جون 21, 2008 - ایم بلال ایم
تبصرہ کریں

نظام کی خرابی اور ہم

اس وقت ہر کوئی سسٹم(نظام)سے تنگ ہے۔ بڑوں سے سنا ہے کہ جب سے پاکستان بنا، قائد اعظم کی وفات اور لیاقت علی خان کی شہادت کے بعد سے کوئی ٹھیک، تندرست نظام پاکستان میں نہیں بن سکا۔ عوام پاکستان کے بننے سے لے کر آج تک تنگ ہے ہر کوئی گلہ کرتا۔ عوام کی شکایات لکھی جائیں تو کمپیوٹر دن رات چلیں، ٹائپسٹ ٹائیپ کرتے رہیں تو کئی سال بیت جائیں صرف شکایات لکھتے لکھتے۔ غرض یہ کہ نظام خراب جس کی وجہ سے عوام کو شکایات۔ بنیادی ضروریاتِ زندگی میسر نہیں، تعلیمی ادارے ہیں تو تعلیمی نظام کھوکھلا ہے جس کی وجہ سے آج تک کوئی پائے کا سائنسدان اور سکالر نہیں بنایا اس نظام نے، عدالتیں ہیں انصاف نہیں ، کیس باپ دادا کے زمانے میں ہوتا ہے فیصلہ بیٹے یا پوتے کے زمانے میں ہوتا ہے۔ ہر کام کے لئے حکومتی ادارے ہیں لیکن رشوت، سفارش کے علاوہ کبھی کام نہیں ہوتا، ہسپتال ہیں ڈاکٹر نہیں، ڈاکٹر ہوں تو ادویات نہیں، ادویات ہوں تو معیاری علاج نہیں۔۔۔ اسی طرح باقی تمام حکومتی اداروں کا حال ہے۔ ہر ادارہ اپنا کام توجہ سے نہیں کر رہا۔ یعنی پورے کا پورا نظام کھوکھلا ہے۔ ظلم جبر اور غربت کا اندھیرا چھایا ہوا ہے۔

باقی ممالک نئی دنیا کی کھوج میں ہیں اور ہم ابھی تک بہتر نظام کی کھوج نہیں کر سکے۔ ہمیں کوئی نیا نظام بنانے کی ضرورت نہیں بلکہ ہمارے پاس رب تعالٰی کا دیا ہوا نظام قرآن و سنت کی صورت میں موجود ہے۔۔۔
آخر یہ سب کیوں ہے؟ کیا کبھی کسی نے سوچاہے؟

جب کچھ انسان ایک جگہ رہتے ہیں تو بڑھتی ہوئی آبادی کے ساتھ بڑھتے ہوئے مسائل کے حل تلاش کئے جاتے ہیں، وسائل کا صحیح استعمال کیا جاتا ہے۔ جس کے نتیجہ میں ایک بہتر نظام تشکیل پاتا ہے اور چند انسان جو ایک ساتھ رہ رہے ہوتے ہیں وہ ایک سوچ کے ساتھ ایک بہتر قوم بن کر ابھرتے ہیں۔ اگر ہم اپنے آپ کو دیکھیں تو ہم آج تک ایک قوم بن ہی نہیں سکے بلکہ ہم لوگوں کا ایک شور شرابہ ہیں جس میں کوئی کچھ کہہ رہا ہے تو کوئی کچھ۔ سب کہتے ہیں اسلامی نظام ہونا چاہئے لیکن خود کوئی کسی نظام کو پسند کرتا ہے تو کوئی کسی نظام کی پیروی کرتا ہے۔ اگر کسی رشوت دینے والے یا لینے والے سے پوچھا جائے کہ اسلامی نظام ہونا چاہئے تو وہ فوراً مسلمان ہونے کے ناطے کہے گا ضرور ہونا چاہئے مگر یہ رشوت خوری اسلامی نظام میں نہیں پھر وہ کیوں رشوت لے رہا ہے؟

