اپریل 26, 2014 - ایم بلال ایم
10 تبصر ے

آزادی اظہار – تنقید یا تذلیل

سوشل میڈیا کا دور ہے اور ہر کوئی اپنی بات آسانی سے کہہ سکتا ہے۔ دنیا نے اس اظہار و گفتار کی آزادی کے لئے بڑے پاپڑ بیلے ہیں۔ اب جا کر تھوڑی بہت آزادی ملی ہے۔ لیکن ہماری اکثریت یہ جانتی ہی نہیں کہ درحقیقت آزادی اظہار ہے کیا؟ یہاں تو کئی لوگ ایک دوسرے کو گالیاں دینے، تذلیل و بدنام کرنے اور تہمت لگانے کے بعد کہتے ہیں کہ اجی ہم تو تنقید کر رہے تھے اور ہمیں اظہارِ رائے کی آزادی ہے۔ اس کی سب سے بڑی مثال ہمارا سوشل اور روایتی میڈیا ہے۔ بہرحال سب سے پہلے یہ بات ذہن نشین کر لینی چاہیئے کہ رائے یا اظہار کی اس آزادی کی کچھ اخلاقی حدود بھی ہیں۔ یہ سب کچھ اُگل دینے والی ”ننگی آزادی“ نہیں۔ بالفرض اگر کوئی قانون ایسی ننگی آزادی دے بھی تو اخلاقی اقدار اس بات کی اجازت ہرگز نہیں دیتیں۔

اگر آپ سوشل میڈیا یا کہیں بھی اپنی رائے دیتے یا بحث وغیرہ کرتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ دوریاں اور نفرتیں نہ بڑھیں اور آپ کی رائے کا احترام کیا جائے تو پھر آپ کو کم از کم آزادیِ اظہار، تذلیل، تنقید اور تہمت وغیرہ کا فرق معلوم ہونا چاہیئے۔ ”اظہارِ رائے کی آزادی“ کا مفہوم یہ ہے کہ آپ کو کھل کر اپنا نقطہ نظر بیان کرنے، سوال اٹھانے، اختلاف اور تنقید کرنے کی اجازت ہے۔ لیکن اس آزادی کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ آپ دوسروں کی تذلیل یا کردار کشی کرتے، دوسروں پر تہمتیں لگاتے یا نقصان پہنچاتے پھریں۔ خیال رہے کہ جہاں تنقید کی حد ختم ہوتی ہے ادھر سے ہی تذلیل کی سرحد شروع ہو جاتی ہے اور تذلیل کے آخری سرے پر تہمتوں کے طوفان چلتے ہیں۔ ہمارے ہاں اکثر ان حدود کا خیال نہیں کیا جاتا اور کئی لوگ تنقید کرتے کرتے تمام حدیں عبور کر جاتے ہیں۔ افسوس! کئی لوگ یہ گوارہ ہی نہیں کرتے کہ وہ تنقید، تذلیل اور تہمت میں فرق کریں۔ آزادی اظہار کے نام پر ہر چیز کو رگڑتے جاتے ہیں اور بغیر ثبوت کھلم کھلا الزام لگاتے ہیں۔ اکثریت یہ سوچنے کو تیار ہی نہیں کہ بغیر ثبوت الزام لگانا تہمت (بہتان) ہوتی ہے اور تہمت بہت بڑا جرم (گناہ) ہے۔ بلکہ جب آپ کسی پر الزام لگاتے ہیں تو درحقیقت آپ گواہی دے رہے ہوتے ہیں کہ فلاں نے فلاں جرم کیا ہے۔ اب اگر آپ کے پاس ثبوت نہیں اور آپ نے خود وہ جرم ہوتا نہیں دیکھا تو پھر آپ جھوٹی گواہی دے رہے ہیں اور جھوٹی گواہی بھی خود ایک جرم ہے۔

جبکہ تنقید ایک مختلف چیز ہے۔ اصلاح کی خاطر، خوبیوں اور خامیوں کا تجزیہ کرنے کو تنقید کہتے ہیں۔ اب چونکہ تجزیہ کرنا ہے تو پھر ضروری ہے کہ جس چیز پر تنقید کی جارہی ہو اس متعلق مکمل معلومات ہو۔ تنقید کرتے ہوئے صرف غلطیوں کی نشاندہی نہیں کرنی ہوتی بلکہ اچھائیاں بھی واضح کرنی ہوتی ہیں۔ ایک حساب سے کھرے اور کھوٹے سکے علیحدہ کرنے کا نام تنقید ہے۔ اس لئے جب کھوٹے سکوں کا بتائیں تو کھرے سکوں کا ذکر بھی کریں۔ تنقید ہمیشہ ٹھنڈے دل و دماغ، ادب و احترام اور سلجھے انداز میں ہوتی ہے نہ کہ جارحانہ انداز میں۔ تنقید سے دوسرے کی اصلاح مقصود ہوتی ہے نہ کہ دوسرے کو دشمن سمجھتے ہوئے رگڑا لگانا۔

