فروری 1, 2013 - ایم بلال ایم
40 تبصر ے

اردو بلاگرز کانفرنس کا پہلا دن

گذشتہ سے پیوستہ

رات کے ساڑھے تین کے قریب اردو بلاگرز کانفرنس 2013ء کے پہلے روز (26جنوری2013ء) کے متعلق جو کام ہمارے ذمے تھے وہ ہم کر کے سو گئے۔ صبح سات بجے اٹھ کر کانفرنس میں جانے کی تیاری شروع کر دی۔ لاہوریوں کا روائتی ناشتہ نان چنے کھائے۔ میں سب کو کہتا کہ جلدی کرو، لاہوری پہنچ چکے ہوں گے مگر ہمیں کیا معلوم تھا کہ ۔۔۔ خیر اسی دوران پونے نو بجے شاکر عزیز (آوازِ دوست) کا فون آیا اور حضرت فرمانے لگے کہ میں تو ایوانِ صنعت و تجارت (چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری) پہنچ چکا ہوں۔ میرے خیال میں کانفرنس کے مقام پر سب سے پہلے پہنچنے والے شاکر عزیز ہی تھے۔ میں نے سب کو کہا جلدی کرو، ”دوست“ فیصل آباد سے لاہور پہنچ آئے ہیں اور ہم ابھی تک نہیں پہنچ سکے۔ نو ساڑھے نو بجے ہم بھی چیمبر پہنچ گئے۔ جب کانفرنس ہال میں داخل ہوا تو دیکھا کہ دو چار لوگ وہاں موجود ہیں۔ میں ایک سنجیدہ نوجوان کی طرف بڑھا ہی تھا کہ ساری سنجیدگی چکنا چور ہو گئی۔ پاس جا کر میں نے ہاتھ ملایا اور تعارف کروایا تو حضرت بولے ”آہو آہو تیرا مینوں پتہ اے (ہاں ہاں مجھے تمہارا پتہ ہے)“۔ جب انہوں نے یہ کہا تو میں بولا مگر بھائی جی مجھے آپ کا نہیں پتہ۔ جواب آیا ”لے دس میں شاکر عزیز“۔ انٹرنیٹ کی دنیا میں رہتے ہوئے مجھے پتہ تھا کہ یہ شاکر عزیز نہایت ہی سنجیدہ بندہ ہے مگر یہ بندہ ۔۔۔افف۔ جب بھی منہ کھولتا تو جگتوں کے موتی پروتا۔ کام کاج کی وجہ سے میں شاکر بھائی کو زیادہ وقت نہ دے سکا مگر جب بھی ہم سامنے آتے تو شاکر بھائی کوئی نہ کوئی جگت ارشاد فرماتے۔ جواب میں مجھ سے جو بن پڑتا میں بھی کر دیتا۔

