جولائی 30, 2018 - ایم بلال ایم
3 تبصر ے

اک محبوب نگری – سفرنامۂ جہاز بانڈہ – ابتدائیہ

ایک بات تو بتائیں۔ چونکہ خواتین بھی ساتھ ہوں گی تو ایسی صورت میں، کارواں سرائے والے اُن لوگوں کا کیا کریں گے، جن کے انجن خراب ہوتے یعنی جو لوگ دھواں چھوڑتے ہیں؟ آیا راستے میں وقفہ کریں گے یا پھر خراب انجن کو ہی برداشت کا رگڑا لگائیں گے؟
جواب آیا ”فکر نہ کریں۔ باذوق لوگوں کے لئے علیحدہ گاڑی کا انتظام ہے اور خواتین کے لئے علیحدہ۔“
میں نے اگلا کارڈ کھیلا ”اور اگر کوئی بدذوق ہو تو؟“
جواب: ”تو پھر وہ خواتین کی گاڑی میں ہی بیٹھ جائے۔ 🙂 “
گویا باذوق ہو تو علیحدہ گاڑی میں بیٹھو اور اگر سب کے ساتھ بیٹھنا ہے تو بدذوق ہونا پڑے گا۔ ہائے! اس ذوق نے تو اپنی واٹ لگا دی۔ 😀
خیر میں نے نہلے پر دہلا پھینکتے ہوئے کہا ”کیا خواتین بدذوق ہوتی ہیں۔“
جواب: ”ارے! نہیں نہیں۔۔۔ میں نے تو ازراہِ تفنن کہا ہے۔ ویسے بھی میرا یہ مطلب نہیں تھا۔“
میں: ”جو بھی مطلب ہو بچو! اب تو آپ کو پھینٹی لگے ہی لگے۔ آپ ہمیں خواتین کی گاڑی سے باہر نکال رہے تھے اور اب جب خواتین کو اس بات چیت کا علم ہو گا تو وہ آپ کا ذوق تو کیا دانت بھی نکال دیں گی۔ 😀 “
جواب: ”اگر آپ کو لگتا ہے کہ میں خواتین سے ڈرتا ہوں تو یہ آپ کی خام خیالی نہیں۔ بھائی! کیوں مروانا ہے۔ 🙂 “
خواتین کہیں سیخ پا نہ ہو جائیں اور بیچارے کو واقعی پھینٹی نہ لگا دیں۔ اس لئے بتاتا چلوں کہ ”باذوق“ سے اُس کی مراد دھواں چھوڑنے والے لوگ تھے۔ اس کے علاوہ کچھ میں نے بھی قلم لگایا ہے۔ جہاں لوگ ایک دوسرے کو دیوار سے لگاتے ہوں، وہاں ایک لکھاری کو اتنا قلم لگانا تو جائز ہونا چاہیئے۔ ویسے کسی لکھاری کو ایسی صفائیاں نہیں دینی چاہئیں، مگر کیا کروں، مجبوری ہے کہ کہیں خواتین غصہ ہی نہ کر جائیں۔ پہلے ہی میری فیس بکی فرینڈ لسٹ میں لڑکیوں کی شدید لوڈشیڈنگ ہے۔ 😛

بہرحال خواتین اور باذوق لوگوں کے لئے علیحدہ علیحدہ گاڑی والی بات پر میں سوچنے لگا کہ خواتین کو باذوق لوگوں کی پہنچ سے ”زیادہ“ دور رکھنا تو سیدھی سیدھی بدذوقی ہے۔ خواتین نہ ہوئیں، زہر کی گولیاں ہو گئیں اور باذوق تو جیسے شرارتی بچے۔ میرے ذہن میں یہ انتباہ گونجنے لگا ”تمام خواتین کو باذوق لوگوں کی پہنچ سے دور رکھیں (وزارتِ انسدادِ تخلیق، حکومتِ کارواں سرائے)۔۔۔ یہ تو بڑی ناانصافی ہے جی۔۔۔ ٹھیک ہے کہ خواتین سے مناسب وقفہ رکھنا چاہیئے، کیونکہ بریکیں فیل ہونے کا کوئی پتہ نہیں ہوتا۔ لیکن یہ تو بڑا عجب دستور ہے کہ بدذوق پہلو میں اور تخلیق کار یکسر علیحدہ اور اوپر سے دوسرے بنجرے(گاڑی) میں قید کر دینا تو بے ادبی ہے اور ایسی صورت میں جب تخلیق کاروں کی تصویرِکائنات ہی بے رنگ ہو تو پھر کیا خاک ادب تخلیق ہو گا اور دوسری طرف پھر وہ جو ہو گا، اسے بے ادبی کہتے ہیں، اور اگر مہذب کر لیا تو ”آبادی میں اضافہ“ کہتے ہیں۔۔۔ دل پہ مت لے یار۔۔۔ 😀

