ستمبر 20, 2010 - ایم بلال ایم
13 تبصر ے

ہم اور ہمارا کردار (اول)

ایک صحافی سے کسی نے سوال کیا کہ ”جناب آپ بڑے کالم لکھتے ہیں، بڑی بڑی باتیں کرتے ہیں، ملک کی خرابی کی وجوہات بتاتے ہیں وغیرہ لیکن آپ خود آگے کیوں نہیں بڑھتے اور صرف باتیں کرنے کی بجائے خود لیڈر بن کر ملک کو ٹھیک کیوں نہیں کرتے؟“ صحافی نے جواب دیا کہ ”محترم ہم ایکسرے مشین کی طرح ہیں۔ جن کا کردار،جن کا کام بیماری کی نشان دہی کرنا ہے اور بس۔ بیماری کا علاج تو ڈاکٹر نے کرنا ہے۔“

سیانے کہتے ہیں کہ جو جس چیز کا ماسٹر ہو اگر وہ اسی چیز کا کام کرے گا تو خود اس کو بھی فائدہ ہو گا اور باقی بھی اس کی وجہ سے سکھی رہیں گے۔ جیسے اگر کوئی حساب کتاب اچھا کرتا ہے تو اسے اپنے فن کا ہی کام کرنا چاہئے۔ اگر وہ ہر طرف یعنی دیگر کئی کاموں میں ٹانگ اڑائے گا تو اس کی ٹانگ تو ٹوٹے گی لیکن ساتھ میں کئی دوسروں کو بھی پریشانی میں مبتلا کر دے گا۔

اپنے اندر موجود چھپے ہوئے ماسٹر کو تلاش کریں اور اسی حساب سے کام کریں اور اچھی زندگی گزاریں۔ غالباً شیکسپیئر نے کہا تھا کہ ”زندگی ایک سٹیج ہے“۔ اس سٹیج پر اپنے کردار کو پہچانیں، اسے بخوشی قبول کریں اور بخوبی انجام دیں۔ اگر آپ اپنا کردار بہتر طریقے سے ادا کر گئے تو آپ کامیاب ہو جائیں گے۔ اب ایک بندہ اچھا استاد ہے تو اسے چاہئے کہ دن بدن اپنے اسی فن کو سنوارے اور مزید آگے جائے۔ لیکن اگر اس استاد نے مستری بننے کی کوشش کی اور مان لیتے ہیں کہ اس نے ایک عمارت بنا ہی ڈالی، تو وہ عمارت زیادہ دن نہیں چلے گی۔ جبکہ اگر وہی عمارت ایک اصلی مستری بناتا تو کئی پچیدگیاں جو استاد بھول گیا تھا وہ مستری کبھی نہ بھولتا اور استاد کی نسبت ایک بہتر عمارت بناتا۔

ہمارا مسئلہ کیا ہے؟ سیدھی سی بات ہے ہم نے ہر کام کا ٹھیکہ لے رکھا ہے۔ اب ایک بندے نے معاشرتی برائیوں کی نشان دہی بھی کرنی ہے اور پھر ان کو ٹھیک کرنے کے لئے حکم بھی صادر فرمانے ہیں، دینی فتوی جات بھی جاری کرنے ہیں اور پھر ان پر زبردستی عمل بھی کروانا ہے، لوگوں کی نفسیات کو بھی سمجھنا ہے، اپنی محدود سی کمیونٹی کی نفسیات کی اگر تھوڑی بہت سمجھ آ بھی گئی تو اس سمجھ کو حرف آخر تصور کر کے پوری دنیا کی نفسیات دکھانے کی کوشش کرنی ہے۔ ذریعہ معاش بھی چلانا ہے اور دیگر کئی کام بھی کرنے ہیں، خارجہ پالیسیوں کو زیر بحث لانا ہے اور ایک کسان جس کے ساتھ ایک دن بھی نہیں گذارا اس کی زندگی پر بھی بڑے بڑے لکچر دینے ہیں۔ ہمارا یہ حال کسی ایک خاص شعبے کے لوگوں تک محدود نہیں بلکہ اکثریت خود کو اسی لڑی میں ہی پیرو رہی ہے۔ خلاصہ یہ کہ ہم نے عقل کل بننے اور ہر چیز کو ٹھیک کرنے کا ٹھیکہ لے رکھا ہے۔