خیر تنقید، تذلیل اور بغیر ثبوت الزام یعنی تہمت کو مثال سے واضح کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔ فرض کریں کہ ایک گلاس آدھا بھرا اور آدھا خالی ہے۔ اب اس پر ہونے والی چند باتیں کیا ہوں گی، وہ ملاحظہ کیجئے۔

”یہ جو گلاس آدھا بھرا اور آدھا خالی ہے، اگر اس کے خالی حصے کو سامنے رکھیں تو فلاں وجوہات کی بنا پر اس کے فلاں نقصانات ہیں۔ اگر یہ حصہ بھی بھر دیا جاتا تو فلاں فائدہ ہو سکتا تھا۔ ویسے یہ بھی ہو سکتا ہے کہ بھرنے والا اتنی استطاعت نہ رکھتا ہو۔ بہرحال جو تھوڑا پانی موجود ہے اس سے بھی فلاں فلاں فوائد حاصل کیے جا سکتے ہیں اور اگر کوئی دوسرا اس میں حصہ ڈالے تو گلاس بھر سکتا ہے۔ پورا بھرا گلاس یقیناً بہتر ہو گا۔“
وجوہات اور حوالے بیان کرتے ہوئے اس طرح کا تجزیہ کرنا اور اپنی رائے دینا ”تنقید“ ہو گی۔ ویسے سلجھے طریقے سے سوال کرنا اور وجہ بیان کر کے اختلاف کرنا بھی تنقید کی ایک قسم ہی ہے۔ خیر اب دیکھیئے تذلیل کرنے کا چھوٹا سا مظاہرہ۔

”یہ جس نے بھی گلاس کے ساتھ ایسا کیا ہے، اس نے سیدھی سیدھی چول ماری ہے۔ ایسے گلاس آدھا خالی چھوڑ دینا بے غیرتی ہے۔اس کو کچھ معلوم نہیں اور چلا ہے پانی ڈالنے۔ یہ بندہ بے وقوف ہے اور اس جاہل کی سوچ ہی سطحی ہے وغیرہ وغیرہ۔“
اس طرح کہنا دوسرے کی تذلیل کرنا ہو گا۔ بغیر حوالے کے کسی کو یوں رگڑ دینا اخلاقیات سے گرنا ہے۔ کسی بھی بحث میں ایسی باتیں کرنے والا بدتمیز کہلاتا ہے اور سمجھداروں کو اس کے متعلق فوراً اندازہ ہو جاتا ہے کہ یہ خود کتنے پانی میں ہے۔ ویسے عام طور پر جن کے پاس دلائل نہیں ہوتے، وہی لوگ ایسی باتیں کرتے ہیں۔

یوں تو بغیر پختہ ثبوت کے کسی پر الزام لگانا سیدھی سیدھی تہمت ہوتی ہے۔ مگر اِدھر اُدھر کے واقعات کی بھونڈی اور بے ربط کڑیاں جوڑ کر الزام لگانا بھی تہمت ہی ہوتی ہے۔ مثال ملاحظہ کیجئے۔
”گلاس میں پانی ڈالنے والا چونکہ اکثر اپنے اور غیر کی تمیز کیے بغیر لوگوں کو پانی پلاتا ہے۔ اس لئے لگتا ہے کہ اس نے اب بھی آدھا پانی گلاس میں ڈال دیا ہے اور آدھا غیروں کو پلا دیا ہے۔ کوئی مفت میں تھوڑی پانی پلاتا ہے، اس نے ضرور دشمن سے پیسے لے کر آدھا گلاس غیروں کو دیا ہے۔ یوں یہ دشمن کے نقشے قدم پر چل رہا ہے۔ یہ ہمارا نہیں بلکہ غیروں کا خیرخواہ ہے۔ یہ غدار ہے بلکہ غدار ابنِ غدار ہے۔“
اس طرح بغیر ثبوت الزام لگانا سیدھی سیدھی تہمت ہو گی اور تہمت ایک جرم ہے۔ بالفرض اگر پختہ ثبوت کے ساتھ کسی پر الزام لگایا جاتا ہے تو پھر سارے معاملے کو قاضی (جج) کے سامنے رکھنا ہو گا۔ یاد رہے کہ اس سے بھی بندہ ”ملزم“ ہو گا نہ کہ ”مجرم“۔ کیونکہ ثبوتوں کے سچ اور جھوٹ کا فیصلہ عدالت کرے گی اور سزا بھی عدالت ہی دے گی۔ بالفرض اگر عدالت ملزم کو باعزت بری کر دے تو پھر کسی کو کوئی حق نہیں کہ وہ الزام لگنے کی وجہ سے سابقہ ملزم کو کچھ بھی الٹا کہے یا کوئی طعنہ دے۔

