ستمبر 15, 2014 - ایم بلال ایم
16 تبصر ے

سیلاب کی ایک رات

کئی دنوں بعد دھوپ نکلی۔ ہر چیز اجلی اجلی تھی۔ شاید باہر کا موسم خوبصورت تھا، مگر دل افسردہ تھا۔ کیونکہ چند فرلانگ کے فاصلے پر دنیا ہی بدل چکی تھی۔ اچھے بھلے گھر برباد ہو چکے تھے۔ محض ایک رات میں دیہاتوں کے دیہات اجڑ چکے تھے۔ کئی لوگ انتظامیہ کے کہنے پر گھر بار چھوڑ کر نکلے اور بہتوں کو پانی نے خود آ کر نکالا۔ اس کے باوجود بھی چند لوگ گھر چھوڑنے کو تیار نہیں تھے۔ وہ کہتے کہ اگر ہمارا گھر فنا ہونا ہے تو ہم بھی اس کے ساتھ ہی فنا ہونا پسند کریں گے۔

ایک دو دن سے انتظامیہ مسلسل گاؤں گاؤں جا کر اعلان کرتی کہ جلد ہی پانی کا ایک بڑا ریلا آ رہا ہے۔ آپ کا گاؤں دریائے چناب کے نہایت قریب ہے، اس لئے ادھر بھی سیلاب آئے گا۔ جلد سے جلد علاقہ خالی کر دیں اور کسی محفوظ مقام پر پہنچ جائیں۔ انتظامیہ کے اس اعلان پر دیہاتیوں کو معمولی سی پریشانی تو ہوتی مگر خاص کان نہ دھرتے اور اپنے معمول کے کاموں میں لگے رہتے۔ اس دن بھی کوئی صبح صبح اٹھ کر کھیتوں کی طرف گیا تو کوئی قریبی شہر میں مزدوری کرنے گیا۔ پیچھے سے دن بھر انتظامیہ اعلان کرتی رہی۔ بہتوں کے کان پر جوں تک نہ رینگی۔ جب دریائے چناب کے کناروں سے پانی باہر نکلنے لگا تو کئی لوگوں کو فکر ہوئی۔ گھر کا قیمتی سامان، بچوں اور عورتوں کو محفوظ مقامات پر منتقل کرنے لگے۔ پھر بھی زیادہ تر لوگ گاؤں میں ہی رہے۔

دو دن سے مسلسل سیلاب کا جائزہ لے رہا تھا۔ تھوڑا بہت پانی تو پہلے ہی دریا کے کناروں سے باہر نکل چکا تھا۔ کئی دیہاتوں میں پانی پھیل چکا تھا مگر پانی اتنا زیادہ نہیں تھا کہ کاروبارِ زندگی رک جائے۔ پھر اس دن کے پچھلے پہر بہت زیادہ پانی دریا سے نکل کر دیہاتوں میں داخل ہونے لگا۔ تب میں دریا کے کنارے بلند اور محفوظ مقام پر کھڑا تھا۔ اس علاقے میں تعینات فلڈ ریلیف انتظامیہ کا ایک افسر میرا جاننے والا تھا۔ وہ بھی میرے پاس آ کھڑے ہوئے۔ میں نے ان سے پوچھا کہ جناب میرے لائق کوئی کام ہو تو بتاؤ۔ انہوں نے کہا کہ فلاں علاقے کی صورتحال معلوم نہیں ہو رہی۔ کسی بندے سے رابطہ نہیں ہو رہا۔ میں نے کہا کہ دو گھنٹے پہلے میں اس علاقے کے قریب پہنچا تھا۔ فلاں فلاں جگہ پر پانی اتنا تھا کہ اس میں سے موٹرسائیکل نہیں گزر سکتا تھا۔ لہٰذا ادھر سے ہی واپس آ گیا اور پانی کی صورت حال اسی وقت آپ کے ادارے کو بتا دی تھی۔ خیر اس کے بعد وہ کہنے لگے کہ میرے پاس موٹر سائیکل نہیں اور اس علاقے تک کار نہیں جا سکے گی۔ کیا تم مجھے وہاں تک لے جا سکتے ہو؟

