اگست 1, 2018 - ایم بلال ایم
3 تبصر ے

اک محبوب نگری – سفرنامۂ جہاز بانڈہ – دوسری قسط

گزشتہ سے پیوستہ

گاڑی جی ٹی روڈ پر دوڑے جا رہی تھی۔ ایک دوسری گاڑی اور کچھ لوگوں نے اسلام آباد سے شامل ہونا تھا۔ کارواں اپنے وقت سے تھوڑی تاخیر کا شکار تھا۔ یوں جو لوگ انتظار کر رہے تھے، وہ سفر کے حوالے سے بنے واٹس ایپ گروپ میں بار بار پوچھتے کہ کدھر پہنچے؟ لوگوں کے بار بار پوچھنے پر محسن کو کہا کہ گوگل میپس کے ذریعے اپنی لائیو لوکیشن ہی شیئر کر دو۔ یوں سبھی دیکھتے رہیں گے کہ ہم کہاں پہنچے ہیں۔ خیر محسن نے لوکیشن شیئر نہ کی تو میں نے جو لوکیشن فرخ شہزاد سے شیئر کی ہوئی تھی وہی سفر کے واٹس ایپ گروپ میں بھی کر دی۔ فرخ شہزاد ہمارے ساتھ نہیں جا رہا تھا۔ مگر اس کے کئی جاننے والے جا رہے تھے اور وہ ان سب کو ملنے بلکہ الوداع کرنے ڈائیوو ٹرمینل پر آنے والا تھا۔ اور یہ فرخ شہزاد کون ہے؟ بھئی! ہم خود آج تک اسے ٹھیک طرح سے نہیں جان پائے تو آپ کو کیا بتائیں۔ بس اتنا جان لیجئے کہ ٹریکر، کوہ پیما اور زبردست سیاح ہے۔ ہمارا اچھا دوست ہے۔ کبھی کبھی یوں لگتا ہے کہ جیسے یہ انسان نہیں۔۔۔بلکہ فرشتہ ہے۔ جس کی زندگی کا مقصد ہی شاید لوگوں کو خوش رکھنا اور ان کی مدد کرنا ہے۔

گاڑی نے روات سے جی ٹی روڈ کو چھوڑا اور اسلام آباد ایکسپریس ہائی وے پر چڑھ دوڑی۔ مگر ٹھہریئے! اور گاڑی پولیس ناکے پر ٹھہر گئی۔ ڈرائیور نے کچھ پیسے پولیس والے کو پکڑا دیئے۔ میں کہتا رہا کہ رشوت کیوں دے رہے ہو۔ محسن نے بھی کہا کہ ایک منٹ ٹھہر جاؤ۔ مگر ڈرائیور کچھ اکتاہٹ سے بولا کہ آپ لوگ نہیں جانتے۔ یہ پولیس والے بڑے۔۔ہوتے ہیں۔ یہاں پیسے دینے ہی ہوتے ہیں۔ میں سمجھ گیا کہ کیوں دینے ہوتے ہیں۔ دراصل عموماً گاڑیوں والے خود کہیں نہ کہیں ڈنڈی مار رہے ہوتے ہیں۔ مثلاً کسی کا ٹوکن نہیں لگا ہوتا، کسی کا ڈرائیونگ لائسنس ایکسپائر ہوتا ہے اور کسی نے روٹ پرمٹ نہیں بنوایا ہوتا وغیرہ وغیرہ۔ جب ڈرائیوروں کے دل میں چور ہوتا ہے تو یوں رشوت دے کر جان چھڑاتے ہیں۔ اور وطنِ عزیز کی پولیس؟ اس کو تو آپ جانتے ہی ہوں گے کہ انہیں تو رشوت کے بہانے چاہئیں۔ میں تمام ٹورآپریٹرز اور سیاحوں سے گزارش کرتا ہوں کہ سیاحت ایک خوبصورت شعبہ ہے، کم از کم اسے رشوت اور اس جیسی دیگر لعنتوں سے پاک رکھیں۔ اپنی گاڑی پر جائیں تو قانون کی مکمل پاسداری کریں اور اگر کرائے پر گاڑی حاصل کریں تو یہ بات یقینی بنائیں کہ گاڑی والے کے تمام کاغذات پورے اور قانون کے مطابق ہوں۔ اس کے بعد بھی اگر پولیس تنگ کرے تو آپ کے ”دماغ“ نے کوئی چوڑیاں نہیں پہن رکھیں۔ کم از کم پولیس سے بات تو کریں کہ آخر وہ کس خوشی میں تنگ کر رہی ہے۔

