اگست 12, 2013 - ایم بلال ایم
17 تبصر ے

اردو کے نام پر یاروں کو روتی پھتو

پنجابی کی ایک کہاوت ہے ”پھتو روندی یاراں نوں، لے لے ناں بھراواں دے“۔ اس کا لفظی اردو ترجمہ کچھ یوں بنے گا ”پھتو روتی یاروں کو، لے لے نام بھائیوں کے“۔ اس کی آسان مگر مختصر تشریح کچھ یوں ہے کہ پھتو نامی عورت جب اپنے یاروں کی یاد میں روتی ہے تو ظاہری طور پر اپنے بھائیوں کا نام لے دیتی ہے تاکہ سب کو یہی لگے کہ پھتو اپنے بھائیوں کی یاد میں رو رہی ہے اور کسی کو شک نہ ہو کہ اندر کھاتے یہ اپنے یاروں کو رو رہی ہے۔

ہمارے ہاں ہر شعبے میں پھتو جیسے لوگ موجود ہیں۔ ترقی اور زبان کے نام پر لوگوں کو بہکانے والوں کو ہی لے لیں۔ رونا انہوں نے انگریزی کا ڈالنا ہوتا ہے لیکن بہانے بہانے سے نام علاقائی زبانوں یا اردو کے رسم الخط کا لیتے ہیں۔ گو کہ احساس کمتری کے مارے بہت سے لوگ اردو کو ایک حساب سے دیس نکالا دے چکے ہیں اور اپنی ٹوٹی پھوٹی انگریزی پر فخر کرتے ہیں۔ لیکن اتنا سب ہونے کے باوجود ابھی تک اردو کی آئینی حیثیت برقرار ہے اور اردو سے محبت رکھنے والے ایسے بے شمار لوگ موجود ہیں، جنہیں زبان کے معاملے میں کوئی احساس کمتری نہیں اور وہ اپنا سر اٹھا کر قومی زبان اردو لکھتے اور بولتے ہیں۔ خیر پھتو جیسے لوگ براہ راست یہ تو نہیں کہہ سکتے کہ اردو کی آئینی حیثیت و قومی زبان کا درجہ ختم کر دو اور یہ مقام انگریزی کو دے دو کیونکہ یہ جانتے ہیں کہ ایسا کہنے پر محبانِ اردو اور قومی غیرت سے مالا مال باشعور لوگ ان کے بخیے ادھیڑ کر رکھ دیں گے۔ اس لئے یہ بہانے بہانے سے گھوما پھرا کر ایسی تجاویز دیتے ہیں جو دیکھنے سننے میں تو ایسی لگتی ہیں جیسے ان پر عمل کر کے ملک و زبان ترقی کریں گے لیکن اندرکھاتے یہی تجاویز ملک و زبان کا بیڑا غرق کرنے کے لئے کافی ہوتی ہیں۔

کہیں سے ایک پھتو اٹھی، جو روتی ”یارِ من ترکی“ کو ہے لیکن نام یہ لیتی ہے کہ اردو کا رسم الخط رومن یا لاطینی کر دو تو اس سے شرح خواندگی میں اضافہ ہو جائے گا اور ملک ترقی کرے گا۔ اوپر سے اس پھتو نے ایسی بے ترتیب و بھونڈی منطق پیش کی کہ مجھے اسی وقت یقین ہو گیا ہے کہ ہماری جو حالت آج ہے وہ اسی لئے ہے کہ ہمارے سر پر پھتو جیسے لوگ چڑھ بیٹھے ہیں۔ پھتو کی باتیں پڑھ کر مجھے تو یہی لگا کہ اسے زبان، خواندگی، ترقی اور اردو کمپیوٹنگ کی تھوڑی سی بھی سمجھ نہیں۔ پھتو کی انوکھی منطق پڑھ کر مجھے ہنسی آئی اور سوچا کہ میرے جیسا تھوڑا سا اردو کمپیوٹنگ کا علم رکھنے والا بھی اردو کا رسم الخط رومن کروانے کے حق میں پھتو سے زیادہ مضبوط دلائل دے سکتا ہے لیکن حقیقت تو یہ ہے کہ رسم الخط تبدیل کرنے سے فائدے نہایت کم اور نقصان بہت بڑے ہوں گے۔ آپ کو بھی بتاتے چلیں کہ یہ پھتو کیا کہتی ہے۔

