اکتوبر 23, 2011 - ایم بلال ایم
8 تبصر ے

ہمارے لئے اردو کیوں ضروری ہے؟

بسم اللہ الرحمن الرحیم
اپنی زبان سے لگاؤ ہونا ایک فطرتی بات ہے۔ جن قوموں کی زبان نہیں رہتی تو میرے خیال میں وہ قوم بھی باقی نہیں رہتی۔ بے شک وہ انسان یا ان کی نئی نسلیں دنیا میں موجود رہتی ہیں لیکن ان کے آباؤاجداد تاریخ کے گمشدہ صفحات میں گم ہو کر رہ جاتے ہیں۔ خیر یہاں میں اس فطرتی لگاؤ پر بات نہیں کروں گا بلکہ کوشش کروں گا کہ اس منطق کی ٹھیک وضاحت کر سکوں جومیں سمجھتا ہوں کہ ہماری ترقی کے لئے بہت ضروری ہے بلکہ اس کے بغیر ترقی کا عمل نہایت ہی سست ہو کر صدیوں پر محیط ہو جائے گا۔ یہ تحریر ایک نشت میں نہیں لکھی گئی بلکہ یہ کئی لوگوں سے کئی حوالوں سے بحث اور پھر اس بحث سے نتائج پر غور کر کے لکھی گئی ہے۔ ”ہمارے لئے اردو کیوں ضروری ہے؟“ کے عنوان سے لکھی گئی اس تحریر کو ایک سے زائد اقساط میں شائع کرنے کا مقصد یہ ہے کہ آپ لوگ آسانی سے ساری تحریر پڑھ سکیں۔

سب سے پہلے ایک بات واضح کر دوں کہ مجھے انگریزی یا کسی دوسری زبان سے کوئی دشمنی نہیں اور نہ ہی میں زبانوں سے دشمنیاں رکھنے کا قائل ہوں۔ بلکہ میں تو کہتا ہوں جس کا جو زبان سیکھنے کو دل کرتا ہے وہ سیکھے لیکن کم از کم ہم پر تو کوئی دوسری زبان نہ ٹھونسے ۔ میرا مقصد صرف اتنا ہے کہ اس بات کی وضاحت کر سکوں کہ آخر وہ کونسی زبان ہے جو ہمارے لئے سب سے زیادہ آسانیاں پیدا کرتی ہے اور ہماری ترقی کے لئے سب سے زیادہ مدد گار ثابت ہو سکتی ہے؟

کسی معاشرے کے لئے زبان کا انتخاب

جہاں معاشرہ زوال کا شکار ہو وہاں پر لوگوں کو نئی زبانیں نہیں سیکھائی جاتی بلکہ پہلے سے موجود زبان میں ہی تبادلہ خیال کیا جاتا ہے۔ جہاں تکنیکی کام رکے ہوں وہاں یہ نہیں کیا جاتا کہ پہلے دوسری زبان سیکھاؤ پھر ”ڈگری والے انجینئر“ بناؤ اور پھر ان سے کام لو بلکہ پہلے سے موجود زبان میں ہی دیسی انجینئر (مستری) بنائے جاتے ہیں اور ان سے کام لے کر ملک کو ترقی کی رہ پر گامزن کیا جاتا ہے۔ جہاں کسان ہل چلانا بھول گیا ہو وہاں پہلے اسے نئی زبان نہیں سیکھائی جاتی بلکہ فوری طور پر اس کو اسی کی زبان میں ہی ہل چلانے کی ترغیب و تربیت دی جاتی ہے تاکہ فوری اناج پیدا ہو اور انسان بھوکے نہ مریں۔ جہاں تعلیم کا فقدان ہو وہاں پر نئی زبان نہیں سیکھائی جاتی بلکہ پہلے سے موجود زبان میں ہی تعلیم دی جاتی ہے اور اگر تعلیمی مواد کسی دوسری زبان میں ہو تو پوری عوام کو نئی زبان سیکھانے سے کئی گنا آسان ہے کہ تعلیمی مواد کا اپنی زبان میں ترجمہ کیا جائے کیونکہ کوئی بھی انسان کوئی بھی بات جتنی اچھی اپنی مادری اور قومی زبان میں سمجھ سکتا ہے اتنی کسی دوسری زبان میں نہیں سمجھ سکتا۔ پتہ نہیں یار لوگوں کو اتنی چھوٹی سی بات سمجھ میں کیوں نہیں آتی۔ اگر میری بات پر یقین نہ آئے تو تاریخ کھول کر دیکھیں، سب سمجھ جائیں گے کہ جس قوم نے بھی ترقی کی وہ اپنی ہی زبان میں کی، نہ کہ کسی دوسری زبان میں۔ فرانس اور پورے یورپ نے کس کی زبان میں ترقی کی؟ جاپانی کس کی زبان میں اپنے بچوں کو تعلیم دیتے ہیں؟ چین کس زبان کے بل پر ترقی کر رہا ہے؟ اور تو اور خود برطانیہ اور امریکہ نے ترقی کے لئے کس کی زبان اپنائی؟ یہ ایسے سوال ہیں جن کا جواب ڈھونڈنے چلیں تو ہم پر کئی راز کھلتے ہیں۔