اس دوران دوست احباب آتے رہے اور ملاقاتیں ہوتی رہیں۔ ہوٹل کی طرح کانفرنس ہال میں بھی انٹرنیٹ اپنے باشندوں کو دھوکہ دے گیا۔ کانفرنس والے دن انٹرنیٹ کی رفتار اتنی سست ہو گئی کہ ہمیں لائیو سٹریمنگ کے لالے پڑ گئے۔ جب اپنی انٹرنیٹ ڈیوائس نکالی تو اس کے سگنلز کو موت پڑ گئی۔ ہمیں صرف لاہور کی ٹیکنالوجی نے ہی دھوکہ نہیں دیا بلکہ اطلاعات کے مطابق بتیس لاہوریوں نے رجسٹریشن کرائی تھی، بائیس نے آنے کی یقین دہانی کرائی، ان میں سے صرف چھ لوگوں نے شرکت کی۔ سعد ملک اور ایک دو کے علاوہ باقی لاہوری تاخیر سے پہنچے۔ مزید دو چار لاہوری ویسے ہی شامل ہو گئے تھے۔ میں تو شرکت کرنے والے لاہوریوں کو اُدھر ہی کہہ آیا تھا کہ لاہوریو! تم نے ہمارے ساتھ اچھا نہیں کیا مگر ہم تمہارے ہی شہر میں کانفرنس کامیاب کروا کر گھروں کو لوٹیں گے اور جا کر واضح الفاظ میں لکھیں گے کہ وہ کوئی اور تھے جنہیں زندہ دلانِ لاہور کہا جاتا تھا جبکہ اب یہاں صرف مشینیں بستی ہیں۔ 🙂 قارئین آپ کہیں یہ نہ سمجھ بیٹھنا کہ سارے لاہوری ”لاہوری“ نکلے جبکہ اس کانفرنس کو کامیاب کرنے میں اصل ہاتھ لاہوریوں کا ہی ہے۔ یہ تو میں بس اُن لاہوری دوستوں سے دل لگیاں کر رہا ہوں جنہوں نے آنے کا وعدہ کیا اور نہ آئے، جو پہلے دن تاخیر سے آئے اور پھر دوسرے دن نہ آئے اور جو دونوں دن تاخیر سے پہنچ کر شہیدوں میں نام لکھوا گئے۔ 🙂

بہر حال انٹرنیٹ کی حالت دیکھ کر کراچی سے آئے ہوئے لائیو سٹریمنگ کو چلانے والے محمد عامر نے کہا رفتار بہت سست ہے۔ اس رفتار نے مجھے پریشان کر دیا مگر محسن بھائی بولے کہ پریشان نہ ہو، اللہ سب بہتر کرے گا۔ ساتھ ہی بولے کہ زندگی میں ایک اصول بنا لو کہ چاہے کچھ بھی ہو جائے تو پریشان نہیں ہونا اور ہمت نہیں ہارنا مگر جس دن خود حقیقت میں آسمان پھٹتا دیکھ لو اس دن بے شک پریشان ہو جانا۔ میں نے کہا بھائی جی یہ وقت فلسفے سمجھنے سمجھانے کا نہیں بلکہ واقعی آسمان پھٹنے جیسی کیفیت ہے۔ مجھے دونوں کندھوں سے پکڑ کر بولے میرے بھائی دماغ کو سکون دو۔ پریشان ہوئے بغیر اپنی پوری کوشش کرو اگر لائیو سٹریمنگ ہو جائے تو ٹھیک اگر نہ ہو تو کوئی قیامت نہیں آئے گی۔ خیر لے دے کر دوسری منزل کے انٹرنیٹ نے کچھ ساتھ دیا اور تھوڑی بہت لائیو سٹریمنگ چل ہی پڑی۔ مگر بعد میں وہ بھی ”لاہوری“ بن گئی۔ 🙂