ہاں تو سب سے پہلے پھتو نے بھی وہی کام کیا جو آج کل نام نہاد لبرل کرتے ہیں یعنی اپنے آقاؤں اور مذہب بیزار لوگوں کی توجہ حاصل کرنے کے لئے مذہب کو اس انداز میں درمیان میں لے آتے ہیں کہ جیسے مذہب اس چیز کی مخالفت کر رہا ہے۔ کالم کے شروع میں ہی پھتو کہتی کہ میری رسم الخط کی تبدیلی والی بات کی مخالفت زیادہ تر ”نام نہاد مذہبی“ حلقے کریں گے۔ یہاں پھتو پر واضح کر دوں کہ کوئی ”نام نہاد“ ہو یا کچھ بھی، اردو کسی مذہب کی زبان نہیں۔ اردو پاکستان کی قومی زبان ہے، اردو عوام کی زبان ہے، اردو ہر اس کی زبان ہے جو اردو سے پیار کرتا ہے۔ اس لئے بات کرنی ہے تو دلائل سے کرو۔ یوں ”نام نہاد مذہبی“ جیسی الفاظی کرنے سے کام نہیں چلے گا۔

پھتو کہتی ہے کہ ترکی نے لاطینی رسم الخط اپنایا تو اس کی شرح خواندگی سو فیصد تک پہنچ گئی اور اس شرح خواندگی کی وجہ سے ترکی نے ترقی کی۔ واہ جی واہ۔ کیا عجیب منطق ہے۔ سب سے پہلے تو پھتو کو بتاتے چلیں کہ ترکی میں شرحِ خواندگی سوفیصد نہیں بلکہ ترکی کے سرکاری ادارے ”ترک سٹیٹ“ (Turkish Statistical Institute) کے مطابق 2012ء میں ترکی کی شرحِ خواندگی 95.3 فیصد تھی۔ ویسے تو یہ بھی تھوڑی نہیں لیکن جب بات اعداد کی جادوگری کی ہو تو اعداد درست ہونے چاہئیں۔ دوسرا پھتو نے ایک ترکی کی مثال دی ہے جبکہ میں ایسے بیسیوں ممالک کی مثال دے سکتا ہوں جنہوں نے اپنی زبان تبدیل کی نہ اپنا رسم الخط اور نہ ہی ان کی شرح خواندگی سوفیصد ہے مگر انہوں نے ترکی کی نسبت کئی گنا زیادہ ترقی کی ہے۔ ترکی نے غالباً 1928ء میں اپنا رسم الخط تبدیل کیا تھا۔ اگر رسم الخط تبدیل کرنے سے ترقی ہوتی تو ایک صدی ہونے کو ہے مگر ترکی آج بھی کئی ایسے ممالک سے بہت پیچھے ہے جو اسی دور میں صفر سے شروع ہوئے، نہ اپنا رسم الخط تبدیل کیا اور نہ ہی اپنی زبان تبدیل کی مگر آج بہت ترقی یافتہ ہیں۔ ویسے ترکی نے رسم الخط تبدیل کر کے جو جو کچھ کھویا ہے اس کا ذکر پھتو گول کر گئی۔ ہم امید کرتے ہیں کہ اس پر جلد ہی پھتو کچھ نہ کچھ ضرور لکھے گی۔ خیر رسم الخط کی رومن میں تبدیلی کو ترقی سے جوڑنا تو سرے سے ہی بھونڈی تجویز ہے۔ رہی بات شرح خواندگی کی تو اگر شرحِ خواندگی سے ملک ترقی کرتے تو آج سری لنکا جہاں شرح خواندگی 91.2 فیصد ہے اور اس جیسے دیگر ممالک کا شمار ترقی یافتہ میں ہوتا جبکہ ایسا نہیں۔ میں ہرگز یہ نہیں کہہ رہا کہ شرحِ خواندگی بڑھانے پر کام نہ کیا جائے۔ کیا جائے اور ضرور کیا جائے۔ میں تو بس پھتو کی بھونڈی منطق کا جواب دے کر اسے سمجھا رہا ہوں کہ جس طرح تم کہہ رہی ہو ایسے نہیں ہوتا۔ رسم الخط لاطینی یا رومن کرنے سے نہ تو شرح خواندگی بڑھتی ہے اور نہ ہی شرح خواندگی بڑھنے سے ترقی ہوتی ہے۔

