جون 11, 2015 - ایم بلال ایم
12 تبصر ے

انٹرنیٹ پر تخلیقی مواد کی حفاظت اور چوروں کے خلاف کاروائی

جب ہم ترقی یافتہ ممالک کی کسی کمپنی یا فرد کے لئے کوئی سافٹ ویئر یا ویب سائیٹ بناتے ہیں تو وہ ہمیں یہ بات بڑی اچھی طرح باور کراتے ہیں کہ ہمارے ملک میں بڑا سخت ڈیجیٹل کاپی رائیٹ ایکٹ (Digital Copyright Act) ہے۔ اس لئے ایسی کوئی تحریر، تصویر یا کوڈ وغیرہ استعمال نہ کرنا، جو کاپی رائیٹ کے زمرے میں آتا ہو۔ یہ نہ ہو کہ کہیں کوئی لمبا چوڑا قانونی نوٹس بھیج دے۔ ترقی یافتہ ممالک کا یہ حال ہے، جبکہ دوسری طرف ہمارے ملک میں کاپی رائٹ (حقِ نقل و اشاعت) کا قانون تو ہے مگر اس پر شاید ہی عمل ہوتا ہو۔ اوپر سے ”ڈیجیٹل کاپی رائیٹ ایکٹ“ نام کی کوئی چیز کہیں نظر نہیں آ رہی۔ تخلیقی مواد کی چوری زوروشور سے جاری ہے۔ کوئی چھوٹی سی تحریر تو دور، لوگوں نے کتابوں کی کتابیں غیرقانونی طور پر سکین کر کے انٹرنیٹ پر اپلوڈ کر رکھی ہیں۔ صرف یہی نہیں بلکہ ہمارے اکثر لوگ تو ”کاپی رائیٹ“ لفظ کا مطلب، قانون اور تو اور اس متعلق اخلاقیات تک نہیں جانتے۔ جب انہیں سمجھایا جائے تو الٹا چور کوتوال کو ڈانٹتا ہے۔

کاپی رائٹ، پیٹنٹ اور اس طرح کے دیگر قوانین تخلیق کار اور موجد وغیرہ کی محنت کو تحفظ فراہم کرنے کے لئے ہوتے ہیں، تاکہ کوئی اس کی محنت چوری نہ کر سکے اور جس کا جو حق ہے، وہ اسے ملے۔ تخلیق، دریافت اور ایجاد میں فرق ہے اور ان کے قوانین مختلف ہیں۔ جیسے تخلیق پر کاپی رائیٹ ہوتا ہے، جو کہ تخلیق ہونے کے ساتھ ہی خود بخود لاگو ہو جاتا ہے۔ دریافت اور ایجاد پر پیٹنٹ (Patent) وغیرہ ہوتا ہے، جو کہ باقاعدہ رجسٹر کروانا پڑتا ہے۔ فی الحال تخلیقی کاموں (Creative works) کو ہی سامنے رکھ کر بات کرتے ہیں۔ عام طور پر تخلیقی کاموں سے مراد ادب، مصوری، موسیقی یا ان جیسے دیگر فنکارانہ کام لیے جاتے ہیں۔ اب تو کمپیوٹر پروگرامز (کوڈز) اور مختلف چیزوں کے ڈیزائنز وغیرہ کا شمار بھی تخلیقی کاموں میں ہوتا ہے۔ یاد رہے کہ تحریر یا تصویر وغیرہ کی نقل ”تخلیق“ نہیں ہوتی، بلکہ خود سے بنائی گئی منفرد چیز تخلیق کہلاتی ہے۔ کسی تخلیق کے ”مرکزی خیال“ پر کوئی کاپی رائٹ نہیں ہوتا بلکہ اس خیال کے نتیجے میں وجود آنے والے تخلیقی مواد (تحریر یا تصویر وغیرہ) پر کاپی رائٹ لاگو ہوتا ہے۔

