نومبر 12, 2014 - ایم بلال ایم
20 تبصر ے

پاکستانی پردیسی عرف مینگوز

کئی ایک رشتہ دار اور جاننے والے بیرونِ ممالک ہوتے ہیں۔ سبھی میں تو نہیں لیکن بہتوں میں باقی کئی پردیسیوں کی طرح یہ عادت بدرجہ اتم موجود ہے کہ پاکستان کی ہر چیز پر تنقید کرتے ہیں۔ مثلاً پاکستان میں کچھ بھی کام کا نہیں۔ گندگی ہے، لوگ سستی کے مارے ہیں وغیرہ وغیرہ۔ یہ تو ہم زرِمبادلہ بھیجتے ہیں، اس سے تھوڑا بہت ملک چل جاتا ہے، ورنہ پاکستانی کسی کام کے نہیں۔ ”ہمارے“ ادھر یورپ میں ایسا ہوتا ہے۔ یہ ہوتا ہے، وہ ہوتا ہے۔ بچپن میں تو ایسی باتوں پر ”جی ٹھیک، جی ٹھیک“ کر دیا کرتا، مگر جب کچھ سمجھ آنی شروع ہوئی تو آگے سے جواب دیتا کہ ٹھیک ہے پاکستان کی حالت اچھی نہیں، لیکن اس کا مطلب یہ بھی تو نہیں کہ آپ لوگ ہمیں ہر بات پر زچ کریں اور ہمیں احساسِ کمتری میں مبتلا کریں۔ اوپر سے راہ چلتے زرِمبادلہ اور دیگر چیزوں کا احسان جتائیں۔ اگر ہمارا وطن ایسا ہے تو اس میں آپ لوگ بھی برابر کے شریک ہیں۔ اس لئے صرف ہمیں ذمہ دار نہ ٹھہرائیں۔

سبھی تارکین وطن ایسے نہیں، بس ایک خاص سوچ کے حامل پردیسیوں کو یہ ”بیماری“ لگی ہوئی ہے۔ ایسے پردیسیوں کو میں ”مینگوز“ کہتا ہوں۔ وہ کیا ہے کہ ہمارے مزیدار آموں کی طرح یہ بھی ایکسپورٹ ہو گئے۔ ان کا اصل حصہ (توانائیاں) تو دیگر ممالک کھا گئے یا کھا رہے ہیں۔ اصل سواد تو بیگانے لے گئے۔ ہمارے لئے پیچھے بس گھٹلیاں بچی ہیں، جو وقتاً فوقتاً ہمارے سروں پر برستی ہیں۔ خیر ایک دن ایسے ہی چند مینگوز بڑی باتیں کررہے تھے۔ پہلے چپ چاپ سنتا رہا، پھر تنگ آ کر دو چار جواب کیا دیئے، مینگوز تو غصہ ہی کر گئے۔ مکالمہ ملاحظہ کیجئے۔
مینگوز:- یہ جو پاکستانی سیاست دان ہیں، یہ فتنہ ہیں اور یہ بیرونی (امریکی و یورپی) سازش وغیرہ کا حصہ ہیں۔ اوپر سے پاکستان میں رہنے والے جاہل ہیں۔
میں:- جی جی پاکستان میں رہنے والے جاہل ہی ہیں کیونکہ سارے سیانے باہر جو چلے گئے۔
ویسے جب مینگوز نے پاکستان میں رہنے والوں کو جاہل کہا، تو ایک حساب سے میرا ”میٹر“ گھوم گیا۔ ٹھیک ہے ہمارے حالات اچھے نہیں بلکہ بہت برے سہی، مگر یہ کہاں کا انصاف ہے کہ خود باہر بیٹھ کر سکون کی زندگی گزاریں اور جب چاہیں ہماری توہین کرتے پھریں۔ اگر یہ مینگوز اتنے ہی سیانے ہیں تو خود پاکستان آ کر ملک کو ٹھیک کر لیں۔ خیر میں نے مینگوز کو کہا کہ سازشوں اور دیگر باتوں کی وضاحت کرو۔

مینگوز:- فلاں لیڈر نے فلاں حرکت کیوں کی۔ عوام فلاں لیڈر کے پیچھے کیوں لگی ہے؟ عوام نے یہ کیوں کیا؟ وہ کیوں کیا؟ ایسا کیوں ہوا؟ ویسا کیوں ہوا؟ وغیرہ وغیرہ۔
میں:- اس بے جوڑ منطق کو چھوڑیں۔ چلیں یہ بتائیں کہ کیا آپ بیرون ملک اور پاکستان میں ٹیکس دیتے ہیں؟

