روایتی میڈیا کو ”پوتر“ ثابت کرنے کی بجائے بہتری کے لئے کچھ کریں۔۔۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست 42 تبصرے برائے تحریر ”حامد میر اور جاوید چودھری کے نام

  1. بلال صاحب؛ السلام علیکم
    کیا خوب لکھا ہے آپ نے۔ میڈیا والے خود کو فرشتے سمجھتے ہیں۔ آپ نے انہیں خوب آئینہ دکھایا۔

    میری دعا ہے کہ!
    اللہ کرے زور قلم اور زیادہ

  2. مشرف کے دور میں الیکٹرانک میڈیا حکومت کے قابو سے باہر ہوا تو آہستہ آہستہ انہوں نے لفافے یا پلاٹ بانٹ کر اسے کسی نہ کسی طرح قابو کر ہی لیا، لیکن مزے کی بات یہ ہے کہ فی الوقت سوشل میڈیا کو قابو کرنے والا کوئی طریقہ نہیں ہے، اور اپنے تمام تر جھوٹ اور فریب کے باوجود یہ میڈیا بےشمار سچائیاں عوام کے سامنے لانے کا سبب بن چکا ہے، اور اچھا ہی ہو گا اگر سوشل میڈیا کا یہ جن کسی کے قابو میں نہ ہی آئے۔

  3. السلام علیکم ورحمتہ اللہ
    بلال بھائی آپ نے خوب اچھی کلاس لی ہے
    مجھے یہ تحریر پڑھ کر ایک شعر یاد آگیا
    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
    مانا کہ تیری بات میں بات بہت ہے
    لیکن تیری اس بات میں جذبات بہت ہیں
    😉

  4. وہی تجزیہ وہی سٹائل وہی رنگ وہی بات کرنے کا سلیقہ مسئلہ صرف یہ کہ اپنے گریبان میں جھانکنے کو کوئی تیار نہیں۔ ایک گلی سے ایک شخص گزر رہا تھا کہ گدھے نے اس کو لات رسید کردی۔ اس شخص نے جوابی لات گدھے کو رسید کی اور حقارت سے بولا “تم کیا سمجھے تھے میں تم سے کم ہوں”
    مین سٹریم میڈیا تو چلو ساری برائیوں کی جڑ ہے لیکن سوشل میڈیا کا مطلب صرف ایم بلال ایم یا اردو بلاگ لکھنے والی کمیونٹی نہیں ہے۔ اسمیں 8ملین فیس بک یوزر جن کی ایوریج عمر 21سال اور 1 ملین ٹوئٹر یوزر جن کی ایوریج عمر 39 سال شامل ہیں۔ اس کے علاوہ انگلش بلاگز اور اکیڈمیکلی دیکھا جائے تو 11کروڑ موبائل یوزر بھی سوشل میڈیا کا حصہ ہے۔ لیکن بلال آپ نے تو یوں جلی کٹی سنائی جیسے حامد میر اور جاوید چوہدری نے تمہارا نام لکھ کر کالم لکھے ہوں۔ اور جہاں تک بات رہی گالی کے خلاف آپ نے جو معاشرے کی اچھائی کی دلیل دی ہے میرے خیال سے انتہائی بودی دلیل ہے۔اس ملک میں ہمیشہ فوجی حکمران معاشرے کی بھلائی کے نام پر ہی حکومت میں آئے تھے لیکن کیا ہواِِ؟؟ تفصیلات کے لئے پاکستان کی غیر متعصبانہ تاریخ پرھ لیں۔ لیکن چونکہ آپ نے واضح طور پر کہہ دیا ہے کہ یہ آپ کی ذاتی رائے ہے تو چھوڑ دیتا ہوں اس بات کو۔