تحریری حاضری جو کہ میں نے لگوائی تھی اس کے مطابق پہلے دن کانفرنس میں پچاس کے قریب لوگ شامل تھے۔ پاکستان کے دور دراز علاقوں سے لاہور پہنچنے والوں نے میلہ لوٹ لیا۔ تقریباً ساڑھے گیارہ بجے تلاوت کلامِ پاک سے کانفرنس کا آغاز ہوا۔ نقابت کے فرائض مشہور شاعر فرحت عباس شاہ نے ادا کیے۔ سب سے پہلے شاکر عزیز کو بلاگ کیا ہے اور اردو بلاگنگ کے پس منظر پر اپنے خیالات کا اظہار کرنے کے لئے بلایا گیا۔ انہوں نے اپنے خیالات اپنے بلاگ پر شائع کیے ہیں۔ کانفرنس شروع ہونے سے پہلے شاکر عزیز بھائی نے مجھے اپنی تقریر تحریری صورت میں دیکھائی تو میں نے ان کو ایک جملہ ختم کرنے کا مشورہ دیا اور ساتھ ہی ”دھمکی“ دی کہ اگر آپ نے یہ جملہ ختم نہ کیا تو پھر اگر مجھے بات چیت کرنے کا موقع ملا تو میں اسی جملے کی مخالفت میں بات کروں گا۔ 🙂 وہ جملہ تھا کہ ”پاکستانی انگریزی بلاگر اردو کی نسبت کچھ آگے ہیں“۔ میری شاکر بھائی سے ہونے والی یہ بات محسن بھائی تک پہنچ گئی اور انہوں نے مجھے کہا کہ ”کروانی بلاگرز کانفرنس اور لگانی لوگوں پر پابندی“۔ یہ سیدھی سیدھی ناانصافی ہے۔ بلاگنگ اظہارِ رائے کی آزادی کا دوسرا نام ہے اس لئے جس کو جو کہنا ہے اسے کھل کر کہنے دو۔ اگر تمہیں کوئی اعتراض ہے تو اپنی بات چیت میں اس کا ذکر کر لینا۔ خیر شاکر بھائی کے بعد چیمبر آف کامرس کے نائب صدر میاں ابو ذر شاد نے اپنے خیالات کا اظہار کیا جس میں انہوں نے کہا کہ بلاگرز جدید دور کے تھینک ٹینک ہیں اور دانشور بھی انہیں سلیوٹ کریں گے۔ اردو بلاگران کے لئے ہمارے لائق کوئی بات ہو تو بتائیے گا۔ نائب صدر کی تقریر کے بعد کانفرنس ہال سے باہر نکل کر شرکاء کی ایک گروپ فوٹو بنائی گئی، جس میں کچھ موجود تھے اور کچھ ادھر ادھر غائب ہو گئے۔ اس کے بعد چائے کا وقفہ ہو گیا۔

چائے کے وقفے میں کافی نیٹ ورکنگ ہوئی اور کئی نئے لوگوں سے تعارف ہوا۔ چائے کے بعد دوبارہ کانفرنس کا آغاز ہوا۔ جس میں سب سے پہلے کوئٹہ سے آئے ہوئے ڈان اردو کے بلاگر محمد حسن معراج نے اپنی ایک بلاگ پوسٹ خوب است۔۔۔خوب است پڑھ کر سنائی اور ساتھ اپنا تعارف بھی کروایا۔ اس کے بعد مجھے پہلے سے بتائے بغیر ہی کہا گیا کہ م بلال م آئے، اپنے خیالات اور بلاگ کا تعارف کرائے۔ لے دس، میں کانپتی ٹانگوں کے ساتھ مائیک کی طرف بڑھا۔ نظر اٹھائی تو شرکاء کی گھورتی آنکھوں نے رہی سہی کسر نکال دی۔ اللہ کے نام سے ابتداء کی۔ اس کے بعد کیا کہوں کچھ سمجھ نہیں آ رہی تھی۔ جس رب کے نام سے ابتداء کی اس نے ہی مزید راستے دیکھائے اور میری باتوں کا کارواں چلنے لگا۔ باتوں سے باتیں بننے لگیں۔ کبھی مذاح تو کبھی سنجیدگی کے عالم میں گفتگو کرتا رہا۔ ہچکچاہٹ دور ہو چکی تھی۔ اب میرے پاس کہنے کو بہت باتیں تھیں۔ میں چاہتا تھا کہ میں بولتا رہوں مگر وقت نے زبان کو جکڑ لیا۔ ”اردو بلاگر کسی سے کم نہیں، منظرنامہ بہت اچھی کاوش ہے، ہمیں اردو بلاگر ہونے پر فخر ہونا چاہئے اور بلاگ لکھ کر اپنے دماغ میں پکنے والے لاوے کو باہر نکالو تاکہ آپ کو سکون ملے اور معاشرہ بہتری کی سمت رواں دواں ہو“ کہتے ہوئے اجازت چاہی۔ ویسے یہ بلاگ لکھ کر لاوہ نکالنے والی بات کے بارے میں بعد میں مجھے خود اندازہ ہوا کہ جو بات میں کہنا چاہتا تھا وہ صحیح طرح بیان نہیں کر سکا اور یہ بات سوشل میڈیا پر گالیاں نکالنے والوں کے حق میں جاتی ہے۔