دنیا کے تقریباً تمام ممالک سمیت پاکستان نے بھی کاپی رائٹ سے متعلقہ ”برن کنونشن“ (Berne Convention) پر دستخط کیے ہوئے ہیں۔ برن کنونشن کے مطابق کسی بھی تخلیقی کام کے تخلیق ہوتے ہی اس پر خودبخود کاپی رائیٹ لاگو ہو جاتا ہے یعنی جملہ حقوق بحقِ تخلیق کار محفوظ ہو جاتے ہیں۔ اس کے لئے کسی ادارے میں اندراج (رجسٹریشن) وغیرہ کی ضرورت نہیں ہوتی۔ یہ علیحدہ بات ہے کہ تخلیق کار خود ہی اپنے کام کو کاپی رائٹ سے آزاد کر دے یا پھر کاپی رائٹ کی مدت ختم ہو جائے۔ یہ مدت تخلیق کار کے مرنے کے بعد بھی چند سال رہتی ہے اور یہ سال مختلف ممالک میں مختلف ہیں۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب ہر تخلیق پر کاپی رائٹ خودبخود لاگو ہو جاتا ہے تو پھر مختلف اداروں میں باقاعدہ اندراج کیوں کرایا جاتا ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ آپ کی تخلیق آپ کی ملکیت تو ہے، لیکن کل کو اگر کوئی کاپی رائٹ کی خلاف ورزی کرتا ہے اور آپ اسے عدالت کے کٹہرے میں لے جاتے ہیں۔ تب اگر اپنا کام رجسٹر کرایا ہو گا تو آپ کو اپنی ملکیت ثابت کرنے میں مشکل نہیں ہو گی۔ ورنہ یہ ثابت کرنا مشکل ہو جائے گا کہ آیا وہ کام آپ کا ہی تخلیق کردہ ہے یا نہیں۔ ویسے انٹرنیٹ نے یہ کام بھی آسان کردیا ہے۔ جب آپ اپنا کام انٹرنیٹ پر شائع کرتے ہیں تو وہ خودبخود وقت، تاریخ اور دیگر معلومات کے ساتھ ”انٹرنیٹ آرکائیوز“ میں شامل ہو جاتا ہے۔ یوں یہ ثابت کرنا مشکل نہیں رہتا کہ فلاں کام آپ کا ہے بھی یا نہیں۔

گو کہ چوروں کو تنبیہ کی جاتی ہے نہ کہ گزارش۔ لیکن پھر بھی چور صاحبان سے گزارش ہے کہ انسان کے پُتر بنو اور تخلیق کاروں کا مواد چوری نہ کرو۔ کسی کا تخلیقی مواد (تحریر یا تصویر وغیرہ) اس کی اجازت کے بغیر استعمال کرنا کاپی رائٹ کی خلاف ورزی بھی ہے اور اخلاقی جرم بھی ہے۔ البتہ جس مواد پر کاپی رائٹ تو لاگو ہو مگر تخلیق کار نے اپنی پالیسی واضح نہ کی ہو تو ایسے مواد پر کاپی رائٹ کی ”فیئر یوز پالیسی“ (Fair Use Policy) لاگو ہوتی ہے۔ فیئر یوز پالیسی کے مطابق تخلیقی مواد بغیر اجازت استعمال تو کیا جا سکتا ہے مگر مواد کے ساتھ واضح طور پر تخلیق کار کا نام بمعہ پروفائل کا لنک اور تخلیقی مواد کا وہ لنک بھی دینا ہوتا ہے جہاں وہ اصل میں شائع کیا گیا ہو۔ ویسے سوشل میڈیا پر تو اس کام کے لئے باقاعدہ شیئر (Share) کا بٹن ہوتا ہے۔ جس کے ذریعے سارے لوازمات پورے بھی ہو جاتے ہیں اور کسی کا حق بھی نہیں مارا جاتا۔

