دسمبر 27, 2013 - ایم بلال ایم
19 تبصر ے

اردو بلاگستان کا منفی رویہ

یوں تو بلاگستان میں نوک جھوک چلتی رہتی، لیکن ایک دفعہ ایسا گھمسان کا رن پڑا کہ چھوٹی چھوٹی باتیں بڑھتی بڑھتی ”جنگِ عظیم“ کی صورت اختیار کر گئیں۔ اِدھر اُدھر سے امداد آنا شروع ہوئی۔ ساتھی بلاگرز اپنے دوستوں کی مدد کو پہنچے۔ پھر ایک دوسرے کے خلاف تحریر پر تحریر لکھی جانے لگی۔ مجھ جیسے کئی بلاگر نہ تماشائی بننا چاہتے تھے اور نہ ہی جنگ میں شریک ہونا چاہتے تھے۔ ایسی صورتِ حال میں کھلا محبت نامہ لکھ دیا۔ حالات اتنے کشیدہ ہو چکے تھے کہ ایک مہرباں نے میرے محبت نامے کے خلاف بھی ہتھیار اٹھا لیے اور اُس تحریر پر مجھے رگڑا لگا دیا۔ بہرحال میں اس پر خاموش ہی رہا۔ اس کے علاوہ بھی ماضی میں کئی دفعہ حالات خراب ہوتے اور ایک دوسرے کی تحریر کے جواب میں کھری کھری سنائی جاتیں۔

بہرحال یہ ماضی کے قصے ہیں۔ جب کئی اردو بلاگروں کو اس بات کا اندازہ ہی نہیں تھا کہ بحث کرنے اور نظریات سے اختلاف کرنے کے اس سے بہتر طریقے موجود ہیں۔ خیر وقت گزرتا رہا، ہم سیکھتے سیکھاتے رہے اور آج بہت کچھ تبدیل ہو چکا ہے۔ دنیا میں تقریباً ہر چیز اپنے آغاز سے لے کر اختتام تک مسلسل تغیر (تبدیلی) کے مراحل سے گزرتی ہے اور وقت کے ساتھ ساتھ اس میں نکھار یا بگاڑ پیدا ہوتا رہتا ہے۔ ایسا ہی اردو بلاگستان کے ساتھ بھی ہے۔ گو کہ شروع میں کئی بلاگرز چھوٹی چھوٹی باتوں پر غصہ کر جاتے، جوابی تحاریر لکھنے بیٹھ جاتے اور بعض اوقات سازشی کہانیاں بھی وجود میں آتیں۔ لیکن آج حالات اس سے مختلف ہیں۔ اب ایسے احباب کی تعداد بہت کم ہو چکی ہے اور وہ آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں۔ شروع میں جو لوگ نظریات کے اختلاف پر غصہ کرتے، مگر آج بہتر انداز میں اختلاف اور بحث برائے تعمیر کرتے ہیں۔ وقت نے اردو بلاگرز کو بہت کچھ سیکھایا ہے اور یہ اپنے تبدیلی کے مراحل سے گزرتے ہوئے بہت بہتر ہو چکے ہیں۔ آج اردو بلاگستان کا گلاس آدھے سے بھی زیادہ بھرا ہوا ہے اور خالی بہت ہی کم ہے۔ یعنی اکثریت بہت بہتر انداز میں بلاگنگ کر رہی ہے اور مزید بہتری کی طرف گامزن ہے۔