٭٭٭

کھانے کی میز پر بیٹھے رانا عثمان کو بتایا کہ میں بھی آپ کے جہازبانڈہ اور جھیل کٹورہ جا رہا ہوں اور واپسی پر وادئ کمراٹ کی زیارت بھی ہو گی۔ رانا صاحب نے صرف ”زبردست“ کہا اور پھر ان کے چہرے پر تو جیسے محبت نے بسیرا کر لیا۔ حالت اور ادائیں کسی عاشق کے جیسی ہو گئیں۔ ہلکی سی مسکراہٹ، کچھ اداسی اور گہری سوچ۔ کھانا کھاتے ہوئے ہاتھ منہ تو ہل رہے تھے مگر صاف پتہ چل رہا تھا کہ وہ یادوں میں غوطہ زن ہیں۔ ہر نوالہ بڑے آرام سے منہ میں دھرتے، ہولے ہولے چباتے اور پانی کی مدد سے حلق میں اتارتے۔ کچھ دیر ایسا ہی رہا اور آخر سطح آب پر آتے ہوئے بڑے سرور میں بولے! جب پہنچو تو اس دھرتی کو میرا سلام کہنا۔ ہے تو وہ دِیر کوہستان کا علاقہ مگر لوگ بہت اچھے ہیں۔ راجہ تاج محمد کو ضرور ملنا، وہ بہت زبردست کردار ہے۔ اللہ تمہارا حامی و ناصر ہو۔۔۔ اور ہاں! اوئے منظربازا!!! اُدھر جا کر ایک ہی جگہ بیٹھ نہ جانا۔ بلکہ جہاز بانڈہ کے ”چار چفیرے“ پھرنا۔ تمہیں فوٹوگرافی کے ایسے ایسے زاویے اور نظارے ملیں گے کہ کچھ نہ پوچھ۔ رات میں کہکشاں کے نظارے، بڑے پیارے۔ اگر آسمان مہربان ہوا تو کئی جہاں پکڑ میں آئیں گے۔ اور خاص بات یہ کہ جب پربتوں کے اُس پار سورج ڈھلنے کو ہو تب فوٹوگرافی اور باقی سب کچھ چھوڑ چھاڑ کے تھوڑی دیر تنہائی میں ”منظربازی“ کرنا۔ مجھے یقین ہے کہ کسی نہ کسی شکل میں تمہیں بھی زیارت ہو گی۔۔۔ ہاں میرے دوست! ہو گی، ضرور ہو گی۔ کیونکہ جہاں گردوں کی شکلیں ایک سی ہوتی ہیں اور ”اسے“ یہ شکل پہچاننے میں دیر نہیں لگتی۔ تیرے میرے جیسے آوارہ گرد جب باعقیدت وادیوں میں اترتے، چراگاہوں میں گھومتے اور پہاڑوں پر پہنچتے ہیں تو ان کا استقبال ہوتا ہے۔ ہمارے جیسی کئی بے چین روحیں جگہ جگہ ملتی بلکہ ساتھ ساتھ چلتی ہیں۔ ایسی روحوں کو ہرگز نظرانداز نہ کرنا۔ اور وہ۔۔۔ وہ تو ہر جگہ ہے۔ ہاں میرے دوست! ہر ہر جگہ ہے۔ بس اسے یاد کرنا اور وہ تیرے سامنے۔۔۔