اس کے بعد دیگر شرکاء بلاگران کو دعوتِ خیال اور اپنا تعارف کروانے کا کہا گیا۔ کچھ دوست بلاگر جو انٹرنیٹ پر بڑے چست اور کاٹ دار جملے لکھتے نظر آتے ہیں مگر تعارف کروانے سے ڈر رہے تھے۔ کچھ کانفرنس ہال سے بھاگنے کی کوشش میں تھے اور ایک دو کو تو ”ٹائلٹ“ سے پکڑ کر لایا کہ بھائی یہاں نہ چھپو اور آ کر اپنا اور اپنے بلاگ کا تعارف کراؤ۔ 🙂 ایک صاحب جن کا نام مجھے یاد نہیں رہا انہوں نے بڑی پیاری بات کی کہ سب آئین کے نفاذ کا شور مچاتے ہیں اور اسی آئین میں قومی زبان اردو کے نفاذ کا بھی ذکر ہے۔ یہ آئین آئین کرنے والے اردو کی بات کیوں نہیں کرتے۔ اسی دوران سینئر صحافی نواز طاہر نے مائیک پر آ کر اپنے انوکھے اندازِ بیاں میں کہا کہ ”میرا نام نواز طاہر ہے اور میں کچھ نہیں کرتا“۔ انہوں نے کہا کہ میڈیا پالیسی اور سینسرشپ کا پابند ہے اس لئے آج تک کسی نے کچھ کرنے ہی نہیں دیا۔ بلاگ آزاد ہے اور بلاگر ذمہ داری سے سچ لکھ کر بہت کچھ کر سکتا ہے۔ بلاگ روائیتی میڈیا کا متبادل بن سکتا ہے۔

بہر حال یہ مرحلہ بہت اچھے طریقے سے اپنے انجام کو پہنچنے ہی لگا تھا کہ ایک صاحب مائیک پر آئے اور بولے کہ آپ کانفرنس تو بڑی زبردست کروا رہے ہو مگر اردو لکھنے کا بندوبست بھی کرو۔ آج بھی انٹرنیٹ پر اردو نہیں لکھی جا سکتی وغیرہ وغیرہ۔ ان صاحب نے حد ہی کر دی۔ جب یہ صاحب بات کر رہے تھے تو میں شاکر عزیز کو اشارے کر رہا تھا کہ دوبارہ مائیک پر آؤ اور انہیں بتاؤ کہ اردو لکھنا کوئی مشکل نہیں۔ شاکر عزیز بھائی غالباً میرا اشارہ سمجھ نہیں سکے تھے تو میں خود مائیک پر پہنچا اور ان صاحب کو بتایا کہ کمپیوٹر اور انٹرنیٹ پر ہر جگہ آسانی سے اردو لکھی جا سکتی ہے البتہ ہم اپنی غلطی تسلیم کرتے ہیں کہ اس بات کی تشہیر ہم ٹھیک طرح سے نہیں کر پائے جبھی تو آپ کو معلوم نہیں کہ اردو لکھی جا سکتی ہے۔ اس کے بعد فرمائش پر معروف شاعر فرحت عباس شاہ سے ان کا کلام ”شام کے بعد“ سنا گیا۔ ساتھ ساتھ قراردادِ لاہور 2013ء جس کے مطابق ”گریجوایشن تک اردو لازمی اور کمپیوٹر سائنس کی تعلیم میں اردو کمپیوٹنگ کا مضمون ضرور ہونا چاہئے“ پر شرکاء اپنے دستخط کرتے رہے۔ اس کے بعد کھانے کا وقفہ ہوا۔ کانفرنس ہال سے باہر نکلا تو محمد سعد، محمد عبداللہ اور راجہ اکرام سے ملاقات ہوئی۔ اب پتہ نہیں یہ پہلے کے آئے ہوئے تھے یا پھر اسی وقت ہی آئے تھے۔ بہرحال آئے تاخیر سے ہی تھے۔ محمد سعد کو سلام کرتے ہی میں نے مذاق میں کہا کہ خوش آمدید جناب، کانفرنس ختم ہو چکی ہے، آپ کی آمد کا بہت شکریہ۔ 🙂 اس کے بعد سب کھانا کھانے چلے گئے۔