پھتو فرماتی ہے ”کمپیوٹر اور موبائل فون میں عربی رسم الخط کو استعمال کرنا بڑا مشکل کام ہے“۔ اب آپ ہی بتائیں اس جہالت کا کیا علاج ہے؟ میں تو صرف یہی عرض کروں گا کہ کمپیوٹر پر اردو یا عربی رسم الخط استعمال کرنا ذرا بھی مشکل نہیں۔ اگر کہیں کوئی کمی ہے تو اس کی وجہ بھی ہم اور ہماری سرکار ہے کیونکہ یہ اردو کو وہ مقام نہیں دے رہے جہاں پر پہنچ کر چھوٹی چھوٹی کمیاں خودبخود دور ہو جاتی ہیں۔ رہی بات رومن اردو استعمال کرنے کی تو میں صرف یہی کہوں گا کہ یہ زیادہ تر احساس کمتری یا کاہلی و سستی ہے۔ رومن اردو تو دور جو بندہ انگریزی ٹائیپنگ جانتا ہے وہ بھی ”فونیٹک کیبورڈ“ جو کہ پاک اردو انسٹالر میں ہے کی مدد سے چند منٹوں میں اردو ٹائیپنگ سیکھ سکتا ہے۔ آج کل کمپیوٹر اور انٹرنیٹ پر اردو لکھنا ”بچوں کا کھیل“ یعنی اردو لکھنا نہایت ہی آسان ہے۔ پتہ نہیں پھتو کہاں رہ رہی ہے جو اسے اس بارے میں معلوم نہیں۔ مزے کی بات تو یہ ہے کہ ایک ہی تحریر ”اردو“ اور رومن اردو میں لکھ کر موازنہ کیا جائے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ اردو میں کم ”کیز“ استعمال ہوتی ہے جبکہ رومن میں زیادہ ”کیز“ استعمال کرنی پڑتی ہیں۔ لمبی تحریر یا پروفیشنل ٹائیپنگ میں رومن اردو لکھی جائے تو بندہ اردو کی نسبت زیادہ تھکتا ہے۔ ویسے اگر پھتو کی مراد یہ ہو کہ اردو کیبورڈ اور فانٹ انسٹال کرنا پڑتا ہے تو پھر پھتو کے بھی کیا ہی کہنے۔ اگر رسم الخط رومن کر دیا جائے تو تب بھی کئی اشکال نئی تیار کرنی ہوں گی اور پھر بھی کیبورڈ اور فانٹ انسٹال کرنے ہی پڑیں گے۔

پھتو نے اپنی تحریر میں بھونڈی منطق تو پیش کی ہی ہے لیکن ساتھ ساتھ ایسی بے ربطگیاں پیدا کی ہیں کہ عام بندہ منطق سمجھنے سے قاصر ہو جاتا ہے۔ بات ترکی کے حوالے سے شروع ہوتی ہے تو کمپیوٹر پر اردو لکھنے تک چلی جاتی ہے۔ رسم الخط تبدیل کرتے کرتے ساتھ سافٹ ویئر مادری زبان میں تیار کرنے اور گھوسٹ سکولوں تک بات پہنچ جاتی ہے۔ خیر میں کئی دفعہ اس کی تحریر پڑھنے کے بعد جو سمجھ سکا ہوں وہ یہ ہے کہ اس نے ترکی کی مثال دیتے ہوئے کہا ہے کہ ہمیں بھی ان کی طرح اپنی زبان کا رسم الخط لاطینی یا رومن کر دینا چاہئے یعنی زبان کا بیڑا غرق کر دینا چاہئے۔ اس سے شرح خواندگی میں اضافہ ہو گا اور ملک ترقی کرے گا۔ جو لوگ انگریزی نہیں جانتے وہ کمپیوٹر پر اردو لکھ سکیں گے۔ سافٹ ویئر اردو میں بنائے جا سکیں گے وغیرہ وغیرہ۔۔۔