جب ہم دونوں اس علاقے میں پہنچے تو شام ہونے والی تھی۔ تھوڑی دور تین چار دیہات پانی میں ڈوبے نظر آ رہے تھے۔ لوگ سر اور کندھوں پر سامان اور بچوں کو اٹھائے بمشکل پانی سے نکل رہے تھے۔ ان کے چہرے لٹکے ہوئے تھے۔ پانی سے باہر پہنچتے ہی عورتیں بین کرنا اور بچے رونا شروع ہو جاتے۔ تھکے ہارے مرد ایک طرف بیٹھ کر اپنے گھروں اور فصلوں کو افسردہ نظروں سے دیکھتے۔ ظاہری حالات کی طرح ان کے دلوں میں بھی پہلے شام اور پھر رات ہو گئی۔ میں نے موٹر سائیکل اسٹارٹ کر کے اس کی روشنی جلا دی۔ اسی دوران جب پانی سے نکلنے والوں کی معمولی سی مدد کر رہا تھا تو ایک نوجوان نے مجھے انتظامیہ کا بندہ سمجھا اور میرے پاس آکر غصے سے باتیں کرنے لگا کہ اب جب ہم ڈوب رہے ہیں تو تم آئے ہو۔ پہلے کہاں مر گئے تھے۔ اس کی باتوں پر مجھے غصہ آیا اور جب میں بولنے لگا تو ساتھ ہی دماغ نے کام کیا اور مجھے اس نوجوان کی تکلیف اور جذبات کا بخوبی اندازہ ہو گیا۔ یوں چپ کر کے اس کی ساری باتیں سنیں۔ اتنے میں چند لوگ اسے سمجھاتے ہوئے پرے لے گئے۔

جب اس نوجوان کا غصہ ٹھنڈا ہوا تو میں اس کے پاس جا بیٹھا۔ اسے کہا کہ میرے بھائی اول تو میں انتظامیہ کا بندہ نہیں بس رضاکارانہ طور پر یہاں آیا ہوں۔ دوسرا جب اتنے دن سے انتظامیہ آپ لوگوں کو کہہ رہی تھی تو آپ نے اپنا انتظام کیوں نہ کیا؟ وہ بولا کہ ہم غریب لوگ ہیں۔ ہمارے پاس نقل مکانی کے لئے وسائل نہیں۔ ویسے بھی جائیں تو کدھر جائیں؟ اوپر سے ہمارے ساتھ تو ”شیر آیا، شیر آیا“ ہوا ہے۔ سالہا سال سے انتظامیہ حفظ ماتقدم کے طور پر ایسے اعلان کرتی آئی ہے۔ جب پہلے سال اعلان ہوا تو ہمارے بڑے گاؤں چھوڑ گئے تھے مگر ذرا بھی پانی گاؤں تک نہیں آیا تھا۔ دوسرے دن جب واپس گاؤں آئے تو چور کئی گھروں کا صفایا کر چکے تھے۔ اس کے بعد ہر سال انتظامیہ اعلان کرتی اور ہم گاؤں میں ہی رہتے اور سیلاب بھی نہیں آتا تھا۔ اب بھی ہم وہی سمجھتے رہے مگر سیلاب آ گیا۔ ہم برباد ہو گئے ہیں۔ بھائی مجھے معاف کر دو۔ فلاں جگہ پر جہاں پانی کا بہاؤ تیز ہے، ادھر میرے گھر والے اور کچھ دیگر لوگ پھنس گئے ہیں۔ سب چھتوں پر چڑھ کر جان بچائے بیٹھے ہیں۔ میں ایک لکڑی کے سہارے ادھر سے نکلا تاکہ ان کا کوئی بندوبست کر سکوں۔ خدا کے لئے میرے لوگوں کو بچا لو۔

ویسے مجبوری اور بے بسی بڑی ظالم ہوتی ہے۔ اللہ سب کو ان سے بچائے۔ خیر نوجوان کی بات سنتے ہی فوراً انتظامیہ والے بندے کے پاس گیا اور انہیں حالات بتائے۔ انہوں نے کشتی والی امدادی ٹیم سے رابطہ کیا اور معلوم ہوا کہ امدادی ٹیم پہنچنے میں کافی وقت لگے گا۔ میں نے کہا کہ حالات جو ہیں وہی بتائیے گا، سرکاری یا سیاسی بیان نہ دیجئے گا۔ یہ وقت تسلی کا نہیں بلکہ کچھ کرنے کا ہے۔اگر کشتی وقت پر پہنچنی ہے تو ٹھیک ورنہ صاف بتائیں تاکہ کچھ اور کرنے کا سوچیں۔ میرے ذہن میں خیال آیا کہ فلاں دیہات کے لڑکے بڑے اچھے تیراک ہیں اور وہ تقریباً روزانہ گاڑی یا ٹریکٹر وغیرہ کے ٹائر کی ٹیوب کے سہارے دریا عبور کرتے ہیں۔ ان کو تلاش کرتا ہوں، اگر ان کے پاس ٹیوب ہوئی تو ٹھیک ورنہ ابھی ہی دوستوں کو کہتا ہوں کہ جیسے تیسے کر کے فوراً اپنی اپنی گاڑیوں کے ٹائیروں سے ٹیوبیں نکلوائیں، ان میں ہوا بھر کر اور ساتھ میں روشنی کے لئے ٹارچ وغیرہ جتنی گھروں میں موجود ہیں سب لے کر فلاں جگہ پہنچیں۔ اتنے میں تیراک لڑکے بھی اکٹھے ہو جائیں گے اور ضروری سامان بھی مہیا ہو جائے گا۔ پھر وہ پھنسے لوگوں کو ان شاء اللہ ضرور نکال لائیں گے۔ خیر فوری اپنا پلان ترتیب دے کر دوستوں سے رابطے کرنے ہی لگا تھا کہ انتظامیہ والے صاحب نے کہا: فوج کی امدادی ٹیم یہاں سے بہت دور ہے، اس کے آنے میں وقت لگے گا، جبکہ گزرتے ہوئے ایک ایک لمحے کے ساتھ خطرہ بڑھ رہا ہے۔ لیکن اچھی خبر یہ ہے کہ قریبی علاقے میں ریسکیو 1122 کی ٹیم موجود ہے۔ ان سے بمشکل رابطہ ہوا ہے۔ وہ کہہ رہے ہیں کہ ہم جلد ہی کشتی کے ذریعے فلاں طرف سے علاقے میں داخل ہو کر لوگوں کو ریسکیو کرتے ہیں۔ یہ بات سن کر کچھ امید بندھی۔

