اپریل 29, 2014 - ایم بلال ایم
31 تبصر ے

دھمکیاں اور میری وصیت

سمجھتا تھا کہ میں ایک نہایت عام انسان ہوں۔ اِدھر سٹیج سے اتروں گا تو اُدھر دنیا کو پتہ بھی نہ ہو گا کہ کوئی ایم بلال ایم نامی انسان اس دنیا میں آیا تھا، کیونکہ عام لوگوں کے بارے میں یہی دنیا کا دستور رہا ہے اور میں ایک حساب سے اس دستور کو رحمت سمجھتا ہوں۔ خیر میں تو کافی مشہور ہوں، اس بات کا مجھے تب پتہ چلا، جب کئی لوگوں نے دھمکیاں دینی شروع کیں۔ ویسے بھی آج کل دھمکیوں یا مخالفت کی بنیاد پر وصیتیں کرنا عام ہے تو سوچا چلو ہم بھی ملنے والی دھمکیاں سناتے اور وصیت کر دیتے ہیں۔ 😛 ویسے اہم شخصیات کو ملنے والی دھمکیاں عموماً جان سے مارنے کی ہوتی ہیں۔ مگر مجھے جو دھمکیاں ملتیں ہیں، وہ ایسی ہیں کہ بتا بھی نہیں سکتا اور آج چھپانے کو دل بھی نہیں کر رہا۔

خیر ایک دو سال پہلے رمضان کے دنوں میں فیس بک پر ایک اہم ترین لاڈلی سی دھمکی ملی۔ دھمکی یہ تھی کہ اگر آپ نے میری ”فرینڈ ریکویسٹ“ قبول نہ کی تو میں کل کا روزہ نہیں رکھوں گی اور اس کا گناہ آپ کے سر جائے گا۔ لو کر لو گل۔ اب تو لوگ اپنے گناہ بھی ہمارے سر ڈالنے لگے۔ ویسے یہ دھمکی پڑھ کر مجھے بڑی ہنسی آئی اور محترمہ کی معصومیت پر ترس بھی آیا۔ خیر میں نے جواب دیا کہ محترمہ آپ ”اپنے گناہ“ میرے سر نہ ڈالیں اور ایک کی بجائے ہزار ریکویسٹس بھیجیں، میں ساری قبول کرتا جاؤں گا۔ اب چونکہ آپ نے ایسی شرط رکھی ہے تو پھر میں بھی رکھ دیتا ہوں۔ لہٰذا جتنی ریکویسٹس آپ بھیجیں گی، تو پھر میں بھی اتنے ہی روزے نہیں رکھوں گا اور ان کا گناہ آپ کے سر ہو گا۔ 🙂 خاتون کوئی سمجھدار تھی، فوراً ہی انہوں نے اپنی بھیجی ہوئی ریکویسٹ ”کینسل“ کر دی۔

پچھلے دنوں جب میں ایک سیاحتی سفر پر نکلنے کا پروگرام بنا رہا تھا تو ایک دھمکی موصول ہوئی۔ جناب فرماتے ہیں کہ اگر آپ ہمارے شہر نہ آئے اور اپنے خرچے پر مجھے اپنے ساتھ سفر پر نہ لے گئے تو میں آپ کا بلاگ ہیک کر کے اُدھر ننگی گالیاں لکھ دوں گا۔ یہ جاہلانہ دھمکی بڑی عجیب لگی۔ اس کا کوئی جواب نہ دیا۔ لیکن حضرت نے دو تین دفعہ پیغام بھیجا۔ خیر میں نے سمجھانے کے انداز میں جواب دیا لیکن جناب ضرورت سے کچھ زیادہ ہی اونچا اڑ رہے تھے۔ آخر بات ختم کرنے کے لئے مذاق میں جواب دیا کہ اے کاش تو لڑکی ہوتا، تو تیرے شہر اکیلا ہی نہیں بلکہ پوری بارات لے کر آتا۔ اتنے خرچے کرتا کہ تیرا شہر بھی دھنگ رہ جاتا، ایک سفر تو کیا زندگی کے سفر پر تجھے اپنے ساتھ لیے چلتا۔ 😀 آپس کی بات ہے کہ میرے اس جواب پر اس نے مجھے خوب گالیاں دیں۔ میں نے جواب میں صرف اتنا کہا کہ ”کاکے“ میں نے بلاگ اور فیس بک پیج پر گالیوں والے کمنٹس کی روک تھام کے لئے ”ماڈریشن“ میں جتنی گالیاں لکھ رکھی ہیں، اگر وہی تمہیں بھیج دوں تو تم گالیوں میں پی ایچ ڈی کر لو گے۔ اس لئے ”نہ چھیڑ ملنگاں نوں، کتے پین دے نیں ٹنگاں نوں“۔ شکر ہے کہ اس کے بعد اس نے کوئی جواب نہیں دیا۔

