جون 15, 2012 - ایم بلال ایم
10 تبصر ے

چور چکا چوہدری تے لنڈی رن پردھان

اس طرح کی بات کو کہاوت بولتے ہیں یا کچھ اور، اگر آپ کو پتہ ہو تو مجھے ضرور بتائیے گا۔ خیر پنجابی میں ایک بات کہتے ہیں کہ ”چور چَکا چوہدری تے لُنڈی رن پردھان“ یعنی چور ڈاکو چوہدری بنے ہوئے ہیں اور بُری/چور عورت (لُنڈی رن) پردھان یعنی سربراہ، نگران، وزیر یا معتبر بنی بیٹھی ہے۔ اب چوہدری کو آج کے چور چوہدریوں کے تناظر میں نہ دیکھئے بلکہ اس چوہدری کو ذہن میں رکھیں، جو گاؤں کا معتبر اور سربراہ ہوتا تھا۔ ہر کسی کی خوشی و غمی میں شریک ہوتا۔ جس کی سرائے ہوتی، ہر مسافر اس میں ٹھہرتا اور مسافر کے کھانے پینے کا بندوبست چوہدری نے ہی کرنا ہوتا۔ ہر گاؤں والے کے اناج کی ذمہ داری بھی چوہدری پر ہوتی۔ چوہدری خود کچھ کھائے یا بھوکا سوئے لیکن اس کے گاؤں میں کوئی بھوکا نہیں سونا چاہئے۔ عموماً گاؤں کے اردگرد کی ساری زمینوں کا نگران یا مالک چوہدری ہی ہوتا مگر چوہدری گاؤں کا مالک کم اور خادم زیادہ ہوتا۔ چوہدری گاؤں کی اعلیٰ عدالت (پنچائیت) کا ”چیف جسٹس“ بھی ہوتا اور انصاف کے ساتھ فیصلے کرتا۔ گاؤں کے بزرگ اور تجربہ کار لوگ چوہدری کے مشیر ہوتے۔ عموماً نائی شعبہ اطلاعات و نشریات اور خارجہ پالیسیوں (رشتہ کروانے اور شادی بیاہ) کا وزیر ہوتا اور تھوڑا بہت لکھنے پڑھنے والا بندہ چوہدری کا منشی ہوتا۔ گاؤں کے ہر ہر بندے کی عزت چوہدری کی اپنی عزت ہوتی۔ اگر گاؤں میں کوئی چوری ہو جاتی تو چوہدری اسے بادشاہ کی سلطنت پر حملہ کے مترادف لیتا۔ چوہدری جو بات کہتا اس کا پابند رہتا، جو وعدہ کرتا وہ وفا ہوتا۔ چوہدری کی سب سے بڑی خصوصیت اس کا خداترس اور مخلص ہونا تھی۔ اسی دور میں ہر محلے یا کم از کم پورے گاؤں میں ایک معتبر (پردھان) عورت بھی ہوتی۔ جو پورے گاؤں میں سب سے زیادہ سیانی اور مخلص مانی جاتی اور وہ ہوتی بھی تھی۔ ہر خوشی و غمی میں اسی سے مشورے لئے جاتے اور اکثر کاموں میں وہی انچارج ہوتی۔گھروں سے باہر کے معاملات چوہدری دیکھتا اور گاؤں والوں کے گھرداری اور اس سے ملتے جلتے معاملات کی مشکلات کا حل پردھان عورت دیکھتی۔ پردھان عورت کم یا زیادہ سیانی ہو سکتی تھی لیکن چوہدری کی طرح اس کی بھی سب سے بڑی خوبی مخلص پن تھی۔ یہاں جن لوگوں کو معلوم نہیں ان کو بتاتا چلوں کہ ”چوہدری/چودھری“ کوئی ذات نہیں تھی اور نہ ہی اب ہے بلکہ کسی گاؤں میں مندرجہ بالا خصوصیات رکھنے والا شخص یا خاندان چوہدری کہلاتا۔ آپ یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ چوہدری ایک عہدہ تھا۔ مختلف ادوار اور مختلف علاقوں میں گاؤں کے سربراہ کو مختلف ناموں سے پکارا جاتا رہا۔ پردھان کے عہدے پر گاؤں کی سب سے سیانی اور مخلص عورت فائز ہوتی اور پردھان عورت کے لئے چوہدری کا رشتہ دار ہونا ضروری نہ تھا۔