    آخر میں ایک بات کہنا چاہوں گا۔ پاکستان کا میڈیا 30 ٹی وی اینکروں یا 150 کالمسٹوں پر نہیں چل رہا ۔ اس میڈیا کے اندر 17000صحافی شب وروز کام کر رہے ہیں۔ آپ نے اپنے جواب میں وہی غلطی کی ہے جو ان لوگوں نے اپنے کالم میں کی ہے۔ وہ غلطی ہے سوئپنگ سٹیٹمنٹ۔
    صرف اتنا یاد رکھیں اوپر گنائی گئی سوشل میڈیا کی قوتوں میں امریکن سوشل میڈیا سیل، آئی ایس آئی اور پاکستان کی کئی دیگر حساس اداروں کے سوشل میڈیا سیل اور دیگر کئی پریشر گروپس سیاسی پارٹیاں جیسے کہ تحریک انصاف ، جماعت اسلامی، مسلم لیگ ن اور ایم کیو ایم وغیرہ بھی شامل ہیں۔ ان میں سے ہر ایک سوشل میڈیا پر عوام کی رائے اپنے حق میں موڑنے کی کوشش کر رہا ہے۔ عدالت جس دن ایجنسیوں کے سربراہ کو بلا لیتی ہیں اس دن میڈیا کو سوشل میڈیا پر سب سے زیادہ گالیاں کیوں پڑتی ہیں؟؟ کبھی سوچا ہے آپ نے۔ بہت کچھ ذہن میں تھا جسکو غیر مربوط انداز میں لکھ دیا ہے۔ امید ہے اسے خالصتا تنقید کے زاویہ سے دیکھا جائے گا کوئی پرسنل بات نہیں نکالی جائے گی۔

    1. ارے محترم پریشان کیوں ہوتے ہو۔ کھل کر تنقید کرو، یہ ایم بلال ایم سیکھتا ہی تنقید سے ہے۔
      محترم میں نے کب کہا کہ سوشل میڈیا کا مطلب ایم بلال ایم یا اردو بلاگر کمیونٹی ہے؟ بے شک کسی نے میرا نام لے کر نہیں لکھا تو محترم اس کا ہرگز یہ مطلب تو نہیں کہ میں اپنی رائے کا اظہار یا جواب نہیں دے سکتا۔ میں نے کسی میڈیا یا کمیونٹی کی نمائندگی کرتے ہوئے یہ سب نہیں لکھا، بس یہ میرا جواب ہے، باقی جس کا بھی دل کرے وہ دے سکتا ہے۔
      گالی اور اچھائی والی دلیل آپ کی نظر میں بودی ہے تو کوئی مسئلہ نہیں جناب، ضروری تو نہیں کہ آپ مجھ سے اتفاق کریں۔
      ٹھیک ہے پس پردہ بہت سے لوگ میڈیا سے وابستہ ہیں مگر محترم عوام کو جو نظر آ رہا ہے، عوام نے تو اسی پر بات کرنی ہے۔ یقیناً اچھے اور برے لوگ بھی میڈیا میں موجود ہوں گے مگر جاوید چودھری صاحب نے تو سارے کے سارے روایتی میڈیا کو گنگا نہلا دیا ہے اور حامد میر صاحب نے سارے کے سارے سوشل میڈیا کو جاہل قرار دے دیا۔ باقی میں نے جو کہا ہے وہ خاص ان دونوں حضرات کو مخاطب کر کے اور جو روایتی میڈیا کو کہا ہے اس میں بھی خاص ان کے غلط کارناموں کو کہا ہے۔
      اگر سوشل میڈیا میں مختلف اداروں کے سیل اور پریشر گروپ موجود ہیں تو پھر میرے محترم یہ تو روایتی میڈیا اور ہر جگہ موجود ہیں۔ اب کیا ہر اس چیز کو چھوڑ دیں؟ نہیں ہمیں ان کا ہر میدان میں ڈٹ کر مقابلہ کرنا ہو گا، کیا ہی اچھا ہوتا ہے کہ یہ کالم نگار سوشل میڈیا کی خامیوں کی وضاحت کرتے ہوئے عوام کو سمجھاتے نہ کہ عوام پر احسان جتانے اور جاہل کہنے جیسے کالم لکھتے۔