ان ٹھیکوں میں اضافہ ہونے کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ پس پردہ کوئی کام کرنے کو تیار ہی نہیں۔ ہر کسی کو سٹیج پر ہیرو بننے کا شوق ہے تاکہ ساری دنیا اس کو دیکھے اور اس کی تعریف کرے۔ ہم یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ ایک سٹیج تیار کرنے والوں سے لے کر اس سٹیج پر اداکاری کرنے والوں تک، ہر کسی کا اپنا اپنا کام ہے۔ حتی کہ سٹیج کے پچھلے کونے میں چپ چاپ کھڑے ہوئے بندے کا بھی ایک کردار ہے اور اگر وہ چپ چاپ بندہ نہ ہوتا تو سٹیج کی رونق ماند پڑ جانی تھی۔ اب اس چپ چاپ بندے کا یہی کردار ہے کہ وہ سٹیج پر آئے اور ایک کونے میں چپ چاپ کھڑا ہو جائے اور پھر چلا جائے۔ اگر اس نے ہیرو بننے کی کوشش کی تو سارے کے سارے کھیل کو برباد کر دے گا۔ بے شک عام دنیا کی نظر میں اس چپ چاپ انسان کی کوئی خاص اہمیت نہ ہو لیکن اہلِ ذوق اور اہلِ عقل و شعور ضرور اس کی قدر کریں گے کیونکہ وہ جانتے ہوں گے کہ اس چپ چاپ انسان کی کیا قدر ہے۔ زندگی کا مزہ بھی تب ہی آتا ہے جب اہلِ عقل و شعور آپ کی قدر کریں۔

ہمیں اپنے اندر کے ماسٹر اور اپنے اصلی کردار کی پہچان کرنی ہو گی اور وہی کام کرنا ہو گا جس کے لئے ہم بنائے گئے ہیں۔ ہر کام میں ٹانگ نہ اڑائیں تاکہ نہ ہماری ٹانگ ٹوٹے اور نہ دوسروں کو نقصان ہو۔ چاہےہم دنیا کے کسی بھی کونے میں بستے کیوں نہ ہوں اور بے شک ہمارا کردار چھوٹا ہی کیوں نہ ہو لیکن اپنے کردار کے ساتھ، اپنے ساتھ، اپنے ملک کے ساتھ اور سب سے زیادہ انسانیت کے ساتھ مخلص رہیں۔ جس طرح ہم سے پہلے لوگ اس دنیا کے سٹیج پر اپنا کردار ادا کر کے چلے گئے ہیں ویسے ہی ہم نے بھی اپنا کردار ادا کرنا ہے اور اس دنیا سے چلتے بننا ہے۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہم کامیاب ہوں، ہمارا ملک کامیاب ہو اور ہم دن بدن ترقی کریں تو سب سے پہلے ہمیں اس طرف توجہ دینی ہو گی کہ ہمیں صرف اپنا ہی کردار ادا کرنا ہے اور وہ بھی اچھے طریقے سے۔

اگلا حصہ:- ہم اور ہمارا کردار (دوم)

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست 13 تبصرے برائے تحریر ”ہم اور ہمارا کردار (اول)

  1. بہت اچھا موضوع ہے- دراصل ہمارے معاشرے کا سب سے بڑا مسلہ یہ ہی ہے کہ اپنا اور دوسروں کا وقت برباد کرنا-
    استاد اس لیے استاد ہے کہ اس کو کوی اور کام نہیں ملا ( اب استا د ہے پارٹ ٹایم میں اسی اسکول کی گاڑی سے بچوں کو گھر پر بھی چھوڑدیتا ہے ، مطلب پیسہ آ ریا ہے نا بس)
    ڈاکٹر بول ریا ہے کہ کوی کتا بن جاے ڈاکٹر نہ بنے ( بھی جب داخلہ لے رہے تھے جب کیوں نہیں سوچا )
    سب سے بدمعاش اسمبلی میں ہیں-( پڑھے لکھوں کو اچھی جوب آفر ہو جاتی ہے لہزا وہ تو باہر جاتے ہیں یا کو ی دوسرا ملک بڑے پیار سے ان کو اپنی شہریت دے دیتا ہے اور تمام اس زحمت سے بچ جاتا ہے جو ایک فرد کو پڑھا کر انسان کا بچہ بنانے میں ہوتی ہے- المیہ ہے ہمارا)