مندرجہ بالا باتیں عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ ہمیں اندازہ ہو سکے کہ ہمارے ہاں آج کل جو ہو رہا ہے وہ پختہ ثبوتوں کے ساتھ الزامات ہوتے ہیں یا تہمتیں، تنقید ہوتی ہے یا تذلیل اور اس سب سے اصلاح مقصود ہوتی ہے، بدنام کرنا یا پھر دوسرے کو نیچا دیکھانا؟ اب تو ایک فیشن چل نکلا ہے کہ اِدھر دیکھو نہ اُدھر، بس متنازعہ اور دوسروں سے ہٹ کر کوئی بات کرو اور سستی شہرت حاصل کرو۔ حال تو یہ ہے کہ اگر کوئی شخص ”اپنے“ گروہ کی کسی بات سے اختلاف کرتے ہوئے اپنی رائے دے یا تنقید کرے تو عموماًاس کا اپنا گروہ ہی لاٹھیاں لے کر اس کے پیچھے پڑ جاتا ہے اور یہاں تک کہا جاتا ہے کہ تم غدار ہو اور دشمن کے ایجنٹ ہو۔ استغفراللہ۔۔۔ میں ایسے بہت سارے لوگوں کو جانتا ہوں جو تنقید کا اصل مقصد یعنی اصلاح کو سامنے رکھ کر اپنے لوگوں پر تنقید کرتے ہیں تاکہ اپنے لوگ اس تنقید سے سیکھ کر بہتر ہوں، مگر یہاں کئی لوگ بہتر ہونے کی بجائے الٹا تنقید کرنے والے کو ہی دشمن سمجھ لیتے ہیں۔ آج کل بات بات پر ایک دوسرے پر یا اپنے مخالفین پر بغیر ثبوت الزام (تہمت) لگانا اور مذاق اڑانا رواج بن چکا ہے۔ دو چار بغیر سر پیر کے اور سنی سنائی سازشی باتوں کو بنیاد بنا کر نفرتیں بڑھانا اور فتوے جاری کرنا عام ہوتا جا رہا ہے۔ بھیڑ چال کا حال تو یہ ہے کہ اکثریت یہ سوچنے کو تیار ہی نہیں کسی کی تذلیل کرنا اور تہمت لگانا کتنا بڑا جرم ہے۔ اس جرم پر ملکی قانون تو جو کہتا ہے سو کہتا ہو گا مگر کبھی فرصت ہو تو اس سب کو اخلاقیات اور اسلام کے تناظر میں دیکھیئے گا۔ یقین کریں جب معلوم ہو گا کہ تذلیل کرنا یا تہمت لگانا کتنا بڑا جرم ہے تو آپ کے رونگٹے کھڑے ہو جائیں گے۔

بہرحال جہاں ہمیں اظہارِ رائے اور تنقید کرتے ہوئے حدود کا خیال رکھنا ہوتا ہے وہیں پر کسی دوسرے کی رائے اور تنقید کو بھی ٹھنڈے دماغ سے سننا اور برداشت کرنا ہوتا ہے۔ ویسے ہمارے ہاں اگر تصویر کا ایک رخ یہ ہے کہ اظہارِ رائے کی آڑ میں تذلیل ہوتی اور تہمتیں لگتی ہیں، وہیں پر تصویر کا دوسرا رخ یہ بھی ہے کہ اکثر اوقات ”گستاخی ہو گئی“ کی آڑ میں سوال اور تنقید کرنے کا حق بھی چھین لیا جاتا ہے۔ اگر تذلیل اور تہمت سے معاشرے میں بے انتہا بگاڑ پیدا ہوتا ہے تو دوسری طرف جس معاشرے میں فکر کرنے اور سوال اٹھانے کی حوصلہ شکنی کی جائے تو وہ معاشرہ خود فریبی اور شدید گھٹن کی وجہ سے دم توڑ جاتا ہے۔

