دسمبر 6, 2010 - ایم بلال ایم
8 تبصر ے

دفاع ذات اور ہماری قانون سازی

بسم اللہ الرحمن الرحیم
انسان یا کسی چیز کے حفاظتی انتظامات کرتے ہوئے سب سے پہلے یہ دیکھا جاتا ہے کہ دشمن یا حملہ آور کون ہے اور کتنی طاقت رکھتا ہے، پھر دشمن یا حملہ آور کی طاقت کو مدِ نظر رکھتے ہوئے حفاظتی اقدامات کیے جاتے ہیں۔ بیماری، جانور، چور اور ڈاکو وغیرہ سے بچاؤ ، سے لے بڑی سے بڑی جنگ تک میں یہی چیز سامنے رکھ کر انتظامات کیے جاتے ہیں۔ اگر دشمن کو زیر کرنا ہو تو اس سے زیادہ طاقت رکھی جاتی ہے اور اگر معاشرے میں امن و امان کی صورت حال رکھنی ہو تو اس کے لئے معاشرے میں طاقت کا توازن برقرار رکھا جاتا ہے۔ یہ وہی توازن ہے جو آئے دن خبروں میں سنا جاتا ہے کہ فلاں ملک نے نئے میزائل بنا کر خطہ میں طاقت کا توازن بگاڑ دیا ہے۔ اب طاقت کا توازن برقرار رکھنے کے دو طریقے ہیں، طاقتور کی طاقت کم کر دی جائے یا کمزور کو طاقتور بنا دیا جائے۔
پولیس، عدالت اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کا یہی کام ہوتا ہے کہ طاقت کا غلط استعمال کرنے والے کو روکا جائے اور کمزور کی طاقت یہ خود بنیں۔ یوں معاشرے میں طاقت کا توازن برقرار رہتا ہے اور امن و امان قائم رہتا ہے لیکن وطن عزیز میں معاملہ الٹ ہے۔ یہاں کمزور کی کوئی نہیں سنتا اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی طاقت والے نہیں سنتے، الٹا قانون نافذ کرنے والے ادارے شریف شہری کو قانون سکھاتے رہتے ہیں اور شریف شہری کی طاقت بننے کی بجائے الٹا اپنی طاقت کا رعب شریف شہری پر بیٹھاتے ہیں اور جب بات آتی ہے حفاظت کی تو انہیں اداروں سے جواب ملتا ہے کہ ہم ہیں نا۔۔۔
کسی ملک میں سیکیورٹی چاہے جتنی سخت اور بہتر کر لی جائے پھر بھی ہر بندے کے ساتھ باڈی گارڈ مہیا نہیں کیے جا سکتے۔ اسی لئے کہا جاتا ہے کہ کسی ایمرجنسی کی صورت میں جب تک قانون نافذ کرنے والے نہ پہنچ جائیں اتنی دیر ہر انسان دفاع ذات (Self-defence) یعنی اپنی حفاظت خود کرے۔ ہر معاشرے میں دفاع ذات کہاں تک کرنا ہے اور کن چیزوں کے استعمال سے کرنا ہے مختلف ہوتا ہے لیکن ہمارے ہاں شریف شہری کی ذہن میں ”دفاع ذات “ نام کی کوئی چیز موجود ہی نہیں۔الٹا یہاں دفاع ذات کی تعریف اور کہاں تک کرنا ہے کوئی نہیں بتاتا بلکہ معاملہ مزید خراب ہے کہ شریف شہری کے ذہن میں یہ بیٹھا دیا گیا ہے کہ دفاع ذات صرف اتنا ہے کہ بلی کو دیکھ کر کبوتر کی طرح آنکھیں بند کر لو۔ یہ بات بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ قانون نافذ کرنے والے کتنی دیر میں پہنچتے ہیں اور پھر آ کر کیا کرتے ہیں۔