جہاں انسانوں کی سوچ میں بگاڑ پیدا ہو جائے تو اس ہجوم کو قوم میں تبدیل کرنے کے لئے سب سے پہلے انہیں کی زبان میں بات کر کے ان کی سوچ تبدیل کرنی پڑتی ہے نہ کہ پہلے انہیں کوئی نئی زبان سیکھاؤ اور پھر بات کرو۔ جہاں بھی معاشرہ زوال کا شکار ہو وہاں پر اسے ترقی کی راہ پر ڈالنے کے لئے کئی تبدیلیاں کرنی پڑتی ہیں اور سب سے پہلی تبدیلی اس معاشرے کی سوچ میں کرنی ہوتی ہے۔ سوچ کی تبدیلی کے بعد چاہے خونی انقلاب برپا ہو یا فکری انقلاب لیکن سب سے پہلی شرط سوچ کی تبدیلی ہے۔ سوچ کی تبدیلی کے لئے معاشرے کے ہر فرد تک اپنی آواز پہنچانی پڑتی ہے۔ اب اتنے بڑے ہجوم کے ہر ہر فرد کو علیحدہ علیحدہ کئی ایک زبانوں میں بات سمجھنا ممکن نہیں ہوتا۔ اس لئے آواز پہنچانے کے لئے کسی ایسی زبان کا سہارا لینا پڑتا ہے جو ہجوم کی زیادہ تعداد جانتی ہو۔ یعنی سوچ کی تبدیلی کے لئے اپنا پیغام کسی تک پہنچانے کے لئے سب سے پہلی شرط زبان کا انتخاب ہی ہے۔ کسی قوم کی ترقی کی پہلی شرط ہی یہ ہے کہ وہ اپنے لئے کسی مناسب زبان کا انتخاب کرے۔

اگلا حصہ :- پاکستان کی ترقی کا راز اردو میں پوشیدہ

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست 8 تبصرے برائے تحریر ”ہمارے لئے اردو کیوں ضروری ہے؟

  1. ہمارے لئے اردو ضروری ہی نہیں ہے بلکہ لازم ہے بہت سے ممالک میں مقامی زبانوں‌کو ڈیالیکٹ کا درجہ دے کر ختم کردیا گیا ہے۔ اور لسانی واحدانیت پر کام ہوا، اس کے برعکس یورپ میں کسی بھی طرز کی لسانی منارکی کے بچنے کےلئے پاپڑ بیلے جارہے ہین

    1. کیا کوئی گرائمر کی غلطی ہے یا پھر تحریر میں موجود مواد کے حساب سے غلط ہے۔ اگر موخرالذکر بات ہے تو پھر عرض ہے کہ یہ تو اس تحریر کا ابتدائیہ ہے آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا؟ :laughloud:

      1. یا تو مادری زبان کی بات ہونی چاہیے یا پھر کسی بھی عام فہم زبان کی۔
        آپ کی تحریر کی دونوں اقساط پڑھ کر پتا چلتا ہے کہ آپ عام فہم زبان کا رخ کر رہے ہیں۔ لیکن پھر اس سلسلے میں یہ اعتراض اٹھایا جا سکتا ہے کہ مختلف طبقات کے لئے عام فہم زبانیں مختلف ہیں۔ لہذا مختلف طبقات کے لئے ان کی عام فہم زبان کی مناسبت سے ہی نظام تعلیم ہونگے۔ یعنی جس طبقے کے لئے پنجابی عام فہم ہے تو اس کے لئے پنجابی میڈیم ، جس کے لئے اردو عام فہم ہے اس کے لئے اردو میڈیم ، پشتو والوں کے لئے پشتو میڈیم اور انگریزی بابو طبقے کے لئے انگریزی میڈیم۔
        لیکن پھر متوازی نظام تعلیم متوازی طبقات کو جنم دے گا جسے ہم پہلے ہی اپنے معاشرے میں بھگت رہے ہیں۔ اس کا علاج یہ ہے کہ نظام تعلیم کی زبان بھلے مختلف ہو لیکن معیار ایک ہو۔ لیکن یہ تو پہلے سے درپیش چیلنچ سے بھی کہیں بڑا چیلنچ کھڑا ہوگیا۔
        کینیڈا کے نظام تعلیم دو مختلف زبانوں میں ہے ، فرانسیسی اور انگریزی۔ جو جس زبان کو سہل سمجھتا ہے اس زبان میں پڑھ سکتا ہے۔ البتہ معیار تعلیم یکساں ہے۔

        1. جی اس میں کوئی شک نہیں کہ مختلف طبقات کے لوگوں کے لئے عام فہم زبانیں مختلف ہیں لیکن بات پاکستان کی ہو رہی ہے اس لئے دیکھنا یہ ہے پاکستانیوں کی زیادہ تعداد کے لئے عام فہم زبان کونسی ہے۔ بس اس زبان کو رائج کرو اور بغیر کسی طبقاتی تفریق کے سب ایک ہی زبان پڑھیں۔ سرکاری نظام سارا اسی زبان میں ہو۔ پہلے بھی دو کشتیوں کے سوار ہونے سے بہت نقصان اٹھا چکے ہیں۔

  2. جہاں تک بات تعلیمی نظام کی ہے تو ہم اتنا انتظار نہیں کر سکتے کہ سارا مواد اردو میں ترجمہ ہو تو ہم اسے پڑہائیں۔ یہ معاملہ تو استاد پر زیادہ ہے کہ وہ مختلف زبانوں سے مواد اکٹھا کرے اور اسے طلبہ کے لئے عام فہم زبان میں پیش کرے چاہے وہ زبان اردو ہو ، سندھی ہو یا پنجابی۔ ہاں اصطلاحات کا ترجمہ فی الحال نہ کیا جائے۔ اور طویل المعیاد منصوبہ بندی کےلئے تو ہمیں بہر حال عربی پر غور کرنا ہی ہوگا۔ انگریزی کے بعد تعلیمی مواد شاید عربی ہی میں سب سے زیادہ موجود ہے اور پھر ہمارا دین بھی اسی زبان میں ہے۔ اس زبان پر مسلمان جمع ہوسکتے ہیں۔

  3. السلام علیکم۔ آپ کے بلاک پر آ کر ہمیشہ نئی اور اچھی اچھی باتیں وہ بھی اردو میں پڑھنے کو ملتی ہیں۔آپ نے اردو زبان کے بارے میں جتنی بھی تحریریں لکھی ہیں دل چاہتا ہے سب کی سب زبانی یاد کرلوں اور لوگوں کو جا جا کر بتاؤں کہ ابھی بھی وقت گزرا نہیں ہے۔اللہ پاک آپ کے کام میں برکت عطافرمائے ۔آمین
    ایک خاص بات یہ کہ میں نے اردو اسی جگہ سے سیکھ کر لکھنا اور پڑھنا سیکھا ہے۔ میں مشکور ہوں بلال بھائی آپ کا ۔

Leave a Reply to م بلال م جواب منسوخ کریں۔

Your email address will not be published. Required fields are marked *