مینگوز:- بیرون ملک تو دیتے ہیں مگر چونکہ ہم پاکستان میں رہتے ہی نہیں، اس لئے ادھر ٹیکس دینے کا کوئی جواز ہی نہیں۔
میں:- جی ٹھیک، بہت خوب کہا۔ جب آپ پاکستان میں مستقل رہتے ہی نہیں تو پھر آپ کو صحیح معنوں میں اندازہ ہی نہیں کہ ہم ”ایسا ویسا“ کیوں کرتے ہیں؟ آپ بس اپنے بچپن، پھر کبھی کبھار چند دن پاکستان میں گزارنے اور چند ایک سنی سنائی باتوں کو بنیاد بناتے ہیں جبکہ آپ کو زمینی حقائق ٹھیک طرح معلوم ہی نہیں۔ آپ کی غیر موجودگی میں بہت سارا پانی پلوں کے نیچے سے گزر چکا ہے۔ آپ ان چھوٹی چھوٹی باتوں کو سرے سے جانتے ہی نہیں جنہوں نے بعد میں بڑے مسائل کو جنم دیا۔ ایک لمبے عرصے سے ”مسلسل“ یہاں رہنے والوں کی تکلیفوں اور مسائل، اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے رویے کو آپ ٹھیک طرح محسوس کر ہی نہیں سکتے۔ لہٰذا ہمیں جاہل کہنے یعنی ہم پر رائے دینے کا آپ کو کوئی حق نہیں۔ دوسرا جن ملکوں کی سازشوں کا کہتے ہو، الٹا خود انہیں ہی ٹیکس دیتے ہو۔ انہیں ملکوں میں رہ کر اور کام کر کے ان کی معیشت کا حصہ بنے ہوئے ہو۔ امید ہے سمجھ گئے ہوں گے کہ اگر واقعی دوسرے ممالک سازشیں کر رہے ہیں تو بالواسطہ آپ بھی انہیں سازشوں کا حصہ ہیں۔ اس لئے برائے مہربانی ہمیں سازشوں پر لمبے لمبے لیکچر نہ دیں۔

مینگوز:- ہم بہت بڑا زرِ مبادلہ اپنے ملک بھیجتے ہیں، جبکہ تم لوگوں نے ملک کے لئے کیا کیا؟ اوپر سے تم ہماری حب الوطنی پر شک کر رہے ہو۔
میں:- بزرگو! ہمیں آپ کی حب الوطنی پر ذرا بھی شک نہیں۔ ویسے بھی آپ کی حب الوطنی کا یہی ثبوت کافی ہے کہ پیدا پاکستان میں ہوئے، جوانی کی ساری توانائیاں باہر کے ملکوں کی ترقی میں لگائیں اور لاش پاکستان میں دفنائی۔ ویسے بھی اب یہ ملک لاشیں دفن کرنے کے لئے ہی تو رہ گیا ہے۔ خیر باتیں تلخ تو ہیں لیکن حقیقت ہیں۔ گستاخی معاف کرو تو عرض ہے کہ دراصل آپ اپنے ملک کی بجائے اپنی روزی روٹی کے لئے باہر گئے تھے۔ آپ ملک کی بجائے اپنے رشتہ داروں کو پیسا بھیجتے ہیں۔ اب وہ پیسا ملک کو بھی فائدہ دیتا ہے تو آپ ایک تیر سے دو شکار کر لیتے ہیں۔ اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر وہ دن یاد کریں، جب آپ باہر گئے تھے۔ پھر آپ کو اندازہ ہو گا کہ جاتے ہوئے آپ کی نیت ملک کو فائدہ پہنچانے کی نہیں تھی، بلکہ آپ صرف اور صرف اپنے فائدے کے لئے باہر گئے تھے اور اب آپ مفت میں ہم پر احسان جتا رہے ہیں۔ اپنے لئے کمایا گیا پیسا، جسے آپ زرِمبادلہ کہتے ہیں، اگر اس سے ملک کو فائدہ ہوتا ہے تو یہ کوئی انوکھا کام نہیں۔ کیا آپ نے کبھی غور کیا ہے کہ اس ملک میں رہ کر ایک کسان، ایک مزدور، خلوص نیت کے ساتھ کام کرنے والا ہر ہر بندہ اِدھر رہ کر بھی ملک کو فائدہ پہنچا رہا ہے۔ جناب غور تو کریں کہ ایک کسان اناج اگاتا ہے، خود کھاتا ہے، آپ کے گھر والوں کو کھلاتا ہے اور پھر جب وہی اناج دوسرے ممالک میں برآمد ہوتا ہے تو کتنا زرِمبادلہ آتا ہے؟ آپ تو اپنی جوانی دوسرے ممالک کی ترقی پر نچاور کر کے پیسے بھیجتے ہیں جبکہ وہ کسان بیچارہ تو اپنی ساری توانائیاں اپنے ہی ملک پر لگاتا ہے اور سونے پر سہاگہ یہ کہ وہ بھی زرِمبادلہ کماتا ہے۔ مجھ جیسے کئی لوگوں کو ہی دیکھ لیں۔ ہم پاکستان میں بیٹھ کر کام کرتے ہیں اور ہماری وجہ سے اچھا بھلا زرِمبادلہ پاکستان آتا ہے۔ برائے مہربانی ہم پر اپنے اس زرِمبادلہ کا رعب نہ ڈالیں۔ آپ کوئی انوکھا کام نہیں کر رہے۔