اس بات کی وضاحت تو پہلے ہی کر چکا ہوں کہ رسم الخط تبدیل کرنے سے نہ تو شرحِ خواندگی زیادہ ہوتی ہے اور نہ ہی شرحِ خواندگی زیادہ ہونے سے ترقی ہوتی ہے۔ مزید رسم الخط تبدیل کر بھی لیں تو تب اردو لکھنا موجودہ حالات سے مشکل ہو جائے گا۔ ویسے بھی دیکھا جائے تو یہ منطق سرے سے ہی عجیب ہے کہ جو لوگ انگریزی نہیں جانتے وہ بھی رسم الخط رومن (انگریزی) کرنے سے اردو لکھ سکیں گے۔ ذرا سوچیں! جب لوگ انگریزی جانتے ہی نہیں، تو پھر بھلا وہ رومن (انگریزی) رسم الخط میں اردو کیسے لکھ سکیں گے؟ ویسے حقیقت تو یہ ہے کہ موجودہ رسم الخط میں اردو لکھنا تو رومن سے بھی کہیں آسان ہے۔ دوسری طرف دیکھا جائے تو وہ جو آج رومن اردو لکھ رہے ہیں وہ تو ہیں ہی پڑھے لکھے۔ پہلے سے پڑھے لکھوں کو خواندہ کا سرٹیفیکیٹ دینے سے شرحِ خواندگی نہیں بڑھتی بلکہ نئے یعنی ان پڑھ کو پڑھانے سے بڑھے گی۔ اب ان پڑھ کو چاہے رومن اردو پڑھاؤ یا ”صحیح اردو“ بات تو ایک ہی ہے بلکہ ان پڑھ رومن کی نسبت اردو آسانی سے سیکھ جاتا ہے۔ ہمارے ملک کے ان پڑھوں کی اکثریت چاہے تھوڑی سہی لیکن اردو اور اس کے رسم الخط سے آگاہی ضرور رکھتی ہے اور جب انہیں اردو میں پڑھایا لکھایا جائے تو رومن کی نسبت اردو جلدی سمجھ جاتے ہیں۔ رہی بات سافٹ ویئر وغیرہ اردو میں بننے کی تو لگتا ہے پھتو کا اردو کمپیوٹنگ سے دور دور کا بھی کوئی تعلق نہیں۔ نہیں تو اسے کم از کم یہ تو معلوم ہوتا کہ جس طرح انگریزی میں سافٹ ویئر بنے ہیں اسی طرح اردو میں بھی بن سکتے ہیں بلکہ کئی ایک بن بھی چکے ہیں۔ مائیکروسافٹ آفس کا اردو پیک تک دستیاب ہے۔ اور تو اور پورے کا پورا لینکس آپریٹنگ سسٹم تک ”اردو“ میں دستیاب ہے۔

کوئی تو پھتو کو سمجھائے کہ رسم الخط کسی بھی زبان کا لباس ہوتا ہے۔ زبان کی سب سے پہلی پہچان ہی رسم الخط ہوتا ہے۔ رسم الخط تبدیل کرنے کا مطلب ہے کہ اس زبان سے متعلقہ سارے کا سارا علم جلا دیا جائے اور ایک نئی زبان کی بنیاد رکھ دی جائے۔ ”فقط“ ایک رسم الخط تبدیل کرنے سے اردو میں لکھی گئی ساری کی ساری کتابیں ”بیک جنبش قلم“ ردی میں پڑیں ہوں گی۔ کوئی تو اس پھتو کو سمجھائے کہ اتنا ادبی، مذہبی اور معاشرتی علم وغیرہ وغیرہ فقط ایک رسم الخط کی تبدیلی سے راکھ کا ڈھیر بن جائے گا۔ اگر وہ کہے کہ پرانے علم کو نئے رسم الخط میں ڈھال لیا جائے تو عرض یہ ہے کہ جدید تحقیق کے تراجم تو تم لوگ کروا نہیں سکتے اور اتنے علم کو نئے رسم الخط میں کیا خاک ڈھالو گے؟ ویسے بھی نئے رسم الخط میں ڈھالنے کی باتیں کرنا آسان ہیں لیکن یہ بہت بڑا پروجیکٹ ہے اور اس پر بہت زیادہ اخراجات آئیں گے۔ جو کہ کم از کم ہمارے ملک کے بس کی بات نہیں۔ اوپر سے پوری قوم کو نیا رسم الخط سیکھانا پڑے گا۔ یہاں ”نئے بچوں“ کو تعلیم دینا مشکل ہو رہا ہے اور پھتو ”پرانے بچوں“ کو نئے سرے سے پڑھانے چل پڑی ہے۔ ویسے بھی یہ تبدیلی دنوں میں نہیں بلکہ اس کے لئے سالہا سال لگ جائیں گے۔ پھتو نے تو یہ بات بڑی آسانی سے کر دی لیکن قوم کی اکثریت کا اسے ذرا بھی خیال نہ آیا کہ ایک پوری نسل کو نیا رسم الخط سیکھنا مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن کے قریب ہے، کیونکہ انہوں نے بچپن میں اردو کا اصل رسم الخط (نستعلیق) سیکھا اور ساری عمر یہی دیکھا، پڑھا اور لکھا ہے۔

