فروری 15, 2018 - ایم بلال ایم
تبصرہ کریں

قلعہ روہتاس کی سیر – فرخ اور رانا عثمان کے ساتھ

یہ تب کی بات ہے جب ہمیشہ کی طرح وطنِ عزیز تاریخ کے نازک ترین موڑ سے گزر رہا تھا اور انسانیت خطرے میں تھی۔ یہ بات ہے اکیسویں صدی کے بالغ ہونے کی یعنی جب وہ اٹھارہ سال کی ہو چکی تھی اور گاتی پھر رہی تھی ”سوہنیا… میں ہو گئی اٹھرہ سال کی“۔۔۔ مجھے آج بھی یاد ہے کہ وہ اتوار کا دن تھا، جب راجپوتوں کے سپوت نے اپنے دوستوں کی فوج کے ہمراہ شیر شاہ سوری کے قلعۂ روہتاس پر یلغار کر دی۔ پہلے دریائے راوی اور چناب کو عبور کرتا ہوا بذریعہ جرنیلی سڑک گجرات پہنچا۔ گجرات سے منظرباز کو ساتھ ملایا اور مزید کمک کے لئے ”ضرورت سے زیادہ شریف“ شہزادہ فرخ الباکستانی کو اسلام آباد سے طلب کیا۔ فوج اپنے مکمل سازوسامان کے ساتھ دریائے جہلم کے کنارے پہنچی۔ یہ وہی دریائے جہلم ہے جسے عبور کرنا سکندراعظم کے لئے دوبھر ہو گیا تھا اور ایک دفعہ تو اسے راجہ پورس نے ناکوں چنے چبوا دیئے تھے۔ خیر مکاں بے شک وہی تھا لیکن زماں بدل چکا تھا۔ لہٰذا فوج منٹوں میں دریا عبور اور تقریباً 18کلومیٹر کا فاصلہ طے کر کے دینہ شہر سے پہلے ایک چوک نما میں پہنچی۔ وہاں سے بائیں ہاتھ قلعہ روہتاس کو جانے والی راہ پر چڑھ دوڑی۔ اس راہ پر 8کلومیٹر کا فاصلہ طے کر کے قلعے کے چودہ دروازوں میں سے ایک کے سامنے پہنچ گئی۔ جنگوں اور خاص طور پر وقت کی مار کھاتے کھاتے قلعہ بہت لاغر ہو چکا تھا، معمولی کھڈوں کے علاوہ کوئی مزاحمت نہ ہوئی۔ یوں فوج بڑے آرام کے ساتھ ”خواص خانی“ دروازے سے قلعے میں داخل ہو گئی۔

ہنستے مسکراتے، کھلے ڈلے اور زندہ دل لوگوں کے ساتھ منظرباز کا وہ ایک خوبصورت دن تھا۔ 11فروری2018ء کو معروف جہاں گرد رانا عثمان اور خرم لاہور سے اور فرخ اسلام آباد سے تشریف لائے۔ چاروں گجرات میں بغل گیر ہونے کے بعد قلعہ روہتاس کو چل دیئے۔ کہہ سکتے ہیں کہ بنیادی طور پر یہ نجی دورہ تھا۔ لیکن اکثر سیاحوں کے نجی معاملات میں بھی سیاحت کہیں نہ کہیں سے شامل ہو ہی جاتی ہے۔ جب ایسے لوگ مل بیٹھیں تو ظاہر ہے کہ کھل ڈل کر گپ شپ ہوتی ہے۔ چلتی پھرتی اس ملاقات میں بھی بہتوں کا ذکرِخیر ہوا۔ اگر آپ کو لگتا ہے کہ ہم نے ”ذکرِبد“ بھی کیا ہو گا تو آپ کی اطلاع کے لئے عرض ہے کہ آپ کو ٹھیک لگتا ہے۔ مگر ٹھہریئے! مؤخرالذکر میں جو ذکر تھا، وہ اُن کا ذکر نہیں تھا کہ جن کے بارے میں سوچ رہے ہیں۔ وہ تو ہم نے سیاحت کے حوالے سے کالی بھیڑوں بلکہ بھیڑیوں کا کیا تھا۔ اس سے مزید کچھ ایسا ویسا نہ سوچیئے گا۔ دراصل بات یہ ہے کہ جب ہم قلعے پہنچے تو بعض ہرنیاں سہمی ہوئی تھیں، جبکہ چیتیاں اپنی موج میں دوڑتی پھر رہی تھیں، کیونکہ انہیں دندناتے پھنپھناتے بھیڑیوں سے کوئی خطرہ نہیں تھا۔