خیر ہمیں کچھ بولتے، لکھتے یا کسی سے بھی بحث کرتے ہوئے ایک ایک لفظ دھیان سے کہنا چاہیئے اور خیال رکھنا چاہیئے کہیں ہم کسی کی تذلیل تو نہیں کر رہے یا کسی پر تہمت تو نہیں لگا رہے۔ مزید یہ بھی خیال رکھنا چاہیئے کہ کہیں ہم دوسرے سے سوال اور تنقید کرنے کا حق تو نہیں چھین رہے۔ کہیں کسی کی اظہارِ رائے کی آزادی تو سلب نہیں کر رہے۔ کبھی کبھی میں سوچتا ہوں کہ اگر ہم یہ چند باتیں سوچ سمجھ کر کریں، ایک دوسرے سے حسنِ ظن رکھیں، ایک دوسرے کو برداشت کریں اور توازن قائم رکھتے ہوئے میانہ روی اختیار کریں تو ہمارے بہت سارے مسائل، بحثیں اور نفرتیں ختم ہو سکتی ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست 10 تبصرے برائے تحریر ”آزادی اظہار – تنقید یا تذلیل

  1. حد سے نہیں‌گزرنا چاہئے بدقسمتی سے جیو اور اس جیسے دیگر چینل الزامات بھی لگاتے رہے ہیں‌اور کردار کشی بھی
    آج یہ خود اس کی زد میں‌آئے ہوئے ہیں‌ کیونکہ یہ مقدس گائیوں پر الزام لگا بیٹھے ہیں‌ حالانکہ یہ معاملہ خوش اسلوبی سے بھی سلجھ چکا تھا لیکن دونوں طرف کدورتیں اتنی بڑھ چکی تھیں کہ معاملہ افہام وتفہیم سے نہیں‌سلجھ سکا
    دوسری طرف دیگر چینلز کا رویہ دیکھیں‌تو انہوں نے موقع غنیمت جانا اور مشرف کے حمایتی اینکرز نے انت مچا دی اب وہ پاکستان کے سب سے بڑے حمایتی اور ترجمان پاک فوج بن گئے
    اب کون کہتا ہے کہ پاکستان میں‌آزادی رائے ہے اگر کوئی کہتاہے تو جھوٹ کہتا ہے

    1. محترم آپ کا مقدس گائے سے کیا مراد ہے ؟
      آپ پاک فوج کو مقدس گائے کہہ کر طنز کر رہے ہیں ؟

    2. Very balanced comment, however I think part of the reason of ongoing issue is that Hamid Mir is still getting threats. Hamid Mir and GEO are probably willing to letting go of the blanket but blanket is not willing to let go of GEO and Hamid Mir.

      Why are banned organisations holding protests in support of Army? Is that why the terrorism cannot be controlled as terrorists are supervised by the Army? chore and kutti are together?

  2. بہت اعلٰی تحریر ہے،میں آپکی رائے سے مکمل اتفاق کرتا ہوں۔ہمارے معاشرے میں سوشل میڈیا کا استعمال نہائت ہی شرمناک اور غیر زمہ دارانہ طریقے سے ہو رہا ہے۔جہاں‌تک فوج کا تعلق ہے تو فوج کی جو آئینی ذمہ داری ہے وہ سرحدوں کی حفاظت ہے،مگر جب فوج سیاست میں آئیگی تو اپنا وقار خود کھوئے گی۔

  3. جی اصل بات یہ ہے کہ معاشرہ میں محنت اور تحقیق کا ذوق رکھنے والے لوگ نہ ہونے کے برابر ہیں لیکن ہیرہ بننے کا شوق سب کو ہے۔ لہذا ہر شخص بغیر تحقیق اور ثبوت فلسفے بگھارنے کا ماہر بن چکا ہے اور پھر اپنے آپ کو ہی عقل کل سمجھتا ہے لیکن جب دو چار سوال اٹھائے جائیں تو چونکہ پول کھلتا نظر آتا لہذا ذاتیات پر اترے بغیر چارہ نہیں رہتا۔ اللہ ہم سب کی اصلاح کرے۔ آمین۔