مینگوز:- تو تمہارا کیا مطلب ہے کہ بندہ روزی روٹی کے لئے بیرونِ ملک نہ جائے؟ کیا یہیں بیٹھا رہے؟
میں:- یقین کرو، ہمیں آپ کے باہر جانے پر اعتراض نہیں، اعتراض تو بس آپ کی بے جوڑ منطق اور ہمیں کمتر سمجھنے پر ہے۔ بزرگو! میرا ماننا تو یہ ہے کہ جس کا وطن میں کچھ نہ بنے وہ بے شک باہر جائے، بلکہ ضرور جائے۔ مگر اس کا مطلب یہ بھی نہیں کہ پاکستان کی ساری ذہانت ہی باہر کے ملکوں میں بھیج دو۔ کیا آپ جانتے ہو کہ باہر کی کمائی سے آپ نے جو ”چن چڑھائے“ ہیں، اس سے معاشرے پر کیا اثرات پڑے ہیں؟ ڈالروں کی ریل پھیل اور یورو کی چمک جو آپ نے معاشرے کو دیکھا کر بے چینی اور احساس کمتری پیدا کی ہے، کیا آپ جانتے ہیں کہ اس دوڑ میں شامل ہونے کے انتظار میں کتنے نوجوان ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہتے ہیں، کتنے نوجوان غیرقانونی بیرونِ ممالک جاتے ہوئے جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں اور کتنے آج بھی جیلوں میں قید ہیں؟ آپ ہمارے اپنے ہو لیکن اگر آپ نے یونہی ہمارے خلاف محاذ کھولے رکھا تو وہ وقت دور نہیں جب آپ کے اپنے ہی سختی سے پیش آئیں گے۔

مینگوز:- تم بڑی باتیں کرتے ہو۔ یہ معاشرہ ہماری وجہ سے نہیں بلکہ تم لوگوں کی وجہ سے ایسا ہوا ہے۔ ہم پاکستان رہ کر کرتے بھی تو کیا کرتے؟ اِدھر کوئی مستقبل نہیں۔
میں:- اِدھر کوئی مستقبل اس لئے نہیں کہ ہم نے اس کی کوشش ہی نہیں کی۔ آپ جیسے ذہین لوگ جو کچھ اچھا کر سکتے تھے وہ باہر جا بیٹھے، پھر پیچھے سے ہم سے جیسا تیسا ہو رہا ہے، وہ کر رہے ہیں۔ آپ کا باہر جانا کچھ ایسا ہی ہے، جیسے ہمارے معیاری اچھے آم باہر چلے جاتے ہیں اور خود ہم بچا کچا کھاتے ہیں۔ اب بچے کھچے سے ایسے ہی ملک چلتا ہے۔ رہی بات ادھر رہ کر کیا کرتے؟ تو جناب عرض ہے کہ مسئلہ صرف اتنا ہے کہ آپ امریکہ و یورپ وغیرہ کے بیت الخلاء صاف کرنے کو تیار ہیں جبکہ پاکستان میں آپ وزیرِاعظم سے کم بننے کو تیار نہیں۔ باقی کوئی بھی معاشرہ شروع سے درست نہیں ہوتا، بلکہ خود ٹھیک کرنا پڑتا ہے۔ بے شک معاشرے کے خراب ہونے میں کئی عوامل ہیں مگر ان عوامل میں چاہے تھوڑا سہی مگر آپ کا حصہ بھی ہے۔ آپ اسے فراموش نہیں کر سکتے۔ آپ نے باہر جا کر ایک لمبے عرصے تک اپنی ماں سے اس کا بیٹا چھین لیا۔ اپنے بچوں کے سر سے باپ کا سایہ دور کر دیا۔ ایک بیوی کو اپنے شوہر سے جدا کر دیا۔ وغیرہ وغیرہ۔۔۔ کیا آپ جانتے ہیں کہ ان سب کے معاشرے پر کیا اثرات پڑتے ہیں؟ آپ نے صرف پیسے اور اپنی ذات کے سکون کے لئے کئی رشتوں کا حسن تباہ کر کے معاشرے کو کئی مسائل دیئے ہیں۔ معاشرہ تو دور شاید آپ کو معلوم ہی نہیں کہ آپ نے اپنے قریبی رشتوں کو اذیتیں دی ہیں۔ میں کیا کہنا چاہتا ہوں، امید ہے کہ آپ سمجھ گئے ہوں گے۔

مینگوز:- تم بدتمیزی کرتے ہوئے حدیں پار کر رہے ہو۔
میں:- اگر آپ نے ایسے ہی بات چیت کرنی ہے تو پھر ایسے ہی سہی۔ جناب میں کہاں حدیں پار کر رہا ہوں بلکہ دنیا کی سرحدیں تو غیر قانونی آپ لوگوں نے پار کیں اور بدنام سارے پاکستان کو کروایا۔ بیرونی ممالک کے قانون کو دھوکہ دیتے ہوئے سیاسی پناہ اور دیگر کئی معاملات کے لئے جھوٹ آپ نے بولے۔ ناجانے کون کون سے ہتھکنڈے اپنا کر باہر کی ”نشنیلٹی“ اور نوکریاں حاصل کیں۔ ویسے سوچو! کیا وقت آ گیا ہے کہ دنیا کے قانون توڑنے والے اب ہمیں قانون پر لیکچر دے رہے ہیں۔ بہرحال بزرگو! اگر ہم جاہل ہیں اور ہمارے ملک میں سازشیں ہو رہی ہیں تو سازشیں آپ بھی کم نہیں رچاتے۔ آخری بات کہوں گا کہ خود جن ملکوں میں بیٹھ کر سکون کی زندگی گزارتے ہو۔ ہمیں انہیں ملکوں کی سازشوں سے ڈراتے ہو۔ ہمیں بدتمیز کہنے والو! چار دن ہمارے ساتھ رہو، ساری اخلاقیات باہر نکل جائیں گی۔ جب گھر میں بجلی، پانی اور گیس نہیں ہو گی تو پیاس، بھوک اور پسینے سے عقل کے سارے پردے اتر جائیں گے اور نیچے سے ”جاہلیت“ چنگاڑتی ہوئی نکلے گی۔ حالات کی وجہ سے جب آپ بھی ہمارے جیسی حرکتیں کرو گے تو پھر میں پوچھوں گا کہ بتاؤ کون جاہل ہے اور کون نہیں؟ یہ جو آپ لوگ کرتے ہو، یہ سب پیٹ بھرے کی باتیں ہیں۔ خیر بزرگو! آج میں فارم میں ہوں۔ مزید نہ چھیڑو اور یہ بات ادھر ہی ختم کرتے ہیں ورنہ کہیں میں واقعی گستاخی نہ کر جاؤں۔