کسی بھی معاشرے میں طاقت کا توازن برقرار اور امن و امان رکھنے کے لئے حکومت سب سے پہلے معاشرے میں موجود جرائم پیشہ لوگوں کی طاقت کو دیکھتی ہے۔ پھر سیکیورٹی کتنی جلدی اور کتنی طاقت کے ساتھ پہنچ سکتی ہے اور پھر عام شہری کےلئے دفاع ذات کے سازوسامان جیسے اسلحہ وغیرہ کا انتخاب کرتی ہے اور عام شہری کو اس کی اجازت دیتی ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ حکومت جرائم پیشہ لوگوں کی طاقت کم کرنے اور جرائم کو ختم کرنے پر کام کرتی ہے۔ جیسے جیسے جرائم پیشہ لوگوں کی طاقت کم ہوتی ہے ویسے ویسے قانون میں تبدیلی کر کے دفاع ذات کے سازوسامان میں بھی تبدیلی کر دی جاتی ہے۔ یہ تبدیلی اس لئے آسانی سے ممکن ہوتی ہے کہ دفاع ذات کے لئے رکھا گیا اسلحہ حکومت کے پاس رجسٹرڈ ہوتا ہے۔
اب دیکھیں وطن عزیز کے حالات اور قانون سازی۔۔۔
یہاں جرائم پیشہ لوگوں کی طاقت اتنی ہے کہ وہ شریف شہری کے گھر، دوکان، عزت اور جان وغیرہ پر اے کے 47 (AK-47) یعنی کلاشنکوف یا کسی بھی دیگر خود کار اسلحہ سے حملہ کرتے ہیں اور سیکیورٹی تب پہنچتی ہے جب مجرم سب صفایا کر کے بلکہ سب سے قیمتی چیز انسانی عزت وجان بھی لے کر فرار ہو چکے ہوتے ہیں اور کبھی پکڑے بھی نہیں جاتے۔ اس کے بعد بات آتی ہے کہ ان حالات کو مدِ نظر رکھتے ہوئے قانون سازی یعنی شریف شہری کو دفاع ذات کے لئے کیا سازوسامان اور کتنی تعداد رکھنے کی اجازت ہے۔ اب میں کیا بتاؤں یہ اجازت بھی آپ سب کے سامنے ہے۔سونے پر سہاگہ یہ کہ ہمارے ”خود کار معتبر شہری“ کسی شریف شہری کا دفاع ذات کے لئے معمولی سا اسلحہ رکھنا بھی اچھا نہیں سمجھتے۔ اس کے علاوہ حکومت بھی شریف شہری کو اسلحہ رکھنے کی اجازت نہیں دیتی اور اگر اجازت ہوتی ہے تو وہ بھی انہیں ”معتبر شہریوں“ کو ہوتی ہے۔ جو ویسے ہی بڑے طاقتور ہوتے ہیں اور قانون کو اپنی جاگیر سمجھ کر ہر وقت جیب میں رکھتے ہیں۔ حالات سب کے سامنے ہیں۔ یہاں جرائم پیشہ لوگ بہترین خودکار آتشی اسلحہ رکھتے ہیں، جس کی وہ کسی سے اجازت نہیں لیتے اور دن دہاڑے لیے پھرتے ہیں۔ ”معتبر شہریوں“ کو حفاظت کے لئے اے کے47 کے پرمٹ دیئے جاتے ہیں اور وہ اپنی گاڑیوں سے بندوقوں کی نالیاں باہر نکالے پھرتے ہیں۔ آ جا کر رہ جاتا ہے شریف شہری تو اسے بس اتنی اجازت ہے کہ بلی کو دیکھ کر آنکھیں بند کر لے اور اپنے مرنے کا انتظار کرے۔ حکومت کلاشنکوف کلچر روکنے کے بہانے بے شمار قانون سازی کرتی ہے اور یہ قانون شریف شہری پر لاگو ہوتا ہے جو بیچارہ ویسے ہی اپنی جان بچاتا پھر رہا ہے جبکہ یہ قانون ”معتبر شہری“ پر لاگو نہیں ہوتا کیونکہ انہیں اسلحہ پر پابندی کے باجود وزراء کے حکم اور کوٹے پر اسلحہ رکھنے کی اجازت مل جاتی ہے۔
حکومت کو بھی پتہ ہے کہ اس کے قانون نافذ کرنے والے ادارے کتنے پانی میں ہیں۔ میرے خیال میں(جوکہ غلط بھی ہو سکتا ہے) جب تک ادارے بہتر اور جرائم پیشہ لوگوں کی طاقت ختم نہیں ہو جاتی کم از کم تب تک تو شریف شہری کو دفاع ذات کا حق دیا جائے اور ہر شریف شہری کو اپنی حفاظت کے لئے اسلحہ رکھنے کی تربیت اور اجازت دی جانی چاہئے تاکہ عوام میں طاقت کا توازن برقرار رہنے سے امن امان کی صورت حال بہتر رہ سکے۔ ویسے بھی اگر حکومت قانون بنانے کے بہتر طریقہ پر چلے تو اس کا تقاضہ بھی یہی ہے کہ موجودہ حالات میں شریف شہری کو اپنی حفاظت کے لئے اسلحہ رکھنے کی اجازت ہونی چاہئے۔