کراچی سے تشریف لائیں عنبر ذوالفقار صاحبہ، جو کہ لکھاری، فوٹوگرافر اور ولاگر ہیں، اسلام آباد ایکسپریس ہائی وے سے کارواں میں شامل ہوئیں۔ ان کے گاڑی میں بیٹھتے ہی میں سوچ میں پڑ گیا کہ یہ محسن رضا کیا کرتا جا رہا ہے۔ ایک سے بڑھ کر ایک نگینہ کارواں میں شامل کر رہا ہے۔ کہیں محسن تخلیق کاروں سے تنگ تو نہیں اور سب کو اکٹھا کر کے ایک ساتھ ہی سمندر برد کرنے کے ارادے تو نہیں رکھتا۔ بتاتا چلوں کہ محسن خود بھی ایک اچھا لکھاری ہے۔ میں نے اس کی کچھ تحاریر پڑھی بلکہ اسی کی زبانی سنی ہیں۔ پتہ نہیں یہ سفر خوش نصیب تھا یا پھر ہم۔ وہ کیا ہے کہ اتنے لکھاری ایک ساتھ اور اوپر سے مزید ایک مایہ ناز لکھاری کارواں میں شامل ہونے جا رہا تھا۔ جہاں سے اس عظیم ہستی کو ”چکنا“ تھا، وہاں سے آگے نکل گئے اور پھر ایکسپریس ہائی وے پر یوٹرن آسانی سے تھوڑی ملتا ہے۔ ڈرائیور ندیم نے پہلے سروس روڈ پر گاڑی چڑھائی، پھر کئی جگہوں پر قانون کو ٹائروں تلے روندتا ہوا آگے بڑھا۔ حتی کہ غلط سمت گاڑی چڑھا دی۔ سامنے سے آنے والی گاڑیاں چیخنے چلانے لگیں اور ہمارے ڈرائیور صاحب کے کان پر جوں تک نہ رینگی۔ وہ تو بہت صبح کا وقت تھا اور کسی حد تک قانون ابھی سویا ہوا تھا، ورنہ اچھی بھلی ٹھکائی ہونی تھی۔ وطنِ عزیز میں اکثر اوقات قانون سویا ہی رہتا ہے اور اگر جاگے بھی تو پیسوں کی گولی دے کر سلا دیا جاتا ہے۔ ویسے بھی قانون تو اندھا ہی ہوتا ہے اور اکثر جرائم نہیں دیکھ پاتا۔ خیر ڈرائیور ندیم کی ایسی حرکتیں میری برداشت سے باہر ہو رہی تھیں۔ واہیات ڈرائیونگ کی بھی کوئی حد ہونی چاہیئے۔ ندیم نوجوان اور کچھ زندہ دل قسم کا بندہ تھا مگر ضرورت سے زیادہ ”شوخا“ بھی تھا اور شوخی میں ہر قسم کی تمیز بھول جاتا تھا۔ سفر کے ساتھ ساتھ اس کی حرکتوں سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اکثر پروفیشنل ڈرائیوروں کی طرح وہ بھی ”موڈ ڈس آڈر“ جیسے نفسیاتی مسئلے کا شکار ہے۔

خیر نظرانداز کریں، پہلے ہی ظالم! سفرنامہ کے دو پہرے کھا گیا ہے۔ اسے چھوڑیں اور آئیے! آگے بڑھتے ہیں۔ ہاں تو میں کہہ رہا تھا کہ ڈرائیور صاحب قانون کی دھجیاں اور وہ بھی درالحکومت میں اڑاتے ہوئے آخر اس جگہ پہنچ ہی گئے، جہاں سے اس شاندار ہستی نے کارواں میں شامل ہونا تھا۔ اور پھر محمد احسن اور ڈاکٹر وردہ گاڑی کی طرف بڑھتے دیکھائی دیئے۔ ڈاکٹر صاحبہ سیاحت کے لئے کراچی سے تشریف لائی تھیں اور ان کی سیاحت کے تو کیا ہی کہنے۔ یہ کراچی والے جب شمال کے لئے اور وہ بھی پہ در پہ نکلتے ہیں تو مجھے ان پر رشک آتا ہے کہ یہ کیسے کمال فطرت پسند ہیں۔ ایک تو بڑے شہر کی عجیب مصروف زندگی، اوپر سے اتنا لمبا سفر، پھر بھی شمال کے لئے وقت نکالنا، ایسے فطرت پسندوں کے لئے بس یہی کہوں گا کہ واہ! سبحان اللہ۔ تم یونہی جیو ہزاروں سال۔۔۔