    2. کاشف صاحب ویسے اتنے غصے والی بات نہیں‌تھی جتنے غصے میں آپ نے بات کی ہے۔
      11 کڑور ہے 8 میلن ہے یا جتنے بھی ہے سوشل میڈیا میں ہم بھی شامل ہیں جس طرح کوئی پاکستانیوں کو گالی دیتا ہے تو گالی ہم تک پہنچتی ہے کیوں کہ ہم پاکستانی ہیں اس طرح اگر کوئی سوشل میڈیا کو یا ان پر لکھنے والوں کو پڑھا لکھا جاہل کہہ گا تو ہم ہی جواب دیں گے۔ اور جو جو پڑھے گا وہی جواب دے گا۔ ٹی وی چینل پر بیٹھ جانے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ سب عالم فاضل ہو گے ہیں یا ان کی بات پتھر پر لکیر ہو گی ہے۔ جاوید چوہدی صاحب ہمارے ابوشامل بھائی کے بلاگ سے چوری کر کے بھی لکھتے رہے ہیں۔
      ابھی تو م بلال م نے کچھ لکھا ہی نہیں ہے جب لکھیں گے تو پھر پتہ چلے گا

      1. خرم ابن شبیر
        اچھا جواب دیا ہے “کاشف علی” صاحب کو
        ہاہاہاہا۔۔۔۔۔۔۔

        ویسے لاتوں کے بھوت باتوں سے نہیں مانتے۔

  5. بہت اعلیٰ انداز میں آپ نے ان حضرات کو آئینہ دکھایا ہے۔حامد میر کا کالم تو دور کی بات میں نے تو عرصہ سے اس کا “کیپیٹل ٹاک” بھی دیکھنا چھوڑ دیا ہے۔ اور جاوید چوہدری صاحب کا ملک ریاض کے بارے میں کالم آج بھی مجھے یاد ہے ۔جس میں انہوں نے ملک صاحب کا نمک حلال کرنے میں‌کوئی کسر باقی نہ چھوڑی تھی اور یہاں تک لکھ دیا تھا کہ ملک صاحب کبھی شراب ،زنا کے نزدیک بھی نہیں گئے۔اللہ اعلم مگر ملک صاحب کے بارے میں ان کا نالج بہت متاثر کن ہے 😀

    1. حامد میر تو پیسے لے کر پروگرام کرتا ہے۔ جب شیخ رشید اور شکیل اعوان کا مقابلہ لیکشن میں ہو رہا تھا تو ایک طرف نون لیگ تھی اور دوسری طرف شیخ رشید۔ شیخ رشید کی پوزیشن کافی ٹھیک تھی لیکن حامد میر نے نون لیگ والوں سے پیسے لے کر شیخ رشید کے خلاف کیپیٹل ٹاک شو کیا جو الیکشن سے ایک دن پہلے تھا۔ یہ قانون کے بھی خلاف تھا کہ الیکشن سے ایک دن پہلے کسی طرح کا کوئی پروگرام یا جلسہ وغیرہ نہیں‌کر سکتے۔ لیکن اس نے کیا اور شیخ رشید کے خلاف کھل کر بھولا۔

  6. السلام علیکم
    بلال صاحب اللہ پاک آپ کو اور ہمت عطا فرمائے (آمین)
    بہت اچھا لکھا ہے
    یہ ملالہ کی حقیقت کیا ہے یہ تو ہم کو سوشل میڈیا سے ہی پتہ چلی ہیں‌یہ روائتی میڈیا تو آج تک حقیقت نہیں بتا رہا۔

