محفوظات برائے ”دیوسائی“ ٹیگ
ستمبر 20, 2019
تبصرہ کریں

منہ فوٹو واسطے پورا لیکچر – ایڈا توں فوٹوگرافر

ریچھ صاحب نے مسٹر مارموٹ کو تصویر بنانے کا کہا نہ مارموٹ نے ریچھ کو، لیکن لیپرڈ اور عقاب سمیت سبھی ایک دوسرے کی تصویریں بناتے پائے گئے۔ آخر جانور بھی انسان ہوتا ہے۔ خیر مزہ اسی میں ہے کہ کسی سفر پر دو فوٹوگرافر دوست ایک ساتھ ہوں۔ اگر ایسا نہ ہو اور پورے گروپ میں ایک ہی فوٹوگرافر ہو تو پھر کئی نیم فوٹوگرافر چِکنے اور چکنیاں اس کی مت مار دیتے ہیں۔ باقیوں کی تصاویر بنانے کے ساتھ ساتھ فوٹوگرافر کو اپنی منہ فوٹو بنوانے کے لئے پورا لیکچر دینا پڑتا ہے۔ اس پر کئی لوگ غصہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ایڈا توں فوٹوگرافر۔ اور بعض صاحبیاں تو اس حد تک غصہ کرتی ہیں کہ←  مزید پڑھیے
ستمبر 14, 2019
1 تبصرہ

دیوسائی میں ہماری ریچھ کہانی

جنگلی جانور انسان سے ڈرتے ہیں، لیکن جب مدبھیڑ ہو جائے تو وہ انسان پر حملہ کر دیتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ درندہ تو پھر درندہ ہی ہوتا ہے اور جب وہ اپنی آئی پر آتا ہے تو انسان کو بھاگنے کا موقع نہیں دیتا اور چیر پھاڑ کر رکھ دیتا ہے۔ جب ایک دفعہ کوئی درندہ انسانی خون چکھ لے تو پھر وہ آدم خور ہو جاتا ہے اور انسان کو آسان شکار سمجھنے لگتا ہے۔ یہ سب جانتے ہوئے بھی ہم دیوسائی میں ریچھوں کی تلاش کو نکلے، مگر دعائیں بھی کرتے کہ ریچھ مل تو جائے لیکن اس انداز سے کہ ہم اسے دیکھ لیں، تصویریں بنا لیں اور وہ اتنا قریب بھی نہ ہو کہ ہم پر حملہ کر دے۔ آخرکار واقعی ہمارا ریچھ سے سامنا ہو گیا اور پھر ہماری دوڑیں←  مزید پڑھیے
ستمبر 11, 2019
1 تبصرہ

پربت کے دامن میں (دوبارہ)

خواتین و حضرات! میں ہوں اس داستان کا میزبان منظرباز۔۔۔ زندگی جیتے تمام مسافروں سے التماس ہے کہ برائے مہربانی انسان سے وابستہ امیدوں اور شکوہ شکایت کا بوجھ اتار دیجئے اور سفری و سیاحتی سامان باندھ لیجئے۔ یوں قوی امید ہے کہ آپ کا سفر یادگار ہو گا۔۔۔ بہرحال ہماری اس سفری داستان میں شادیانے بجتے ہیں، چشمے گاتے ہیں، آبشاریں مٹکتی ہیں، برفیں تڑکتی ہیں اور پریاں ناچتی ہیں۔ اس کہانی میں رومانس ہے… ٹریجڈی ہے… ڈرامہ ہے۔ شاعری ہے… نثر ہے۔ نظم، غزل، مضمون اور افسانہ ہے… مکالمہ ہے۔ ساکت و متحرک کردار ہیں۔ یہ مہم جوئی ہے۔ یہ امتحان، صبر، برداشت اور حوصلے کی کہانی ہے۔ اس میں←  مزید پڑھیے
اگست 30, 2018
5 تبصر ے

اک محبوب نگری – سفرنامۂ جہاز بانڈہ – چوتھی قسط

جھیل کٹورہ ٹریک کے آغاز پر ہی منظرباز نے پہاڑوں کے اوپر دیکھتے ہوئے کہا ”میخانے کا دروازہ کھول کہ رِند آئے ہیں“۔ پھر ہم خطرناک پتھروں پر بے حال ہوئے چلے جا رہے تھے۔ سچ ہے کہ حُسن کشٹ مانگتا ہے۔ جھیل یونس کے بعد راستے کی خطرناکی دیکھتے ہوئے شاہ رخ صاحبہ نے کہا ”سوچ لو کہ آج مرنا ہے“۔ پھر ایک لڑکی نے ظلم ڈھایا اور ہم نے غصہ کھایا۔ آخر جھیل کٹورہ پہنچ ہی گئے۔ اس مقام کی تاثیر یہ تھی کہ ”تم“ آئے چناب کی صورت۔ خیر جھیل کنارے مسافرِشب سے ماڈلنگ کرائی۔ فوٹوفوٹی جنگ ہوئی، بونے ناچے اور کئی لڑکیوں نے ”کُڑی مارکہ“ کا عملی نمونہ پیش کیا۔ آخر ریل گاڑی چلی اور پھر اچانک حادثہ←  مزید پڑھیے
فروری 6, 2018
4 تبصر ے

منظرباز کے چار یار – شمس، بمبوکاٹ، چندر بھاگ اور عکس ساز

یوں تو ہم ایک زمانے کو دوست رکھتے ہیں لیکن ابھی ذکر ہے جنابِ شمس، مسٹر بمبوکاٹ اور محترم چندربھاگ کا… اور عکس ساز کا۔ یہ سب منظرباز کے ہمراز ہیں۔ اب ایسا بھی نہیں کہ اشرف المخلوقات کو چھوڑ کر ان سے دوستی کر لی۔ لیکن یہ بھی سچ ہے کہ انسان کو دل کی بات کہتے ڈر لاگے ہے صاحب۔۔۔ چناب کنارے والے نے محبوب نگری میں کہا تھا کہ سب تعبیریں اک خواب کیں… سب پنکھڑیاں اک گلاب کیں… سب کرنیں اک آفتاب کیں… جن میں… ہم کنارے چناب کے… ہم سپوت دوآب کے… ہم شہرِخوباں کے… ہم ارضِ جاناں کے… اور ہم←  مزید پڑھیے