فروری 10, 2021 - ایم بلال ایم
تبصرہ کریں

روک دو، ٹھوک دو، سارے کھیل بند کر دو

او خدا کے بندو! تمہارے پاس پابندی لگا دو، روک دو، ٹھوک دو اور پھٹ جاؤ کے علاوہ کیا کوئی بات نہیں؟ مسائل کا کیا دوسرا کوئی حل نہیں؟ کبھی سوچا کہ تم لوگوں نے راہ چلتے کی پابندیاں لگا لگا کر معاشرے کو چڑچڑا کر چھوڑا ہے۔ لوگوں کو نفسیاتی مریض بنا دیا ہے۔۔۔ خیر تمہارا بھی قصور نہیں، تمہیں پٹی ہی یہی پڑھائی گئی۔۔۔ بہرحال کبھی تھوڑے ٹھنڈے دماغ سے سوچنا کہ ہر جگہ قانون کا مطلب پابندیاں لگانا نہیں ہوتا بلکہ مسائل کا بہتر سے بہتر حل اور چیزوں کو ”چینلائز“ کرنا ہوتا ہے۔ وہ کیا ہے کہ دریاؤں کے آگے بند باندھ کر انہیں مکمل طور پر روکا نہیں جاتا، بلکہ چینلائز کیا جاتا ہے یعنی ان کی بہتر سمت اندازی کی جاتی ہے۔ تاکہ وہ بھی بہتے رہیں اور معاشرے کو ان کا فائدہ بھی ہوتا رہے۔ اور اگر طاقت کے زور پر مکمل روک دیا جائے تو بے شک کچھ عرصہ کام چلتا رہے لیکن ایک نہ ایک دن ڈھیر سارا پانی سارے بند توڑ کر ایسا دھماکہ کرے گا کہ بستیوں کی بستیاں تباہ و برباد کر دے گا۔۔۔ بالکل ایسے ہی لوگوں کے جذبات، کیفیات اور عادات پر پابندیاں لگا(دبا) دینا حماقت ہوتی ہے۔ اسی لئے فطرت نے حضرتِ انسان کو انہیں بہتر طریقے سے ”چینلائز“ کرنا سکھایا۔ تاکہ قانون کے دائرے میں رہ کر ان کی تشفی بھی ہو سکے اور معاشرے کو ان کا کوئی نقصان بھی نہ ہو۔ بلکہ الٹا ان سے فوائد حاصل کیے جائیں۔۔۔ مذاہب عالم نے بھی کچھ ایسا ہی کیا اور وہ جو فطرت سے ہٹ کر چلتے ہیں وہ اپنی موت آپ ہی مر جاتے ہیں۔

ہر انسان اللہ میاں کی گائے نہیں ہوتا۔ اگر کچھ لوگ پیدائشی طور پر ذہین، انقلابی، فنکار یا کوئی بھی خاصیت رکھتے ہیں، تو دوسری طرف کچھ لوگ مہم جو(ایڈونچر پسند)، جوشیلے، غصیلے، لڑاکے، ضدی یا جنونی وغیرہ بھی ہوتے ہیں۔ بے شک آپ ان کی جتنی بھی تربیت کر لو لیکن ان میں ایسے جذبات کسی نہ کسی شکل میں رہتے ضرور ہیں۔ انہیں سخت جذبوں کو چینلائز کرنے یا کہہ لو کہ ان کے علاج واسطے مختلف قسم کے کھیل ہوتے ہیں۔ تاکہ وہ جائز اور حتی المقدور محفوظ طریقے سے اپنا ”مچ“ کھیل کے میدان میں ٹھنڈا کر لیں اور معاشرے(سوسائٹی) کو انگلی نہ کریں۔ بلکہ جب کھیل کے میدان سے باہر بھی ان کے جنون کی معاشرے کو ضرورت پڑے تو وہ سود مند ثابت ہوں۔۔۔ صرف یہی نہیں بلکہ جیت کی تسکین، ہار کی برداشت، فرد کی اہمیت اور اس طرح کے کئی معاملات کی تشفی بھی کھیل کرتے ہیں۔ جس سے کئی نفسیاتی مسائل حل ہوتے اور بہتر معاشرہ تشکیل پانے کی راہیں ہموار ہوتی ہیں۔