رک سیک اٹھائے محمد احسن کو گاڑی کی طرف آتا دیکھ کر میں حساب لگا رہا تھا کہ رک سیک زیادہ بڑا ہے یا احسن بھائی ضرورت سے زیادہ سمارٹ ہیں۔ پھر اک صدا آئی کہ اس چھوٹے سے جسم کو نہ دیکھ، اس میں موجود طاقتور تخلیقی دماغ کو دیکھ۔ اس مسافرِشب کو دیکھ جو فی الحال چار کتابوں کا مصنف اور دو کا مترجم اور بے شمار رائٹس اپ کا تخلیق کار ہے۔ اس محمد احسن کو دیکھ جو اعلیٰ درجے کا لکھاری، جہاں گرد اور سپیس سائنٹسٹ ہے۔ خوبصورت اندازِ تحریر لئے ہوئے ان کی اکثر تحاریر نہایت جاندار ہوتی ہیں۔ ایک ایسا منفرد انداز جس میں الفاظ کی انوکھی موسیقی اور فقروں کی نرالی تان ہوتی ہے۔ مجھے تو محمد احسن کی تحریریں پسند آتی ہی ہیں، مگر آپ کو یہی کہوں گا کہ اگر آپ نے انہیں نہیں پڑھا تو فالو کریں، پڑھیں اور پھر خود ہی جان جائیں گے کہ محمد احسن کس پائے کا لکھاری ہے۔ مزید یہ بھی جان جائیں گے کہ ”باادب بانصیب“ کیا ہوتا ہے۔ دراصل میری نظر میں محمد احسن علم کے حوالے سے نہایت باادب ہیں اور یہی ان کی تحریر کے ”بانصیب“ ہونے کا راز ہے۔ ہم دعا کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ انہیں صحت و تندرست رکھے، لمبی عمر دے اور ان کا زور قلم اور زیادہ کرے۔ مجھے پوری امید ہے کہ یہ بندہ بطور ادیب بہت سے ریکارڈ توڑے گا اور کئی نئے ”ٹرینڈ“ سیٹ کرے گا۔ ویسے میں نے ان کے سفرنامے ”دیوسائی میں ایک رات“ پر اپنی رائے وغیرہ پر مبنی ایک تحریر لکھی تھی، دل مانے تو وہ بھی پڑھ لیجئے گا۔ احسن بھائی سے جان پہچان اور پہلی ملاقات اسلام آباد ادبی میلے(لٹریچر فیسٹیول 2015ء) میں ہوئی تھی۔ اس کے بعد انٹرنیٹ پر ہی انہیں فالو کرتا رہا اور اب تقریباً تین سال بعد اس سفر کی وساطت سے دوسری ملاقات ہونے جا رہی تھی۔