یہ کوئی نیا یا آج کا مسئلہ نہیں۔ لڑکیاں تاڑنے اور انہیں تنگ کرنے کا یہ سلسلہ تو سالہاسال سے چلتا آ رہا ہے۔ لیکن اس کا مطلب یہ بھی تو نہیں کہ یونہی چلتا رہے۔ انسانی روپ میں چھپے بھیڑیوں کی وجہ سے اکثر خواتین کو سیاحتی مقامات پر مشکلات کا سامنا ہوتا ہے۔ بہت سے مرد اپنی بہن بیٹیوں کو اسی وجہ سے کہیں لے کر نہیں جاتے اور جو جاتے ہیں وہ حالات کے آگے ہتھیار ڈالتے ہوئے اپنی ”کچھ آنکھیں“ بند کر لیتے ہیں۔ آنکھیں بند نہ کریں تو کیا کریں؟ اگر کچھ اور کریں گے تو ظاہر ہے کہ ہاتھاپائی ہو گی۔ ویسے پہلے تو بھیڑیئے آنکھوں سے ہی بیغیرتی کرتے تھے لیکن اب جو کیمرے کی آنکھ نے اُدھم مچا رکھا ہے، اس نے ان خواتین کی جان سولی پر لٹکا دی ہے، جو اپنی تصویر پبلک فورم پر نہیں لانا چاہتیں۔ قلعہ روہتاس کی سیاحت کے دوران کئی بھیڑیوں کی شکاری نظریں دیکھیں۔ اور انہوں نے تو حد ہی کر دی تھی جو مووی بناتے ہوئے سرِعام خواتین کو ”ٹارگٹ“ کر رہے تھے اور انہیں پوچھنے والا بھی کوئی نہیں تھا۔ ایسے ہی کچھ چھچھورے راہ چلتی خواتین کے پاس پہنچ کر زور سے گاڑی کی بریک لگاتے اور خواتین کو ڈرانے کی کوشش کرتے۔ اب ”ہرنی“ بیچاری ڈرے نہ تو اور کیا کریں۔ اب ہر کوئی ”چیتی“ تو نہیں ہوتی۔

خیر ہم قلعے میں پہنچے تو سب سے پہلے باؤلی یعنی ”سیڑھیوں والے کنویں“ کی طرف گئے۔ اب ہماری حالت یہ تھی کہ خرم کے سوا باقی تینوں کے ہاتھوں میں کیمرے اور کیمرہ بیگ کمر پر کسے ہوئے۔ بلکہ میں نے تو فرخ کا تحفہ کردہ ہیٹ بھی پہن رکھا تھا۔ گویا ہم مکمل سازوسامان سے لیس ”سیاح صورت“ ہوئے پڑے تھے۔ اگر آپ کا دل کرتا ہے تو بے شک یہ کہہ کر خوش ہو لیں کہ ”ہمیں فوٹوگرافی نہیں آتی“ لیکن یہ بھی سچ ہے کہ اس وقت ہماری حالت کسی فوٹوگرافر سے کم نہیں تھی۔ شاید اسی حلیے سے چند نوجوانوں نے ہمیں تیس مار خاں فوٹوگرافر سمجھ کر رانا صاحب سے اپنی تصویر بنوانے اور بعد میں واٹس ایپ کرنے کی فرمائش کر دی۔ رانا صاحب نے ان کی فرمائش پوری بھی کر دی۔ باؤلی اور اس کے اردگرد تھوڑی بہت فوٹوگرافی کے بعد ہم قریبی فصیل پر چڑھ دوڑے۔ جب فصیل پر کھڑے راناصاحب اپنی ”منہ فوٹو“ بنوانے کے لئے میرے کیمرے کے چوکھٹے میں تھے اور میں شٹر دبانے ہی والا تھا کہ ایک خوبروجوان نے پاس آ کر سوالیہ انداز میں کہا ”رانا عثمان“؟ یہ بھی رانا صاحب کا ہی کمال ہے کہ وہ پریشانی اور خوشی کے ملے جلے تاثرات ایسے ظاہر کرتے ہیں کہ بندہ سمجھ ہی نہیں پاتا کہ یہ زیادہ حیران و پریشان ہیں یا خوش۔ خیر اس جوان نے خود ہی کہا ”وی آر جسٹ فیس بک فرینڈز“۔ منظرباز کے ہمنام یعنی محمد بلال نامی اس جوان سے ہلکی پھلکی گپ شپ ہوئی، ”سیلفی شریف“ بنائی اور اپنی اپنی راہوں کو ہو لئے۔