یہ تحریر لکھنے کی وجہ وہ لوگ ہیں جو اردو بلاگستان کی اکثریت کو نظرانداز کرتے ہوئے بس جو تھوڑا سا خالی گلاس ہے اسے ہی دیکھتے ہیں۔ اِدھر اُدھر کئی احباب کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ اردو بلاگرز کے رویے منفی ہیں، یہ لڑتے جھگڑتے ہیں اور انہوں نے آج تک کوئی تیر نہیں مارا وغیرہ وغیرہ۔ مجھے ایسے حضرات کی سوچ اور تجزیے پر حیرت ہوتی ہے جو ایک ہی چھڑی سے سارے بلاگستان کو ہانکتے ہیں۔ میرا خیال ہے کہ ایسے لوگوں کو معاشرتی حالات، زمینی حقائق، یہاں بسنے والے بلاگر اور بلاگروں کی سالہا سال کی محنت کا ذرا بھی اندازہ نہیں۔ میں یہاں کسی کا دفاع نہیں کر رہا۔ بس اتنا بتانے کی کوشش میں ہوں کہ میں مانتا ہوں کہ کئی احباب کے رویے واقعی بعض اوقات درست نہیں ہوتے یا کبھی کبھار نوک جھونک ہو جاتی ہے۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ آپ پورے بلاگستان پر ہی الزام تھوپ دو۔ اردو بلاگستان میں تقریباً 100 ایسے بلاگرز ہیں جن کا شمار باقاعدہ لکھنے والوں میں ہوتا ہے اور ان کے علاوہ کتنے اِدھر اُدھر بکھرے ہیں اس کا اندازہ ہی نہیں۔ باقیوں کو چھوڑیں اور صرف ان 100 کو سامنے رکھیں اور ذرا یہ تو بتائیں کہ ان میں سے کتنے لوگ ہیں جن کا رویہ ہمیشہ منفی ہوتا ہے؟ ان میں کتنے ہیں جو لڑتے جھگڑتے رہتے ہیں؟ جب ان سوالوں کے جواب ڈھونڈنے نکلیں گے تو اتنی ہی تعداد ملے گی جو آٹے میں نمک کے برابر ہو گی۔ بلکہ اس سے بھی کم ہو گی۔یہاں ایک اور بات ذہن میں رکھیں کہ بلاگر کی پہچان اس کا بلاگ ہوتا ہے۔ اس لیے ہم اس کے بلاگ کو دیکھتے ہیں نہ کہ وہ ذاتی طور پر کیا کرتا پھر رہا ہے یا بلاگنگ کے علاوہ اس کے کیا شوق یا ترجیحات ہیں۔

ایک تو اچھے برے لوگ سبھی جگہ ہوتے ہیں۔ چند ایک کے غلط رویوں کی وجہ سے آپ سبھی کو برا نہیں کہہ سکتے۔ دوسرا یہ کہ نظریے یا رائے سے اختلاف کرنے اور لڑائی جھگڑے میں بہت فرق ہوتا ہے۔ بالفرض اگر میں کوئی بات کہتا ہوں، آپ اس سے اتفاق نہیں کرتے اور احسن طریقے سے اختلاف کرتے ہیں تو یہ سب لڑائی نہیں۔ لڑائی تو تب ہو گی جب گالی گلوچ یا ایک دوسرے کو زچ کرنا شروع کریں گے۔ نظریے یا رائے سے اختلاف کرنا کوئی بری بات نہیں بلکہ بری بات تب ہو گی جب اختلاف کرتے ہوئے ذاتیات پر اترا جائے گا اور بدتمیزی کی جائے گی۔ بلاگستان میں ہم ایک دوسرے سے کبھی اتفاق تو کبھی بہتر انداز میں اختلاف کرتے ہیں۔ اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ ہم لڑائی کرتے ہیں۔ بے شک چند لوگ بعض اوقات واقعی گالم گلوچ اور لڑائی جھگڑے پر اتر آتے ہیں لیکن چند لوگوں کی وجہ سے آپ پورے بلاگستان کو برا بھلا نہیں کہہ سکتے۔ آپ صرف معمولی سے خالی گلاس کو ہی ”پوائنٹ آؤٹ“ نہ کریں بلکہ یہ بھی دیکھیں کہ آدھے سے زیادہ گلاس بھرا ہوا ہے۔ یہ بھی دیکھیں کہ اس کو بھرنے میں لوگوں نے کتنے لمبے عرصے تک اور کتنی محنت کی ہے۔ اور یہ بھی دیکھیں کہ جب بلاگستان میں کچھ خراب ہو تو اردو بلاگر خود میدان میں اترتے ہیں۔ اپنے بلاگر ساتھی کی درستگی کرتے اور اسے سمجھاتے ہیں۔ اس کی ایک مثال تحریر کے شروع میں بتائی ہے۔

