جنوری 2, 2020 - ایم بلال ایم
تبصرہ کریں

جب ٹلہ جوگیاں پر مور ناچتے تھے

کچھ پرانی یادیں، کچھ پرانی باتیں

وہ بھی ایک جوگی تھا کہ جو چرخے کی کوک سن کر پہاڑ سے اتر آیا اور یہ بھی سیروتفریح کا شوقین ایک جوگی فوجی افسر تھا کہ جو ٹلہ سے نیچے فائرنگ رینج میں بیٹھا دوربین سے اکثر ٹلہ کی چوٹی کا جائزہ لیتا رہتا۔ یہ 1974ء کی بات ہے کہ جب جوگی دل کی آواز سن کر پہاڑ چڑھ گیا اور ٹلہ جوگیاں پہنچا۔ پھر تو جیسے چل سو چل تھی، آئے روز ٹلہ اور اس کا چپا چپا چھان مارا۔ معلوم نہیں کہ اس جوگی کو سیروتفریح اور تحقیق کا جوگ ٹلہ سے ملا، یا کہیں اور سے، مگر اس نے فوج چھوڑی اور تاریخ و تحقیق کی راہ پر چل دیا۔ اور پھر 1986ء میں ڈان کے ایک ذیلی اخبار ”دی سٹار“ میں ٹلہ جوگیاں کے متعلق اس کا آرٹیکل شائع ہوا۔ میری مراد پی ٹی وی کے مشہور پروگرام ”نگری نگری گھوم مسافر“ اور ”سندھیا میں سکندر“ کے میزبان، تاریخ دان، سیاح، ٹریکر، اور ٹریول رائٹر سلمان رشید صاحب ہیں۔ ابھی ہمارا موضوع سلمان صاحب نہیں بلکہ ٹلہ جوگیاں ہیں۔ مگر ٹلہ کے ساتھ سلمان صاحب کا ذکر اس لئے ضروری ہے کہ جدید دور میں ٹلہ جوگیاں کے متعلق سلمان صاحب نے بڑا کام کیا ہے۔

پاکستان بننے کے بعد جوگی چلے گئے اور ٹلہ ویران ہو گیا۔ لیکن جنگلوں میں مور ناچتے رہے۔ حالانکہ جنگل سے لکڑی چُرانے اور ٹلہ کی اینٹ سے اینٹ بجانے، بولے تو خزانے کی تلاش کرنے والے چور ٹلہ جاتے رہے۔ ان کے علاوہ حقیقت کے متلاشی، تاریخ سے لگاؤ رکھنے والے یا سیروسیاحت کے شوقین اِکادُکا بھی ٹلہ پہنچتے رہے اور موروں کا ناچ دیکھتے رہے۔ اور پھر 2006ء میں ٹلہ جوگیاں کے متعلق سلمان رشید صاحب کا مضمون بی بی سی اردو پر شائع ہوا۔ تب آج جیسا سوشل میڈیائی ماحول نہیں تھا اور بی بی سی پر کسی سیاحتی مقام کے بارے میں چھپا تو سمجھو کہ وہ مقام مشہور ہو گیا۔ خیر جہاں اس مضمون کی وجہ سے اک جہان کو ٹلہ کا علم ہوا اور بہت سارے سیاح اور بائیکرز نے ادھر کا رخ کرنا شروع کیا، وہیں پر مجھے بھی پہلی دفعہ ٹلہ کا علم ہوا۔ میرا دوست عباس مرزا اور مرشدم رضوان بخاری تو رہتے ہی ایسی جگہوں کی کھوج میں ہیں۔ لہٰذا ہم ٹلہ جوگیاں کا پروگرام بنانے لگے۔ مگر ”ٹلہ جانا ہے، ٹلے جانا ہے“ کرتے کرتے دو سال گزر گئے۔ تب ہمارے پاس آج جیسی سہولیات تھیں نہ معلومات۔ یہ 2008ء کی بات ہے کہ حاجی بطوطہ کمبل پوش یعنی بھائی سلیم جہلمی نے ٹلہ جوگیاں پہنچنے کی معلومات حاصل کی اور پھر موٹرسائیکلوں پر ٹلہ جانے کا پروگرام بنا۔ چند وجوہات کی بنا پر میں تو نہ جا سکا مگر باقی دوست بڑی مشکل سے، گرتے پڑتے، بھوکے پیاسے ٹلہ جوگیاں پہنچے۔ بلکہ واپسی پر ان کی حالت یہ تھی کہ اپنی جان بچانے کے لئے جنگل میں چرتی بکری پکڑ کر اس کا دودھ دھو کر پینا پڑا۔ جب دوست ٹلہ جوگیاں پہنچے تھے تو وہاں یہ مور چُگ رہا تھا۔ مرشدم نے چپکے سے اس کی تصویر بنائی۔ بہرحال لوگ ٹلہ جاتے رہے اور اسی دوران ایک دن اچانک میں بھی چپکے سے بمبوکاٹ پر تنہا ٹلہ جوگیاں پہنچ گیا۔ وہ بھی کیا زبردست ایڈونچر تھا۔ شام کے قریب پہنچا۔ کچھ تصویریں بنائیں اور پھر رات کے اندھیرے، برستی بارش، خوف کے سائے اور سردی میں ٹھٹھرتا جنگل اور پتھریلے راستوں پر تن تنہا بمبوکاٹ دوڑاتا رہا اور خدا خدا کر کے روہتاس اور پھر گھر پہنچا۔ اس مہم جوئی کے بعد تو بس پھر میں تھا، ٹلہ تھا اور ہماری تنہائیاں۔۔۔