اردو کا رسم الخط تبدیل کرنے سے بات نہیں بنے گی بلکہ بات تو تب بنے گی جب پھتو جیسے لوگوں کی احساس کمتری ختم ہو گی۔ جب اردو کو اس کا اصل مقام دیا جائے گا۔ جب اس وطن سے انگریزیا کی بیماری ختم ہو گی۔ پھر خود دیکھ لینا کہ کیسے دنوں میں شرح خواندگی بڑھتی ہے اور ملک کیسے ترقی کرتا ہے۔ بات تو تب بنے گی جب حکومت اور عوام اردو کی طرف توجہ دیں گے۔ پھتو ڈارلنگ! 😛 کمپیوٹر اور سافٹ ویئرز کی بات نہ کرو، بس ایک دفعہ ادھر نظر کرو تو تمہیں دیکھائیں کہ کس طرح اردو کے رضاکاروں نے دن رات ایک کر کے راہیں ہموار کر دی ہیں۔ بہت کچھ تیار ہے، اب تو صرف تم لوگوں کی طرف سے اردو کو اس کا مقام دینا باقی ہے۔ خدارا ہوش کے ناخن لو اور بھونڈی منطق پیش کر کے اردو کا بیڑہ غرق کرنے کی بجائے اگر کچھ کر سکتے ہو تو اردو کی حقیقی ترویج میں کردار ادا کرو تاکہ ملک کا کچھ بھلا ہو۔ یہ بہانے بہانے سے انگریزی ہم پر ”مکمل طور پر“ رائج کرنے کی کوشش نہ کرو۔ یہ پھتو کے کردار چھوڑ دو۔ اگر اردو کے لئے کچھ کر نہیں سکتے تو تمہاری بڑی مہربانی کہ اردو کو معاف ہی رکھو اور ہماری پیاری زبان اردو کی تباہی کی تجاویز اپنے پاس رکھو۔۔۔

نوٹ:- میں انگریزی یا کسی بھی زبان کے مخالف نہیں۔ جو جتنی زبانیں سیکھ سکتا ہے وہ ضرور سیکھے اور اچھی بھلی سیکھے مگر مزہ تو تب ہی آئے گا کہ جب اپنی قومی زبان پر بھی عبور ہو۔ بھلا یہ کیا بات ہوئی کہ اپنی زبان آتی نہیں اور چلے ہیں دوسروں کی زبانیں سیکھنے۔ ویسے بھی علم کے لئے دوسری زبانیں سیکھنا ٹھیک ہے لیکن احساس کمتری کی وجہ سے سیکھنا تو بندے کو کہیں کا نہیں رہنا دیتا اور اس بندے کا حال کچھ ایسا ہوتا ہے کہ ”دھوبی کا کتا، گھر کا نہ گھاٹ کا“۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست 17 تبصرے برائے تحریر ”اردو کے نام پر یاروں کو روتی پھتو

  1. بلال آپ نے زبردست دلائل کے ساتھ جواب دیا ہے۔

    پتھو کے کالم کا لنک بھی اگر دے دیا جاتا یہاں اور سب دوست یار پتھو کے کالم پرجاکے ان کے منطق اور اردوکمپیوٹنگ کی معلومات کی دھجیاں اڑا دیتے تو اور زیادہ بہتر ہوتا۔

    1. بلال جی، السلام علیکم،
      امید ہے اپ کو میری ای میل مِل گئی ہوگی، جس کا اپ شاید مصروفیت کی وجہ سے جواب نہیں دے سکے۔ بہت شکریہ، کہ اپ نے اپنے بلاگ میں یہ انتہائی اہم موضوع اٹھا کر بڑے مناسب دلائل کے ساتھ اپنے نکتہ نظر کا دفاع کیا ہے۔ جزاک اللہ!!
      اردو رسم الخط خصوصآ نستعلیق کے دیوانے ؔپ کے بے حد ممنون ہوں گے۔