ارے! اب آپ وہ گالیوں کی فہرست نہ مانگنے بیٹھ جائیے گا۔ ویسے اگر آپ کو ماڈریشن کے لئے ایسی فہرست چاہیئے تو پھر بتا دیتا ہوں کہ پچھلے دنوں پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی نے فحش پیغامات کی روک تھام کے لئے ایک زبردست فہرست جاری کی تھی، جس میں بڑی ”کلاسیکل گالیاں“ موجود ہیں۔ 😀 آپس کی بات ہے کہ وہ فہرست پڑھنے سے رومن اردو لکھنے والے بہت شرمندہ ہوں گے، کیونکہ وہ فہرست رومن اردو میں تھی اور روزمرہ کے اردو الفاظ بھی جب رومن میں آتے ہیں تو کیا کے کیا بن جاتے ہیں۔ خیر اب میں اتنا ”بلنگا“ بھی نہیں کہ ایسے الفاظ کی ادھر مثالیں دیتا پھروں۔ ویسے بھی وہ الفاظ ادھر لکھے تو ایسی بمباری ہو گی کہ کئی لوگوں کو چوٹ لگے گی۔ 😉

ایک دفعہ ایک صاحب نے کہا کہ آپ اپنی تحاریر یا فیس بک کے ذریعے مفت میں ہماری فلاں ویب سائیٹ کی تشہیر کریں۔ میں نے جواب دیا کہ میں یوں تشہیر نہیں کیا کرتا۔ ویسے بھی آپ جس قسم کی چیزوں کی تشہیر کا کہہ رہے ہو، میرے خیال میں وہ مناسب نہیں۔ میرے اس جواب پر وہ صاحب تو سیخ پا ہو گئے اور دھمکی دی کہ ہمارے پاس بھی بڑے بڑے فیس بکی پیج ہیں اور کئی ”اردو بلاگرز“ ہمارے دوست ہیں۔ ہم تمہیں ایسا بدنام کریں گے کہ تم آن لائن سرگرمیاں ہی چھوڑ کر بھاگ جاؤ گے۔ میں نے اس کے جواب میں ایک قہقہ لگایا اور کہا کہ جب آپ کے پاس بڑے بڑے پیج اور بلاگرز موجود ہیں تو پھر میرے پاس کیا لینے آئے ہو؟ انہیں سے ہی اپنی تشہیر کروا لو۔ بہرحال میں تو صرف آپ کو دعا ہی دے سکتا ہوں کہ جا اللہ تیرا بھلا کرے۔ بس اتنا یاد رکھنا کہ عزت اور ذلت اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ اگر میرے نصیب میں ذلت ہے تو پھر میں اسے نہیں روک سکتا اور اگر میرے نصیب میں عزت ہے تو پھر آپ جو چاہے کر لو میرا کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔ اس کے بعد اس کا کوئی جواب نہ آیا۔