انٹرنیٹ پر مواد چوروں کی وجہ سے تخلیق کار اور خاص طور پر لکھاری بہت پریشان ہیں۔ ترقی یافتہ ممالک میں تو ایسے چوروں کو باقاعدہ عدالت کے ذریعے سزا تک دلوائی جا سکتی ہے، مگر ہمارے ہاں ”ہنوز دہلی دور است“۔ خیر جب قانون متحرک ہو گا، تب کی تب دیکھیں گے۔ فی الحال انٹرنیٹ پر موجود چوروں کا ”آن لائن محاسبہ“ بہت ضروری ہے۔ تخلیقی مواد چوری کرنے والوں کی بڑی آسانی سے نشاندہی ہو سکتی ہے اور پھر ان کی پروفائل یا ویب سائیٹ وغیرہ ہمیشہ کے لئے بند کروائی جا سکتی ہے۔ انٹرنیٹ پر مختلف سہولیات فراہم کرنے والی کمپنیوں کا تعلق چونکہ ترقی یافتہ ممالک سے ہے، اس لئے وہ کاپی رائیٹ کا خاص خیال رکھتی ہیں۔ جیسے ہی انہیں کاپی رائیٹ کی خلاف ورزی کے متعلق اطلاع یا شکایت ملتی ہے تو وہ امریکہ کے ڈیجیٹل ملینیم کاپی رائیٹ ایکٹ (DMCA) کے تحت فوراً متحرک ہو جاتی ہیں۔ اگر شکایت جائز ہو تو کمپنیاں نہ صرف چوری شدہ مواد کو ختم کرتی ہیں بلکہ پہلے چور کو تنبیہ اور اگر وہ چوری سے باز نہ آئے تو اسے مستقل بین کر دیتی ہیں۔ برسوں سے گوگل، فیس بک یا دیگر سوشل میڈیا استعمال کرنے والے جانتے ہی ہیں کہ اگر ان کا اکاؤنٹ، ای میل اور فون نمبر وغیرہ مستقل بین ہو جائیں تو یہ کتنا نقصان دہ ہوتا ہے۔ اس لئے کسی کا مواد چوری کرنا تو دور، اس چوری کے قریب بھی نہ بھٹکیں۔ کسی کمپنی یا ادارے کو مواد کی چوری کی اطلاع کیسے کی جاتی ہے، اس کا طریقہ بھی دیکھتے ہیں لیکن اس سے پہلے

