اکتوبر 26, 2010 - ایم بلال ایم
4 تبصر ے

ہماری مایوسی اور مثبت سوچ

بسم اللہ الرحمن الرحیم
اکثر مثبت سوچ کی ترویج کے لئے ایک بات کی جاتی ہے کہ ”گلاس کو آدھا خالی نہ دیکھو بلکہ آدھا بھرا ہوا دیکھو“۔
جو لوگ مشکل سر پر ہو لیکن اپنی آنکھیں بند کر لیتے ہیں ایسے لوگوں کی ہمت بڑھانے اور مشکل کا مقابلہ کرنے کے لئے حوصلہ دیتے ہوئے کہا جاتا ہے بلکہ اکثر تنقیدی انداز میں کہا جاتا ہے کہ ”بلی کو دیکھ کر کبوتر کی طرح آنکھیں بند کر لینا کسی مسئلے کا حل نہیں“۔
میں اکثر ان دونوں باتوں کی وجہ سے کافی ”کنفیوز“ ہو جاتا ہوں۔ جب کہیں پڑھتا یا سنتا ہوں کہ یہ ٹی وی اینکر، کالم نگار اور باقی لکھاری وغیرہ ملک کی خرابیاں ہی دیکھتے ہیں اور پھر دوسروں کو بتاتے ہیں۔ یہ لوگ ملک میں مایوسی پھیلا رہے ہیں۔ یہاں پھر وہی بات میرے ذہن میں آتی ہے کہ واقعی گلاس کو آدھا خالی نہیں دیکھنا چاہئے بلکہ آدھا بھرا ہوا بھی تو ہے۔ کچھ دیر اسی پر اتفاق رکھتا ہوں لیکن ساتھ ہی جب یہ خیال آتا ہے کہ بلی کو دیکھ کر کبوتر کی طرح آنکھیں بند کر لینا بھی تو کوئی سمجھداری نہیں تو پھر سوچتا ہوں، نہیں نہیں خرابیاں سب کے سامنے لائی جانی چاہئیں، تاکہ لوگوں کو پتہ چلے کہ ہمارے ملک میں کیا کیا گل کھلائے جا رہے ہیں، عوام کو جگایا جائے اور بتایا جائے کہ غفلت کی نیند سے جاگو اور ہوش کرو۔
مزید اس تحریر میں مایوسی اور مثبت سوچ پر بالکل تھوڑی سی بات کرتا ہوں۔
ایک چھوٹی سی فرضی کہانی، کسی کالم نگار نے اپنے کالم میں کچھ خرابیاں بیان کیں، کالم نگار نے جو دیکھا وہ بیان کر دیا تاکہ باقیوں کو بھی پتہ چل جائے کہ آج کل کیا چل رہا ہے۔ اب کالم نگار بیچارہ کیا کرے؟ آدھا گلاس بھرا تو دور یہاں تو سارا گلاس ہی خالی ہے۔ بس کہیں کونے میں ایک چھوٹا سا قطرہ ہے۔ جس کے گرد بھی اتنی گندگی ہے کہ وہ قطرہ بھی گندہ معلوم ہوتا ہے۔۔۔ خیر
اب اس کالم کو ”زاہد“ نے پڑھا اور سوچا کہ دیکھو یار ملک کے حالات بہت خراب ہیں۔ پچھلی آدھی صدی سے یہی سب چل رہا ہے۔ ایک ایسا نظام تیار ہو چکا ہے جو کبھی ٹھیک نہیں ہو سکتا۔ حکمران سے لے کر ایک عام انسان تک، سب کے سب خراب ہو چکے ہیں۔ اس لئے بہتر یہی ہے کہ انہیں ہواؤں کے رخ پر اپنا رخ کر لوں اور بہتی گنگا میں جہاں دوسرے ہاتھ دھو رہے ہیں میں بھی دھوتا جاؤں، ویسے بھی جہاں سب اپنا الو سیدھا کر رہے ہیں وہاں پر میں نے کچھ کر لیا تو کوئی فرق نہیں پڑتا یا پھر چھوڑوں اس ملک کو، اور کہیں چلتے ہیں۔ ”اس ملک کا کچھ نہیں ہو سکتا“ کی صدا لگاتے ہوئے ”حضرت“ چل دیئے۔
دوسری طرف ”پاڈا صاحب“ نے بھی وہی کالم پڑھا۔ اب ”پاڈا صاحب“ پڑھے لکھے انسان ہیں، تھوڑی سمجھ بوجھ رکھتے ہیں۔ تنقید کے ماہر ہیں۔ میری طرح صرف باتیں ہی کرتے ہیں۔ ”پاڈا صاحب“ کے خلوص میں کوئی شک نہیں لیکن بیچارے کر کچھ نہیں سکتے اس لئے صرف تنقید پر ہی گذارہ کرتے ہیں۔ زاہد جیسے لوگوں کو اکثر دیکھتے رہتے ہیں۔ آ جا کر جب کچھ نہ بن پاتا تو جناب فرماتے ہیں کہ یہ کالم نگار عوام میں مایوسی پھیلا رہے ہیں۔
تیسری طرف ”بکر“ نے بھی اسی کالم کو پڑھا اور سوچا! یار ملک کے حالات بہت خراب ہو چکے ہیں۔ پچھلی آدھی صدی سے یہی سب چل رہا ہے۔ بہت گند ہو چکا ہے۔ آخر کسی نے تو صفائی کرنی ہے۔ کوئی اور نہیں تو میں ہی سہی۔ چلو میں خوشحالی نہ دیکھوں لیکن ہماری آنے والی نسلیں تو دیکھیں گی۔ چلو کوئی یاد رکھے نہ رکھے لیکن اچھائی کے سمندر میں ایک قطرہ میں بھی تو ہوں گا۔ سمندر نہ بھی بن پایا تو کم از کم میرا نام برائی والی فہرست میں تو نہیں ہو گا۔ایسا تو ایسا ہی سہی۔ شاید میرا کردار بس سٹیج کے ایک کونے میں کھڑے ہو کر آہستہ آہستہ آواز لگانے کا ہی ہے۔ بے شک میری آواز کوئی نہیں سنے گا لیکن میرا ضمیر اور میرا رب ضرور سنے گا۔
کہانی ختم، فیصلہ آپ لوگوں کے ہاتھ میں، بس اتنا سوچو !
خرابی کی نشان دہی کس نے کی تاکہ اس کا سدِ باب ہو سکے؟ بلی کو دیکھ کر آنکھیں کس نے بند کیں؟ مایوس کون ہوا؟مایوس ہو کر مایوسی کا سبب کون بنا؟ مایوسی کو مزید تقویت کس نے دی؟ ہمت کس نے کی؟ گلاس آدھا بھرا ہو کس نے دیکھا؟ مثبت سوچ نے کہاں سے جنم لیا؟ مثبت سوچ کس نے اختیار کی؟ ہماری مایوسی اور مثبت سوچ کہاں کہاں اور کس کس روپ میں ہے؟