مینگوز:- تم جیسے آج کل کے لونڈوں میں ذرا بھی عقل نہیں اور باتیں بڑی بڑی کرتے ہیں۔
میں:- ارے پردیسی بابو! ہمیں اتنی سناتے ہو مگر ہماری باتیں برداشت نہیں کرتے۔ کہا جو ہے کہ آپ ہمارے اپنے ہو۔ ہم سمجھتے ہیں کہ تارکِ وطن ہونا آسان نہیں۔ ہم آپ کے دکھ میں شریک ہیں۔ جب آپ ہم سے پیار کرو گے تو ہم آپ کو سر آنکھوں پر بیٹھا کر رکھیں گے لیکن اگر ہم پر زرِمبادلہ کا رعب جمائیں گے، ہمیں کمتر جانیں گے اور ہمیں احساسِ کمتری میں مبتلا کرنے کی کوشش کریں گے تو پھر ہم بھی سختی سے ہی پیش آئیں گے۔ اللہ والو! آپ تو ہمارے میٹھے آم تھے، جس کا سواد دوسرے ممالک لے گئے۔۔۔

شاعر حکیم ناصر سے بہت ہی معذرت کے ساتھ
گھٹلیو! آج ہمارے سر پر برستی کیوں ہو
ہم نے تم کو بھی کبھی اپنا ”مینگو“ رکھا ہے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست 20 تبصرے برائے تحریر ”پاکستانی پردیسی عرف مینگوز

  1. کیا خوب سچ لکھا ہے بلال. اتفاق سے آج میری بھی اسی موضوع پر کسی سے بات ہو رہی تھی. یہ جو مینگوز ہوتے ہیں یہ جب پردیس کی خوبیاں دیکھتے ہیں تو اس چکا چوند سے آنکھیں یوں خیرہ کر بیٹھتے ہیں کہ وطن کی خوبی بھی اس کی خامی ہی دکھتی ہے. پھر یہ بھی کہ گفتار کے غازی سب ہیں لیکن جہاں یہ کہا جائے کہ آپ کیوں حالات کی بہتری میں حصہ نہیں لیتے تو ان کی کوشش کی ہامی مشروط ہوتی ہے کہ جب حالات بہتر ہوں گے تو ہم آ کر اپنا کردار ادا کریں گے. میری پردیس میں دسیوں کے ساتھ اور دیس واپس لوٹنے کے بات پردیسیوں کے ساتھ اکثر اسی موضوع پر ایسی ہی بحث ہوتی آئی ہے.
    لیکن مایوس بھی نہیں ہونا کیونکہ جہاں باہر بیٹھ کر باتیں کرنے والے ہیں وہاں ایسے بھی لوگ ہیں جو باتوں کی بجائے عمل پر یقین رکھتے ہیں. کتنے لوگوں کے بارے میں تو میں بھی جانتی ہوں جنہوں نے برآمد بننے کی بجائے واپس درآمدی کا راستہ چنا اور بساط بھر اپنے حصے کا دیا جلائے جا رہے ہیں.

  2. 👿
    ٌ”کانے مینگوز ” ایکسپورٹ کوالٹی نہ ہونے کا دکھ گوروں کے لبوں کی ” چوسنی ” بننے کا امتیاز حاصل کرنے والے مینگوز سے جلنے والی قوم 😀
    زرِ مبادلہ ہی کیا بیرونی فنڈ اور بیرونی قرضہ بھی ہڑپ کرکے سازش سازش رونے والے کانے مینگوز 😀
    پہلے کونسی باہر ممالک میں پاکستان اور پاکستانیوں کی عزت تھی کہ ہمارے ٹٹیاں دھونے اور پیسے کیلئے دو چار گھٹیا جرائم سے بیستی خراب ہو گئی۔اب تک عزت بیستی شرم حیا کی ٹکٹکی پر لٹکی ہوئی قوم۔۔ 😆
    کانے مینگوز ،کانے مینگو‌ز ، کانے مینگوز۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کانڑے مینگوز 😛

  3. بات تو سولہ آنے درست ہے لیکن لگتا ہے بلال بھائی اب گٹھلیوں کی یلغار کا تمام رخ آپ کی طرف ہونےوالا ہے۔ اپنے بائیک کا ہیلمٹ ہمہ وقت ساتھ رکھیں۔۔۔۔۔۔۔ 😉

  4. جناب ایک سچ میں بھی بولنا چاہوں گا کہ
    اگر جو گٹھلیاں، بیکار لوگ، نکمے، کام کے نا کاج کے آگر ان کو بھی ایکسپورٹ کر دیا جائے تو یہ بھی مینگوز ، ٹیلنٹڈ اور ہیرے ثابت ہوں گے.