رانا صاحب کچھ دیر خاموش رہے اور پھر بولے کہ چھوڑ ان باتوں کو اور میری کچھ دوسری باتیں بھی پلے باندھ لے۔ جب ہم جھیل کٹورہ پر پہنچے تھے تو بارش ہو رہی تھی۔ میں ٹھیک طرح فوٹوگرافی نہیں کر سکا تھا۔ میری دعا ہے کہ تم لوگ چمکتی دھوپ کے روشن دن میں وہاں پہنچو اور جب پہنچو تو اُدھر بھی ایک جگہ بیٹھ نہ جانا۔ بلکہ اردگرد گھوم پھر کر تصویر کشی کرنا۔ اگر جھیل سے نکلنے والے پانی کی دوسری طرف آسانی سے جانا ممکن ہوا، تو ضرور جانا۔ مگر کوئی خطرہ مول نہ لینا۔ دوسری طرف پہنچو تو اُدھر سے بھی فلاں فلاں فریم اور زاویے سے تصویریں بنانا۔ اور جب تصویریں بنا چکو تو پھر تمہیں خود ہی معلوم ہے کہ مزید کیا کرنا ہے۔۔۔

کھانا کھاتے ہوئے باقی دوست اپنی ہی باتوں بلکہ سیاسی بحثوں میں الجھے ہوئے تھے اور انہیں اندازہ ہی نہیں تھا کہ رانا صاحب مجھے کون کون سے گُر سمجھا چکے ہیں۔ اور پھر رانا صاحب نے پوچھا ”اور کون کون جا رہا ہے؟“
میں: ”کارواں سرائے کے ساتھ جا رہا ہوں۔“
رانا صاحب: ”او! زبردست۔ گویا محسن رضا کے ساتھ جا رہے ہو۔ اچھا بندہ ہے۔ تمہیں مزہ آئے گا۔ ویسے ٹیم میں اور کون کون شامل ہے؟“
میں: ” فی الحال ہمسفروں کا کوئی خاص علم نہیں اور میں نے زیادہ پوچھا بھی نہیں۔ بس اتنا علم ہے کہ ’مخلوط کارواں‘ ہو گا۔“
رانا صاحب: ”اس کا مطلب ہے کہ خواتین بھی ہوں گی۔ یقیناً وہ باقاعدہ ٹریکر ہوں گی۔ کیونکہ جہازبانڈہ کا ٹریک عام لوگوں کے لئے قدرے مشکل ہے اور عام سیاح خواتین تو اِدھر مشکل ہی جائیں۔“
میں: ”اللہ ہی جانے کون بشر ہے۔ یہ سب تو سفر اور ٹریک پر ہی پتہ چلے گا۔“
رانا صاحب: ”خیر خیریت سے جاؤ۔ ویسے کھانا کب کا ختم ہو چکا ہے۔ اب اگلا کیا پلان ہے؟“
میں: ”چلو چلیں! چاندی رات میں چناب کنارے۔۔۔“

٭٭٭

”آوارہ گردوں کے مبتلائے عشق ہونے میں ایک بیانیہ، ایک تصویر، ایک منظر یا ایک کہانی ہی کافی ہوتی ہے اور اگر یہ منظر، بیانیہ یا تصویر محورِ عشق کی شکل اختیار کرلے تو جب تک، ہاں! جب تک وصل کی رات اور دیدار کے دن نصیب نہیں ہو جاتے، وقت کی رفتار تھم سی جاتی ہے۔“ ان فقروں سے راناعثمان کا سفرنامۂ جہازبانڈہ شروع ہوتا ہے۔ سچ پوچھیں تو میرے لئے رانا عثمان کا سفرنامہ پڑھ کر ہی وقت کی رفتار تھمی تھی۔ اوپر سے ظالم نے فوٹوگرافی ہی ایسی کی تھی کہ جہازبانڈہ اور جھیل کٹورہ کے دیدار کا شوق دوچند ہو گیا۔

اور یہ رانا عثمان کیا ہے؟ اک اعلیٰ درجے کا فطرت پسند، جہاں گرد اور ”وجۂ دوستی“۔ پھر وہ دوستی چاہے انسانوں سے ہو یا پھر نظاروں سے۔ اس کے علاوہ بڑا اچھا فوٹوگرافر اور لکھاری بھی۔ کھلا ڈلا اور محبت کرنے والا انسان۔ بس بعض لوگوں کی نظر میں راناصاحب میں ایک ہی مسئلہ ہے اور وہ یہاں ذکر کر کے تحریر کو سیاسی نہیں بنانا چاہتا۔ ”سمجھ تے گئے او“۔۔۔ خیر راناعثمان خود جو ہے سو ہے، مگر مجھ جیسا منظرباز تو کیا، اچھے اچھے اس کا پانی بھرتے اور سلام ٹھوکتے ہیں۔ اگر آپ سیاحت کا شوق رکھتے ہیں اور رانا عثمان کو نہیں جانتے تو یقین کریں آپ نے پاکستانی سیاحت کے سٹیج کا بہت اہم کردار نہیں دیکھا۔ ویسے آپ بے شک رانا صاحب کو نہ جانتے ہوں، لیکن اگر آپ تھوڑے سے بھی مشہور سیاح ہیں تو رانا صاحب آپ کو یقیناً جانتے ہوں گے۔ میں نے کہا ہے ناں کہ یہ سیاحت کا بہت اہم کردار ہے۔ بس جی! قدرت کی مہربانی اور رانا صاحب کی اعلیٰ ظرفی ہے کہ وہ میرے ساتھ دوستی رکھتے اور بڑی محبت سے پیش آتے ہیں۔ ورنہ کہاں رانا عثمان اور کہاں مجھ جیسا معمولی منظرباز۔۔۔