اسی تحریر کی مناسبت سے دو لنک ۔
اوریا مقبول جان کا کالم
مختلف ممالک میں بندوق کا قانون

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست 8 تبصرے برائے تحریر ”دفاع ذات اور ہماری قانون سازی

  1. آخر ميں پہنچ کا سارا مزا ہی کرکرا ہو گيا ۔ ميں سمجھا تھا کہ آپ کی تحرير ہے اور لکھنے والا تھا ۔ “زبردست تحرير ہے ۔ کيا آپ ماسٹرز اِن ڈيفنس اينڈ سٹرٹيجک پلاننگ کے معلم ہيں ؟ کہيں ميرے دماغ ميں آپ نے ٹرانسميٹر تو فِٹ نہيں کيا ہوا ؟”
    اور نکلے اوريا مقبول جان صاحب جو وہی لکھتے ہيں جو ميں سوچتا ہوں

  2. پاکستان میں‌ نظام قانون کی جو حالت ہے اس کے مدنظر شریف بندے کے پاس بظاہر اور کوئی چارہ نظر بھی نہیں‌ آتا۔ آپ کی تحریر اوریا‌ مقبول جان کے کالم سے دس گنا بہتر اور مدلل ہے۔ بہتر ہوتا کہ اُس کالم نگار کا لنک نہ ہی لگاتے۔

  3. اقتباس» افتخار اجمل بھوپال نے لکھا: آخر ميں پہنچ کا سارا مزا ہی کرکرا ہو گيا ۔ ميں سمجھا تھا کہ آپ کی تحرير ہے اور لکھنے والا تھا ۔ “زبردست تحرير ہے ۔ کيا آپ ماسٹرز اِن ڈيفنس اينڈ سٹرٹيجک پلاننگ کے معلم ہيں ؟ کہيں ميرے دماغ ميں آپ نے ٹرانسميٹر تو فِٹ نہيں کيا ہوا ؟”
    اور نکلے اوريا مقبول جان صاحب جو وہی لکھتے ہيں جو ميں سوچتا ہوں
      

    جناب میرا خیال ہے کے تحریر کے آخر میں محض اس مضمون کی مناسبت سے اوریا جان کے کالم کا لنک دیا گیا ہے۔ اس تحریر کے مصنف کی حیثیت سے اوریا جان کا نام نہیں لکھا گیا۔

  4. بالکل جی، اوریا مقبول جان جیسے بنیاد پرست کا لنک لگانا تو ناقابل معافی حرکت ہے۔
    فورا توبہ کریں اور اس کی کاپی متعلقہ سفارت خانے کو فیکس کریں‌تاکہ آپ کی ‘بخشش’ کا بندوبست ہو۔

  5. اقتباس» افتخار اجمل بھوپال نے لکھا: آخر ميں پہنچ کا سارا مزا ہی کرکرا ہو گيا ۔ ميں سمجھا تھا کہ آپ کی تحرير ہے اور لکھنے والا تھا ۔ “زبردست تحرير ہے ۔ کيا آپ ماسٹرز اِن ڈيفنس اينڈ سٹرٹيجک پلاننگ کے معلم ہيں ؟ کہيں ميرے دماغ ميں آپ نے ٹرانسميٹر تو فِٹ نہيں کيا ہوا ؟”
    اور نکلے اوريا مقبول جان صاحب جو وہی لکھتے ہيں جو ميں سوچتا ہوں
      

    پتہ نہیں‌کیوں میری زیادہ تر تحاریر آخر پر پہنچ کر قارئین کا مزا خراب کر دیتی ہیں۔ چلیں‌جو ہونا تھا وہ تو ہو چکا۔ آئندہ اختیاط کروں گا۔ ویسے یہ میری ہی تحریر ہے۔ آخر پر جو دو لنک دیئے تھے وہ اس تحریر کی مناسبت سے مزید معلومات کے لئے دیئے تھے تاکہ اگر قارئین کے پاس وقت ہو تو وہ اس موضوع پر مزید کچھ پڑھنا چاہیں‌تو ان کے لئے آسانی ہو۔
    رہی میری بات تو میں پاکستان کا ایک دیہاتی ہوں اور میری تعلیم بس واجبی سی ہے، اس کرپشن زدہ نظام میں بھلا مجھے ”ماسٹرز اِن ڈيفنس اينڈ سٹرٹيجک پلاننگ“ کی معلمی کون دے گا؟ ویسے بھی میں اس قابل نہیں۔ باقی پتہ نہیں میں نے آپ کے دماغ میں ٹرانسمیٹر لگایا ہے یا آپ نے میرے دماغ میں کنٹرولر لگا دیا ہے خیر جو بھی ہے، یہ میری خوش نصیبی ہے کہ آپ میری سوچ سے اتفاق کرتے ہیں یا پھر میں آپ جیسا سوچتا ہوں۔
    اللہ تعالیٰ آپ کو بے شمار خوشیاں، تندرستی اور لمبی عمر دے۔۔۔آمین