محمد احسن گاڑی میں سوار ہوئے۔ سلام دعا ہوئی اور گاڑی چل پڑی۔ اب اگلا سٹاپ ڈائیوو ٹرمینل تھا۔ جہاں کئی لوگ انتظار کر رہے تھے۔ ویسے ہمیں ”سفرنامہ“ کی رفتار تھوڑی بڑھانی چاہیئے۔ کیونکہ دوسری قسط بھی آدھی سے زیادہ ہو گئی ہے اور ابھی تک ہم اسلام آباد ہی پہنچے ہیں۔ جبکہ جہازبانڈہ تو بہت دور ہے اور اس قسط میں ہم نے کم از کم جہازبانڈہ سے نیچے ”جندرئی“ پہنچنا، کھانا کھانا، کائنات پر بات چیت اور پھر آرام کرنا ہے۔ لیں جی! ایکسیلیریٹر پر پاؤں رکھ دیا ہے۔ سفرنامہ کی رفتار تیز ہو رہی ہے اور میں آپ کو بتا رہا ہوں کہ ڈائیوو ٹرمینل سے باہر سڑک پر گاڑی جا رُکی۔ فرخ ہمارا انتظار کر رہا تھا۔ میں اور احسن بھائی فرخ سے گپ شپ کرنے لگے۔ باقی ہمسفر اِدھر اُدھر تتربتر ہو گئے۔ محسن پرانے و نئے شامل ہونے والے مسافروں کا سامان کوسٹر کی چھت پر رکھوانے لگا۔ اتنے میں ایک پراڈو بھی آ رُکی۔ معلوم ہوا کہ یہی دوسری گاڑی ہے۔ پھر فرخ نے اجازت چاہی اور ہمیں الوداع کہہ کر خود الوداع ہو گیا۔ دوسری گاڑی کی چھت پر بھی سامان باندھ چکے تو تتر بتر ہوئے مسافروں کو اکٹھا کر کے آدھے تیتر اور آدھے بٹیر بنا کر دونوں گاڑیوں میں سوار کر دیئے گئے۔ مجھے باذوق ہونے کا شرف بخشتے ہوئے کوسٹر سے اتار کر پراڈو میں بیٹھا دیا گیا، جہاں سارے ہی ”خواتینے“ تھے۔ یوں تصویرِ کائنات بے رنگ سی لگنے لگی۔۔۔ نوٹ: سفرنامہ کی تیز رفتاری کے باعث طبیعت زیادہ خراب ہو تو پہلی قسط سے رجوع کریں۔
دونوں گاڑیاں موٹروے ایم ون(M1) پر چڑھ دوڑیں۔ کہتے ہیں کہ بھوکا بٹیر زیادہ اچھا لڑتا ہے۔ دوسری گاڑی کا تو علم نہیں کہ اُدھر ”بھوکے“ بٹیر اور تیتر کیسا لڑے مگر ہماری گاڑی میں تو سارے بٹیر بھوک کی وجہ سے مرجھائے ہوئے تھے۔ کسی نے کانوں میں ٹونٹیاں ٹھوک لیں اور کچھ کھویا کھویا محسوس کر رہے تھے۔ جب سارے خاموش ہی بیٹھے رہے تو آخر میں نے سکوت کو توڑنے کے لئے یوں ٹھوکر لگائی ”یارا آپ لوگ تو ایسے غمگین ہو جیسے سب کی ناراض ہو کر چلی گئی ہو۔“ اس پر کوئی مسکرایا، کسی نے قہقہ لگایا۔ پھر سب سے فرداً فرداً تعارف پوچھا۔ یوں گپ شپ ہونے لگی اور سفر کٹتا گیا۔ سفرنامہ کے یہ سب کردار آگے آتے رہیں گے۔ فی الحال تھوڑی جلدی ہے، اس لئے بڑھے چلو۔ دریائے سندھ کو عبور کرو اور پھر رشکئی انٹرچینج کے ذریعے موٹروے سے اترو اور نیشنل ہائی وے(N45) پر مردان کی طرف چل دو۔

پہلے سفر کی تیاری، پھر رت جگا اور پھر سفر۔ یوں دن کے دس اور ہمارے بارہ بج چکے تھے۔ اور یہ سفرنامہ کافی رفتار پکڑ چکا ہے۔ لہٰذا مردان کے ایک ہوٹل سے جلدی جلدی ناشتہ کریں اور چلتے بنیں۔ بس جی ہو گیا۔ یہ دوسری چائے بھی ختم ہونے کو ہے۔ لو جی ہو گئی اور چلو۔۔۔ مردان کے ایک پٹرول پمپ سے زبیرخان صاحب نے ڈیزل بھروایا۔ اجی! گاڑی میں بھروایا تھا۔ ورنہ وہ محسن کی طرح خود تھوڑی ڈیزل پیتے ہیں۔ خیر ایک ایکسٹرا کین میں بھی بھروا لیا تاکہ سند رہے اور بوقت ضرورت کام آوے۔ محسن کی ٹینکی کتنے لیٹر کی ہے، یہ جاننے کے لئے پہلی قسط کھنگالیں اور زبیر صاحب کے بارے میں جاننے کے لئے یہی قسط پڑھتے رہیں۔ ہاں تو جناب! یہ جنابِ زبیر سرکاری محکمے میں ملازم ہیں۔ جیسے جیسے سفر ہوتا گیا تو ہمیں معلوم ہوا کہ یہ صرف ”یس سر یس سر“ ہی نہیں کرتے بلکہ کافی باذوق بندے ہیں اور سیاحت اور شکار کا شدید شوق رکھتے ہیں۔ شکار سے یاد آیا کہ سفر کے دوران شکار سے متعلق ایک لطیفہ بھی مرد حضرات کو سنایا تھا، مگر مجبوری ہے کہ یہاں نہیں لکھ سکتا۔