  2. السلام علیکم ورحمۃ وبرکاتہ،
    بات توبلال بھائی آپ نےخوب کی ہےدراصل اس میں بات یہ ہےکہ دراصل ہم بن کچھ جاتےہیں جبکہ ہماری دلچسپیاں کسی اورچیزمیں ہوتی ہے۔

    والسلام
    جاویداقبال

  3. بہت کم پوسٹ لگاتے ہو ۔۔۔۔ لیکن بہت خوب ۔۔۔۔۔ بلال ہمارا مسلہ یہ ہے کہ ہم یہ تو بہت اسانی سے کہتے ہیں کہ پاکستان برا ہے پاکستان یہ پاکستان وہ ۔۔۔۔ لیکن ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ جس پاکستان نے ہمیں پہچان دی ہے ۔۔ دنیا کے کونے کونے میں بیٹھے پاکستانی سبز پاسپورٹ لے کر آتے ہیں ۔ کیا یہ کم ہے کہ یہی پوسپورٹ ان کی پاکستانی ہونی کی پہچان ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اب جو ہمارے ملک میں ہو چکا اس پر رونے سے بہتر ہے کہ کچھ عملی کیا جائے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جن کے پاس پیسے ہیں تو بہت ہیں جو غریب ہیں تو بالکل غریب ۔۔۔۔ یہ فرق کیسے ختم ہو گا ۔۔۔۔

  4. السلامُ علیکم بلال بھائی بہت اچھی بات کہی ہے آپ نے کہ اگر ہر انسان اپنی اپنی اوقات کے مطابق کام کرے تو معاشرے میں اور انسانی زندگیوں میں یہ جو افراتفری اور بے چینی ہے یہ ختم ہوجائے ۔

  5. بلال بھائی آپنے بالکل صحیح کہا ہے کہ – جسکاکام اُسی کو ساجھے – ہمارے ملک کو ترقی کی طرف لیجانے کیلئے جن اہل ، قابل اورمخلص رہنماؤں کی ضرورت تھی ہمیں ایک بھی ایسا لیڈر نہیں ملا صرف زروالے ملے اُنہوں نے صرف اپنے زر اور اپنی طاقت میں اضافہ پر زور رکھا جس میں وہ ہر طرح سے کامیاب ہیں -ہر ادارے میں مطلوبہ اہلیت کےحامل لوگوں کی جگہ پر اپنے نا اہل لوگ لگائے گئے جس کی وجہ سے تمام ادارے برباد ہوگئے ہیں – ان نااہل لیڈروں نے اپنی غلط پالیسیوں کی وجہ سے اس وسائل سے مالامال مُلک کو برباد کر دیا ہے – ان سب کی کوشش یہی ہے کہ پاکستان میں کوئی بھی پاکستان اور پاکستانی عوام کا ہمدرد لیڈر پیدا نہ ہوسکے اور ہماری آئیندہ نسل بھی ھماری ہی طرح حکمرانی کے مزے لوٹے -اسی لئے انہوں نے ایسا سسٹم بنا دیا ہے کہ کوئی مخلص لیڈر پیدا ہی نہ ہوسکے اور پاکستان کی سر زمین اہل اور مخلص لیڈروں سے بانج رہے – بہت شکریہ 

  6. بلال بھائی آپ قوم کو خاص کر نئی نسل کو اچھا مشورہ دے رہے ہیں اسلئے اسے جاری رہنا چاہئے – بہت شکریہ

Leave a Reply to یاسر خوامخواہ جاپانی جواب منسوخ کریں۔

Your email address will not be published. Required fields are marked *