  7. کیا بات ہے بلال صاحب مزا آ گیا تحریر پڑھ کر۔ آپ نے حقیقت میں دلائل کیساتھ بات کی ہے مجھے آپکی کوئی بھی دلیل بودی نہیں لگی۔ باقی آپکی تحریر سے کسی نہ کسی کے پیٹ میں تو بَل اُٹھنا ہی تھا۔ 😆

  8. ویری گڈ جی اسی قابل ہیں یہ بلکہ سچی بات ہے آپ ہتھ ہولا رکھ گئے۔باقی اس پر جواب کوئی نہیں ملنے والا کیونکہ یہاں صرف میٹھا میٹھا ہپ ہپ چلتا ہے 😛

  9. بہت خوب جناب۔۔۔ آپ نے سوشل میڈیا کی خوب وکالت کی ہے۔المیہ یہ ہے کہ ہمارا دور بیچنے کا دور ہے ۔ ہر چیز بیچی جا رہی ہے۔ اگر ضرورت نہیں ہے تو ضرورت پیدا کی جا رہی ہے۔ یہی معاملہ الیکٹرانک میڈیا کا بھی ہے یہاں پر صرف وہی چیزیں آرہی ہیں جنکی بین القوامی مارکیٹ میں ویلیو ہے۔
    بہت اعلیٰ جناب ۔۔۔ڈبل تھمبس اپ

  10. یہ سارا لکھنے پر
    اپ پر بھینس کی چوری
    یا اس قسم کا کوئی کیس بن سکتا ہے
    یا دو تین کیس بھی بن سکتے ہیں ، اپ یہ میڈیا کے بڑوں کا سب کچھ لکھا ہے لیکن
    ان کے ظرف کی پیمائیش نہیں کرسکے آپ!!
    کیونکہ زیادہ ہی چھوٹا ہونے کی وجہ سے اپ کو ملا ہی نہیں‌ہو گا دیکھنے کے لئے
    اللہ یر کرئے کم ظرفوں کو چھیڑ بیٹھے ہیں‌اپ

  11. ہاہا بہت خوب بلال بھائی۔ یہ ایک بہت ہی کڑوا سچ ہے۔ ویسے ان کو تو دکھ ہی اس بات کا ہے کہ سوشل میڈیا پر ہر کوئی گالی دیتا ہے جو دل میں آتا ہے کہہ دیتا ہے۔ اصل میں تو وہ یہ کہنا چاہ رہے تھے کہ سوشل میڈیا پر جس کا دل چاہتا ہے وہ سچ بول دیتا ہے اور پول کھول دیتا ہے۔ خیر دیکھتے ہیں اب کہیں ایک پورا ٹاک شو ہی سوشل میڈیا پر نہ ہو جائے 🙂