خیر وقت گزرتا گیا، چوہدری کا بیٹا بھی خود کو چوہدری کہلوانے لگا جبکہ چوہدری کوئی ذات نہیں تھی۔ چوہدری کی اصل خصوصیات کی بجائے چوہدری ابنِ چوہدری پیدا ہونے لگے۔ اس وقت زمین ہی اصل طاقت تھی تو چوہدری کی زمین چوہدری کے بیٹوں کو ملتی اور ایک چوہدری سے کئی چوہدری پیدا ہو جاتے۔ اس کے علاوہ جس کی لاٹھی اس کی بھینس کے مصداق ہر طاقتور خود کو معتبر کہلوانے کے لئے چوہدری بن بیٹھتا۔ یوں کہیں چوہدری کی اصل خصوصیات والے لوگ چوہدری بنے تو کہیں چور چَکے چوہدری بن گئے تو پھر چور چوہدریوں نے گاؤں میں چوری ہونے کو سلطنت پر حملہ کے مترادف کیا خاک لینا تھا۔ بالکل اسی طرح پردھان بنتِ پردھان پیدا ہونے لگیں۔ حتی کہ زبان دراز اور گھر سے بھاگیں ہوئی لڑکیاں بھی پردھان بن بیٹھیں۔ یوں کئی علاقوں میں چوہدری اور پردھان جیسے الفاظ ایک گالی بن کر رہ گئے اور کئی لوگ چوہدری ابنِ چوہدری ہونے کی وجہ سے اپنے آپ پر اترانے لگے۔ چوہدری طاقتور بھی تھے اور ساتھ ساتھ دن بدن ان میں اکڑ پیدا ہوتی گئی، حتی کہ ”سؤر“ کی طاقت اور اکڑ سے مماثل ہو گئی۔ اب لوگ چوہدریوں کی طاقت کی وجہ سے یا انسانیت کے ناطے انہیں سؤر تو نہ کہہ سکے مگر ”بیچارے“ سؤر کا نام چوہدری رکھ دیا گیا۔ 🙂

خیر پھر وہ وقت آیا جب لوگوں کو مجبوری میں کہنا ہی پڑا کہ ”چور چَکا چوہدری تے لُنڈی رن پردھان“۔

مندرجہ بالا باتیں سو فیصد درست ہوں نہ ہوں لیکن تاریخ ان سے ملتی جلتی ضرور ہو گی کیونکہ ہم نے اپنے بڑوں سے جو باتیں، داستانیں، کہانیاں اور روایات سنی ہیں ان کے مطابق تو کسی چوہدری کو شروع میں بیان کردہ خصوصیات کا مالک ضرور ہونا چاہئے۔ گو کہ آج بھی چوہدری کی خصوصیات والے لوگ موجود ہیں مگر چوہدری صرف وہی کہلوا رہے ہیں جو چوہدری ابنِ چوہدری ہیں جبکہ اکثریت میں چوہدری والی خصوصیات کی بجائے چور ڈاکو والی خصوصیات پائی جاتی ہیں۔

پتہ نہیں اس موضوع پر پہلے کسی نے لکھا ہے یا نہیں۔ کہیں کوئی اس ڈر سے نہ لکھتا ہو کہ لوگ کہیں گے کہ انگور کٹھے یا تم چوہدری نہیں تو اس لئے ایسی باتیں کر رہے ہو۔ چلیں جی پھر آج گھر کا بھیدی لنکا ڈھا گیا۔