ناشتے کے بعد جب کارواں چلا تھا تو زبیر صاحب کے ساتھی حاجی عبدالرحمان کو پراڈو سے نکال کر کوسٹر میں بیٹھا دیا گیا تھا، تاکہ سرکاری ملازم کی برکات سے چیک پوسٹ کے ’جن‘ تنگ نہ کریں۔ وہ کیا ہے کہ سوات ”آزاد“ تو ہو گیا مگر جگہ جگہ چیک پوسٹ بنانا مجبوری ٹھہرا۔ خیر پشتو کے مشہور صوفی شاعر رحمان بابا کے نام سے مماثلت کی وجہ سے میں حاجی عبدالرحمان کو پیار سے رحمان بابا ہی کہتا رہا اور یہ کہنا ایسا ہوا کہ ہر کوئی انہیں رحمان بابا کے نام سے ہی پکارنے لگا۔ ویسے رحمان بابا بڑے ملنسار اور ہر وقت مسکراتے چہرے والے ”جولی گڈ ٹائیپ“ بندے ہیں۔ جہازبانڈہ کی بلندیوں پر اور کمراٹ کے جنگلوں میں فوڈ گُرو محسن رضا کا کھانا اور رحمان بابا کا پشاوری قہوہ… اف… ظالم ہماری عادتیں خراب کرنے والے تھے۔

صوفی شاعر رحمان بابا کا ذکر آئے اور انہیں کی سرزمین کے آس پاس ہوں اور ہم ایسے ہی روح سیراب کئے بغیر سوکھے سوکھے چل دیں، یہ تو زیادتی ہے مسافروں۔ کیا خیا ل ہے کہ ان کے چند اشعار نہ ہو جائیں؟ چلیں اشعار نہیں تو وکی پیڈیا کے شکریہ کے ساتھ چند اشعار کا اردو ترجمہ تو بنتا ہے۔
٭ انسانیت دولت سے پیدا نہیں ہوتی اے رحماؔن… بت سونے کا ہو تو بھی انسان نہیں بن جاتا۔
٭ پھولوں کی فصل اگاؤ کہ راستے گلزار ہو جائیں… کانٹے مت بوؤ کہ پیروں میں چبھیں۔
٭ کعبہ کی بزرگی میں مجھے کوئی شک نہیں… لیکن گدھا طواف سے حاجی نہیں بن جاتا۔
٭ الله سے بخت مانگو عقل مت مانگو اے رحماؔن… کیونکہ عقلمند اکثر بخت والوں کے غلام ہوتے ہیں۔
٭ رحماؔن اپنے دل کا راز اپنے یار کو نہیں بتانا… اس یار کا بھی کوئی یار ہوگا جو تمہیں رسوا کر دے گا۔