  12. محترم! بلال بھائی!!۔
    آپ نے بہت محنت سے سوشل میڈیا کے پاکستانی استعمال کندگان کا مقدمہ تیار کیا ہے۔ اور تقریباً تمام نکات کا احاطہ کیا ہے۔ اس بات پہ آپ کو داد نہ دینا سراسر ناانصافی اور ذیادتی شمار کی جائے گی۔
    اگر عزت کی امان پاؤں تو عرض کروں ۔ روائتی میڈیا کے اکثر کالم نگار حضرات کو ابھی تک یہ علم نہیں ہو سکا۔ کہ جذبات کو اپیل کرنے والی تیز طرار کالم نگاریوں کا موسم کب کا گذر چکا ۔
    دنیا بھر میں آمریتوں سے جمہوریت کے سفر۔ حکومتی میڈیا یا حکومتی کنٹرولڈ میڈیا سے آذاد میڈیا تک کا سفر ۔ ایک ٹھوس حقیقت ہے اور کم و بیش یہ سفر ۔۔ یہ منتقلی (transition) دنیا کے اکثر ممالک میں کسی نہ کسی دور میں ہوئی ہے۔اور پرانے ۔ آمرانہ اور گلے سڑے نظام سے اکتائے عوام کی طرف سے اس منتقلی کے فورا بعد کےایک مخصوص دوانیے میں نئے اور آزاد میڈیا کے نہ صرف کالم نگار ۔ بلکہ خبریں پڑھنے والے تک سراہے گئے۔ عام عوام کے لئیے یہ اسی طرح ہے جیسے ایک ہی طرح کے ہیرو اور اداکاروں کی پرانی مویز سے بیزار ناظرین ایک نئی فلم ۔ نئی کہانی ، نئے چہروں ۔نئے اداکاروں کو بہت پسند کرتے ہیں ۔ مگر کب تک ؟ ۔ اگر نئی بات ۔ نئی فلم نہ آئے تو ناظرین پھر نئے سرے سے بور ہونا شروع ہوجاتے ہیں۔ کچھ ایسا المیہ مذکورہ کالم نگاروں اور پرنٹ میڈیا و الکٹرانک میڈیا کے ساتھ ہو رہا ۔
    ان کالم نگاروں کو ابھی تک یہ پتہ ہی نہیں چل سکا کہ کیسے اور کسطرح وہ ایک دم صفر سے ایک دم اوپر اٹھ کر کس تیزی سے اپنے اصل اور حقیقی مقام جو انکی اصل اہلیت و اصلیت ہے ۔ اسکی طرف واپس لوٹ رہے ہیں۔ یعنی عوام اب اسے اتنی ہی اہمیت دیں گے جو جتنی اسکی قابلیت ہے ۔
    جاوید چوہدری بے چارے نے ساری عمر بھاگنے میں گزار دی ہے۔ وہ اپنی محرومیوں سے ۔۔ اپنی ناتمام حسرتوں اور خواہشوں سے بھاگتا پھر رہا ہے ۔ جو اس نے اوائل عمری میں دیکھی ہیں۔ جاوید چوہدری نے کالم نگاری اور ٹی وی میزبانی کو اپنے حق میں استعمال کیا ہے ۔اور اسطرح کے ” کاموں “ سے پاکستان میں بدقسمتی سے جو اثرو رسوخ پیدا ہوتا ہے۔ اسکا فائدہ جاوید چوہدری نے نہ صرف پاکستان کے اندر ۔ بلکہ پاکستان سے باہر بھی خوب اٹھایا ہے۔
    میر صاحب بھی اُس دور میں چمکے اور پاکستان جیسے وسیع و عریض ملک میں میڈیا یعنی آزاد میڈیا نہ ہونے کی وجہ سے خوب پھلے پھولے ۔ اور۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

  13. واہ بہت اعلی جناب
    ہم ان کا کالم پڑھ کر ابھی سوچ ہی رہے تھے کہ ان کی مٹی کہاں سے صاف کریں
    اور آپ نے اعلی طریقے سے انہیں دھو دیا۔۔
    آپ کی محنتیں رنگ لائیں کہ میڈیا والے اب سوشل نیٹ اور خاص کر اردو بلاگرز کا ذکر کئے بغیر ان کی تحاریر کی نقل نا بھی کریں تو بڑے بڑے لکھاری بھی اردو بلاگرز کی تحاریر سے آئیڈیا ضرور لیتے ہیں۔
    میں نے کئی بار محسوس کیا کہ اردو بلاگرز کسی موضوع پر پہلے لکھتے ہیں اور پیشہ ور کالم نگار اس کے بعد شروع ہو جاتے ہیں۔
    فرق صرف اتنا ہوتا ہے کہ بلاگر چھوٹے پیرائے میں اپنی بات کہتا ہے اور کالم نگار ذرا الفاظ زیادہ استعمال کرتا ہے۔
    بحر حال میرے خیال میں یہ ایک اچھی بات ہے کہ میڈیا پر بلاگرز کا نقطہ نظر بھی پہونچ جاتا ہے۔