کھانا مزے کا تھا یا نہیں اس کا مجھے نہیں پتہ کیونکہ میری توجہ کھانے سے زیادہ کانفرنس کے دیگر معاملات کی طرف تھی۔ ویسے بھی اس کانفرنس کے متعلق میری جو ذمہ داریاں تھیں اس میں وہ کھانا شامل نہیں تھا۔ خیر کھانے کے بعد سب مل کر مزار اقبال اور بادشاہی مسجد پہنچے جہاں گروپ فوٹو بنائی گئی۔ اس کے بعد سب کو وقت دیا گیا کہ گھوم پھر لو اور چھ بجے شاہی قلعے کے دروازے کے سامنے جمع ہو جانا۔ یوں کوئی کسی طرف نکل گیا تو کوئی کسی طرف۔ اب کون کس طرف گیا تھا یہ تو وہی بتا سکتا ہے۔ 🙂 شاکر عزیز کو اپنی کلاس کے لئے جانا تھا۔ میں نے کہا کہ بھائی بات تو غلط ہے مگر پھر بھی کلاس چھوڑ دو مگر اس محنتی جوان نے سیروتفریح پر تعلیم کو مقدم جانا اور کل آنے کا وعدہ کر کے چلا گیا۔ میں، خرم ابن شبیر، شعیب صفدر، مصطفےٰ ملک، فخر نوید اور مہتاب عزیز بھائی شاہی قلعہ گھومنے چلے گئے۔ ابھی شاہی قلعے میں داخل ہی ہوئے تھے کہ خرم ابن شبیر کو ”ہائی کمانڈ“ کی یاد آئی اور فوراً اجازت لے کر اپنے رشتہ داروں کے گھر بھاگ گئے۔

اگلا حصہ:- اردو بلاگرز کانفرنس کی درمیانی رات

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست 40 تبصرے برائے تحریر ”اردو بلاگرز کانفرنس کا پہلا دن

  1. ابھی شاہی قلعے میں داخل ہی ہوئے تھے کہ خرم ابن شبیر کو ”ہائی کمانڈ“ کی یاد آئی اور فوراً اجازت لے کر اپنے رشتہ داروں کے گھر بھاگ گئے۔

    واہ واہ بہترین کس جگہ پر تحریر کا پاز کیا ہے ۔۔۔۔ اب اگلی قسط لگتا ہے صبح صبح خرم بھائی کی سوجے ہوئے منہ کے ساتھ آنے پر شروع ہو گی :mrgreen:

    1. شکریہ جناب۔ باقی آہستہ بولیں اگر خرم بھائی نے سن لیا تو میری خیر نہیں۔ پہلے بھی کانفرنس میں دو دفعہ خرم سے ڈانٹ پڑی۔ ویسے بندہ بہت زبردست ہے، اس سے ڈانٹ کھانے کا بھی اپنا ہی مزہ ہے۔

    1. بس بھائی جان یہ آپ سب کی محبت اور حوصلہ افزائی کا نتیجہ ہے، جنہوں نے کانفرنس کا کامیاب کیا اور اردو بلاگنگ کی دنیا کے ایک اہم سنگ میل کو عبور کیا۔

    1. شکریہ بادشاہو۔ ہاں میں نے بھی اس کی محلے والی تصویر دیکھی تھی۔ وہ تو بڑا ہوشیار نکلا۔ ہمیں چھوڑ کر اکیلا ہی گھوم آیا۔