بلال بھائی آپ نے مجھے انڈین ڈرامہ ”چندر کانتا“ آن لائن ڈھونڈ کر نہیں دیا، اس لئے میں اب آپ کی تحریر نہیں پڑھوں گی۔ بلال صاحب آپ نے میرے نام کی ”ونڈوز“ نہیں بنا کر دی، جس کی وجہ سے میری تعلیم کا حرج ہو رہا ہے اور اگر میں فیل ہو گیا تو آپ کو بدعا دوں گا۔ لو کر لو گل۔ اب آپ ہی بتاؤ کہ ایسی دھمکیوں اور فرمائشوں کا کیا کروں؟ خیر ایسی انوکھی اور جذبات سے لبریز دھمکیاں اکثر ملتی رہتی ہیں۔ اگر یہاں ساری لکھنے بیٹھ گیا تو تحریر کافی لمبی ہو جائے گی۔ ویسے افسوس! آج تک کسی صنف نازک نے ”پیار بھری“ دھمکی نہیں دی۔ 🙂 بہرحال زیادہ تر دھمکیوں کا تو جواب ہی نہیں دیتا یا پھر صرف ایک مسکراہٹ بھیج دیتا ہوں۔ البتہ چند دھمکیاں ایسی ہوتی ہیں جن کے بچپنے اور معصومیت کی وجہ سے جواب دینے کو دل کرتا ہے۔ میرا خیال ہے کہ ایسی دھمکیاں یا تو بچے دیتے ہیں یا نہایت ہی جذباتی لوگ۔ ویسے اردو یا دیگر کئی معاملات کے متعلق بہت سارے سوالات اور فرمائشیں موصول ہوتی ہیں اور میں حتی المقدور ان کا جواب دیتا یا مسئلہ حل کر دیتا ہوں۔ لیکن دھمکیاں میری سمجھ سے باہر ہیں۔ شاید یہ ہمارے معاشرے کا مزاج بن چکا ہے کہ کسی کام کے لئے درخواست کرنے کی بجائے ”حکم یا دھمکی“ دیتے ہیں۔

خیر اب باری ہے پچھلے دنوں ملنے والی ایک خاص اور انوکھی دھمکی کی۔ یہ دھمکی ایک قریبی دوست کی طرف سے ملی۔ دراصل دوست نے ایک کام کہا تھا۔ مصروفیات کی وجہ سے نہ کر سکا تو اس نے فیس بک پر پیغام بھیجا کہ میرے کام کے لئے تمہارے پاس وقت نہیں اور اشتہار برائے ضرورت رشتہ جیسی فضول تحاریر لکھنے کا وقت ہے۔ اب جلدی سے میرا کام کر دے ورنہ تو نے تو مذاق میں تحریر لکھی تھی مگر میں نے واقعی ضرورت رشتہ کا اشتہار بنا کر سوشل میڈیا پر چلا دینا ہے، اور تو اور اخبار میں بھی شائع کروا دینا ہے۔ یہ ”دھمکی“ پڑھ کر مجھے بہت ہنسی آئی، کافی دیر ہنستا رہا اور سوچتا رہا کہ لو کر لو گل، اب ہم پر یہ وقت بھی آنا تھا۔ خیر دوست کو جواب دیا کہ نیکی اور پوچھ پوچھ۔ ویسے یہ جو تو نے اپنی طرف سے دھمکی دی ہے، دراصل یہ دھمکی نہیں بلکہ نیکی ہے۔ ہو سکتا ہے کہ تیری اس حرکت سے ہی کوئی کام بن جائے۔ 😀 ایسے تو پھر ایسے ہی سہی، جا پھر میں نے بھی تیرا کام نہیں کرنا۔ اوہ ٹھہر ٹھہر۔۔۔ یار میں تو مذاق کر رہا ہوں اور تم دل پر ہی لے گئے۔

بہرحال اب مجھے اس دوست کا کام واقعی کر دینا چاہیئے کیونکہ اس کمبخت سے کچھ بھی بعید نہیں۔ میں تو مذاق کر رہا ہوں لیکن اس کا کوئی اعتبار نہیں۔ لہٰذا اب مجھے اجازت دیں تاکہ میں کام کاج کر لوں۔ ویسے جاتے جاتے وصیت کر دوں کہ اگر میرا ”کچھ“ نہ ہوا تو اس کی ذمہ دار ”بلاگنگ“ ہو گی۔ وہ کیا ہے کہ ایک تو یہ بہت وقت لیتی ہے اور ٹھیک طرح پیسے بھی نہیں کمانے دیتی۔ اوپر سے جب کسی کو بتاؤں کہ میں بلاگر بھی ہوں تو وہ ڈر جاتا ہے اور سوچتا ہے کہ ”بِلا۔گر“ ضرور بِلے پکڑنے والی کوئی بلا ہو گی۔ 😀 اس کے بعد ذمہ دار وہ دوست ہیں، جو انٹرنیٹ پر میری ہر اوٹ پٹانگ تصویر لگا کر ”بلیوں“ کو خبردار کر دیتے ہیں۔ یوں انٹرنیٹ پر بھی کوئی ”بلی“ ہاتھ نہیں آتی۔ آخر پر سب سے زیادہ ذمہ دار وہ ”شرافت زدہ بِلے“ ہیں جو اندر کھاتے خود تو بلیوں کا شکار کرتے رہتے ہیں مگر ہمارے مزاح میں لکھے الفاظ پر بھی۔۔۔ خیر چھڈو جی، بات مزاح میں کہیں کی کہیں نکل جائے گی، جبکہ میں تو کافی سنجیدہ باتیں کر رہا ہوں۔ 😀 بہرحال آج کے لئے اتنا ہی کافی ہے۔ پھر ملیں گے۔ رب راکھا۔۔۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست 31 تبصرے برائے تحریر ”دھمکیاں اور میری وصیت