٭٭٭

رات کے تقریباً دو بجے جی ٹی روڈ پر کھڑا انتظار کر رہا تھا۔ میرے سامنے ایک گاڑی(کوسٹر) آ رُکی، دروازہ کھلا اور ایک جانے پہچانے باریش شخص کی زیارت ہوئی۔ جانے پہچانے لگ تو رہے تھے مگر نام ذہن میں نہیں آ رہا تھا۔ دراصل دوچار کے علاوہ مجھے علم ہی نہیں تھا کہ کون کون جا رہا ہے اور یہ صاحب چونکہ ان دوچار میں سے نہیں تھے، اس لئے فوری طور پر نام ذہن میں نہ آ سکا۔ اب کی بار میں کسی حد تک انجان لوگوں کے ساتھ ہی پربتوں کی اور جا رہا تھا۔ کہتے ہیں کہ آپ جن کے ظرف بارے نہیں جانتے، بھلا ان کے ساتھ سیاحت(سفر) اور خاص طور پر خطرناک پہاڑوں پر کیسے جا سکتے ہیں؟ یہ بات اپنی جگہ درست ہے مگر کسی لکھاری و سیاح کے لئے درست نہیں، کیونکہ وہ تو ’مہم جو‘ قسم کا ہوتا ہے۔ وہ تو فطرت کے نئے چہروں کے ساتھ ساتھ اپنے کرداروں کو بھی کھوجتا ہے اور اس سب سے کچھ نیا سیکھنا چاہتا ہے۔ لہٰذا جانے سے پہلے مجھے کسی کے ظرف کا گراف دیکھنے کی ضرورت نہیں تھی۔ ویسے بھی یہ سفر ”ٹورآپریٹر“ کارواں سرائے کے ساتھ تھا۔ جن کے بارے میں سن رکھا تھا کہ ان کی اکثر ٹیمیں باذوق سیاحوں پر مشتمل ہوتی ہیں۔ اور بالفرض اگر ایک آدھ کم ظرف نکل بھی آیا تو چلو یہ تجربہ بھی کر دیکھیں گے۔

نیم تاریک گاڑی میں سوار ہوتے ہی سب کو سلام کیا۔ رک سیک(بیگ) کندھوں سے اتارتے ہوئے گاڑی کا جائزہ لیا۔ پچھلی نشستوں پر خواتین اور آگے ”خواتینے“ بولے تو مرد حضرات تشریف فرما تھے۔ ویسے لڑکیاں اور لڑکے کہہ دیں تو بھلا آپ کا کیا جاتا ہے؟ یوں خواتین بھی خوش ہو جائیں گی، حالانکہ ان کی زیادہ تعداد واقعی لڑکیوں پر مشتمل تھی اور لڑکے کہنے سے بابے بھی اپنے آپ کو کچھ توانا محسوس کریں گے۔ اور جس سفر و ٹریک پر ہم جا رہے تھے اس پر تو ویسے بھی توانائی کی بہت ضرورت پڑنے والی تھی۔