  5. بلال صاحب نے خاصا کڑوا مگر کھرا سچ لکھا ہے. ہم تارکین وطن میں ایسے لوگ بہت ہیں. خصوصاً ان لوگوں سے شکایات سن کر زیادہ برا لگتا ہے جو غیرقانونی طریقوں سے باہر گئے ہیں اور دوسروں کو قانون کی عملداری کے لیکچر دیتے ہیں. بلکہ کئی تو اب بھی بہبودی فنڈ یا بیروزگاری الاؤنس وغیرہ کے لئے جھوٹ بولتے ہیں. پاکستان جا کر لوگوں پر رعب ڈالتے ہیں مگر قانون کی پاسداری سے خود کو مبرا سمجھتے ہیں.

  6. بلال آپ کی سب باتیں حرف بہ حرف درست ہیں۔ ہمارے محترم پردیسی بھائیوں کے طرز فکر اور طرز تکلم کے حوالے سے۔ کوئی نہ کوئی مجبوری ہی انسان کو گھر سے بےگھر کرتی ہے ۔ ان کی وطن سے محبت میں کوئی شک نہیں جو جانے کے بعد اور وہاں سیٹل ہونے کے بعد سر اٹھاتی ہے اور اس میں‌کوئی برائی بھی نہیں ۔ ۔۔ دور جانے سے ہی قدر آتی ہے چاہے وہ رشتے ہوں، دولت ہو، صحت ہو یا پھر وطن ہی کیوں نہ ہو جہاں ہم ایک نمبر شہری تو ہوتے ہیں۔
    بس وہ ہم بچ جانے والوں کو حقارت سے دیکھتے ہیں۔ شاید یہ بھی جائز ہو جیسے ہمارے ۔۔۔ بھائی ہمیں بلڈی سویلین کہتے ہیں ۔
    جس کی لاٹھی اس کی بھینس۔
    ایک دل میں چھپی ہوئی پھانس میری طرف سے ۔۔۔
    ہر سال بڑے بھائی امریکا ااور مڈل ایسٹ سے اپنی” امی” سے ملنے پاکستان آتے ہیں۔ ہم لوگ روایتی مہمان نوازی کرتے ہیں ۔ لیکن ان لوگوں کی سوچ یہ کہ جس طرح آتے ہی سب کو “تحفے” دینا شروع ہوتے ہیں اور ساتھ ہی بتاتے بھی ہیں کہ یہ وہاں سیل میں مل رہی تھی یا کوئی سوونئیر ٹائپ کے مگ ٹی شرٹس اور اسی طرح کے پرانے ٹیکنکل الم غلم وغیرہ اور کبھی تو حد کر دیتے کہ جب اپنے بچوں کے پرانے جوتے اور کپڑے بھی کہ وہاں کوئی لینے والا نہیں بالکل نئے ہیں ۔ بچے چھوٹے تھے تو ناسمجھ تھے لیکن جیسے بڑے ہوتے گئے برا لگنے لگا کہ وہاں کی چیزیں ایسے لاتے ہیں جیسے ہم یہاں بہت غریب بیک ورڈ اورلالچی ہیں ۔
    ہرسال اپنے حصے کی قربانی یہاں‌کرواتے ہوئے بھی یہی سوچ ۔
    چلیں کوئی بات نہیں یہ ان کی سمجھ کا پھیر ہے جیسے تیسے برداشت کر لیتے ہیں۔ لیکن ایک بات کئی سال ہوگئے ذہن میں تیر کی طرح لگ گئی ۔ ایک بار انہوں نے بڑے یقین سے کہا کہ ” جو نالائق ہوتے ہیں وہ ماں باپ کے پاس رہ جاتے ہیں اور لائق چلے جاتے ہیںِ” بات ان کی سو فیصد سچ تھی کہ جس کو موقع ملتا ہے وہ ” جانے” میں دیر نہیں لگاتا ۔ لیکن دکھ یہ ہے کہ ایک عمر کے بعد ماں باپ بھی اسی کے اس کے بچوں اور بیوی کے گن گاتے ہیں جو دور ہوتا ہے۔
    ۔۔۔ کہ وہ ڈالر بھیجتا ہے ۔۔۔ درہم بھیجتا ہے ۔۔۔ بوڑھی ماں کو سونے میں لاد دیتا ہے۔۔۔ جدید دور کے آئی پیڈ سے ہر وقت چہرہ بھی دکھاتا ہے۔۔۔باہر بھی بلاتا ہے اور پھر جب حج بھی کرا دے تو سمجھو بیڑہ پار۔
    اور “نالائق” صرف ہسپتال لے جاتا ہے ۔۔۔۔دوائی لا کر دیتا ہے ۔۔ وقت پر کھانا دینا اور کپڑے وغیرہ دھونا تو بہت معمولی کام ہیں۔جو ہم جیسے کمیوں کے لیے ہی ہیں ۔ اور “جنت” کا وعدہ بھی تو کوئی کم نہیں ۔
    اس وقت پھر یہی احساس ہوتا ہے کہ کوئی بھی رشتہ ہو “جان کی قدر نہیں مال ہے تو سب رشتے ہیں‌”