ڈیزل بھروانے کے بعد زبیر صاحب نے گاڑی کے ایکسیلیریٹر پر ایسا پاؤں دبایا کہ کب تخت بائی، مالاکنڈ پاس اور بٹ خیلہ گزرے کچھ پتہ نہ چلا اور پھر تیمر گڑھا کے پاس ایک ہوٹل سے چائے پینے اور کوسٹر کے پہنچنے کا انتظار کرنے لگے۔ جب ہماری چائے ہضم ہو گئی اور اگلی کی طلب ہونے لگی تب کہیں کوسٹر آ کر گزر گئی اور ہم اس کے پیچھے ہو لیے۔۔۔ جب سے گاڑی چلانی سیکھی ہے، تب سے غالباً یہ زندگی کا پہلا سیاحتی سفر تھا، جب میں اس حوالے سے پُرسکون تھا کہ ڈرائیو نہیں کرنی پڑے گی۔ مگر اس محسن کو بھی چین نہیں تھا۔ کہنے لگا کہ زبیر صاحب اگر آپ تھک جائیں تو بلال گاڑی چلائے گا۔ کر لو گل۔ وہ تو شکر ہے زبیر صاحب تھکے نہیں۔۔۔ اب ماحول کچھ کھل ڈل رہا تھا۔ پراڈو میں سوار بندوں میں سے ایک کا نام شفان حسن تھا اور پھر جب اس نے اپنے نام کے جیسی موسیقی چلائی تو میں سمجھ گیا کہ ایسے باذوق انسان کے ساتھ اچھی گزرے گی۔ شفان کے علاوہ ساجد اور مہتاب صاحب تھے، جو کہ فی الحال نہایت کم گو تھے، باقی آگے آگے دیکھیئے ہوتا ہے کیا۔ امیرِکارواں نے یونس عباسی اور مظہر حبیب ملتانی پر بہت بڑا ظلم کیا تھا۔ دونوں لیلیٰ مجنوں کو علیحدہ علیحدہ گاڑی میں بیٹھا دیا۔ یوں یونس کوسٹر میں اور مظہر ہمارے ساتھ تھا۔ دراصل یہ دونوں پہاڑوں کے ساتھی ہیں اور اکثر اوقات اکٹھے پہاڑوں میں پائے جاتے ہیں۔ مظہر حبیب کی تو کیا ہی بات ہے۔ بہت اچھا انسان اور مخلص دوست ہے۔ سفر اور خاص طور پر ٹریکنگ کے دوران میں تو حیران رہ گیا کہ کس طرح وہ یونس عباسی کا ساتھ دیتا ہے اور بعض جگہوں پر تو اس نے یونس کی خاطر اپنی سیاحت کی قربانی دی۔ حالانکہ یونس اسے کہتا رہا کہ مجھے چھوڑو اور تم آگے چلے جاؤ، مگر وہ نہ گیا۔

تیمر گڑھا سے تھوڑا پہلے ہم دریائے پنجکوڑہ کے کنارے کنارے چلے تھے۔ اب اگلا سفر اسی کے ساتھ ساتھ یا آس پاس ہی ہونا تھا۔ دیر شہر سے تقریباً آٹھ کلومیٹر پہلے قومی شاہراہ 45 کو چھوڑا کر دائیں ہاتھ بابِ کمراٹ سے گزرے اور دریائے پنجکوڑہ کے کنارے کمراٹ کی جانب گامزن ہوئے۔ بھئی! فی الحال میں نے سفرنامہ کے ایکسیلیریٹر سے پاؤں نہیں اٹھانا۔ کیونکہ پہلے ہی بہت تاخیر ہو چکی ہے۔ جلدی جلدی پڑھ لیں کہ رستے میں شرینگل آیا۔ وہاں سے آگے چلے تو تھوڑی دیر بعد گاڑی میں شور اٹھا، گاڑی روکیں گاڑی روکیں۔ یہ شور مچانے والا بقلم خود یعنی میں ہی تھا اور شور کی وجہ وہ نظارہ تھا، جسے میں کھونا نہیں چاہتا تھا، پھر چاہے کوئی جو مرضی کہے۔ زبیرصاحب چونکہ صاحبِ ذوق بندے ہیں، اس لئے انہوں نے ذرا بھی ناگواری نہ دیکھائی اور گاڑی روک دی۔ میں نے گاڑی سے اتر کر نظارے کو جذب کیا۔