  1. ہاہاہا۔۔۔۔۔ماشاءاللہ۔۔۔بہت خوب بلال بھائی۔لگتا ہے اب ہمیں بھی دھمکی دینی پڑے گی۔ ویسے آپس کی بات ہے میرا تعلق بھی گجرات سے ہے اور واقعتا اب تو آپ سے ملنے کا بہت جی چاہ رہا ہے۔ انشاءاللہ اچھی سی دھمکیاں سوچ کر رابط کرتاہوں۔مدینہ سیداں کے پاس ہی زمیندار کالج میں اپنی رہائش ہے۔۔۔وہاں کے رہائشی اس کام میں سند یافتہ ہیں انشاءاللہ مایوسی نہیں ہوگی۔۔۔

  2. السلام و علیکم بلال

    زبردست تحریر ۔۔ لطف آگیا پڑھ کے ۔۔۔ یار آپ کو تو چلو معصوم یا “بللی” قسم کی دھمکیاں ملتی رہتی ہیں ۔۔ ہمیں تو کسی نے سیریس بھی دھمکی نہیں دی

  3. دھمکی کے اسرار نے اپکا پورا مضمون پڑھنے پر مجبور کیا، دھمکی کا یہ انداز پسند ایا۔۔۔۔۔ یقینا” ؔا نے بڑا کام کیا ہے اور ؔا پ مبارکباد کے مستحق ہیں۔

  4. بہت خوب بلال بھائی ! آپ کی تحریر پڑھ کر تو وہ شعر یاد آ گیا۔
    کچھ بھی نہ کہا اور کہہ بھی گئے کچھ کہتے کہتے رہ بھی گئے

  5. یہ کیسی دھمکیاں ہیں کہ لوگ پڑھ کے واہ واہ کر رہے ہیں ۔ دھمکیوں کا موسم ہے تو لگے ہاتھوں میں بھی ایک دھمکی میدان میں لے آتا ہوں ۔ میرا دماغ چونکہ اب چوپٹ ہو چکا ہے اور میں کاہل بھی ہو گیا ہوں اسلئے میں آپ کے عِلم سے استفادہ کرنے کیلئے کئی ماہ سے آپ کو ای میل کرنا چاہ رہا ہوں لیکن سوچ کر کہ آپ پہلے ہی بہت مصروف ہوتے ہیں نہیں لکھتا۔ چنانچہآپ کو دھمکی دے رہا ہوں کہ اگر زندگی نے وفا کی تو کسی دن میں نے متذکرہ ای میل لکھ کر بھیج ہی دینا ہے

  6. ۔۔۔۔۔۔۔۔چس آ گئ ہے

    کسی سرائیکی شاعر نے کہا تھا

    اپنے رنگ وچ رنگ ڈتا ہئ
    واہ واہ سانول چس آ گئ ہے

  7. ہا ہا ہا ہا ہا ہا ہا ۔۔۔۔
    بابا جی نے کہا اور آہا آہا ٹھیک ہی کہا ۔۔؟؟
    “کہ یہ کیسی دھمکیاں ہیں کہ ہر کوئی ‘واہ واہ ‘ کر رہا ہے”
    اوہ کیا کہتے ہیں “چس” آگئی

  8. اعلیٰ
    لو جی فیر ایک اور دھمکی ای سمجھو اینوں وی۔۔۔
    مسئلہ یہ ہے کہ میں نے اینڈرائڈ میں جمیل نوری نستعلیق انسٹال کئے ہیں ۔۔۔
    لیکن چونکہ کمپیوٹر کےلئے بنائے گئے فونٹ انڈرائیڈ میں تھوڑے سے گڑ بڑ کرتے ہیں یعنی کہ لائینینگ کا مسئلہ ہوتا ہے۔۔
    تو اسکا حل بتائیں۔۔۔
    بتاتے ہیں پھر؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟

  9. اپنے پیج یا ویب سائیٹ کی تشہیر کرنے کی دھمکی دینے والوں کو معلوم ہی نہیں ہے کہ یہ بندہ یاروں کے لیے مفت میں بغیر کسی لالچ تشہیر کرتا ہے۔۔۔۔شوہدے لوگ!!