کئی لوگ چاہتے ہیں کہ اردو بلاگرز ان کی مرضی سے چلیں۔ تو عرض ہے کہ ان شاء اللہ ایسا کبھی نہیں ہو گا اور اگر ایسا ہوا تو پھر سمجھو کہ وہ بلاگنگ ہی نہیں۔ بلاگر کسی کی مرضی سے نہیں بلکہ اپنی مرضی سے چلنے کا نام ہے۔ بعض احباب بلاگرز کو فرشتوں جیسا دیکھنا چاہتے کہ یہ کوئی اختلاف، کوئی بحث، کوئی خرابی اور کچھ بھی غلط نہ کریں۔ جب بلاگرز ان کی توقعات پر پورا نہیں اترتے تو وہ احباب غصہ ہو جاتے ہیں۔ عرض ہے کہ بلاگرز بھی انسان ہیں۔ یہ بھی وہیں بستے ہیں جہاں دیگر لوگ بستے ہیں۔ اختلاف اور بحث و مباحثہ تو ہو گا۔ اچھے سے اچھا بندہ بھی کہیں نہ کہیں غلطی کر جائے گا۔ کہیں کوئی اچھائی کا درس دے گا تو کہیں کوئی لڑائی بھی کرے گا۔ یہ سب کوئی بڑی بات نہیں کیونکہ جہاں بھی انسان جمع ہوں گے تو ایسا ہو گا۔ ہر شعبے میں اور ہر جگہ ایسا ہوتا ہے۔ اب کسی ایک کی خرابی یا کسی ایک بات کے اختلاف کو لے کر پورے اردو بلاگستان کو رگڑا لگا دیا جائے تو بھلا یہ کہاں کا انصاف ہے؟

رہی بات بلاگرز نے کوئی تیر نہیں مارا۔ تو پھر بتائیے کہ یہاں آخر کس نے تیر مارا؟ بہرحال سچ تو یہ ہے کہ جب ”وڈے“ لوگ مختلف اجتماعات میں اپنی واہ واہ کرانے کی فکر میں تھے تو تب اردو کمپیوٹنگ کے رضاکاروں نے کام کیا۔ اردو کو کمپیوٹر اور انٹرنیٹ تک لائے۔ بلاگرز اور رضاکاروں نے مل کر انٹرنیٹ پر اردو لکھنا شروع کی۔ آج اردو کو اس مقام پر لے آئے ہیں کہ انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا پر جگہ جگہ اردو نظر آ رہی ہے۔ تحریر کی لمبائی کی وجہ سے مختصر لکھا ہے جبکہ اس کمیونٹی کے بہت کارنامے گنوا سکتا ہوں کہ اس نے پاکستانی معاشرے اور خاص طور پر سوشل میڈیا میں کیا کیا ”ٹرینڈ سیٹ“ کیے ہیں۔ اردو بلاگرز کی اکثریت ایک سے بڑھ کر ایک ہے اور اتنی زبردست تحاریر لکھ کر نہ صرف قارئین کو معلومات اور بہتر سوچ کے مواقعے فراہم کر رہے ہیں بلکہ ان کی وجہ سے دن بدن انٹرنیٹ پر اردو مواد میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اگر کوئی اس سب کو بڑا تیر مارنا نہ سمجھے تو میں کہوں گا کہ چلو فرض کرتے ہیں اور آپ کی مان لیتے ہیں۔ اب ذرا یہ بھی تو دیکھیں کہ جب یہ لوگ اس طرف آئے تو تیر تیار تھا نہ کمان یعنی کمپیوٹر اور انٹرنیٹ پر اردو لکھنے لکھانے کے مسائل حل نہیں ہوئے تھے۔ سب کچھ خود کرنا پڑا۔ لوہا بھی خود پگلایا، لکڑی بھی خود تراشی۔ اب اس اردو بلاگرز کمیونٹی نے تیر کمان بنا لیے ہیں۔ اس لئے تھوڑا سا انتظار کریں اور دیکھیں کہ یہ کیسے کیسے تیر مارتے ہیں۔ ان شاء اللہ ان کے تیروں سے برائی کے بڑے بڑے برج گریں گے۔ آخر پر صرف اتنا کہوں گا کہ اگر اس ”اردو بلاگرز کمیونٹی“ کا مجموعی طور پر رویہ منفی اور لڑائی جھگڑے والا ہوتا تو یہ یہاں تک کبھی نہ پہنچتے۔ اچھے برے لوگ ہر جگہ ہوتے ہیں۔ یقیناً اردو بلاگرز میں بھی منفی رویہ رکھنا والے لوگ ہوں گے لیکن میرا خیال ہے کہ ان کی تعداد بہت تھوڑی ہے۔ جبکہ اکثریت بڑے اچھے انداز سے بلاگنگ کر رہی ہے۔ اب چند لوگوں کے منفی رویے کی بنیاد پر پوری اردو بلاگرز کمیونٹی کو غلط کہنے والے اپنی ذہنی سطح کا خود اندازہ کر لیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست 19 تبصرے برائے تحریر ”اردو بلاگستان کا منفی رویہ