ابھی کندھوں سے بیگ اتارا ہی تھا کہ کسی نے باریش صاحب کو آواز دی کہ خرم بھائی بیگ ایڈجسٹ کر دیں۔ ہاں تو جناب! یہ باریش خرم بسرا صاحب تھے۔ نام سنا ہوا تھا، سوشل میڈیا پر تصویر دیکھی ہوئی تھی، مگر ان سے براہ راست کوئی سلام دعا نہیں تھی۔ سفر اور ٹریکنگ کے دوران اچھی سلام دعا ہوئی اور ہم نے جانا کہ ہر وقت دوسروں کی مدد کے لئے دل و جان سے تیار اور دھیمے لہجے میں بات کرنے والا یہ شخص نہایت پیاری سیرت کا مالک ہے۔ چلیں آئیں! آگے سفر شروع کرتے ہیں اور باقی ہمسفروں کے ساتھ ساتھ ان کا بھی آپ کو ٹھیک طرح سے اندازہ ہو جائے گا کہ خرم بسرا کس شخصیت کا نام ہے۔ خرم بھائی نے میرا بیگ پکڑ لیا اور ان کو آواز دینے والے نے اب کی بار مجھے مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ آگے آ جائیں۔

سب سے اگلی نشست(فرنٹ سیٹ) پر براجمان ہوا تو کیا دیکھتا ہوں کہ ایک بندہ چارجنگ پر لگا ہوا ہے اور انجن کے اوپر بیٹھ کر اپنی ”بیٹری“ چارج کر رہا ہے۔ میں سمجھا کہ شاید پہاڑوں میں پہنچنے سے پہلے پہلے بیٹری فل کرنا چاہتا ہے۔ پھر خیال آیا کہ جولائی کی گرمی میں اس کا کوئی جواز تو نہیں بنتا۔ وہ تو بعد میں معلوم ہوا کہ جناب ”کوڈرائیور“ کے فرائض سر انجام دے رہے تھے اور یہ جناب کارواں سرائے کے روحِ رواں اور اس سفر کے امیرِکارواں محترم محسن رضا المعروف بادشاہ، مزید المعروف ”فوڈ گرو“ اور مزید زیادہ المعروف ”چیتا ٹریکر“ تھے۔ بھئی ٹریکر ہی لکھا ہے، کہیں ”ٹریکٹر“ نہ پڑھ جانا۔ کیونکہ جناب کسی صورت بھی ٹریکٹر جیسے نہیں لگتے۔ یہ علیحدہ بات ہے کہ کچے پکے راستوں پر کسی ٹریکٹر سے بھی زیادہ تیز دوڑتے ہیں۔ پہاڑوں میں رہنے والے بھی ان کے آگے گھٹنے ٹیک دیتے ہیں اور پوچھتے ہیں کہ بھئی! کونسا ”ڈیزل“ پیتے ہو؟ ہم جب پہاڑوں پر چلتے ہیں تو چند قدم بعد ہی پورٹر کو کہتے ہیں ”ٹھہر جاؤ کچھ سانس لے لیں“۔ مگر چیتا ٹریکر ماشاء اللہ ایسا دوڑتا ہے کہ ساتھ چلتے پورٹر کو فنا کر دیتا ہے اور پورٹر کہتا ہے ”تینوں رب دا واسطہ، میرے تے رحم کھا، تھوڑا آہستہ چل“۔ یہ تو آپ جانتے ہی ہوں گے کہ پہاڑوں میں سامان اٹھانے کے لئے جس مقامی کو معاوضے پر رکھا جاتا ہے، اس کے لئے ”پورٹر“ کی اصطلاح مشہور ہے۔

جی ٹی روڈ پر گاڑی منہ طرف اسلام آباد شریف کی نیت کیے جا رہی تھی۔ تب تک مسافروں کا کوئی جائزہ نہیں لیا تھا اور مجھے خرم بسرا، محسن رضا اور مِس سمِیرا ممتاز کے علاوہ کسی کا علم نہیں تھا کہ کون کون سی ہستی گاڑی میں سوار ہے۔ سمیرا ممتاز صاحبہ کا شمار ان دو چار لوگوں میں تھا، جن کا مجھے پہلے سے اس سفر پر جانے کا علم تھا۔ دراصل یہ سیاحتی سفر مس سمیرا اینڈ کمپنی کے لئے ترتیب دیا گیا تھا، جس میں کارواں سرائے نے ہم جیسوں کو بھی ملا لیا۔ مس سمیرا ایک استاد ہونے کے ساتھ ساتھ پُرجوش سیاح اور زبردست فوٹوگرافر بھی ہیں۔ ایسی ماں کہ جو اپنے تین چھوٹے بچوں(مائرہ، عائذہ اور فاتح) کے ساتھ وادی وادی کی سیاحت کرتی ہے۔ اس سفر پر بھی تینوں بچے ساتھ تھے۔ پنجاب یونیورسٹی میں ایک ٹیڈ ٹاک(TEDx Talk) ہوئی، جس کا عنوان تھا”سیاحت کے ذریعے بچوں کی ذہنی تندرستی“(Healing Little Hearts Through Travel)۔ یہ ٹاک مس سمیرا کی تھی اور اس میں انہوں نے اپنی کہانی بتائی کہ کیوں اور کیسے وہ اپنے بچوں کو سیاحت پر لے جاتی ہیں اور کیسے ان کے بچے سیاحت کی وجہ سے ذہنی طور پر اچھی پرورش پا رہے ہیں۔ آخر پر اپنی ایک نظم بھی سنائی، جوکہ سننے سے تعلق رکھتی ہے۔ میرے خیال میں یہ ’ٹاک‘ تمام والدین اور خاص طور پر ماؤں کو ضرور سننی چاہیئے۔ پھر انہیں انداز ہو گا کہ کوئی اکیلی خاتون کس حد تک بہادر ہو سکتی ہے اور وہ کیا کیا کر سکتی ہے۔ خیر میں نے یہ ٹاک سنی ہوئی تھی اور اسی کی وساطت سے مس سمیرا کا نام جانتا تھا۔