چند اہم باتیں

یہ بات خاص طور پر ذہن نشین کر لیں کہ انٹرنیٹ کی دنیا میں گوگل اور دیگر سرچ انجنز کسی مواد کو اسی ویب سائیٹ کی ملکیت مانتے ہیں، جس پر وہ سب سے پہلے شائع ہو۔ اس لئے اگر آپ کی اپنی ویب سائیٹ یا بلاگ ہے تو پھر اپنا تخلیقی مواد سب سے پہلے اسی پر شائع کریں اور اس کے بعد اِدھر اُدھر جہاں مرضی شیئر کریں۔
جب آپ سوشل میڈیا پر اپنا تخلیقی مواد شیئر کرتے ہیں تو اکثر سوشل میڈیا ویب سائیٹس کی ”ٹرمز اینڈ کنڈیشنز“ کے مطابق وہ بھی آپ کے مواد کی ملکیت میں حصہ دار بن جاتی ہیں۔ یعنی وہ ویب سائیٹس جب اور جہاں چاہے آپ کا مواد استعمال کر سکتی ہے۔
اگر آپ کی ویب سائیٹ یا بلاگ ہے تو اس پر ”جملہ حقوق“ وغیرہ ضرور لکھیں تاکہ صارفین کو پتہ چل جائے کہ آپ کا مواد کاپی رائٹ کے زمرے میں آتا ہے اور اگر ہو سکے تو اس متعلق پالیسی بھی واضح کریں۔ جیسا کہ میں نے بلاگ کے آخر پر ”جملہ حقوق“ لکھ کر یہ نشاندہی کی ہوئی ہے کہ اس بلاگ کا مواد کاپی رائیٹ کے زمرے میں آتا ہے اور ساتھ میں اس متعلق اپنی پالیسی بھی واضح کی ہوئی ہے۔
اپنی تیار کردہ تصویر وغیرہ میں اپنا واٹر مارک (نام یا ٹریڈ مارک وغیرہ) ضرور لگائیں۔ ورنہ صارفین کو کیسے پتہ چلے گا کہ آپ کی تصویر پر کاپی رائیٹ ہے یا نہیں؟ ویسے جس تصویر کے اوپر نام یا کاپی رائٹ وغیرہ کا واٹر مارک نہ لگا ہو، وہ کاپی رائٹ سے آزاد مانی جاتی ہے۔
کاپی سکیپ اور اس جیسی دیگر ویب سائیٹس یا پھر گوگل میں ہی کبھی کبھار اپنی تحاریر کے دو تین فقرے تلاش کر کے دیکھتے رہیں کہ کہیں کوئی آپ کی تحریر چوری تو نہیں ہوئی۔
اگر آپ کے کسی دوست یا جاننے والے کا تخلیقی مواد کوئی چوری کر رہا ہے تو تخلیق کار کو ضرور اطلاع کریں۔
ایسے ہی راہ چلتے مواد چوری کی شکایت درج نہ کراتے پھریں۔ بلکہ پہلے اچھی طرح تصدیق کریں کہ چوری ہونے والا واقعی ”تخلیقی مواد“ اور آپ کا اپنا ہے بھی یا نہیں۔ کیونکہ غلط شکایت کرنا الٹا آپ کو بھی نقصان دے سکتا ہے۔ ویسے کوئی بھی تحریر یا تصویر جو خود لکھی یا بنائی جائے اور وہ کسی کی نقل بھی نہ ہو تو ایسی تحریر یا تصویر تخلیق کہلاتی ہے اوراس پر کاپی رائیٹ خودبخود لاگو ہو جاتا ہے۔
اگر یقین ہو کہ واقعی آپ کا تخلیقی مواد چوری ہوا ہے تو پھر اس معاملے میں ذرا بھی ہچکچاہٹ نہ دیکھائیں اور فوراً سے پہلے چور سے رابطہ کر کے اسے سمجھائیں۔ اگر چور باز نہ آئے یا ہٹ دھرمی دیکھائے تو پھر اس کا بہتر علاج یہی ہے کہ متعلقہ کمپنی یا ادارے کو اطلاع کریں اور وہ خود ہی چور کا اچھا بھلا علاج کر لیں گے۔
خیال رہے کہ غلط شکایت یا کسی بھی طرح کسی بھی نقصان کی صورت میں راقم الحروف ذمہ دار نہیں ہو گا۔

کاپی رائٹ کی خلاف ورزی پر کسی کمپنی یا ادارے کو اطلاع کیسے کرنی ہے، اس کی تفصیل درج ذیل ہے۔

گوگل کو مواد چوری کی شکایت کرنے کا طریقہ

اگر آپ کی ویب سائیٹ/بلاگ کا مواد کسی نے چوری کیا ہے اور چور گوگل سرچ میں بھی نظر آ رہا ہے تو یہ نہایت سنجیدہ معاملہ ہے۔ کیونکہ یوں آپ کے قیمتی مواد کی وجہ سے آپ کی ویب سائیٹ پر آنے والی ٹریفک کسی دوسرے کی ویب سائیٹ پر جا رہی ہے۔ اس کے حل کے لئے اول تو تھوڑی بہت ایس ای او (SEO) اور اپنی ویب سائیٹ کے لئے گوگل ویب ماسٹر ٹول استعمال کریں۔ دوسرا ویب ماسٹر ٹول کے کاپی رائیٹ شکایتی فارم کو پُر کر کے بھیجیں۔ اگر گوگل کی نظر میں شکایت جائز ہوئی تو وہ چور کو اپنے سرچ انجن سے باہر نکال پھینکے گا۔ بھیجی گئی شکایت پر کیا عمل ہوا ہے، اس کی تفصیل کاپی رائیٹ ریمول ڈیش بورڈ (Copyright Removal Dashboard) پر دیکھ سکتے ہیں۔

