فروری 18, 2021
تبصرہ کریں

ہمیں سیاحت اور فوٹوگرافی کے لئے پیسہ کہاں سے ملتا ہے؟

ہم جیسوں کے بارے میں اکثر لوگوں کے ذہن میں یہ سوال آتا ہے کہ انہیں سیاحت اور فوٹوگرافی کے لئے پیسہ کہاں سے ملتا ہے؟ کچھ سوچتے ہیں کہ جی ان کے پاس تو وافر پیسہ ہو گا یا انہیں سپانسر ملتا ہو گا۔ جبھی تو آئے روز سیروسیاحت کو نکلے ہوتے ہیں۔ ٹھیک ہے کہ سیاحت اور فوٹوگرافی کا شوق رکھنے والے کچھ لوگوں کے پاس ریل پھیل ہو گی، لیکن سب کے پاس نہیں ہوتی۔ خیر دوسروں کو چھوڑیں، ابھی اپنا بتاتا ہوں۔ اور مجھے یہ سب بتانے میں کوئی عار نہیں کہ←  مزید پڑھیے
فروری 17, 2021
تبصرہ کریں

استادیاں شاگردیاں

غروب ہوتے سورج کی آخری کرنیں ہمالیہ کے پیرپنجال سلسلے پر پڑ رہی تھیں اور میں فطرت کی تجربہ گاہ میں کیمرہ لگائے سیکھ رہا تھا۔ گویا مظاہرِ قدرت استاد تھے اور میں شاگرد۔ ویسے میں تو ہمیشہ سے ہی شاگرد ہوں۔ بابا جی نے کہا تھا کہ پُتر اگر آگے سے آگے بڑھنا چاہتے ہو تو کم از کم سیکھنے کے معاملے میں انا کو مار دینا اور ہمیشہ شاگرد بن کر رہنا، علم کے آگے سر جھکائے رکھنا۔ بس جی! اسی لئے آج تک طفلِ مکتب ہی ہوں اور کسی کو اپنا شاگرد نہیں بنا سکتا۔ کیونکہ وہ ایک کہاوت ہے کہ بکری کے بچے جب جوان ہو جاتے ہیں تو وہ اپنی ماں پر ہی ”ٹپوشیاں“ لگانے لگتے ہیں۔ بالکل ایسے ہی کچھ شاگرد بھی اپنے استاد پر چڑھ کر←  مزید پڑھیے
فروری 10, 2021
تبصرہ کریں

روک دو، ٹھوک دو، سارے کھیل بند کر دو

او خدا کے بندو! تمہارے پاس پابندی لگا دو، روک دو، ٹھوک دو اور پھٹ جاؤ کے علاوہ کیا کوئی بات نہیں؟ مسائل کا کیا دوسرا کوئی حل نہیں؟ کبھی سوچا کہ تم لوگوں نے راہ چلتے کی پابندیاں لگا لگا کر معاشرے کو چڑچڑا کر چھوڑا ہے۔ لوگوں کو نفسیاتی مریض بنا دیا ہے۔۔۔ خیر تمہارا بھی قصور نہیں، تمہیں پٹی ہی یہی پڑھائی گئی۔۔۔ بہرحال کبھی تھوڑے ٹھنڈے دماغ سے سوچنا کہ ہر جگہ قانون کا مطلب پابندیاں لگانا نہیں ہوتا بلکہ مسائل کا بہتر سے بہتر حل اور چیزوں کو ”چینلائز“ کرنا ہوتا ہے۔ وہ کیا ہے کہ جیسے دریاؤں کے آگے بند باندھ کر انہیں روکا نہیں جا سکتا، ایسے ہی انسانی خواہش کے آگے←  مزید پڑھیے
جنوری 29, 2021
تبصرہ کریں

اور جب پُلوں نے منظرباز کو بلایا

اس مقام سے بہت اوپر ”پنج آب“ نے عشق کی معراج پائی اور اپنا آپ سندھو ندی میں فنا کر دیا۔۔۔ کسی کو محبوب نہر والے پُل پر بلاتے ہیں تو مجھے خود پُلوں نے ہی بلا رکھا تھا۔۔۔ وہ جس کے عشق میں راوی و چناب فنا ہوئے، اسی دریائے سندھ کے اک کنارے تاریک رات میں جیسے تیسے پہنچا۔ سامنے ہی ایوب اور لینس ڈاؤن پل سکھر روہڑی تھا۔ مگر میرے ارد گرد غضب کی تنہائی تھی۔ کچھ کچھ ڈر بھی لگ رہا تھا کہ اگر کوئی بندہ آ گیا تو مجھے یہ سب کرتا دیکھ کر یقیناً شک کرے گا۔ اس لئے جلدی جلدی اپنا کام کرتا رہا۔ اور پھر وہی ہوا جس کا ڈر تھا۔ اچانک سے ایک بندے نے مجھے←  مزید پڑھیے
جنوری 28, 2021
1 تبصرہ

اروڑ کا جبلِ محبت – پربتِ عشق

رنی کوٹ قلعہ کے بعد ہماری منزل سکھر روہڑی کے قریب اروڑ میں وہ میدان تھا کہ جہاں محمد بن قاسم اور راجہ دہر کی جنگ ہوئی تھی۔ اسی میدان میں موجود پربتِ عشق بھی دیکھنا تھا۔ اور جب ایک بندے سے راستہ پوچھتے ہوئے بتایا کہ بس پہاڑی کی تصویر بنانے جانا ہے تو اس نے نہایت تجسس سے کہا کہ اللہ تجھے مدینے لے جائے۔ اک تصویر کے لئے اس خراب موسم میں اتنی خجل خواری۔۔۔ خیر پربتِ عشق کو دیکھ کر سوچا کہ جہاں کسی نے میدانِ جنگ سجایا تھا، آج عین وہیں یہ پہاڑی محبت کی صدائیں لگا رہی ہے۔ گویا تلوار ہار گئی، عشق جیت گیا۔ مگر مجھے کیا معلوم تھا کہ ابھی ہمارے ساتھ کچھ ایسا ہو گا کہ←  مزید پڑھیے