    1. سوفیصدی متفق-
      مجھے حیرانی ہے کہ ان تارکین وطن میں سے بیشتر کی کہانیاں ایک جیسی کیسے ہوتی ہیں۔

  7. ایم بلال بھائی کی ایک عمدہ تحریر۔ یقین مانو بہت دنوں بعد ایک عمدہ تحریر پڑھنے کو ملی۔
    بلال بھائی آپ نے تو اُس پردیسی بابو کی واٹ لگا دی یار سہی کہا آپ نے کہ پیدا یہاں ہوئے فائدہ کسی اور ملک کا کیا اور پھر مرنے کے بعد دفن ہونے یہاں آگئے۔ ویسے اس قسم کے لوگ ہر سوسائٹی، شہر اور محلے میں پائے جاتے ہیں۔
    ایک زبردست تحریر پر میری طرف سے شاباش 😉

  8. بلال بھائی، ایک بہت ہی اچھی کھٹی میٹھی مینگو تحریر۔ پرھ کر ہنسی بھی آئی، اور دکھ بھی ہوا، میں نے بھی ایک لمبا عرصہ پاکستان سے باہر گزارا ، نہ جانے کیسے لوگ وہان کی باتین کرتے ہیں۔ اور اس میٹھے وطن کو بھول جاتے ہیں۔ جس پر چلنا سیکھتے ہیں، ۔ وہ ایک مثال ہم اکثر بھول جاتے ہیں۔ ” کوا چلا ہنس کی چال ، اور اپنی چال بھی بھول گیا” ۔
    ہم جب باہر تھے، تو راتوں کو روتے تھے، بے بے کے ہاتھ کی روٹیان، چوریان، گڑ کی چائے، مکئی کی روٹیان، اور ساگ، ،، وہان جاکر مسٹر ٹو ایگ، ٹو ٹماٹو، اور ٹو پٹاٹو ۔ بن کر رہ گئے تھے۔
    بہر حال ، پاکستانی مینگو اپنی جگہ اپنی ایک قیمت رکھتا ہے۔ باہر اسیکی بڑی ڈیمانڈ ہے بشرطیکہ ، داغی نہ ہو۔

  9. قصور ان لوگوں کا نہیں ہے بلکہ اُس ماحول کا ہے جس میں اُنہوں نے تربیت پائی ۔ ایسے لوگ مُلک کے اندر بھی موجود ہیں
    کچھ ایسے لوگ بھی ہیں جو اپنے مُلک اور اپنے ہموطنوں کی برائی کرنے کو اپنی بڑھائی سمجھتے ہیں
    آپ کا اُن لوگوں کے متعلق کیا خیال ہے جو اپنی مقامی زبان جانتے ہوئے دوسروں کے سامنے انگریزی میں بات کرتے ہیں ؟ خواہ وہ پاکستان کے اندر ہی موجود ہوں ؟ مجھے جرمنی اور لیبیا میں پوچھا گیا کہ کیا پاکستان میں انگریزی بولی جاتی ہے ؟ جب میں نے بتایا کہ پاکستان میں انگریزی جاننے والے ایک فیصد بھی نہیں ہیں تو وہ حیران ہوئے ۔ لبیا میں تو مجھ سے دوسرا سوال پوچھا گیا کہ ” آپ کے ساتھی آپس میں انگریزی میں کیوں بات کرتے ہیں ؟“ میرے پاس اس کا جواب نہیں تھا چنانچہ میں نے کہا ”مجھے کبھی کسی پاکستانی کے ساتھ انگریزی میں بات کرتے دیکھا ہے ؟“ تو وہ ” نہیں“ کہہ کر چُپ ہو گیا ۔
    ایک دفعہ اسلام آباد میں ایک جوان انگریزی بولتا جا رہا تھا اور میں اُسے اُردو میں جواب دیتا جا رہا تھا ۔ جب 15 منٹ تک اُس پر کوئی اثر نہ ہوا تو میں نے انگریزی شروع کر دی جو شاید اُسے کم سمجھ آئی ۔ 2 منٹ بعد اُردو بولنا شروع ہو گیا تو میں نے کہہ دیا ”اب بولیئے نا انگریزی ۔ آپ کی زبان تو شاید انگریزی ہے“
    کیا آپ نہیں جانتے کہ ہمارے کئی ہموطن پاکستان میں بنی اشیاء خریدنا شاید اپنی توہین سمجھتے ہیں ۔اور دکاندار پاکستان کی بنی کو جاپان چین ایران یا انڈیا کی کہہ دے تو خرید لیتے ہیں جس کیلئے اصل سے زیادہ قیمت ادا کرتے ہیں ۔ بہت سے میلامائین کے بنے ڈنر سیٹ جو لوگوں نے ایرانی سمجھ کر خرید رکھے ہیں وہ حیدرآباد پاکستان کے بنے ہوئے ہیں ۔ اسی طرح پاکستانی کپڑا کٹ پیس سر پر اُٹھا کر لوگ گھر گھر جا کر بیچتے ہیں اور لوگ جاپانی یا انڈین سمجھ کے دوگنا دام دے کر خریدتے ہیں
    غُسلخانے کے برتن اور ٹُوٹیاں وغیرہ جو کئی ناموں کے گوجرانوالہ کے مضافات میں بنتے ہیں وہ لوگ زیادہ قیمت دے کر خرید لیتے ہیں اگر دکاندار امپورٹِڈ کہہ دے اگر دکاندار پاکستانی کہے تو کم قیمت پر بھی نہیں خریدتے
    کیا کیا سُنیں گے کیا کیا سُناؤں