فیس بک کو مواد چوری کی شکایت کرنے کا طریقہ

اگر کوئی آپ کی ویب سائیٹ/بلاگ کا تخلیقی مواد یا سوشل میڈیا کے ہی تخلیقی سٹیٹس یا تصویر کو ”شیئر بٹن“ سے شیئر کرنے کی بجائے ویسے ہی کاپی کر کے اپنی فیس بک پروفائل یا پیج پر لگاتا ہے اور وہ آپ کی واضح کردہ پالیسی یا ”فیئر یوز پالیسی“ کے مطابق نہیں، یعنی مواد کے ساتھ آپ کا مکمل حوالہ نہیں دیتا تو کاپی رائیٹ کی اس خلاف ورزی پر فیس بک کا شکایتی فارم پُر کر کے بھیجیں۔ اس فارم پر پہلے I found content which I believe violates my copyright کو منتخب کریں اور پھر Please click here to continue with a copyright report کو منتخب کرنے کے بعد ظاہر ہونے والے فارم کو پُر کر کے بھیج دیں۔

بلاگر/بلاگسپاٹ کو مواد چوری کی شکایت کرنے کا طریقہ

اگر آپ کا تخلیقی مواد کسی نے چوری کر کے اپنے بلاگسپاٹ کے بلاگ پر لگایا ہے تو اس کاپی رائٹ کی خلاف ورزی پر بلاگسپاٹ کا شکایتی فارم پُر کر کے بھیجیں۔

ورڈپریس کو مواد چوری کی شکایت کرنے کا طریقہ

اگر آپ کا تخلیقی مواد کسی نے چوری کر کے اپنے ورڈپریس ڈاٹ کام کے بلاگ پر لگایا ہے تو کاپی رائیٹ کی اس خلاف ورزی پر ورڈپریس کا شکایتی فارم پُر کر کے بھیجیں۔

ڈومین نیم اور ہوسٹنگ وغیرہ کو شکایت بھیجنے کا طریقہ

اگر کسی نے آپ کا تخلیقی مواد چوری کر کے اپنی ذاتی ویب سائیٹ پر رکھا ہوا ہے تو پھر جس نے اسے ڈومین نیم اور ہوسٹنگ فراہم کی ہوتی ہے، اس کمپنی کو کاپی رائیٹ کی خلاف ورزی کی شکایت کی جاتی ہے۔ ڈومین ٹولز یا Whois کی معلومات فراہم کرنے والی سروسز کے ذریعے کسی ویب سائیٹ کے بارے میں یہ پتہ لگایا جا سکتا ہے کہ اسے ڈومین نیم، ہوسٹنگ اور ویب کی دیگر سہولیات کس نے مہیا کی ہیں۔ ویب کی سہولیات فراہم کرنے والی تمام بڑی اور اچھی کمپنیوں نے DMCA Form رکھے ہوتے ہیں۔ جن کے ذریعے کاپی رائیٹ کی خلاف ورزی کی شکایت بھیجی جا سکتی ہے۔ کسی کمپنی کا ایسا فارم تلاش کرنے کے لئے گوگل کافی کارآمد ثابت ہوتا ہے۔ اگر کسی کمپنی نے فارم کی سہولت نہ دی ہو تو پھر آپ ای میل کے ذریعے باقاعدہ نوٹس بھیج سکتے ہیں۔ DMCA Notification کے لئے گوگل کریں تو بہت سارے خاکے مل جائیں گے۔ جنہیں پُر کر کے آپ کسی کمپنی کو ای میل کے ذریعے نوٹس بھیج سکتے ہیں۔ شکایت جائز ہونے کی صورت میں ڈومین نیم معطل اور ویب سائیٹ بند بھی ہو سکتی ہے۔