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست 4 تبصرے برائے تحریر ”ہماری مایوسی اور مثبت سوچ

  1. بلال م،یرے کام کا کیا ہوا ۔۔ آپ بھی کمال کرتے ہو کب سے کہا ہوا ہے ۔ ہر بار ہاں ہاں کر لیتے ہو ۔ لیکن کام نہیں کر پاتے ۔ اگر نہیں کر سکتے تو کہتے کیوں ہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ ہماری سوچ ہے ۔۔۔ ہم اپنے آپ کو دیکھتے ہیں ۔ دوسرے پر کیا گزرتی ہے ۔۔۔۔۔ اس سے ہیمں کیا ۔ میرا آج اچھا ہو جائے بھلے دوسرے کی ساری زندگی خراب ۔۔۔۔۔ سب سے پہلے اپنی سوچ کو یہ سوچ کر تبدیل کرنا ہو گا ۔ کہ اپنے علاوہ بھی دکھ بہت ہیں ۔۔۔ اپنے سے نیچے کو دیکھو تب پتا چلتا ہے۔۔۔۔۔ اس وقت ہر کوئی بس یہی سوچ لے کہ مجھے اپنے علاوہ بھی بہت کچھ کرنا ہے ۔۔۔۔۔ بدلے کے لیے نہیں بس کر کے بھول جانا ہے اب دوسرا اسی طرح کرتا جائے ۔۔۔۔ آپ دیکھو گے وہ دن دور نہیں جب دور بیٹھے ادھا گلاس ببھرا ہوا لگے گا ۔۔۔۔۔

  2. بھای صا حب !
    بات اتنی سی ہے کہ:
    ہمیشہ اچھا سوچو اور اچھا کرو سب کے لیے

    اگر اچھا سوچ نہیں سکتے اور کر نہیں سکتے
    تو پھر کہچھ غلط بھی مت کرو ؛

  3. برائی کی نشاندہی کرنا محض کسی صحافی ہی کی ذمہ داری نہیں بلکہ ہر ذمہ دار اور معاشرہ کو بہتر بنانے کی خواہش رکھنے والوں کا فرض ہے کہ وہ یہاں موجود برائیوں اور خامیوں کو آشکار کرے۔ دنیا میں کوئی شخص ایسا نہیں جو آپ کے منہ سے نکلی ہوئی بات کا وہی مطلب نکالے جو حقیقت میں آپ کے ذہن میں موجود ہے۔ اس لئے آپ کے صرف دو لفظ جہاں کسی کی حوصلہ افزائی کا باعث بن سکتے ہیں تو ممکن ہے وہ کسی حاسد کے لیے جلتی پر تیل چھڑکنے کے مترادف ہوں۔ اس لئے کسی پر تنقید برائے اصلاح کرنا کسی طور مایوسی کی تبلیغ نہیں۔

  4. تانیہ رحمان کے تبصرہ کا جواب

    سوچیں تو بہت تبدیل کرنی ہیں تب جا کر آدھا گلاس بھرا ہوا نظر آئے گا کیونکہ یہاں تو ”آوے کا آوا“ ہی بگڑا ہوا ہے۔
    ماموں کے تبصرہ کا جواب

    بات تو آپ کی ٹھیک ہے لیکن جب اچھا نہیں سوچیں گیں تو یقینا بری سوچ ہی ہو گی اور پھر برا نہ ہو یہ بات کافی مشکل معلوم ہوتی ہے۔ اس لئے میرے خیال میں کم از کم اچھا سوچنا ضرور پڑے گا۔
    محمداسد کے تبصرہ کا جواب

    واہ کیا خوب بات کی۔ بالکل برائی کی نشاندہی کرنا صرف صحافی کا کام نہیں بلکہ جب پورا معاشرہ اس طرف توجہ دے گا تو نظام بہتر ہوتے دیر نہیں لگے۔ ویسے صحافی والی بات تو ایک فرضی کہانی کے لئے ہے۔ اس میں‌کوئی شک نہیں کہ تنقید برائے اصلاح مایوسی کی تبلیغ نہیں لیکن یہ تحریر لکھنی اسی لئے پڑی کہ کچھ لوگ تنقید برائے اصلاح کو مایوسی کی تبلیغ سمجھ رہے تھے۔ بلکہ میری نظر میں تو وہ خود مایوس ہو چکے ہیں اور مایوسی کو مزید تقویت دے رہے ہیں۔

Leave a Reply to ماموں جواب منسوخ کریں۔

Your email address will not be published. Required fields are marked *