جولائی 23, 2014 - ایم بلال ایم
8 تبصر ے

یک روزہ کشمیر گردی – اختتام

گذشتہ سے پیوستہ

آزاد کشمیر میں کڈیالہ تقریباً پہاڑ کی چوٹی پر واقع ایک گاؤں ہے۔وہاں پر بلندی سے نیچے وادی کا منظر بہت خوبصورت تھا۔ پہاڑی علاقے میں ایک دوسرے سے تھوڑے تھوڑے فاصلے پر بنے گھر اور گھروں کے درمیان میں سرسبز کھیت، مجھے بار بار موٹرسائیکل روک کر تصاویر بنانے پر مجبور کر دیتے۔ وادی کے اُس پار نظر آنے والے پہاڑوں میں سے کچھ آزاد کشمیر کے تھے اور کچھ مقبوضہ کشمیر کے۔ یہ سارا سماہنی سیکٹر کا سرحدی علاقہ ہے۔ اب اترائی تھی اور ہم چوکی شہر کی طرف اتر رہے تھے۔ ہم جلد سے جلد چوکی پہنچنا چاہتے تھے کیونکہ کافی وقت ہو چکا تھا اور اب ہمیں بھوک لگ رہی تھی۔

سماہنی سیکٹر کا خوبصورت نظارہ
سماہنی سیکٹر کا خوبصورت نظارہ
چوکی ایک چھوٹا سا شہر بلکہ قصبہ ہے۔ یہاں کوئی مناسب ہوٹل نہ ملا تو کھانے کے دشمن ”تاتاریوں“ کو کچھ خاص مزا نہ آیا۔ 🙂 وہ کیا ہے کہ ہمارے ایک دو نہایت پیارے دوست ماشاء اللہ ضرورت سے زیادہ خوش خوراک ہیں۔ ناران کی سرد رات ہو، لالہ زار میں پڑتی برف ہو یا پھر سطح سمندر سے تقریباً ساڑھے تیرہ ہزار فٹ بلند دیو سائی کا میدان ہو، جہاں سبزی آسانی سے نہیں گلتی، وہاں پر بھی یہ بکرے کا گوشت طلب کرتے ہیں۔ 😀 لاکھ سمجھا چکے ہیں کہ سیاحتی سفر بھی عام سفر کی طرح انگریزی والا Suffer ہی ہوتا ہے۔ بس جسے اس سفر میں چھوٹی موٹی مشکلات بھی مزا دیں، وہی تو دراصل سیاح ہوتا ہے۔ ویسے بھی ایسا ہو ہی نہیں سکتا کہ Suffer کے بغیر کچھ ملے۔ ہمیں ہر چیز کی، کسی نہ کسی صورت میں اور کچھ نہ کچھ قیمت تو چکانی ہوتی ہے۔ زندگی کے سفر کی طرح سیاحتی سفر میں بھی پتہ نہیں ہوتا کہ کب، کہاں اور کیسے وقت گزارنا پڑ جائے۔ کبھی ہوٹل میں، کبھی خیمے میں، تو کبھی چاچا تارڑ کی طرح فٹ پاتھ پر اخبار بچھا کر بھی سونا پڑ سکتا ہے۔ اگر اچھے کھانے اور آرام دہ زندگی ہی چاہیئے تو پھر چپ کر کے گھر بیٹھو، گوشت پھاڑو، بریانیاں اڑاؤ، انٹرنیٹ پر خوبصورت مقام کی تصاویر دیکھو بلکہ ”فیس بکی سیاح“ بن کر رہو۔ اور اگر خوبصورت مقامات حقیقت میں (ننگی آنکھ سے) دیکھنے اور ان کی تاثیر کو اپنی روح تک اتارنا ہے تو پھر اس کی کچھ نہ کچھ قیمت تو ادا کرنی ہی ہو گی۔