      خورشید ازاد صاحب، اپ کے لیے ‘اردو محفل’ کے متعلقہ دو دھاگوں کے ربط حسب ذیل ہیں ان میں سے ایک اپ کے مطلوبہ کالم کے موضوع پر ہے:
      http://www.urduweb.org/mehfil/threads/%D8%B1%D9%88%D9%85%D9%86-%D8%A7%D8%B1%D8%AF%D9%88-%D8%A7%D8%B3%D8%AA%D8%B9%D9%85%D8%A7%D9%84-%DA%A9%DB%8C-%D8%AC%D8%A7%D8%A6%DB%92.66479/

      http://www.urduweb.org/mehfil/threads/%D8%A7%D8%B1%D8%AF%D9%88-%D9%84%DA%A9%DA%BE%D9%88-%D8%8C-%D8%A7%D8%B1%D8%AF%D9%88-%D8%A8%D9%88%D9%84%D9%88-%D8%8C-%D8%A7%D8%B1%D8%AF%D9%88-%D9%BE%DA%91%DA%BE%D9%88-%D8%AE%D9%88%D8%A7%D8%AC%DB%81-%D8%AD%D8%B3%D9%86-%D9%86%D8%B8%D8%A7%D9%85%DB%8C.66520/page-3#post-1366647

  2. چند باتیں “ماسی پھتو” کی یاداشت کے لیے
    ماسی یاد رکھ !

    اردو ہے جس کا نام ، ہمیں جانتے ہیں داغ
    سارے جہاں میں دھوم ہماری زباں کی ہے

    اردو لکھو ، اردو پڑھو ، اردو بولو ( خواجہ حسن نظامی )
    اپنی زبان کو فروغ دینا زندہ قوموں کا شیوہ ہے
    اگرچہ میں اس بات سے پریشان ہوں کہ ہماری قوم نعروں میں زندہ رہتی ہے لیکن اردو کے حوالے سے میرا یہی پیغام ہے کہ اردو بولو، اردو پڑھو، اردو لکھو۔ دوسری زبانیں بھی لکھو پڑھو لیکن بولو اپنی زبان ( ڈاکٹر خواجہ محمد زکریا )

  3. اسں ذلیل پھتو کا یہ بکواس آرٹکل میں نے بھی پڑھا تھا – پتا نہیں یہ کس کے پےرول پر ہے مگر آپ کی بات درست ہے کہ یہ ایک اور سازش ہے جس کے تحت یہ سب کہا جا رہا ہے –
    ایک اور قابل ذکر بات یہ ہے کہ دین کا زیادہ تر کام عربی زبان کے بعد اردو میں‌ہے –

  4. آپ کے جذباتی دلائل اپنی جگہ پر، مگر یہ حقیقت ہے کہ وہی زبانیں یا بولیاں ترقی کرتی ہیں جن کی کوئی جغرافیائی اساس ہوتی ہے۔ آپ اپنے آس پاس نظر دوڑائیں۔ کتنی ایسی زبانیں مل جائیں گی جن کا اپنے جغرافیائی خطے سے گہرا تعلق ہے۔

    افغانستان میں میڈیکل کی تعلیم پشتو زبان میں دی جاتی ہے۔ ہمارے پاس کئی افغان گریجویٹ آتے ہیں اور ان کے ہاتھوں میں ، میں میڈیکل کی تازہ ترین کتابوں کے پشتو تراجم دیکھتا ہوں۔ وہ لوگ انگریزی نہیں پڑھ سکتے، مگر وہی مضمون پشتو میں ان کو بآسانی سمجھ آ جاتا ہے۔

    ایران میں ، اسی طرح تمام اہم کتابوں کے فارسی تراجم موجود ہیں۔ وہ لوگ فارسی میں یہ کتابیں پڑھتے ہیں، اور گریجویشن کرجاتے ہیں۔
    بھارت میں سنسکرت کے احیا کی کوششیں اگرچہ کی جارہی ہیں مگر یہ ایک مشکل زبان ہے اور اگر آپ نے کبھی غور سے ماضجی قریب کی ہندی فلمیں دیکھی ہوں تو اندازہ ہو کہ اب وہ لوگ اردو ہی بولتے ہیں، مگر رسم الخط مختلف رکھا ہے کیونکہ وہ ان کی پہچان ہے۔