  1. “کچھ لوگ چاہتے ہیں کہ اردو بلاگرز ان کی مرضی سے چلیں تو عرض ہے کہ ان شاء اللہ ایسا کبھی نہیں ہو گا اور اگر ایسا ہوا تو پھر سمجھو کہ وہ بلاگنگ ہی نہیں”
    ” چند لوگوں کے منفی رویے کی بنیاد پر پوری اردو بلاگرز کمیونٹی کو غلط کہنے والے اپنی ذہنی سطح کا خود اندازہ کر لیں”

    سو فیصد درست بات ہے ، بلال بھائی

  2. بلال برا مت ماننا لیکن لگتا ہے آپ کے پاس لکھنے کو کوئی موضوع نہیں ہے کہ اپنا انتہائی قیمتی وقت اور انرجی اس طرح کے فضول موضوع پر ضائع کررہے ہو۔ میرے بھائی تنقید اور منفی رویّے کا اظہار کرنے والے ہمیشہ کوئی نہ کوئی وجہ ڈھونڈ لیں گے۔ آپ اپنی صلاحیت، وقت اور محنت اردو بلاگنگ پر استعمال کریں۔، لوگوں کی پرواہ نہ، لوگ تو بولیں گے، ان کا کام ہے بولنا۔

    1. بھائی اس میں برا منانے والی کوئی بات نہیں۔ آپ کی رہنمائی سے ہی تو سیکھتا ہوں۔
      خیر اِدھر اُدھر لوگ اردو بلاگرز کا ”مجموعی تاثر“ بہت برا بنا کر پیش کر رہے ہیں اور کئی لوگ اردو بلاگستان کو اپنے طریقے سے چلانے کی کوشش میں ہیں۔ اس حوالے سے سوچا کہ لوگوں کو تصویر کا دوسرا رخ بلکہ اصل بات بھی نظر آنی چاہیئے۔ حالات دن بدن عجیب ہوتے جا رہے تھے اور اس متعلق کوئی بھی نہیں لکھ رہا تھا تو لگا کہ مجھے ہی لکھنا پڑے گا، تو لکھ دیا۔
      باقی لکھنے کے لئے موضوعات کا کچھ نہ پوچھیں۔ وقت ایسا چل رہا ہے کہ بہت سارا مواد ذہن میں گردش کر رہا ہے مگر وقت ہے کہ ہاتھ ہی نہیں لگ رہا۔ 🙂

  3. نوک جھونک کا اختتام عمومآ غلط ہی ہوتا ہے ذہنی مایوسی کی وجہ سے مسائل پیدا ہوتے ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ اردو بلاگنگ کب تک شوقیہ رہے گی ؟کیا کیونکہ اکثر کالم نویس بھی آپس میں ٹکراؤ رکھتے ہیں لیکن کالم نویسی کے پیچھے مالی فوائد بھی ہوتے ہیں اور کالم نویسوں کا ٹکراؤ بھی مالی فوائد دے جاتا ہے
    لیکن میری ناقص معلومات کے مطابق زیادہ تر بلاگر شوقیہ یا نظریاتی بنیادوں پر لکھتے ہیں اب شوقیہ لکھنے والوں کا ٹکراؤ تو المیہ ہی ہے لیکن نظریاتی ٹکراؤ تو حق بنتا ہے

  4. بلاگرز کو کنٹرول کرنا میرے خیال میں انتہائی مشکل ہے۔لیکن کچھ لوگ چھوٹی چھوٹی باتوںکو اچھال کر فساد ضرور مچانے والے ہیں۔مخصوص قسم کے بلاگرز کو ڈرانے دھمکانے کا کام کرنا وغیرہ۔۔ایسے فسادی قسم کے لوگ بلاگر بن کر اندر گھسیں گے اور پھر تنگ کرنا شروع ہو جائیں گے۔جیسے کہ ماضی میں بھی ہو چکا ہے اور اب بھی مختلف اوقات میں یہی ہوتا دکھائی دیتا ہے کہ کچھ “شرپسند” بلاوجہ کسی پر الزام تراشی یا جان بوجھ کر کسی بھی بلاگر کو “گھسیٹ” کر فساد کیطرف لے جانے کی کوشش کر رہے ہوتے ہیں۔تاکہ جب فساد ہو جائے تو دھونس دھمکی سے “دبا” لیا جائے۔یہ “شر پسند” سرکاری اہلکار بھی ہو سکتے ہیں اور “دیگر ” بھی ہو سکتے ہیں۔بحرحال اردو بلاگستان اس مقام تک پہونچ ہی گیا کہ مختلف قسم کی “تنظیموں” ، “میڈیا” اور “اداروں” کی نظر میں کھٹکنا شروع ہو گیا ہے۔