    اقتباس» عثمان نے لکھا: پاکستان میں‌ نظام قانون کی جو حالت ہے اس کے مدنظر شریف بندے کے پاس بظاہر اور کوئی چارہ نظر بھی نہیں‌ آتا۔ آپ کی تحریر اوریا‌ مقبول جان کے کالم سے دس گنا بہتر اور مدلل ہے۔بہتر ہوتا کہ اُس کالم نگار کا لنک نہ ہی لگاتے۔
      

    عثمان بھائی تحریر پسند کرنے کا بہت بہت شکریہ۔۔۔ ویسے مزید دو لنک اس لئے دیئے تھے تاکہ قارئین اس موضوع پر مزید پڑھنا چاہیں تو اس تحریر سے ملتا جلتا مواد انہیں آسانی سے مل سکے۔

    اقتباس» احمد عرفان شفقت نے لکھا:
    جناب میرا خیال ہے کے تحریر کے آخر میں محض اس مضمون کی مناسبت سے اوریا جان کے کالم کا لنک دیا گیا ہے۔ اس تحریر کے مصنف کی حیثیت سے اوریا جان کا نام نہیں لکھا گیا۔
      

    بہت شکریہ احمد عرفان شفقت بھائی۔۔۔ آپ نے بالکل ٹھیک وضاحت کی ہے۔

    اقتباس» جعفر نے لکھا: بالکل جی، اوریا مقبول جان جیسے بنیاد پرست کا لنک لگانا تو ناقابل معافی حرکت ہے۔
    فورا توبہ کریں اور اس کی کاپی متعلقہ سفارت خانے کو فیکس کریں‌تاکہ آپ کی ‘بخشش’ کا بندوبست ہو۔
      

    لے دس۔۔۔ اتنی بڑی سزا۔۔۔ چلو اب حرکت کی ہے، توبہ تو کرنی پڑے گی۔ لہذا آپ کے حکم پر عمل کرتے ہوئے ایک ایک کاپی تمام اداروں کو فیکس کر دی ہے اور اگر حکم ہو تو خود حاضر ہو کر اصل توبہ بمعہ پریکٹیکل دکھا آتے ہیں۔

  6. مرحبا برخوردار ۔ مرحبا ۔ پہلے معذرت کہ ميں غلط سمجھا ۔ اوريا مقبول جان صاحب کا ربط فعال نہ تھا تو ميں کج فہمی کا شکار ہوا ۔ آئيندہ اِن شاء اللہ احتياط کروں گا ۔ آپ کی تحرير بہت عمدہ اور جامع ہے جو اُردو بلاگز ميں آپ کی تخصيص ہے
    اوريا مقبول جان صاحب اور ميں جس دور ميں پيدا ہوئے اُس زمانہ ميں مسلمانانِ ہند کی اکثرير ايک ہی نظريہ رکھتی تھی ۔ بھانت بھانت کی بولياں عصرِ جديد کا شاہکار ہيں ۔ مجھے خوشی ہوتی ہے کہ جس مقصد کو لے کر ميں نے بلاگ شروع کيا تھا چند نوجوان ماشاء اللہ اسے بہتر صورت ميں آگے بڑھا رہے ہيں
    :clap:

  7. “کچھ لوگ” جلتے ہیں تو جلیں۔ میں تو پھر بھی کہوں گا: ما شاء اللہ۔ 🙂
    میرے خیال میں آپ کا مضمون اوریا مقبول جان کے کالم کی نسبت سمجھنے میں زیادہ آسان ہے۔ انہوں نے تاریخ اور دیگر اقوام کی مثالیں دی ہیں جن میں لوگ کسی نہ کسی طرح سے اختلاف کے طریقے ڈھونڈ ہی لیتے ہیں جبکہ آپ نے تکنیکی نوعیت کا تجزیہ کیا ہے چنانچہ آپ کے دلائل نسبتاً زیادہ وزنی ہوں گے۔

تبصرہ تحریر کریں۔

Your email address will not be published. Required fields are marked *