ڈنہ بڑوھ کشمیر میں چشمہ
ڈنہ بڑوھ کشمیر میں چشمہ
خیر چوکی شہر میں کوئی مناسب ہوٹل نہ ملا تو ہمارے خوش خوراک دوستوں نے دال زہر مار کر لی۔ اس کے بعد قافلہ چوکی کے ساتھ ہی ایک مقام ڈنہ بڑوھ کی طرف چلا۔ ڈنہ بڑوھ تقریباً کھائی میں واقع ہے۔ اردگرد کے پہاڑوں پر چیڑ کے گھنے جنگلات ہیں اور کھائی میں ایک چشمہ بہتا ہے۔ تین چار سال پہلے بھی ہم یہاں گئے تھے۔ تب اگست کے دن تھے اور بہت گرمی تھی تو ہم اس چشمے میں خوب نہائے۔ اب کی بار گرمی نہیں تھی تو نہانے کی بجائے ویسے ہی ادھر بیٹھے، گپ شپ اور تماشے کرتے رہے۔ جب ڈنہ بڑوھ پہنچے تو میں سب سے آگے تھا۔ چشمے کے کنارے پہنچنے کے لئے سڑک چھوڑ کر جنگل میں ایک پگڈنڈی پر موٹر سائیکل اتار دیا۔ تھوڑا سا نیچے جانے پر ہی چشمے کا کنارہ آ گیا۔ اِدھر اُدھر نظر دوڑاتے ہوئے چشمے کا جائزہ لیا تو ایک جگہ ایسی مل گئی جہاں سے موٹر سائیکل بمشکل چشمے کے پار جا سکتا تھا۔ باقی قافلے کے پہنچنے سے پہلے پہلے میں پتھریلے راستوں سے موٹرسائیکل گزار کر چشمہ عبور کر چکا تھا۔

چشمہ پار کرنے کے بعد ابھی موٹرسائیکل کا انجن بند کر کے کھڑا ہی ہوا تھا کہ شیر کی دھاڑ جیسی مگر نہایت ہلکی آواز سنائی دی۔ میں نے وہم سمجھا لیکن آواز پھر سنائی دی۔ سوچا کہ کوئی نخریلا کتا ہو گا۔ ویسے بھی آج کل ہمارے ملک میں کتے ہی شیر بنے ہوئے ہیں۔ 🙂 اِدھر اُدھر دیکھنے لگا تو تھوڑی ہی دور ایک کچھار نما بِل نظر آئی۔ بل کے دہانے پر ایک گول مٹول منہ اور لشکارے مارتی آنکھیں۔ منہ تو چھوٹا تھا مگر چیتے جیسا معلوم ہوتا تھا۔ اتنے میں چشمے کے دوسرے کنارے قافلہ پہنچ آیا۔ موٹر سائیکلوں کی آوازوں سے وہ منہ غائب ہو گیا۔ جب سارے چشمے کو عبور کر آئے تو میں نے آواز اور جانور کی بات بتائی۔ زیادہ تر نے مذاق سمجھا مگر جب میں نے تفصیل عباس کو بتائی تو اس نے کہا کہ چیتا تو نہیں لیکن ایک چھوٹا جنگلی بلا ہوتا ہے جس کی شکل چیتے سے ملتی جلتی ہے۔ کافی دیر ہم ڈرتے ڈرتے بل کے پاس جانے کی کوشش کرتے رہے۔ تاکہ کچھ پنجوں کے نشانوں سے ہی اندازہ لگایا جا سکے۔ بل ایسی جگہ پر تھی کہ ادھر مشکل سے چڑھ تو سکتے تھے لیکن اگر اچانک اندر سے جانور نکل آیا تو ہم پیچھے کی جانب گہرائی میں گریں گے۔ اس لئے احتیاطً ایسے معرکے سے پرہیز ہی کیا۔ کسی کسی وقت بل کی طرف نظر مار لیتے مگر سارے اپنی موج مستی میں لگے رہے۔

کچھ دوست ادھر ادھر پتھروں پر بیٹھ کر گپ شپ کرنے اور کچھ تصاویر بنانے لگے، جبکہ غلام عباس اور میر جمال چشمے کے پانی میں تیرتی آبی حیات کا تجزیہ کرنے لگے۔ کچھ دیر ایسے ہی گزارنے کے بعد گروپ فوٹو بنا رہے تھے کہ کسی کی نظر ایک جنگلی چھپکلی پر پڑی۔ چھپکلی دیکھتے ہی مذاق مذاق شور مچ گیا کہ وہ دیکھو پانچ لاکھ والی چھپکلی۔ بس پھر تھوڑی دیر چھپکلی پر تحقیق ہوتی رہی۔ اس کے بعد واپسی کا پروگرام بنا۔ چوکی شہر پہنچ کر میں نے کہا کہ جس راستے سے آئے تھے اسی سے چلتے ہیں کیونکہ میری اطلاع کے مطابق سماہنی اور سرسالہ والا راستہ کافی خراب ہے۔ اس پر عبدالستار نے کہا کہ آپ کی معلومات پرانی ہے جبکہ اب زبردست سڑک بن چکی ہے۔ مجھے اپنی اطلاع پر پورا یقین تھا مگر عبدالستار کی بات مانتے ہوئے سماہنی والا راستہ اختیار کیا اور پھر ٹوٹی پھوٹی سڑک کی خجل خرابی نے میری اطلاع درست ہونے پر مہر ثبت کر دی۔