  5. بلاغت اور بلوغت آتے آتے آ ہی جاتی ہے ۔ بابے ہمیشہ ہی کہا کرتے ہیں “جدوں میں جوان ہوندا سی اودوں ۔۔۔۔۔۔ آہو ” لیکن پھر بڑبراتے ہوئے خود کلامی کیا کرتے ہیں اودوں کیہڑا تیر مار لیا سی ”
    سو جناب جو گزرےکل کے جوان تھے وہ آج کے بابے ہیں ، اور ہم کل بھی بابے تھے آج بھی بابے ہیں اس لئے پہلے کوئی تیر مار سکے نہ اب مار سکیں گے لہذا بر برانے پہ ہی اکتفا کرتے ہیں 😀

  6. فساد فی سبیل اللہ والے ہر جگہ اور ہر موقعے پر موجود ہیں اور رہیں گے۔
    بلاگرز میں بھی ہیں، وہ اپنا کام کررہے ہیں، ہمیں اپنا کام کرنا چاہئے، اچھائی کو عام کرنا اور برائی سے روکنا ہی ہمارا ایمان ہے اور ہم پر فرض ہے، اس حکم پر عمل پیرا ہونے کی پوری کوشش کرنا ضروری ہے۔

  7. گو میرا کمپیوٹر کا تجربہ 26 سال سے زیادہ ہے لیکن بلاگنگ کا تجربہ صرف 9 سال ہے ۔ اس مختصر عرصہ میں مجھے 3 یا 4 بار تیر و تفنگ اپنے دل و جگر پر سہنے پڑے ۔ میرا نہیں خیال کہ اب وہ ماحول ہے جو کبھی تھا ۔ تبصرہ نگار آباؤ اجداد اور نسل تک پہنچ جاتے تھے ۔ لیکن اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی کی بڑی کرم نوازی رہی کہ مجھ سے ادب کا دامن نہ چھوٹا ۔ آج میں میں گرد و پیش نظر دوڑاتا ہوں تو وہ تیر و تفنگ والے کہیں نظر نہیں آتے ۔ باقی اختلاف کا جہاں تک تعلق ہے اگر نہ ؎ہو تو آدمی کے سیکھنے کی رفتار سُست پڑ جاتی ہے ۔ میں جب فیس بک کے متعلق سنتا ہوں تو دنگ رہ رہ جاتا ہوں کہ وہاں جو کچھ ہوتا ہے ویسا بلاگستان پر شاید ہی کبھی ہوا ہو

  8. اچھے برے لوگ ہر جگہ ہوتے ہیں۔ پتہ نہیں کیوں منفی روئیہ بہت عام ہوگیا ہے- کئی لوگ تو ایسے ہوتے ہیں کہ منفی باتیں سوچنا اور منفی پہلوؤں پہ فوکس کرنا اُن کی زندگی کا مقصد ہوتا ہے- آپ کوئی بھی بات کر لو ، وہ اُس میں سے کچھ غلط نکال ہی لیں گے- ظاہر بات ہے کہ کھرے سچے آدمی کو غصہ تو آئے گا- ایک مثال پڑھی تھی ایک جگہ، ایسے ہی موقعوں کے لئے، “کہ اگر آپ کسی مقصد کے لئے کسی راستے پر چلتے جا رہے ہوں ، راستے میں دائیں بائیں سے آنے والی بہت سی آوازوں کو نظرانداز کریں گے تو ہی منزل تک پہنچیں گے”- آتی جاتی گاڑیوں کے ہارن، شور، جانوروں کی آوازیں، وغیرہ – – -اگر کسی عظیم مقصد کے لئے قدم اُٹھانے والا راستے کی ہر آواز کا جواب دینے لگے تو وہ اپنے مقصد سے ہٹ جائے گا –

  9. محترم اگر آپ مناسب سمجھیں تو مجھے ای میل کر دیں یا میرے فیس بک اکائونٹ پر میسج کر دیں۔ مجھے کوشش کے باوجود کہیں پر آپ سے رابطے کا کوئی سلسلہ سمجھ نہیں‌آیا۔ شکریہ
    محمد عامر خاکوانی
    روزنامہ دنیا۔

Leave a Reply to محمد اسلم فہیم جواب منسوخ کریں۔

Your email address will not be published. Required fields are marked *