میرا موٹر سائیکل پانی کے قریب مگر خشکی پر کھڑا تھا۔ اب کیا دیکھتا ہوں کہ اس کے ٹائر تھوڑے تھوڑے پانی میں ڈوب چکے ہیں۔ سبھی کو کہا ہے کہ میرے خیال سے اب ہمیں بھی یہاں سے نکلنا چاہیئے، کیونکہ ادھر بھی پانی کی سطح بلند ہو رہی ہے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ ہم خود پھنس جائیں۔ مزید لوگ آنے بند ہو چکے تھے۔ دراصل جو دیہاتوں میں رہ گئے تھے انہوں نے نکلنے میں تاخیر کر دی اور پھنس گئے۔ خیر جو لوگ اس وقت تک ادھر آ چکے تھے، انہیں لے کر نکل آئے۔

اگلے دن نکھری نکھری دھوپ میں دریا کنارے بیٹھا سوچ رہا تھا کہ اللہ کا شکر ہے کہ اس علاقے کے تمام لوگ بچ گئے۔ امدادی ٹیم بروقت پہنچ گئی اور کوئی ایک بھی انسان جان سے نہیں گیا۔ اوپر سے سیلابی ریلا جلد ہی اختتام پذیر ہوا۔ البتہ فصلیں اور کئی گھر تباہ ہو گئے۔ لوگوں کی زندگی بھر کی جمع پونجی دریا برد ہو گئی۔ میں مسلسل دریا کو گھورتا رہا اور آخر اس سے مخاطب ہو کر بولا: لوگ تو تیرے عاشق ہیں، صدیوں سے ہمارے اباؤاجداد تیرے کناروں پر بسیرا کیے ہوئے ہیں، مگر تو کسی بے وفا صنم سے کم نہیں۔ جب تیرا دل کرتا ہے حشر بپا کر دیتا ہے اور جب چاہے خاموش ہو جاتا ہے۔ اپنی مرضی کا مالک ہے اور چھوٹی سی بات پر بپھرتے تجھے دیر نہیں لگتی۔ بس ایک رات میں لوگوں کا سب کچھ لوٹ کر لے جاتا ہے۔ بھلا یہ کیا بات ہوئی کہ فقط سیلاب کی ایک رات۔۔۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست 16 تبصرے برائے تحریر ”سیلاب کی ایک رات

  1. سیلاب کی یہ ایک رات کسی کی پوری زندگی پر محیط ہو جاتی ہے ۔ اور جسے دوسروں کی مدد کی توفیق نصیب ہو جائے اُس کے لیے یہ ایک رات بہت سی تاریک راتوں میں روشنی کی کرن بن کر طلوع ہوتی ہے۔
    آپ ماشاء اللہ بلاگر باعمل ہیں ۔ اللہ آپ کو مزید ہمت و جرأت عطا فرمائے ۔