دن بدن ٹلہ جوگیاں جانے والوں کی تعداد بڑھتی رہی۔ بعض بائیکرز نے تو ٹلہ بائیک ٹریک کو سند کا درجہ دے رکھا تھا۔ گویا ان کے نزدیک وہی اصلی بائیکر ہے کہ جو ٹلہ جوگیاں پہنچا۔ سلمان رشید صاحب کے بعد جہاں ٹلہ جوگیاں کو بائیکرز اور خاص طور پر سوشل میڈیا نے مشہور کیا، وہیں پر 2016ء میں ہمارے تاریخ دان دوست ڈاکٹر محمد کاشف علی کے ایکسپریس میں چھپنے والے تحقیقی مضمون نے گویا جلتی پر تیل ڈال دیا۔۔۔ اور پھر 2018ء میں مشہورومعروف ادیب جناب مستنصر حسین تارڑ کا ناول ”منطق الطیر جدید“ شائع ہوا۔ جس میں ٹلہ جوگیاں کا ذکر تھا، شاید ناول ٹلہ جوگیاں کے گرد ہی گھومتا ہے۔ خیر اس ناول کے بعد مشہور ٹلہ جوگیاں مزید مشہور ہو گیا اور متاثرینِ تارڑ بھی ٹلہ جانے لگے۔

ٹلہ جوگیاں جیسے تاریخی ورثہ کی زبوں حالی اور عدم توجہ کی شکار عمارتوں کا کچھ نہ پوچھیں۔ کیا آپ جانتے ہیں کہ ٹلہ پر جہاں اب محکمہ جنگلات کا ریسٹ ہاؤس ہے بالکل اسی جگہ برطانوی راج کا ایک ریسٹ ہاؤس ہوا کرتا تھا۔ جس کو ظالموں نے گرا کر 1986ء میں نیا ریسٹ ہاؤس بنا دیا۔ حالانکہ پہلے والے کی نوک پلک سنوار کر بھی کام چل سکتا تھا، یا پھر نئی جگہ پر نیا بنا لیتے۔ پرانا ختم کرنے کی منطق سمجھ سے باہر ہے۔ خیر کئی دہائیاں پہلے رانجھے کے چبوترے پر پتھر کی ایک تختی تھی کہ جس پر ”جوگ میاں رانجھا“ کندہ تھا۔ مگر اب وہ تختی کہیں نہیں ملتی۔ اس کے علاوہ چار پانچ سال پہلے تک بابا گرونانک کی چلہ گاہ کی حالت کافی بہتر تھی۔ کہہ سکتے ہیں کہ وہ عمارت نوے پچانوے فیصد تھی۔ مگر اب تو پچاس فیصد بھی بمشکل ہو گی اور سمجھو آج ختم ہوئی کہ کل۔۔۔ اور ٹلہ کے مور؟ کچھ شکاریوں نے پکڑ لئے، کچھ شور کی وجہ سے جنگلوں میں روپوش ہو گئے۔ اب تو بس دور جنگل سے موروں کی آوازیں کبھی کبھار سنائی دیتی ہیں یا پھر سرِراہ کوئی مور پنکھ مل جاتا ہے۔

جب ہم پہلی دفعہ ٹلہ جوگیاں گئے تھے تو تب اُدھر محبوبہ کا نام رقم کرنے والوں کے کرتوت تو دیکھائی دیتے تھے مگر ریپر یا بوتلوں جیسا گند نہیں تھا۔ اور پھر رفتہ رفتہ یہ بھی بڑھنے لگا۔ خیال رہے کہ گندگی کی ہر کسی کی اپنی اپنی تعریف ہے۔ کوئی غلاظت میں لتھڑے کو بھی گند نہیں سمجھتے اور کسی کو ٹلہ جیسی جگہ پر ایک ریپر بھی گند لگتا ہے۔ خیر ٹلہ جوگیاں کی خستہ حال عمارتوں کی دیکھ بھال یا صفائی رکھنے وغیرہ کے بارے میں کوئی صدا نہیں لگاؤں گا۔ کیونکہ جہاں غریب کو دینے کے لئے روٹی نہیں وہاں کھنڈر بنتی ہزاروں برسوں کی تاریخ کو بچانے کے لئے بجٹ بھلا کہاں سے آئے۔ جہاں لوگ اپنے گلی محلہ کو صاف نہیں رکھتے وہاں بھلا ٹلہ یا کسی بھی سیاحتی مقام کو کیا خاک صاف رکھیں گے۔ ارے بھئی! اب ٹلہ جوگیاں پر مور نہیں ناچتے بلکہ اکثر تاریخی و سیاحتی مقامات کی طرح یہاں بھی قوم کی بے حسی اور گندگی ناچتی ہے۔ گوکہ ٹلہ پر کہیں کہیں ریپر اور بوتلیں وغیرہ نظر آتیں ہیں لیکن پھر بھی کافی حد تک بچا ہوا ہے مگر وہ وقت دور نہیں کہ جب یہاں بھی گندگی سر چڑھ کر ناچے گی۔۔۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

تبصرہ تحریر کریں۔

Your email address will not be published. Required fields are marked *