  4. بلال صاحب آپ نے جس خوبصورتی کے ساتھ تنقید تحقیر اور تہمت کا فرق واضح کیا ہے بخدا دل خوش ہو گیا لیکن کیا کریں اس سوچ کا جو کچھ سوچنے اور سمجھنے کیلیٕے تیار ہی نہیں ہے۔ ہم جو کیہ دیا وہ پتھر پر لکیر ہے ہم جو کردیا وہ حق ہے ہم نے جو سنا وہ سچ ہےباقی سب ہیچ ہے۔ اپنی غلطی نا ماننا ہماری قومی پہچان بن چکی ہے ۔ جھوٹ اور لغویات کی اتنی کثرت ہے سچ کی تلاش جوٕے شیر لانے کے مترادف ہے۔ میڈیا اور سوشل میڈیا میں نہ سب کچھ صھیح ہے اور نہ سب کچھ غلط لیکن صحیح اور غلط کی پہچان بہت مشکل ہو گٕی ہے۔ جھوٹ اتنی کثرت سے بولا جارہا ہے کہ اس پر سچ کا گمان ہوتاہے۔ اللہ پاک ہماری قوم پر رحم فرمإے۔

  5. اس بات کا مجھے خود بھی ملک چھوڑ کر باہر جانے سے پہلے اندازہ نہیں ہوا تھا کہ پاکستان میں صرف ایک نقطہء نظر سے تعلیم اور معلومات دی جاتی ہیں۔ یہاں پر تاریخی لوگوں کو ایک متھ بنا دیا گیا ہے اور آپ یہ تک نہیں کہہ سکتے کہ یہ نظام ہم سے کم علم اور کم عقل انسانوں کے بنائے ہوئے ہیں ۔آزادیء اظہار کے لیول پر پہنچنے میں ابھی کافی وقت لگے گا۔ اور جیسے حالات چل رہے ہیں‌اس سے ایسا لگتا ہے کہ جو آزادیء اظہار آج حاصل ہے اسے انجوائے کرلیا جائے کیونکہ وہ زیادہ دن ٹکتا دکھائی نہیں‌دیتا۔ دراصل وہ لوگ جو اس کے اندر رہتے ہیں‌وہ کسی بھی تصویر کا دوسرا رخ دیکھنے سے محروم ہیں۔ اس سے صرف مزاق بنتا ہے اور اس سے بڑی افسوس کی بڑی بات یہ کہ ایسے ملکوں کی نسلیں اپنی تاریخ سے سبق حاصل نہیں‌کرسکتیں۔ یعنی کہ وہ ایسے کولہو کے بیل کی طرح ہوتی ہیں جو آنکھوں پر پٹی باندھ کر ایک دائرے میں‌چلتا ہے اور سمجھتا ہے کہ میں بہت دور نکل گیا ہوں۔ حالانکہ وہ وہیں کھڑا ہوتا ہے اور دنیا کہاں‌سے کہاں پہنچ جاتی ہے۔

  6. حکومت اور دفاع کا معاملہ ہو، نند بھابھی کا اختلاف ہو، نیوز چینل کے ٹاک شو کی بات ہو یا کسی فلاپ ڈرامے کی بات کرنی ہو، ہمسائے کا تمسخر اڑانا ہو یا گھر کے ملازم کی بات ہو، لوگوں کو سب سے آسان کام تنقید کرنا ہی لگتا ہے ۔ حالانکہ تنقید کے لئے تعریف سے زیادہ غور و فکر کی ضرورت ہوتی ہے ۔ تعریف کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ،
    اشفاق صاحب کا ایک واقعہ تھا ، مکھی کے بارے میں ، کہ حیاتیات کے ایک طالبعلم نے اپنے ایک بزرگ کو بتایا کہ . . .بزرگوار ہم نے پڑھا ہے کہ مکھی کی بہت زیادہ آنکھیں ہوتی ہیں، بچہ اپنے تئیں بزرگ کو مرعوب کرنا چاہ رہا تھا جبکہ . . .بزرگوں نے مختصر جواب دے کر اُسے خاموش کردیا۔ کہا: اینیاں انکھاں دا کی فیدہ ، جدوں فیر بیہندی تے گند تے ہی جے ۔ (اتنی آنکھوں کا کیا فائدہ جب مکھی بیٹھتی تو گندگی پہ ہی ہے)
    یہی معاملہ تنقید والوں کا ہے۔ اچھائیوں پہ نظر نہیں جاتی، نہ تعریف کا یارا پڑتا ہے لیکن تنقید اور تمسخر کرنے والے کمزوری کا پہلو تلاش کر لاتے ہیں۔

تبصرہ تحریر کریں۔

Your email address will not be published. Required fields are marked *