گاڑی فراٹے بھر رہی تھی اور گاڑی میں سوار کچھ لوگ خراٹے۔ مجھے تو ڈرائیور ندیم پر بھی خراٹے لینے کا شک گزرا۔ کیونکہ بڑا ہی مستقل مزاج تھا، رش ہوتا یا خالی سڑک، مجال ہے جو گاڑی کی رفتار میں فرق پڑتا۔ یہ تو بھلا ہو ”کوڈرائیور“ محسن رضا کا، جو کبھی ہاتھ کے اشارے اور کبھی باتوں باتوں میں اسے حالات سے آگاہ کرتا رہتا۔ ورنہ ہم شادی شدہ تو کنوارے ہی مر جاتے۔ بچو جی! دوسری شادی سے پہلے بھی بندہ نیم کنوارہ ہی ہوتا ہے۔ وہ تو جب چار مکمل ہوں تب باقاعدہ شادی شدہ ہوتا ہے۔۔۔ او نئیں نئیں۔ کیا ہو گیا ہے؟ میں تو مذاق کر رہا تھا بیگم صاحبہ۔۔۔

گاڑی فراٹوں میں اور مسافر خراٹوں میں مست تھے اور ڈرائیور کا تو کچھ نہ پوچھیں۔ اور میں؟ میری کبھی کبھی محسن سے بات چیت ہو جاتی۔ ورنہ رات کے اس آخری پہر، آخری راتوں کے چاند کو دیکھتا اور تصورِ جاناں کے جام انڈیلتا۔ پیچھے اور پیچھے دیکھتا۔ مگر مجال ہے جو گاڑی میں ایک دفعہ بھی پیچھے دیکھا ہو۔ کیونکہ پیچھے خواتین بیٹھی تھیں اور آپ تو جانتے ہی ہیں کہ میں کتنا شرمیلا ہوں۔ اور وہ جو دو چار بار کنکھیوں سے پیچھے دیکھا تھا، وہ تو میں کسی کو پہچاننے کی کوشش کر رہا تھا۔ وہ کیا ہے کہ نیم روشن گاڑی میں جب بھی مڑ کر دیکھا تو بہت ساری آنکھوں میں سے صرف ایک سے آنکھیں چار ہوتیں۔ بس انہیں ہی پہچاننے کی کوشش میں تھا کہ یہ آنکھیں دیکھی دیکھی لگ رہی ہیں۔ مگر ہیں کس کیں؟