  2. اس طرح کی کانفرنسز جب پہلی بار ہوتی ہیں‌تو کئی ایسے مسائل سامنے آتے ہیں جن کا گمان بھی نہیں ہوتا۔ ممکن ہے آپ لوگوں نے لائیو اسٹریمنگ کا مکمل بندوبست کیا ہوا ہو، لیکن عین وقت پر انٹرنیٹ کی رفتار سست پڑ جانا اور متبادل نظام کی عدم موجودگی سے لگتا ہے کہ “ہوم ورک” میں کچھ کمی رہ گئی تھی۔ اس کے علاوہ یہ جان کر بھی حیرت ہوئی کہ کانفرنس میں ایسے بھی لوگ موجود تھے کہ جنہیں اردو لکھنے کے حوالے سے بھی معلومات نہ تھی۔

    1. واقعی پہلی دفعہ کئی ایسے مسائل سامنے آئے جن کا پہلے سے سوچا ہی نہیں ہوا تھا۔ اس کے علاوہ کئی غلطیاں ہوئی ہیں۔ اگر دوبارہ موقعہ ملا تو ان شاء اللہ ان غلطیوں کا ازالہ کروں گا۔ انٹرنیٹ کا متبادل نظام لے کر گئے تھے مگر اتفاق سے اس میں بھی مسئلہ آ گیا۔
      باقی اردو لکھنے کے حوالے سے معلومات نہ رکھنے والوں کی شرکت پر حیرت تو نہیں ہونی چاہئے کیونکہ اس کانفرنس میں ہر خاص و عام شرکت کر سکتا تھا۔ ویسے وہ صاحب مست ایف ایم 103 پر اردو بلاگرز کانفرنس کی خبر سن کر اچانک آئے تھے۔

      1. عدم دلچسپی اور اچانک کانفرنس میں شمولیت پر تو حیرت بنتی ہی ہے کیوں کہ ہمارے خیال سے کانفرنس میں شرکت کے لیے اردو اور بلاگنگ سے دلچسپی رکھنا اور پہلے سے رجسٹریشن کروانا، دونوں ضروری تھے!

        1. بس جی غلطی ہو گئی۔ آئندہ ایسا کوئی موقعہ ہوا اور اس طرح کوئی بندہ آیا تو اسے دھکے دے کر باہر نکال دیں گے۔ 🙂

    1. مگر بھائی جی جو آپ نہیں آئے تھے اس سے جو افسردگی چھائی وہ ہم ہی جانتے ہیں۔ میں نے تو فخرنوید سے بھی آپ کے بارے میں پوچھا تھا۔ بہر حال ہم نے کانفرنس کے دوسرے روز آپ کے نستعلیق والے پلگ ان کا تعارف آپ کے نام کے ساتھ کروایا تھا۔

    1. آپ کی محبت کا بہت شکریہ۔ ویسے ہم لاہوری نہیں اس کا ہمیں کبھی کبھی افسوس ہوتا ہے۔ یہ تو بس لاہوریوں سے دل لگیاں تھیں ورنہ ہمارا دوسرا گھر لاہور ہی ہے۔

  3. میں تو یہی کہوں گا ” لہور لہور اے تے لہوریاں دا جواب نئیں“۔ البتہ ہو سکتا ہے
    پرانے زمانے کا لاہور اور ہے
    جدید زمانے کا لاہور اور

    اور یہ ” کثر “ کونسی ہے ؟ میں تو اردو میں ” کسر “ پڑھی تھی
    دوسری بات کہ میں جولائی 2009ء سے فروری 2011ء تک لاہور رہا تو انٹرنیٹ کی رفتار پر نوحہ کناں ہی رہا