    بہت اچھی تحریر ہے۔۔۔۔پڑھ کر واقعی بہت مزا آیا۔

  10. السلام علیکم!
    آپ کےلئے فقط دو شعر۔ ملاحظہ فرمائیں۔
    ہوا جو تیرَ نظر نیم کش تو کیا حاصل مزا تو جب ہے کہ سینے کے آر پار چلے (بشن سنگھ بیدی)
    مقام فیض‌راہ میں کوئی جچا ہی نہیں جو کوئے یار سے نکلے تو سوئے دار چلے (فیض احمد فیض)
    اللہ آپ کو حامی و ناصر ہو۔ (آمین)۔ ویسے چشم شما چہ طور است۔
    خیر اندیش۔ زبیر خالد ہاشمی

  11. ماشاءاللہ۔بہت خوب بلال بھائی 😛 میری دعا ہے کہ آپ کو مذید دھمکیان ملے ہمیں اسی بہانے ایک اور خوبصورت تحریر پڑھنے کو ملے گی۔ 😆

  12. واہ بلال صاحب، واہ، آپ کا بھی جواب ہی کوئی نہیں۔ اس عمر میں، آپ نے اتنا سیریس مذاق کر ڈالا ، کہ وہ دل جو پہلے ہی، دو فعہ کارڈیک پہنچا چکا ہے۔ اسکو صدمہ پہنچا، ورنہ ، وصیت کا لفظ ہی کافی تھا ۔ جب تفصیلات پر نطر ڈالی تو دل کو قرار آگیا ۔
    ایسی رنگین اور دلفریب دھمکیاں، آپ جیسے نوجوانوں کو روز ملتی ہونگی ۔ جب تک آپ اپنا جنازہ جائیز نہیں کروالیتے ۔ اسکے بعد صرف ایک طرف سے آئینگی، چارون طرف سے نہیں آئینگی دھمکیاں۔ ۔۔۔۔۔۔
    خیر اللہ آپ کو سلامت رکھے، میں چونکہ کراچی میں رہتا ہوں۔ یہاں پر جس طرح کی دھمکیوں کا رواج ہے۔ اور ملتی ہیں،، اللہ پاک آپ کو ان سے محفوظ رکھے۔ آمین۔
    اپنا خیال رکھیں اور جگ جگ جیئں ۔۔۔ 😎 😎

  13. ہاہاہا۔ بلال بھائی مزاآگیا۔ میں آپکے بلاگ کی یہ پہلی پوسٹ پڑھ رہا ہوں۔ میں پہلے بھی آپکا مرید تھا، اب مزید ہو گیا ہوں۔ محبت سے محبت بانٹنے والوں کی خیر ہو

  14. مجھے اس بات پر بڑی خوشی ہوئی کہ اس پاکستان میں کوئی تو ہے جسے اس (اردو)قومی زبان سے محبت ہے۔ ورنہ وہ لوگ جو باہر سے پڑھ کر آتے ہیں اور ان کو صرف انگریزی آتی ہے ۔ اور وہی لوگ اس ملک کا بیڑہ غرق کرنے پر تلے ہوئے ہیں ۔ نظریہ پاکستان کا بیڑہ غرق کردیا ۔ کوئی بھی ڈاک اگر آتی ہے ۔تو انگریزی میں ۔ اللہ آپ کو صحت دے ۔اور اردو کی ترقی کےلئے اور کوشش کریں۔

  15. بلاگ کیا بلا ہے۔ آج پتا چلا۔ آپ اچھے رائٹر ہیں مان گئے پڑھ کر طبیت فریش ہو گئی۔ آپ سے بہت سی مدد درکار ہے اور مدد مل بھی رہی ہے۔ اللہ آپ کے لیے آسانیاں پیدا کرے جس طرح آپ نے آسانی دی اور بڑی مشکل آسان کردی ۔ اب ہم بھی کہہ سکتے ہیں کوئی تو ہے کہیں تو ہے جو کمپیوٹر کو آسان بنا رہا ہے۔

تبصرہ تحریر کریں۔

Your email address will not be published. Required fields are marked *