کُشتی، مکابازی یا کاریں ڈورانا وغیرہ، کون نہیں جانتا کہ ان کھیلوں میں جانیں بھی جاتی ہیں۔ لیکن اس کے باوجود بھی ان کو دنیا قبول کرتی ہے۔ کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ اگر کسی ”ریسر“ فطرت انسان کو خاص ٹریک پر گاڑی دوڑانے کی اجازت نہ دی تو پھر چاہے جتنے مرضی قانون بنا لو، اس نے اپنی جبلت سے مجبور ہو کر شاہراہ عام پر گاڑی دوڑانی ہی دوڑانی ہے۔ یوں اپنے ساتھ ساتھ عوام کی جان کو بھی خطرے میں ڈالے گا۔ ایسے ہی پہلوان فطرت کو اپنے ہی جیسے پہلوان کے سامنے لانے کو کھیل کی شکل نہ دی تو یہ پہلوان ذہنیت معاشرے میں عوام کو چت کرتی پھرے گی۔ لہٰذا بہتر طریقہ یہی ہے کہ یہ بازاروں میں دنگل کی بجائے اپنے کھیل کے میدانوں میں لڑتے رہیں۔۔۔ جن معاشروں میں کھیلوں کو محدود اور میدانوں کو سکیڑ دیا جاتا ہے، وہاں پھر وہی ہوتا ہے کہ جو وطنِ عزیز میں ہوتا آ رہا ہے۔ یہاں تو ہر دوسرے بندے کو اپنے جنون، شوق اور جبلت کی راہ سجھائی نہیں دے رہی۔ وہ نفسیاتی ہوا پھر رہا ہے اور جہاں بھی تیلی لگی، سمجھو پھٹ گیا۔ ظاہر ہے کہ جب زور آزمائی کے لئے میدان نہیں ہوں گے تو پھر لوگ چوک چوراہوں میں ہی پھٹے گیں اور بے گناہوں کو پھاڑیں گے۔۔۔

کھلاڑی کیا ہوتا ہے؟ وہ اپنے ہی جیسے ان ہزاروں لاکھوں لوگوں کے جنون کی انتہا ہوتا ہے کہ جن میں قدرتی طور پر اس کھیل کی رغبت پائی جاتی ہے۔ ایک طرف کھلاڑی میدان میں اتر کر جوانمردی سے کھیلتے ہیں، تو دوسری طرف جو اس کھیل کا شوق تو رکھتے ہیں مگر کسی مجبوری کی وجہ سے کھیل نہیں سکتے، وہ باہر بیٹھ کر دیکھتے، لطف اندوز ہوتے اور اپنے جذبے کی تسکین پاتے ہیں۔ اور وہ جو بند دماغ کچھ بھی نہیں کر سکتے، وہ ”کھیڈاں گے نہ کھیڈن دیاں گے“ کے لئے اوٹ پٹانگ جواز صادر فرماتے ہیں۔۔۔

میں تو بس یہ سوچوں کہ خداداد صلاحیتوں کے مالک زرخیر جسم و دماغ… یہ سخت وجود و لطیف مزاج… یہ شہسوار و فنکار وغیرہ معاشرے کا سرمایا ہوتے ہیں۔ ان کی قدر کیجیئے، انہیں عزت دیجیئے۔ اگر یہ نہیں کر سکتے تو کم از کم ہر معاملے میں اپنا لچ تلنے سے گریز کیجیئے۔۔۔ اور ہاں! معذرت کے ساتھ عرض ہے کہ یہ جو کچھ لوگوں نے سوشل میڈیا کو ہگنے کا میدان سمجھ رکھا ہے، ان سے گزارش ہے کہ سوشل میڈیا اس واسطے نہیں۔ بلکہ جائیں اور اپنے کھیل کے میدان یعنی بیت الخلا میں جا کر کھیلیں۔۔۔

یہ تصویر ”سویلائزیشن“ سے باہر جوہڑوں کی ہے۔ اور ابھی اس تصویر کا مقصد یہ ہے کہ اگر گھٹن اور تعفن زدہ ماحول میں رہنے پر مجبور لوگ اس گندے پانی سے دور کہیں روشنیاں دیکھ دیکھ کر جی رہے ہیں تو برائے مہربانی ان سے یہ چند سانسیں نہ چھینو۔ تو نے نہیں جینا تو نہ جی، مگر دوسروں کو اپنی موج میں جینے دے۔۔۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

تبصرہ تحریر کریں۔

Your email address will not be published. Required fields are marked *