دور کے دیسوں میں شمس نے انگڑائی لی۔ مہکی مہکی صبح کے سندیسے آنے لگے۔ ساتھ بیٹھے مگر چارجنگ پر لگے محسن کو کہا کہ دیکھو کیسا حسین منظر ہے۔ لیکن محسن کا چارجنگ سسٹم غالباً خراب تھا، کیونکہ چارجنگ پر لگے ہونے کے باوجود اس کی بیٹری ختم ہو چکی تھی۔ اوپر سے اسے ”نیندیا“ کی کالز آ رہی تھیں۔ خیر جب اس کی طرف سے کوئی جواب موصول نہ ہوا تو میں نے مڑ کر پیچھے دیکھا۔ ڈرائیور سے پچھلی سیٹ پر بیٹھا ایک نوجوان نظر آیا۔ اب کی بار میں نے دیدے پھاڑ کر اسے دیکھا۔ دماغ کی گھنٹی بجی کہ او! یہ تو میرا فیس بکی فرینڈ حیدرآباد والا یونس عباسی ہے۔ اور جب اس نے بھی میری طرف دیکھا تو اشارے سے ہی سلام دعا کا تبادلہ ہوا۔ میں نے دل ہی دل میں سوچا کہ یہ تو کمال ہو گیا۔ گویا پہاڑوں کے عاشقوں کے ساتھ سفر ہو رہا ہے اور اس جیالے کے تو کیا ہی کہنے۔ ایک دفعہ اس کی فیری میڈوز کی ٹریکنگ کی ویڈیو دیکھی تھی۔ حیران ہو گیا کہ یہ کس طرح اتنے مشکل ٹریک کر لیتا ہے۔ دراصل جب یونس عباسی نو دس سال کا تھا تو اس پر پولیو کا حملہ ہوا اور ایک ٹانگ میں مسئلہ آ گیا۔ ایسا کوئی مسئلہ ہو جانے پر لوگ ہمت ہار جاتے ہیں، مگر یونس عباسی ہمت ہارنے والوں میں سے نہیں تھا۔ یہ چلتا رہا، اور چلتا رہا، اور ایک دن اُن اُن پہاڑوں پر پہنچ گیا، جہاں ہم جیسے جانے سے پہلے کئی دفعہ سوچتے ہیں۔ آپ یہی دیکھ لیں کہ ماہرین کی نظر میں ”جہازبانڈہ“ ہم جیسوں کے لئے قدر مشکل ٹریک ہے، مگر یونس بھائی یہ معرکہ بھی سر کرنے جا رہے تھے۔

پو پھوٹ چکی تھی اور شمس کی ایک اور انگڑائی پر سویرے کی خوشبو چار سو پھیل گئی۔ ایسے حسین سویرے پر یقیناً محبوب نگری میں پرندے چہچہائے اور چشمے گنگنائے ہوں گے… وادیاں سرسرائیں اور ندیاں گائیں ہوں گی… اور ہوائیں مہکیں… اور کلیاں بہکیں ہوں گی۔۔۔ ہائے!!! منظرباز کے دل سے ہوک اٹھی۔ محبوب نگری! اے رانا عثمان کے حیرت کدہ اور محمد احسن کے مےکدہ! میں آ رہا ہوں… منظرباز آ رہا ہے۔۔۔ زندگی دوڑتی اور شب دن میں ڈھلتی جا رہی تھی۔ جب روشنی نے ہمیں آ لیا تو گاڑی کی بتیاں بجھ گئیں۔ مسافروں کے کندھوں پر دھرے چہرے واضح ہونے لگے۔ میں نے ایک دفعہ پھر کنکھیوں سے پیچھے مڑ کر دیکھا۔
کہیں سے آ رہی تھی آواز… ابھی تو ہے آغاز… بس تو چلا چل منظرباز… اور منظرباز چلتا رہا۔۔۔

اگلی قسط

آئندہ کی اقساط میں ڈھیروں تصویریں بلکہ پوری فوٹوگیلری لئے حاضر ہوتا ہوں۔ یہ نقشہ اور چھوٹی چھوٹی تصویریں تو بس آغاز کے لئے ”ٹشن مشن“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست 3 تبصرے برائے تحریر ”اک محبوب نگری – سفرنامۂ جہاز بانڈہ – ابتدائیہ

  1. اچھا سفر نامہ ہے۔
    اردو محفل پر بھی شامل کریں۔ وہاں تو کبھی چکر ہی نہیں لگایا آپ نے۔

  2. پاکستان کو نئی بلندیوں پر لے جانے کوشش اور اس کھٹن وقت میں جب سب لوگ سیاست، دھاندلی، فوج کے خلاف محاظ آرائی ، اور اپنے ہی آپ کو اندھیرے کے طرف لے جا رہے ہیں آپ جیسے لوگوں کا کردار اس وقت میں انتہائی اہمیت کا حامل ۔ سیاحت کے شوق میں بھی پاکستان کی مثبت تصویر اجاگر کر رہے ہیں اور اپنے انداز میں لوگوں کو معاشرتی باتیں بتا رہے ہیں ۔ اللہ کریم برکات سے نوازے

تبصرہ تحریر کریں۔

Your email address will not be published. Required fields are marked *