ویسے ہمارا حال یہ ہو چکا ہے اور ہم اتنے گر چکے ہیں کہ آپ اس تحریر کے عنوان میں تھوڑی بہت تبدیلی کے بعد یا ”چوہدری“ اور ”پردھان“ کی جگہ پر کوئی بھی عہدہ، شعبہ یا محکمہ رکھ کر دیکھیں تو اکثریت آپ کو ”چور چَکوں“ اور ”لُنڈی رنوں“ کی ہی ملے گی۔ چلیں آپ کی آسانی کے لئے اردو کی آمیزش کے ساتھ کچھ مثالیں میں ہی دے دیتا ہوں مگر یہاں پر ”لُنڈی رن“ کو بُری/چور عورت کے معنوں میں نہ لیا جائے بلکہ جو خرابیاں اس عہدے، شعبے یا محکمے میں موجود ہیں ان کے تناظر میں دیکھیں۔
جھوٹا اخبار اور لُنڈی رن صحافی
دھوکے باز میڈیا اور لُنڈی رن تجزیہ نگار
تفریحی کھیل مگر لُنڈی رن کھلاڑی
نام جمہوریت مگر لُنڈی رن سیاست
رشوت خور محکمے تے لُنڈی رن عوام

اب توپیں لے کر میرے پیچھے نہ پڑ جائیے گا کہ میں نے سب کے سب کو اس طرح کیوں کہا ہے؟ ارے! میں نے سب کے سب کو اس طرح نہیں کہا، میں جانتا ہوں کہ ہر جگہ اچھے لوگ بھی موجود ہیں، اسلئے صرف انہیں کو کہا ہے جو ”لُنڈی رنیں“ بنے ہوئے ہیں اور اس ملک و قوم کو تباہی کے دھانے پر لے آئیں ہیں بلکہ تباہ کر ہی دیا ہے۔ اب جیسے آج کے اکثر سیاست دانوں نے سیاست جیسے اچھے شعبے کو ”لنڈی رن“ بنا رکھا ہے۔ ویسے مجھے لگتا ہے کہ آپ کو سب سے زیادہ اعتراض ”لُنڈی رن عوام“ پر ہو گا۔ پہلی بات یہ کہ میں خود اس عوام میں شامل ہوں اور دوسری بات یہ کہ کبھی ہم اپنے آپ پر اور اپنے اردگرد غور کیا ہے کہ رشوت خور محکموں میں وہ کون لوگ ہیں جو رشوت کو عین عبادت سمجھے بیٹھے ہیں؟ کیا ہم نے کبھی غور کیا ہے کہ جگہ جگہ رشوت دینے والے لوگ کس عوام سے تعلق رکھتے ہیں؟ اکثریت کا بگاڑ، خاموش بیٹھے اچھے لوگوں کو بھی لے ڈوبتا ہے اس لئے بے شک میں سب کو نہیں کہہ رہا لیکن عالمی دنیا اکثریت یا نمایا لوگوں کو دیکھ کر ایک چھڑی (سوچ) بناتی ہے اور پھر اس چھڑی سے ساری عوام کو ہانکتی ہے۔

خیر خلاصہ یہ کہ میں نے سب کو ایسا نہیں کہا بلکہ گندی مچھلیوں اور ”لُنڈی رنوں“ کو ہی ”لُنڈی رن“ کہا ہے۔

آپس کی بات ہے کہ اگر آپ کے پاس اس جیسی کہاوت یا بات ہو تو پھر کچھ یوں شیئر کریں کہ کسی کو کانوں کان خبر نہ ہو۔ 😉 مزید اپنے چوہدری بھائیوں سے گذارش ہے کہ اس تحریر کو ہلکے پھلکے انداز میں لیجئے گا۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست 10 تبصرے برائے تحریر ”چور چکا چوہدری تے لنڈی رن پردھان