اور پھر شام ساڑھے چھ بجے کے قریب ہمارا ”بیس کیمپ“ تھل آ ہی گیا۔ بیس کیمپ یوں کہ گاڑیاں یہیں کھڑی کر کے ہم نے دائیں ہاتھ بجانب جنوب مشرق پہلے تقریباً آٹھ کلومیٹر کا فاصلہ جیپ پر طے کر کے جندرئی اور پھر آٹھ کلومیٹر مگر سخت چڑھائی کا پیدل ٹریک کر کے جہازبانڈہ اور وہاں سے نوکیلے پتھروں والے ساڑھے پانچ کلومیٹر ٹریک کے بعد جھیل کٹورہ پہنچنا تھا۔ یونہی اور اسی راستے سے واپس تھل آکر بجانب تقریباً شمال وادی کمراٹ جانا تھا۔ خیر تھل پہنچ کر گاڑیوں سے سامان نکالا و اتارا گیا۔ سبھی مسافر کچھ ہلکے پھلکے ہوئے۔ چائے کے جام چڑھائے۔ میرے سر میں درد ہو رہا تھا۔ اب پتہ نہیں سارا دن تصویرِکائنات بے رنگ ہونے کی وجہ سے تھا یا پھر حسب سابق گاڑی میں سفر کی وجہ سے۔ آپس کی بات ہے کہ جب بھی گاڑی میں تھوڑا لمبا سفر کرتا ہوں تو سر میں درد ہونے لگتا ہے۔ جبکہ دوسری طرف موٹرسائیکل(بائیک) پر سارا شمال بھی گھوم آؤں تو سر کو کوئی پرواہ نہیں ہوتی۔ البتہ تب کہیں اور درد ہوتا ہے۔ سیانے کہتے ہیں کہ موٹرسائیکل پر لمبے سفر سے پہلے تشریف لوہے کی لگوا لینی چاہیئے۔ ورنہ بیچاری ایسی چیخے گی کہ چودہ طبق روشن تو کیا، طبقوں کا بلب شدید روشن ہو کر پھٹ جائے گا۔

کارواں سرائے نے ہمیں بھیڑیں سمجھ کر جیپوں میں ٹھونسا، حالانکہ ہماری حالت بھیڑوں کی بجائے نیم بھیڑئیے جیسی تھی۔ وہ کیا ہے کہ رت جگا اور سفر کی وجہ سے سب کی آنکھوں میں عجیب وحشت بھرا خمار تھا۔ خیر رات کے اندھیرے اور انسانی سمگلنگ کے جیسے ماحول میں ہم تھل سے جندرئی پہنچے۔ راجہ تاج محمد کے گیسٹ ہاؤس میں ٹھہرنے کا انتظام تھا۔ راجہ صاحب نے یہیں ایک عجائب گھر بھی بنا رکھا ہے۔ جس میں پرانے زمانوں کی بندوقیں، تلواریں، حنوط شدہ مارخور، جوتے اور بہت کچھ رکھا ہوا ہے اور یہ راجہ صاحب خود بھلا کیا بلا ہیں؟ یہ تو آپ کو جہازبانڈہ پہنچ کر تبھی معلوم ہو گا، جب وہ بندوق کے زور پر کہیں گے ”محسن! تم کیوں زحمت کرتا ہے؟ ہمیں تکلیف دو، بلکہ ڈنڈا دے کر ہم سے کام کراؤ۔۔۔ ہاہاہا۔۔۔ تالیاں۔۔۔ پاکستان زندہ باد۔۔۔ آپ کا نوکر راجہ تاج محمد۔۔۔“ رانا عثمان ٹھیک کہتا تھا۔ راجہ صاحب بہت زبردست کردار ہیں۔ کیا کمال زندہ دل اور ملنسار شخص ہے۔ باقی تعارف جہازبانڈہ پہنچ کر، کیونکہ اس وقت راجہ صاحب جندرئی کی بجائے جہازبانڈہ والے کاٹیج میں تھے۔