پہاڑ شاہ کا نظارہ
پہاڑ شاہ کا نظارہ
سماہنی سے جنڈی چونترا آتے ہوئے راستے میں قلعہ باغ سر کے پہاڑ کو دور سے ہی الوداع کہہ دیا۔ اب میں سب سے پیچھے تھا۔ آگے آیا تو ایک مقام پر سارے رکے ہوئے تھے۔ معلوم ہوا کہ کچھ دوستوں نے ”پہاڑ شاہ“ نہیں دیکھا۔ فیصلہ ہوا کہ شام ہونے والی ہے اس لئے جلدی سے نیچے کھائی میں اتر کر پہاڑ شاہ کا ہریالی سے بھرپور خوبصورت علاقہ دیکھ لیں۔ قافلہ پہاڑ شاہ پہنچا۔ ادھر ایک دربار تھا اور دربار کے قریب ہی ایک مورنی چل پھر رہی تھی۔ جب اس کی تصاویر بنانے لگے تو ایک دوست نے کہا کہ ”یار یہ ایک جگہ کھڑی کیوں نہیں ہوتی؟ اتنے نخرے کیوں کر رہی ہے۔“ 🙂 اس پر بے اختیار میرے منہ سے نکلا کہ ”صنفِ نازک“ جو ہے نخرے نہ کرے تو اور کیا کرے۔ 😀

وادی کشمیر میں سفید مور
وادی کشمیر میں سفید مور
ادھر تھوڑی دیر ٹھہرنے کے بعد واپسی کا پروگرام بنا تو میں نے کہا کہ یار یہ جو قریب ہی کسی مور کی آواز آ رہی ہے کیوں نا اس کے پاس جایا جائے۔ سبھی نے کہا کہ شام ہونے والی ہے، اس لئے مور کو چھوڑو اور واپس چلو۔ سارے چل پڑے مگر میں اور رضوان شاہ ادھر ہی کھڑے رہے۔ میں نے کہا شاہ جی پھر کیا خیال ہے؟ مور کی طرف چلیں؟ شاہ جی کی رضامندی پر ہم قریبی پہاڑی چڑھنے لگے اور جلد ہی سفید رنگ کا خوبصورت مور ہمارے سامنے تھا۔ جیسے تیسے مور کی تصاویر بنانے کے بعد ہم بھی واپسی کے سفر پر گامزن ہوئے۔ ہمارا خیال تھا کہ باقی سارے پہاڑ کے اوپر ضرور ہمارے انتظار کر رہے ہوں گے۔ جب پہاڑ پر پہنچے تو ہمیں بہت افسوس ہوا کہ ایک موٹر سائیکلوں پر آئے، دوسرا پہاڑی علاقہ، تیسرا اندھیرا ہو چکا ہے اور اوپر سے ہمارے پیارے دوستوں نے ہمارا انتظار بھی نہ کیا۔

اس سفر کی تصویری جھلکیاں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست 8 تبصرے برائے تحریر ”یک روزہ کشمیر گردی – اختتام

  1. ہمیں پتا ہوتا کہ غلط راہ پر ڈالنے سے سفرنامے میں نام آئے گا تو والله عبدالستار سے زیادہ ہم آپکو کھجل کرتے.:-ڈ
    چلو اگوں سئی

  2. اس گرمی کے موسم میں کشمیر کی سیر، بہت مزے کیے ہوں گے بلال بھائی آپ نے تو۔۔۔میری 5 سال کشمیر پوسٹنگ رہی۔ واقعی بہت مزیدار جگہ ہے ہم جیسے میدانی علاقے کے باشندوں کے لیے۔۔۔

تبصرہ تحریر کریں۔

Your email address will not be published. Required fields are marked *