    جنوبی ہندوستان کی بعض رہاستوں میں شرح خواندگی 100 فیصد ہے جیسا کہ ریاست کیرالہ۔ وہاں علم نہیں کونسی زبان بولی جاتی ہے، تیلگو، یا تامل، مگر وہ لوگ کم ازکم دوسری ریاستوں کے مقابلے میں آگے ہیں۔
    جاپانی، کوریائی، چینی وغیرہ ۔۔ ان اقوام کی اب کیا مثال دوں۔ جاپانی جیسا مشکل رسم الخط کمپیوٹرز کے آپریٹنگ سےسٹم کی زبان بھی بن جاتا ہے۔ کیونکہ اس زبان کی ایک جغرافیائی پہچان ہے۔

    انگریزی زبان بھی ایک خطے کے ساتھ مخصوص ہے۔
    اب اردو کی طرف آتے ہیں، اردو جیسا کہ ہم جانتے ہیں، لشکریوں کی زبان ہے۔ یہ لوگوں کے اختلاط سے بنی اور جن لوگوں کے اختلاط سے بنی، ان کا تعلق ہندوستان سے نہیں تھا۔ یہ لشکری باہر سے آئے۔ اور ان میں اکثریت افغانیوں، اور ایرانیوں کی تھی۔ وہاں رایج رسم الخط جیسا بھی تھا، وہ اس زبان کے ساتھ مخصوص ہوگیا۔ اور یوں چل چلاؤ والی بات ہو گئی۔

    یہ باہر کے لوگ، لشکری، ہندوستان کے حکمران بھی تھے۔ ان کا مقامی لوگوں سے کوئی تعلق نہ تھا۔ ہمایوں کو شکست ہوئی ، بھاگ کے ایران جا پہنچا ۔ یہ لوگ ہندوستان سے باہر کی اپنی جڑوں پر فخر بھی کرتے تھے، جیسا کہ مرزا اسداللہ خان غالب سے مغل بچہ ہونے کے باعث کوئی قول منقول ہے۔ مجھے اب یاد نہیں مرزا نے کیا کہا تھا۔، غالبا کسی ڈومنی پہ مرنے کی بات کی تھی۔

    ہم میں سے اکثر ، اور ان میں میں بھی شامل ہوں، ہندوستان سے باہر کی اپنی جڑوں سے جڑنے پہ فخر کرتے ہیں۔ اب بھی کرتے ہیں اور کرتے رہیں گے۔ ہم نے اس مٹی کو اپنایا ہی نہیں۔ جب ہم نے اس مٹی کو اپنایا ہی نہیں تو پھر کسی مقامی زبان یا رسم الخط سے جڑنے کا فائدہِ؟؟

    قیام پاکستان کے بعد بہت عرصے بعد پاکستان میں فارسی پڑھائی جاتی رہی۔ پھر عربی لازمی ہوگئی اور اب انگریزی لازمی سمجھیں۔ وقت اور ترقی کا تقاضہ یہی ہے کہ ہم حالات کی نزاکت کو سمجھیں اور درست سمت میں ترقی کریں۔

    بُرا مت مانئے گا بلال، مگر صرف پاک اردو انسٹالر بنانے سے اردو کی ترقی نہیں ہونی۔ یہ ایسی زبان ہے جس کی کوئ جڑیں نہیں۔ اب سے کچھ دہائیاں قبل بولی جانے والی اردو اور آج کی بولی جانے والی اردو کا موازنہ کیجئے ۔ آپ کوخود اندازہ ہوجائے گا کہ اردو میں کتنی تبدیلیاں آچکی ہیں۔ یہ زبان جس طرح پیدا ہوئی تھی، اسی طرح جی رہی ہے۔ جب یہ پیدا ہوئی تھی،اس وقت جن زبانوں کا غلبہ تھا، وہی اس زبان کے قوااعد کی تشکیل میں مدد گار ثابت ہوئیں۔ آج انگریزی کا غلبہ ہے، اور آج اردو کی بول چال میں انگریزی کے اتنے الفاظ شامل ہو چکے ہیں کہ ان کے بغیر اردو بولنا ایک کٹھن کام سمجھا جاتا ہے۔