نوٹ:- شکایتی فارم پُر کرنے میں یا کاپی رائٹ کے متعلق کوئی دشواری ہو تو پوچھ سکتے ہیں۔ جہاں تک میرے علم میں ہوا، وہاں تک حتی المقدور تعاون کی کوشش کروں گا۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست 12 تبصرے برائے تحریر ”انٹرنیٹ پر تخلیقی مواد کی حفاظت اور چوروں کے خلاف کاروائی

    1. ویسے اصل مزا تو تب ہی آئے گا، جب کوئی یہی تحریر چوری کرے۔ پھر محاورہ کچھ یوں بنے گا ”چوروں کو پڑ گئے مور، موروں کو پڑ گئے اور“ 😀

  1. میری اکثر تحریریں دوسرے لوگ ایسے ہی اِدھر اُدھر شائع کرتے رہتے ہیں میں ابھی تک کبھی بھی مناسب طریقے سے شکایت اس لئے نہیں کرسکا کہ میں دوسرے کام کروں تحاریر لکھوں ان کو شائع کروں، پھر نگرانی بھی کروں بعد میں رپورٹ کرنا بھی سیکھوں پھر ‘چور’ کو قابو کروں۔ کیا کروں اور کیا نہ کروں

  2. واہ بہت خوب معلوماتی مضمون لکھا ۔
    میرے ساتھ بھی ایسا ہو چکا ہے ایک فیس بک کے موڈ نے کیا تو میں نے ان سے ان بکس میں بہت بحث کی اوپن میسج کردیا پھر جب جاکر میرا نام لکھا انہوں نے خیر اس تحریر کا شکریہ بھائی

  3. بہت خوب اور معلوماتی مضمون لکھا ہے۔ اب تک جن جن کو پکڑا ہے تو درخواست کرکے صرف لنک شامل کروایا ہے، شکر ہے آپ کے بقول کچھ تو بندے دے پُتر تھے۔

  4. السلام علیکم۔
    انٹرنیٹ پر تخلیقی مواد کی حفاظت اور چوروں کے خلاف کاروائی کے بارے میں تفصیلی آگاہی ہمارے ساتھ شئیر کرنے کا بہت شکریہ۔
    یہ جان کر اچھا لگا
    ویسے جس تصویر کے اوپر نام یا کاپی رائٹ وغیرہ کا واٹر مارک نہ لگا ہو، وہ کاپی رائٹ سے آزاد مانی جاتی ہے۔
    اب جہاں تک تحریر کی بات ہے تو بعض‌مرتبہ ہم کسی عنوان پر کوئی مضمون لکھتے ہیں تو مختلف کتب کا سہارا لیتے ہیں اور پھر ایک مضمون تحریر کر لیتے ہیں ۔( یعنی کچھ باتیں ہم نے ایک کتاب میں سے لیں اور کچھ دوسری کتب میں سے )
    تو
    کیا یہ بھی کاپی رائٹ کے زمرے میں آئے گا۔۔۔۔۔ لکھنے والا یہ کہے گا کہ یہ بات تو میں نے اپنی فلاں کتاب میں۔۔یا۔۔۔اخباری کالم میں لکھی تھی تم نے بھی لکھ دی اپنے مضمون میں،
    آپ کی ریپلائی کا انتظار رہے گا

  5. بہت عمدہ مضمون ہے ۔
    اردو میں تو ایسی چوری عام ہے ، ابھی حال ہی میں ایک اخبار کے مدیر صاحب نے میری کتاب سے ایک پیرا گراف پورا چوری کیا من وعن ، لفظ بہ لفظ اور حوالہ بھی نہیں دیا ، بقیہ خیال بھی میرا ہی تھا میں نے ان کو میل کیا لیکن تا ہنوز کوئی جواب نہیں آیا ہے ۔ یہ ہے اخلاقیات ، ایسے چور اور سرقہ بازوں کی بات میں کتنا وزن ہوتا ہوگا آپ اندازہ لگا سکتے ہیں ۔

Leave a Reply to محمد علم اللہ جواب منسوخ کریں۔

Your email address will not be published. Required fields are marked *