فصیل پر قلعے کا طواف، فوٹوگرافی اور گپ شپ کرتے کرتے میوزیم میں پہنچے۔ میوزیم بس برائے نام ہی ہے اور ایک چھوٹے سے ہال میں بنا ہوا ہے۔ ہال کے ایک دروازے سے داخل ہوتے ہیں اور درمیان میں پڑی ہوئی چند چیزوں کو دیکھتے ہوئے یوٹرن لے کر دوسرے دروازے سے نکل جاتے ہیں۔ گویا یہاں تو سبھی یوٹرن لیتے ہیں۔ خیر میں اپنے دھیان آگے آگے تھا، جبکہ فرخ اور رانا صاحب پیچھے مختلف تاریخی چیزوں کا جائزہ لے رہے تھے۔ جہاں میں تھا وہیں قریب ہی ایک دوشیزہ نے دوسری کو آواز دی اور سرگوشی کے انداز میں اسے کچھ کہنے لگی۔ بس یہی الفاظ میرے کانوں سے ٹکرائے ”وہ دیکھو رانا عثمان بھی آیا ہوا ہے، ارے وہی! رتی گلی جھیل۔۔۔“ اتنا سننے کے بعد مزید سننے کی ضرورت نہیں تھی اور میں فوراً رانا صاحب کو ”آج کی سلیبریٹی“ کا خطاب دینے کے لئے ان کی طرف مڑا۔ گوکہ اوپر اوپر سے راناصاحب کو میری بات پر یقین نہیں آ رہا تھا، لیکن اندر اٹھا خوشی کا طوفان ان کے چہرے سے واضح ہو رہا تھا۔ اسی جوش میں انہوں نے ٹرائی پاڈ پر کیمرہ لگایا اور ایک بلند مقام پر کھڑے ہو کر مختلف زاویوں سے رانی محل اور حویلی مان سنگھ کی تصویریں بنانے لگے۔

میوزیم کے بالکل ساتھ قلعے کا ”سہیل دروازہ“ ہے۔ اسی سے گزر کر ایک سڑک ٹلہ جوگیاں اور کئی ایک دیہات کو جاتی ہے۔ میں اور فرخ اسی دروازے کی فوٹوگرافی کر رہے تھے کہ فرخ نے مجھے آواز دی۔ اِدھر آؤ بڑا زبردست نظارہ ہے۔ کیا دیکھتے ہیں کہ رانا صاحب ایک طرف نہایت شریف بنے کھڑے ہیں جبکہ ان کا کیمرہ غائب ہے۔ ابھی یہی دیکھا تھا کہ چار پانچ میٹر کی دوری پر رانا صاحب کا کیمرہ بمعہ ٹرائی پاڈ نظر آ گیا۔ ”جس سے نہیں“ بلکہ جس کے ساتھ کھڑی ہو کر چند لڑکیاں باری باری اپنی تصاویر بنا رہی تھیں۔ میں نے فرخ کو کہا ”توں وی کڈ اوئے ٹرائی پاڈ۔“۔۔۔ ویسے ایک دفعہ تو دل کیا، لڑکیوں کو جا کر سمجھاؤں کہ ”ایسے انداز میں کیمرے کے ساتھ کھڑے ہو کر تصویر نہ بنواؤ، اس طرح تو آپ فوٹوگرافر کی بجائے رؤیت ہلال کمیٹی والی لگ رہی ہیں۔ ویسے کہتی ہیں تو میں اپنے کیمرے سے آپ کی زبردست انداز میں تصویریں بنا دیتا ہوں اور بعد میں واٹس ایپ کر دوں گا اور واٹس ایپ کرنے کے بعد ڈیلیٹ بالکل نہیں کروں گا۔“ خیر ایسا کچھ کہنے والے ہم کہاں۔ ویسے جب لڑکیاں کیمرے کے ساتھ تصویریں بنا کر چلی گئیں تو تب ایک دل یہ بھی کیا تھا کہ رانا صاحب سے کہوں ”اب یہ کیمرہ مجھے دے دو ٹھاکر“۔