  10. ڈالروں کی ریل پھیل اور یورو کی چمک جو آپ نے معاشرے کو دیکھا کر بے چینی اور احساس کمتری پیدا کی ہے، کیا آپ جانتے ہیں کہ اس دوڑ میں شامل ہونے کے انتظار میں کتنے نوجوان ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہتے ہیں، کتنے نوجوان غیرقانونی بیرونِ ممالک جاتے ہوئے جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں اور کتنے آج بھی جیلوں میں قید ہیں؟
    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ قسمے پڑھ کر مزہ آ گیا۔۔۔۔

  11. اسلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
    محترم بلال بھائی،
    بہت اچھا مینگو کہا ہے ، آپ پھر بھی کچھ ادب کرگئے ورنہ عوام تو کیا کیا کہتی ہے جو کہ خاص کر پڑھے لکھے ہیں۔

    ہم بحیثیت پاکستانی اور مسلمان ہونے کی حیثیت سے اپنے رسول مکرم جانَ کائنات صل اللہ علیہ والہ وسلم کے فرمان مقدس کہہ: حب الوطنی من الایمان (وطن کی محبت ایمان کا حصہ ہے) جیسے منصب کو بھلا بیٹھے ہیں فقط صرف اورصرف اس لیے کہ بچپن سے اپنے ملک کو ایسے حالات میں مبتلا دیکھا کہ ترقی کا نام صرف پیسہ کمانا ہے۔یہ نہیں دیکھا اور محسوس کرایا گیا کہ وطن کے لیے کرو گے تو سب کا بھلا ہوگا،جبکہ فی معاشرہ برعکس جا رہا ہے۔
    کی محمد سے وفا تونے تو ہم تیرے ہیں یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں
    یہ کون لوگ تھے جو یہ بات کہتے کہتے ہمارے درمیان سے رخصت ہوگئے؟
    اور اب یہ کیسے لوگ ہیں جو پاکستان تو درکنار صرف اور صرف اپنے ذاتی مفادات کو پاکستان کے آئین کی چھت تلے بچاتے
    جا رہے اور کوئی ان کو پوچھنے والا نہیں ہے۔ جوچند ہیں وہ کوشش کررہے ہیں۔ دعاء گو۔ پاکستان پائندہ باد، پاکستان زندہ باد