  1. ہمارا سب سے بڑا مسلئہ یہ ”چوہدری ابنِ چوہدری” ہے۔ چوہدری کے گھر پیدا ہونا ہی چوہدراہٹ پر اپنا حق سمجھ لیا گیا بالکل ویسے ہی جیسے مسلمان کے گھر پیدا ہوکر دوزخ حرام ہوگئی۔ آج تک میں نے نہیں سنا کہ کسی نے سوال اٹھایا ہو ایسے کیسے ہوسکتا ہے کہ میں جس نے ساری عمر اللہ کی نافرمانیاں کی ہیں اور عملا سنت رسول کا انکاری رہا ہوں لیکن کیونکہ میں مسلمان کے گھر پیدا ہوا اس لیے میں اپنے گناؤں کی سزا کاٹ کر جنت میں جاؤں گا، اور دوسری طرف کافر کے گھر پیدا ہونے والا ساری عمر انسانیت کی خدمت کررہا ہے لیکن آخرت میں اس کا ٹھکانہ دوزخ ہی ہے۔

  2. بلال صاحب پنجابی بڑی فصیح زبان ہے اور اس کے محاورے ( جنھیں عام طور پر سیانیاں دا اکھان یا خوان کہتے ہیں ) بڑے جامع اور گہرائی والے ہیں۔ اسی طرح مندرجہ بالا محاورہ بھی لوگوں یا معاشرے کی عمومی گراوٹ کی عکاسی کرنے کے لیے بولا جاتا ہے کہ جب سب کچھ ہی خراب ہو تو پھر ایسی صورت حال ہوتی ہے۔

  3. ”چوہدری کا بیٹا بھی خود کو چوہدری کہلوانے لگا جبکہ چوہدری کوئی ذات نہیں تھی۔ چوہدری کی اصل خصوصیات کی بجائے چوہدری ابنِ چوہدری پیدا ہونے لگے“
    وہ چوہدری نظام نئے زمانے کے رنگ نے ختم کر دیا تھا اور نہ چوہدری کے بیٹے نے اپنے آپ کو چوہدری کہلوایا ۔ کوئی اِکا دُکا واقعہ ہوا ہو سکتا ہے ۔ جو اپنے آپ کو چوہدری کہنے لگے یہ ان چوہدریوں کی اولاد نہیں ہیں بلکہ یہ ”چور اُچکے“ تھے جنہیں انگریز حکمرانوں نے چوہدری بنا دیا اور لُٹیروں کو چوہدری بنے دیکھ کر دوسرے لُٹیرے بھی ”دھونس دھوندلی“ سے چوہدری بننے لگے
    اصل قصور اُن کا ہے جنہیں عوام کہا جاتا ہے جو اپنی چھوٹی چھوٹی خواہشات کیلئے عمر بھر کی غلامی اختیار کئے ہوئے ہیں ۔ حق کا ساتھ نہیں دیتے اور ہر چیز کو اپنا حق سمجھتے ہیں

  4. واہ واہ واہ جناب کیا خوبصورت حسبِ ماضی کا حسبِ حال کے تناظر میں حقیت بیان فرمائی-بلال بھائی اپنی نظر اُتروایا کرو – ماشاء اللہ کیا خوبصورت کیا ہی بہترین- – – – مزاہ آگیا
    معلومات سے بھرپوُر تحریر -کیا منفرد ادبی سوچ ادبی ذوق اور منفرد انداز -کیا کہنے
    پہلے تو میں نظر انداز کر رہا تھا کہ ناں جانے کیسا موضوع اور کیسی تحریر ہو گی مگر ،، تُسی تے چھا گئے او –تسُی گریٹ او ،،سچ مُچ گریٹ

  5. (ذرا سانمکین) ویسے بلال بھائی آپ کے پڑوسی چوہدری تو اُردو نہیں پڑہنا جانتے ناں ۔اوہ تے پنجابی نیں چلو چھڈو مِٹی پاؤ – ناں ای پڑہن تے چنگا ایہ چوہدری چوہدری ہوندا ایہ پاویں پنجابی ہووَے یا کوئی ہور دوُسرا

تبصرہ تحریر کریں۔

Your email address will not be published. Required fields are marked *