قلعے کی مغربی فصیل پر چڑھے تو کیا دیکھتے ہیں کہ نیچے ایک دروازے میں رنگ برنگے ملبوسات والی ماڈلز کا فوٹوشوٹ ہو رہا ہے۔ دل پر پتھر رکھ کر اس شوٹنگ کو نظرانداز کیا اور اپنی موج میں چلتے ایسی جگہ پہنچے کہ وہ قلعے کی جیل لگ رہی تھی۔ ہم سے رہا نہ گیا اور رانا صاحب کو جیل میں بند کر کے ان کا فوٹوشوٹ کیا۔ تصویریں بنانے کے بعد جب انہیں جیل سے باہر نکالا تو وہ خوش ہونے کی بجائے الٹا غصے میں کہنے لگے ”مجھے کیوں نکالا“۔ جیل کاٹ کر تو میں نے اچھا بھلا لیڈر بن جانا تھا۔ اپنی رہائی کا بدلہ لینے کے لئے وہ مجھے اور فرخ کو پھانسی گھاٹ پر لے گئے۔ وہاں بنی ہماری تصویر سے تو یہی لگے گا کہ ہم معافی مانگ اور آئندہ کے لئے توبہ کر رہے ہیں، حالانکہ ہم نے تو کانوں میں انگلیاں ٹھونسی ہوئی تھیں تاکہ ”مجھے کیوں نکالا، مجھے کیوں نکالا“ نہ سننا پڑے۔

بہرحال صلح صفائی ہو گئی اور ہم رانا صاحب کو مان دینے کے لئے حویلی مان سنگھ لے گئے۔ مان سنگھ تو نہ ملا البتہ راناصاحب نے بڑے پوز بنا بنا کر تصویریں بنوائی نہیں بلکہ بنائیں۔ شام ہونے والی تھی اور دل تھا کہ ٹلہ جوگیاں کے اُس پار غروب ہونے والے سورج کی فوٹوگرافی کی جائے، لیکن آسمان نے گھونگٹ اور بادلوں کا نقاب مسلسل اوڑھے رکھا۔ ایسی صورتحال میں غروب آفتاب کا خوبصورت پہاڑی منظر پکڑ میں نہیں آتا۔ لہٰذا ”پھر کبھی سہی“ کہتے ہوئے ”لوٹ کر بدھو گھر کو آئے“۔

نوٹ: آخری بات: معلومات:

جرنیلی سڑک(جی ٹی روڈ) بنانے والے فریدخان (شیر شاہ سوری) نے مغلوں کو کمک اور امداد دینے والے گھکڑوں کی سرکوبی کے لئے سولہویں صدی عیسوی میں قلعہ روہتاس تعمیر کرایا تھا۔ یہ قلعہ پوٹھوہار اور کوہستان نمک کے تقریباً سنگم پر ہے۔ قلعے کی ایک طرف نالہ”گھان“ اور دوسری طرف نالہ”کس“ ہے۔ اس کے علاوہ اردگرد گہری کھائیاں اور جنگلات ہیں۔ پرانے زمانے کے دوسرے قلعوں کی طرح چھوٹی اینٹ کی بجائے قلعہ روہتاس بڑے پتھروں سے تعمیر کیا گیا۔ کہا جاتا ہے کہ اس کی تعمیر میں تقریباً ساڑھے چار سال لگے، بیک وقت 3لاکھ مزدوروں نے حصہ لیا اور اس وقت کے سوا34لاکھ روپے خرچ ہوئے۔۔۔ آج بھی قلعے کے اندر ایک بستی آباد ہے، جس کو ”روہتاس گاؤں“ کہتے ہیں۔ قلعے کے بعض حصے مکمل طور پر ختم ہو چکے ہیں لیکن اب بھی قلعے کی باؤلی(سیڑھیوں والا کنواں)، پرشکوہ فصیل اور دروازے دیکھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔ ویسے باؤلی میں اترنے سے ایک منفرد تجربہ ہوتا ہے۔ ان کے علاوہ شاہی مسجد، حویلی مان سنگھ، رانی محل اور پھانسی گھاٹ وغیرہ کے آثار اور کچھ عمارتیں موجود ہیں۔ قلعہ روہتاس اقوام متحدہ کے ادارے ”یونیسکو“ کے عالمی ثقافتی ورثے میں شامل ہو چکا ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

تبصرہ تحریر کریں۔

Your email address will not be published. Required fields are marked *