  12. I love my family
    بہت دن پہلے کی بات ہے جب ہم لوگ کراچی میں رہتے تھے۔ احمد ماموں اور حبیب ماموں امریکہ سے واپس آتے تھے تو ہم لوگ ان کے آنے پر بہت تردد کرتے تھے۔ سارے گھر کی صفائیاں ہورہی ہیں ، اچھے اچھے کھانے پک رہے ہیں، بچے سارے ان کھلونوں اور چیزوں کے بارے میں سوچ رہے ہیں جو ماموں کے بڑے بیگ میں سے نکلیں گی۔ کھلونے، جوس بنانے کے پاؤڈر، رنگ برنگے اچھی خوشبو کے شیمپو، اور کھلونے بھی ہمیں بہت اچھے لگتے تھے۔ احمد ماموں نے ایک بار مجھے ایک کیمرا بھی دیا جس سے ہم لوگ ادھر ادھر اسکول اور باہر تصویریں کھینچتے پھرتے تھے اور خوب مزا آتا تھا۔وہ ایک ایسا وقت تھا جب آپ کئی کئی دن انتظار کرتے تھے کہ تصویریں کب دھل کر واپس آئیں گی۔ ایسا ڈیجیٹل کوئی سسٹم نہیں تھا۔ ایک بار انہوں نے ایک لفافہ بھر کے پرانے ڈاک کے ٹکٹ ہمیں بھیجے تھے جن میں سے کچھ ابھی تک ہمارے پاس ہیں۔
    پیٹر حبیب ماموں کا پی ایچ ڈی اسٹوڈنٹ تھا جو کراچی میں ہمارے گھر ٹہرا۔ ہم لوگ اس کو بہت دلچسپی سے دیکھتے تھے اور میں نے اس کو اپنی تیسری کلاس کی انگریزی کتاب بھی پڑھنے کے لئیے دی۔ اس میں سنڈریلا وغیرہ کی کہانیاں تھیں۔ میں نے یہی سوچا کہ یہ انگریز ہے اور یہ کہانیاں انگریزی میں ہیں تو اس کو اچھی لگیں گی۔ یہ تو میرے ذہن میں آیا ہی نہیں کہ وہ اتنا بڑا ہے تو یہ کہانیاں تو وہ بہت سال پہلے ہی پڑھ چکا ہوگا۔حبیب ماموں نے مجھے ایک ڈالر کا کوئن دیا اور بولے بیٹا یہ کوئن نو روپے کے برابر ہے۔ اس وقت میری عمر بھی نو سال تھی تو مجھے یہ بات یاد رہ گئی۔ لیکن آج تک جتنی بھی چیزیں ہمارے ماموؤں نے ہمیں دیں ان میں سے سب سے بڑی چیز رول ماڈل ہونا ہے۔
    ایک دفعہ احمد ماموں واپس آرہے تھے تو سارے بچے خوب ضد کررہے تھے کہ ہمیں ائرپورٹ جانا ہے ماموں کو پک کرنے کے لئیے۔ اب اتنے سارے بچے تو گاڑیوں میں فٹ نہیں ہوسکتے تھے، رشید ماموں کے چھ، ہم چار، مجیب ماموں کے تین ،تو کچھ ہی خوش نصیب چنے گئے جن میں سے میں بھی ایک تھی۔ امریکہ میں تو رات کو ائر پورٹ بند ہوجاتا ہے اور کوئی فلائیٹ نہ آتی ہے نہ جاتی ہے لیکن پاکستان میں آدھی رات کو بھی فلائٹس پہنچ رہی ہوتی ہیں۔ اب احمد ماموں کی فلائیٹ صبح کے تین بجے پہنچ رہی تھی۔ ہم لوگوں کا نیند کے مارے برا حال تھا۔ کوئی بچہ دائیں لڑھک رہا ہے تو کوئی بائیں۔ بہت سارے انتظار کے بعد ہمارے ماموں ائرپورٹ سے نکلے، انہوں نے جیسے ہی ہمیں دیکھا تو بولے ارے یہ اتنے سارے کالے پیلے بچے! یہ سن کر ہمارا دل چھوٹا سا رہ گیا۔ اسی لئیے ہم خود جب بھی واپس گئے تو میں نے اپنی طرف سے پوری کوشش کی کہ سارے بچوں کے ساتھ پیار سے پیش آؤں۔ وہ ہمیں پتا نہیں کیا سمجھ رہے ہوتے ہیں کہ ہم آسمان سے اتر کر آرہے ہیں یا ایسا ہی کچھ۔

  13. السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ،
    بھائی، بہت ا چھی تحریرہے واقعی میں پڑھ کر مزا آگیاہے اللہ تعالی آپ کو لکھنے میں اور ترقی دے ۔ آمین ثم آمین
    بھائی، میرے بلاگ میں مسلہ آرہاتھاجوکہ اپڈیٹ کے وقت ہواتھاابھی تک وہ ٹھیک نہیں ہوسکاہے مجھے سمجھ نہیں لگ کہ میں کیاکروں ہرایک سے مددکی درخواست کی ہے لیکن کوئی بھی ٹھیک نہیں کررہاہے۔ براہ مہربانی اس کوٹھیک کردیں ۔ اللہ تعالی آپ کے علم میں اضافہ کریں۔ شکریہ

    والسلام
    جاویداقبال

  14. بہت عمدہ بلال صاحب
    تارکینِ وطن کے اس روئیے کی وجہ . . . صرف اور صرف احساسِ کمتری ہے جو کہ ہمیں پوری قوم کو اجتماعی طور پہ لاحق ہے۔ ہم اُن چیزوں کی بات ہی نہیں کرتے جو کہ اللہ کے انعامات ہمیں حاصل ہیں اور پاکستان سے باہر مفقود ہیں۔ بہت سی ایسی نعمتیں ہیں جن کے لئے باہر جانے والے ترستے ہیں ، اور یہ حتمی بات ہے۔ بظاہر نظر آتا ہے کہ پاکستان سے باہر جاکر دولت کمانا بہت آسان ہے لیکن اندر کی بات یہ ہے کہ باہر کا پیسہ کمانے والے کو بہت مہنگا پڑتا ہے ، یہ وہی جانتا ہے اور دوسروں کے سامنے کبھی اقرار نہیں کرتا۔ جذباتی، نفسیاتی اور معاشرتی اعتبار سے تارکینِ وطن نارمل نہیں رہتے ماسوائے معدودے چند کے۔ انسان محض جسم پر مشتمل مخلوق نہیں، اس میں دل، دماغ، روح، شعور . . .بھی موجود ہے اور پیسہ ان سب کی ضروریات کے لئے کافی نہیں ہوتا ۔ سب سے بڑی چیز دل کا سکون ہے، کتنے ہی لوگوں کو دیکھا ہے جو باہر ہوتے ہیں اور پاکستان آنے کی حسرت کرتے ہیں ، صبح شام اپنی مٹی کی کشش میں مبتلا رہتے ہیں لیکن . . . ایک بار باہر جانے کے بعد اُس لوک کہانی کی طرح طلسم کا شکار ہوکر مٹی کے بن کر اپنی جگہ بےبس رہ جاتے ہیں۔ اور کئی خوش قسمت ایسے ہیں جو اس طلسم کو توڑ کر واپس آنے میں کامیاب ہوجائیں۔

Leave a Reply to فصیح محمود جواب منسوخ کریں۔

Your email address will not be published. Required fields are marked *