    ایک دو برس قبل کسی بحث کو سرسری طور پر دیکھنے کا موقع ملا، وہاں اردو وکی پیڈیا پر استعمال ہونے والی اصطلاحات پر بحث ہو رہی تھی۔ چونکہ مجھے کوئی خاص دلچسپی نہ تھی اس لئے غور سے نہ پڑھا۔ ایک فریق کے خیال میں ثقیل اصطلاحات کا استعمال مناسب نہ تھا۔ اور دوسرا فریق اس پر ضد کر رہا تھا۔ علم نہ تھا کہ آج وہ بحث کام آئے گی۔ ورنہ اس کا لنک بھی دے دیتا۔

    خلاصہ یہ کہ جذباتیت سے کام نہ لیں۔ حقائق کچھ اور کہہ رہے ہیں اور جس نے حقائق سے پردہ پوشی کی وہ اکثر نقصان میں رہا ہے۔

      1. اور اب 2013 میں یہ حالت ہے کہ پریپ اور نرسری میں صرف اسلامیات اور نورانی قاعدہ اردو زبان میں ہیں کیونکہ وہ مجبوری ہے۔ مجھے بالکل بھی اندازہ نہیں آپ اس مثال سے کیا ثابت کرنا چاہتے ہیں۔

        1. جناب ایم ایس سی تک ہر مضمون کی کتابیں اردو میں موجود ہیں اور یہ اردو سائنس بورڈ نے چھاپی ہیں۔ اردو سائنس بورڈ سے رابطہ کیجیے ، مل جائیں گی۔
          اگر کوئی کتاب آپ کے سامنے موجود نہیں تو اس کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ وہ کتاب کہیں بھی وجود نہیں رکھتی۔ ذاتی تجربے کو عمومیت کا رنگ generalize نہ دیجیے

    1. :twisted:جناب کیا خوب مذاق کیا ہے آپ نے انڈیا کے کسی بھی صوبے یا سٹیٹ میں 100 فی صد خواندگی نہیں چاہے اپ تصدیق کرے وہ جس سٹیٹ کی خواندگی کے قصے آپ ہمیں سنا رہے ہیں نا وہ سب سے نیچ لوگ ہے اپنی زبان کا بھی پتا نہیں اسے ملایالم زبان بولتے ہیں وہ لوگ
      آپ سعودی دوبئی یا کسی خلیجی ملک کا دورہ کریں تب آپ کو ان کی خواندگی کا اندازہ ہو جائے گا
      شکریہ

  5. مکرمی جناب الف نظامی صاحب:: پاکستان میں کتنے اداروں میں اردو میں یہ سائنسی کتب پڑھائی جاتی ہیں؟
    وفاقی اردو یونیورسٹی کا نام تو سنا ہے۔ اسس کے علاوہ کا مجھے علم نہیں۔

    1. کیا اداروں کی تعداد اس امر کی دلیل ہے کہ اردو کو ترک کر دیا جائے یا اس کا رسم الخط رومن کر دیا جائے؟
      بر سبیل تذکرہ ہم نے میڑک تک تمام سائنسی علوم اردو میں پڑھےہیں (راولپنڈی بورڈ)

  6. مجھے تو رومن اردو پڑھنا اور لکھنا دونوں مشکل کام لگتے ہیں۔ پتہ نہیں لوگ کیسے صفحے کے صفحے کالے کر لیتے ہیں۔

    ویسے ایک مشورہ مضمون سے ہٹ کے دے رہا ہوں‌کہ اپنی ویب سائیٹ پر کسی مرکزی جگہ پر آون لائن اردو لکھیں کے نام سے کوئی سروس شروع کریں۔ اگر کسی جگہ مجھے اردو لکھنا دستیاب نہ ہو تو میں اکثر آپ کے بلاگ پر صرف اردو لکھنے آ جاتا ہوں اور تازہ تریں بلاگ پوسٹ پر لکھائی کر کے بھاگ جاتا ہوں :mrgreen:

    ابھی بھی اسی وجہ سے آیا تھا مگر آپ نے مضمون کے قدم روک دیے 😉

    1. عامر صاحب آپ کے اردو لکھنے کے انداز میں ویسے بھی جان ہوتی ہے۔ 😉
      اور لکھتے بھی اچھا ہیں۔ 🙂
      خدا آپ کو صحت دے ۔ آمین !

Leave a Reply to سعید جواب منسوخ کریں۔

Your email address will not be published. Required fields are marked *