  2. بھائی دریا میں اتنی مجال کہاں کہ وہ خود سے لوگوں کو ڈبا سکے بس ہوتا وہی ہے جو میرا اللہ چاہتا ہے۔ ہم جب سیلاب زدگان کی خبریں پڑھتے یا سنتے تو ہمارا دل خون کے آنسو رو رہا ہوتا کہ میرے بھائیوں کا کیا ھال ہے ہم یہاں چین و سکون سے زندگی بسر کر رہے ہیں اور وہاں لوگ مصیبت میں پھنسے ہوئے ہیں۔
    لیکن ایک جملہ دل کو تسلی دیتا کہ جس رب نے دریا میں اتنی طغیانی دی وہی تو انہیں بھی پالنے والا ہے وہی تو مالک ہے وہی ہم سب کو کھلا تا ہے اور وہ جانتا ہے کہ ہمارے لئے کیا بہتر ہے اور ہمارا رب کرتا وہی ہے جو ہمارے لیئے بہتر ہو ۔
    بس اللہ سے دعا کریں کہ اللہ سب کے حالات درست کردے اور ان کو معمول کے مطابق زندگی گذارنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین ثم آمین
    محمد زاہد الاعظمی الھندی

  3. اللہ کرم کرے گا۔ اسی سیلابی پانی سے زمین زرخیز ہو گی اور اچھی فصلیں‌ہوں گی۔
    اللہ سائیں خیر کرے۔
    بس ہمارے پالیسی اور منصوبہ ساز مناسب منصوبہ سازی کر لیں تو بہت سے مسائل حل ہو جائیں گے سیلاب چاہے ہر سال آتا رہے۔

  4. بے وفا صنم دریا کا کوئی بندوبست کر لیں تو ہر دوسرے سال تماشہ نہ لگا کرے۔۔۔ نالائقی ہے انتظامیہ کی، اور کچھ لوگوں کی بھی جنہوں نے سستی کا مظاہرہ کیا۔ بہرحال کر بھلا سو ہو بھلا، انت بھلے کا بھلا۔۔۔

  5. بات تو سچ ہے دریا کی بےوفائی کی لیکن۔ ۔ ۔سیلاب کا سیزن آؤٹ ہوجائے تو لوگ بھول جاتے ہیں کہ ہرجائی دریا نے کیا کیا ستم ڈھائے تھے اور صرف سیلاب کے نقصانات اور سفاکی کے بارے میں ہی نہیں واویلا کرتے رہنا بلکہ حفاظتی اقدامات کے بارے میں بھی پیش بندی کرنی چاہیئے۔

  6. بس اللہ سے دعا کریں کہ اللہ سب کے حالات درست کردے اور ان کو معمول کے مطابق زندگی گذارنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین ثم آمین

  7. بہت خوشی ہوئی یہ جان کر کہ آپ نے انتظامیہ کے ساتھ مل کر دکھی، مجبور اور بے بس انسانوں کی مدد فرمائی۔ اللہ عزوجل سے دعا ہے کہ وہ اہلَ لاہور کے ضمیر کو بھی جگا دے ان کی اس سلسلے میں غفلت جرم کی حد تک دکھائی دی ہے۔ آمین

  8. کسی بھی دکھ اور مصیبت کا احساس حقیقی معنوں میں اسے ہوتا ہے جس پر یہ سب کچھ بیت رہاہوتا ہے دوسرے تو صرف اسکی کہانی سن یا پڑھ رہے ہوتے ہیں۔البتہ جو لوگ اس منظر کو اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہوتے ہیں ان کےجذبات مختلف ہوتے ہیں جیسے بلا ل جنہوں نے یہ سارا منظر اپنی آنکھوں سے دیکھا اور پھر اس کی منظرکشی تحریری طور پر کی۔جسے پڑھ کر ہر درد دل رکھنے والے کے آنسوں ضرور ابل پڑتے ہیں ۔اللہ پاک ہر انسان پر رحم فرمائے اور ہر مسلمان کو توبہ کرنے کی توفیق مرحمت فرمادے آمین یا رب العالمین۔

  9. بہت اچھی بات ہے کہ آپ نے سیلا ب زدگان کی اپنے طور پر مدد کی اور ان کے درد کو بیان کیا- اسی طرح آپ پختون خواہ میں موجود آئی ڈی پیز کے درد اور دکھ کو سمجھ کربیان کریں- یقینآ وہ بھی پاکستانی ہیں-

  10. السلام علیکم بھائی
    آپ کے بلاگ اور ویب سائٹ کو دیکھ کر ہمت پکڑی اور بلاگنگ کی ابتدا آج سے کی ۔۔۔ بلاگ بنایا اور جتنا آپ تھریروں سے راہنمائی ملی اسی قدر اپنے پرچے کو بنانے کی کوشش کی ۔۔ ہوسکے تو ذرا مزید راہنائی فرمائیے گا تاکہ ہمت جوان رہے
    ساحر حسن

Leave a Reply to منہاج الحق جواب منسوخ کریں۔

Your email address will not be published. Required fields are marked *