  14. جب سب کو پتا چل گیا تھا کہ عورت کو کوڑے مارنے والی ویڈیو جعلی ہے ، تب حامد میر نے اپنے کالم میں میڈیا کے اس ویڈیو کو لیک کرنے کو بڑے فخر سے بیان کیا تھا ۔ یہ تو انکی صحافت کی حقیقت ہے ۔۔ کل حسن نثار نے اپنے فیس بک پر لکھا کہ حضرت عمر نے اپنے بیٹے کو کوڑے مارے تھے ، حالانکہ تاریخ دان جانتے ہیں کہ یہ روایت بھی گھڑی ہوئی ہے ۔ جس قوم کے دانشور گھر میں‌بنی ہوئی کہانیاں سنائیں گے اور اسکے صحافی نوٹوں کے تھیلوں پر صحافت کریں گے وہ قوم گھنٹا ترقی کرے گی ؟

  15. بلال! اچھا لکھا۔ مذکورہ کالم نگاروں کی سیاحت کے اخراجات اور ان کا بیک گراؤنڈ جان کر حیرانی ہوتی ہے کہ یہ اتنا اونچا کس طرح اڑنے لگے؟ ان کے کالم پڑھ کر ہمارا خون بھی کھول رہا تھا کہ دنیا جہاں کی برائیاں بھی تو ان کے نام نہاد پوتر میڈیا نے پروموٹ کی ہیں۔

  16. کہتے ہیں ساری خبریں ہم بریک کرتےہیں۔ برما ایشو پر تب تک بات نہیں کی سالوں نے جب تک امریکہ سے آرڈر نہں ملا۔۔۔۔
    بلال بھا ئ یوں ہی عوام کی آواز بنے رہنا۔

  17. السلام علیکم!
    بلال بھائی، میں نے صرف جاوید چوہدری کا کالم پڑھا تھا اب آپ کے بلاگ کے توسط سے حامد مِیر کو بھی پڑھ لیا ہے، مجھے سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ میں اس کالم کا جواب کہاں اور کیسے لکھوں، مگر آپ کی تحریر پڑھ کر اب کوئی تشنگی نہیں رہی، یقینا آپ نے مجھ جیسے اور بہت سے لوگوں کے جذبات کی بالکل صحیح ترجمانی کی ہے اور میرے خیال میں آپ کی تحریر پڑھ کر دونوں “خوامخواہ دانشور” حضرات کے چہروں پر مردنی کی کیفیت چھا گئی ہو گی۔
    اللہ کرے زورِ قلم اور زیادہ!

  18. آپ کی تحریرلاجواب ہے تب مزہ آئےگا جب یہ ان دونوں کی نظر سے گزرے گی اوران کو پتہ چلے گا کہ ہم سب ان کے بارے میں کیا سوچتے ہیں۔.؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟

  19. السلام و علیکم!
    محترم بلال صاحب، آپ نے حامد میر اور جاوید چودھری کی صحیح کُتے کھانی کی ہے۔
    ًمحترم بلال صاحب، میں نے اپنا ایک بلاگ بنایا ہے۔ میں چایتا ہوں کہ میں بھی اُردو کی اشاعت و ترویج میں اپنا کردار ادا کروں۔ برائے مہربانی مجھے کوئی اچھا سا مشورہ عنایت فرمائیں۔ آپ کی بہت مہربانی ہو گی۔۔
    محمد افضل رندھاوا

  20. اسالمئلکئم ،محترم بلال صاحب، آپ نے حامد میر اور جاوید چودھری کی صحیح کُتے کھانی کی ہے۔

  21. بلال صاحب خوب کلاس لی ہے انکی۔

    ویسے یار انکے بھی چھوٹے چھوٹے بچے ہیں۔ڈالر یا لفافے نہ ملے تو انکا کیا ہوگا۔
    ساری زندگی تو انہوں نے بھی غریب نہیں رہنا ناں

تبصرہ تحریر کریں۔

Your email address will not be published. Required fields are marked *