    1. واقعی لاہوریوں کا جواب نہیں۔ یہ تو بس لاہوریوں سے کچھ دل لگیاں کی ورنہ لاہوری تو ہماری جان ہیں۔
      لاہور میں انٹرنیٹ کی صورتحال دوسرے شہروں کی نسبت واقعی کچھ اچھی نہیں۔ یہ میرا اندازہ ہے جو کہ غلط بھی ہو سکتا ہے۔ مزید ”کثر“ کو ”کسر“ کر دیا ہے۔ نشاندہی کا شکریہ۔

    1. یہ آپ کا بڑا پن ہے ورنہ میں اس قابل نہیں۔ ضرور جوابی پوسٹ لکھیے، ہم تو اسی چیز کا پرچار کر رہے ہیں کہ بلاگ اظہار رائے کی آزادی ہے۔ کھل کر لکھیے۔ میں انتظار کروں گا۔ 🙂

    1. لے دس، ہماری کانفرنس تو دوسرے دن ختم ہوئی تھی۔ آپ یہ کہہ سکتے ہو کہ دونوں کی کانفرنس کے آغاز کا وقت مختلف تھا۔ 😀

  4. میں کانفرنس کے بعد کا ہی سوچ رہا تھا اب ایک ریگولر بلاگ لکھ ہی ڈالوں اب خیال آیا موقع اچھا ہے لاہوریوں کی طرف سے صفائی پر ہی لکھنا شروع کر دوں کوئی 50 تحاریرتو ہو ہی جائیں گی 😀

    شہر کے اندر چونکہ پی ٹی سی ایل کی وائرنگ ساری انڈر گراؤنڈ ہےا ور جگہ جگہ سے کھدائی کی وج سے اکثر ہی نیٹ کی سپیڈ کا مسئلہ رہتا ہے 🙂 اسلئے برداشت کریں

    1. چلو بھائی پھر لکھنا شروع کر دو۔ باقی باتوں سے باتیں نکلیں گی اور بلاگ چلنے بلکہ دوڑنے لگے گا۔ ویسے لاہوریوں کی صفائی ”پر“ لکھنا چاہتے یا لاہوریوں کی صفائی ”میں“۔ 😀

    1. شکریہ محمد بلال خان بھائی۔ ویسے آپ کا تیار کردہ بینر سب کو بہت پسند آیا، بلکہ ہر چیز جیسے شمولیت کارڈ، اسناد اور شرکت سرٹیفیکیٹ پر وہی آپ والی گرافکس تھیں۔

  5. جناب، کانفرنس کے پہلے دن سب سے پہلے پہنچنے والے ہم تھے۔ ساڑھے آٹھ بجے جڑانوالہ سے چیمبر پہنچے، گارڈ نے بتایا کہ ابھی تک کوئی بھی نہیں پہنچا، سو ہم ناشتہ کرنے چلے گئے واپسی پر دوباہ چیمبر پہنچے تو شاکر بھائی وہاں موجود تھے۔

    1. بہت خوب جی۔ بس آپ کے ناشتے نے پہلے آنے کا اعزاز تھوڑا مدہم کر دیا کیونکہ شاکر بھائی نے فون پر یہی بتایا تھا کہ میں ہوں اور ابھی تک دوسرا کوئی نہیں آیا۔

  6. ” ایک صاحب مائیک پر آئے اور بولے کہ آپ کانفرنس تو بڑی زبردست کروا رہے ہو مگر اردو لکھنے کا بندوبست بھی کرو۔ آج بھی انٹرنیٹ پر اردو نہیں لکھی جا سکتی وغیرہ وغیرہ۔”
    جس وقت یہ صاحب آئے تھے ان کے بعد میں نے آپ کو آنے کا اشارہ کیا تھا کہ میں خود آ کر بات کروں۔ لیکن آپ خود آ گے آپ نے تو بہت آرام سے بات کی ورنہ میں نے تو اس کی باتیں سنتے ہی تیاری پکڑ لی تھی کہ کیا کہنا ہے

Leave a Reply to خرم ابن شبیر جواب منسوخ کریں۔

Your email address will not be published. Required fields are marked *