مجھے جس کمرے میں پہنچایا گیا وہ دوسری منزل پر تھا۔ دراصل ابھی تک میرا سردرد ٹھیک نہیں ہوا تھا، اس لئے اب کی بار تھوڑی ”ہیوی ڈوز“ چڑھائی اور ڈوز یہ تھی کہ خوب پانی پیا اور لیٹ گیا۔ پندرہ بیس منٹس بعد سردرد ٹھیک ہونے لگا تو گیسٹ ہاؤس کے لان سے شورشرابہ اٹھا۔ باہر جا کر دیکھا تو محسن اپنے روایتی انداز میں بھاگ دوڑ کر رہا تھا۔ محسن ایک محنتی شخص ہے اور ہر کام سوفیصد درست کرنے کے چکر میں کبھی کبھار چند لمحات کے لئے ہلکا پھلکا ”کھپرا“ بھی ہو جاتا ہے۔ 🙂 میں واپس کمرے کی طرف دوڑااور یونس عباسی کو لات رسید کرتے ہوئے بولا ”تم اِدھر سو رہے ہو اور نیچے ’باربی ڈول‘ کا انتظام ہو رہا ہے“۔ گو کہ اس سفر سے پہلے میں اور یونس اتنے بے تکلف نہیں تھے، اوپر سے ہم علیحدہ علیحدہ گاڑی میں تھے، مگر پتہ نہیں کیوں بہت جلد ہم ایک دوسرے سے انتہائی بے تکلف(فری) ہو گئے۔ خیر یونس ہڑبڑا کر اٹھنے کی ایکٹنگ کرتے ہوئے بولا ”کدھر ہے؟ کدھر ہے بے بی ڈول؟“
”اوئے! بے بی ڈول نہیں، بار بی ڈول۔“
”جو بھی ہو بس دیکھاؤ کدھر ہے ڈول؟“
”نیچے، باہر لان میں ہے۔“
میں اور یونس لان میں پہنچے اور باقیوں کے ساتھ کھانے میں مصروف ہو گئے۔ کھانا کھاتے ہوئے یونس نے پوچھا ”اوئے تم نے باربی ڈول نہیں دیکھائی۔“
”ارے! اس ماحول اور بلندی پر یہ ’باربی کیو‘ کیا کسی ’باربی ڈول‘ سے کم ہے۔ ذرا جا کر ان گوجرانوالہ کے باشندوں سے تو پوچھ۔“
فوڈگرو کی طرف سے یہ سفر کا پہلا کھانا پیش کیا گیا تھا اور کیا لاجواب پیشکش تھی۔ تکہ، کباب اور سٹیکس وغیرہ تو مزیدار تھے ہی مگر ماحول زیادہ زبردست تھا۔ ہم خود بار بی کیو بناتے، ایک دوسرے کو پیش کرتے اور خود بھی کھاتے۔ کہیں سے آواز آئی، کیا ساتھ روٹی نہیں؟ محسن نے کہا کہ بڑی روٹیاں لیکن بہتر ہے کہ صرف گوشت کھاؤ۔ اول تو مال بہت ہے اور واپسی تک آپ نے ختم کرنا ہے، جو کہ نہیں ہو گا۔ دوسری بات یہ کہ گوشت کھاؤ… جان بناؤ، کیونکہ کل ٹریک پر بہت جان لگنے والی ہے۔

کھانے کے بعد آہستہ آہستہ سبھی جانے اور نیند کو پیارے ہونے لگے۔ ہم بھی کافی تھکے اور پچھلے چھتیس گھنٹے سے جاگ رہے تھے۔ لیکن جب پہاڑوں کا جہان ہو… صاف آسمان ہو… اور مسافرِشب کا ساتھ ہو تو بھلا سوئے کون؟ حالانکہ صبح جلدی اٹھنا اور سخت ٹریک پر نکلنا تھا۔ مگر یونس عباسی، مسافرِشب اور منظرباز، رات دیر تک سیاروں، ستاروں، کہکشاؤں، کائنات اور ان سب کو بنانے والے کا ذکر کرتے رہے۔ پھر کہیں سے کسی صوفی کی صدا آئی ”بس کرو ملنگو! سطح سمندر سے 2130میٹر بلند جندرئی کی ان بلندیوں میں بہت ہو گئی یہ ’عبادت‘۔ اب جا کر سو جاؤ۔ ابھی تو تم نے ان سے بھی زیادہ بلندیوں پر ’نچ کے یار منانا اور اپنا رانجھا راضی کرنا‘ ہے۔۔۔“

اگلی یعنی تیسری قسط

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست 3 تبصرے برائے تحریر ”اک محبوب نگری – سفرنامۂ جہاز بانڈہ – دوسری قسط

  1. زبردست جناب ایم بلال صاحب
    کمال کی خوبصورتی ہے آپ کی تحریر میں۔ پڑھنے کے ساتھ ساتھ مسکراہٹ نے بھی ساتھ نہ چھوڑا۔ تیسری قسط کا انتظار رہے گا۔

تبصرہ تحریر کریں۔

Your email address will not be published. Required fields are marked *