دراصل ہماری سوچ و فکر اور علم و عمل میں تضاد ہونے کے ساتھ ساتھ ہماری آپس کی سوچو میں بھی ضرورت سے زیادہ تضاد آگیا ہے۔ ہم انا کی جنگ میں یہ بھول جاتے ہیں کہ ہم مسلمان ہیں اور ہمارا نظام اسلامی ہے جس میں ہر قانون موجود ہے۔ آج کے اس دور میں جہاں فتنہ فساد اور تفرقہ بازی کا بازار گرم ہے وہاں ہر بندہ اپنی ایک الگ سوچ رکھتا ہے اور وہ کسی دوسرے کی بات ماننے کو تیار نہیں۔ کوئی جواز نہ ہوتے ہوئے بھی اپنی بات پر بضد ہے۔ ہر کوئی یہ سوچتا ہے کہ اس کی سوچ دوسرے سے بہتر ہے۔ بحث برائے بحث ہوتی ہے کوئی دوسرے کی دلیل ماننے کو تیار نہیں بلکہ اُس دلیل کو رد کرنے کے بے شمار جواز لئے بیٹھا ہے۔ غرض یہ کہ سوچ میں تضاد بے شمار ہو چکا ہے جس کی مثال ہر بحث، ہر فورم اور ہر میٹنگ ہے۔

اب پاکستان کے حالات بہت کشیدہ ہیں اور ہر کوئی نظام سے تنگ ہے جیسے پوچھو وہ کہتا ہے کوئی بہتر لیڈرشپ نہیں۔ اگر کوئی بہتر لیڈر شپ ہو تو نظام بہتر ہو سکتا ہے۔ اگر دیکھا جائے تو ہم نے پہلے کس لیڈر کا ساتھ دیا ہے۔ اگر سارے لیڈر غلط ہیں تو پھر ٹھیک سامنے کیوں نہیں آتا وہ چھپ کر کیوں بیٹھا ہے؟ اگر ہم سوچتے ہیں ہماری سوچ ٹھیک ہے تو پھر ہم خود لیڈر کیوں نہیں بنتے کسی دوسرے کے آنے کا انتظار کیوں کرتے ہیں۔ وجہ سیدھی سی ہے ہر کوئی اپنی اپنی دنیا میں خوش ہے اور کہیں نہ کہیں خود اس غلط سسٹم کا حصہ بنے ہوئے ہے۔ کوئی پیسے کمانے کے چکر میں غیر قانونی باہر جا رہا ہے تو کوئی ڈرائیونگ لائسنس نہ ہونے کی وجہ سے پولیس کو رشوت دے رہا ہے تو کوئی نوکری کے لئے سفارش کروا رہا ہے لیکن باتیں سنو تو ایسا لگتا ہے سب سے بڑا اور اچھا مسلمان اور سب سے زیادہ حب الوطنی اسی میں ہے۔ یہ بات اوپر اوپر سے ہی ہوتی ہیں۔ اندر سے ہر کوئی روٹی کے چکر میں ہے اور پیسے سے دنیا کی سہولیات خریدنے میں لگا ہوا ہے۔ نظام کو ٹھیک کرنے، لیڈرشپ ہو تو ہم ساتھ دیں گے یہ سب دو دن کی جذباتی باتیں ہیں۔ یہ ساری باتیں ہمارے نزدیک دنیاوی سہولیات کے آگے بِک جانے کے نام ہیں۔ جس کو پیسا ملتا ہے جان کا تحفظ ملتا ہے اور باقی ضروریات زندگی تو پھر وہ کسی غریب کو نہیں جانتا زیادہ سے زیادہ کسی کے دکھ درد میں دو باتیں کر کے سمجھتا ہے کہ اس نے حق ادا کر دیا۔ یہ حب الوطنی، یہ غریب کا احساس، یہ لیڈر شپ کا انتظار سب باتوں کی حد تک ہے عمل میں ہم صفر ہیں۔ غلط نظام کے خلاف کس نے آواز اٹھائی؟ اگر کسی نے اٹھائی تو اس کے ساتھ کتنے لوگ تھے؟ روز خود کش حملے ہو رہے ہیں کتنے لوگ اٹھے ہیں انہیں روکنے کے لئے؟

ہر کوئی دوسرے کے کندھے پر بندوق رکھ کر چلانا چاہتا ہے خود کوئی آگے نہیں بڑھتا۔ اس وقت بھی ایسے لیڈر موجود ہیں جو ٹھیک ہیں اُن کا ساتھ ہم کیوں نہیں دیتے؟ ہم کیوں سوچتے ہیں کہ کوئی مسیحا ہی آئے؟ کوئی فرشتہ ہی آئے؟ جو ہماری سوچ کے 100٪ مطابق ہو۔

اگر دیکھا جائے تو ایسے لوگ موجود ہیں جن کا پچھلا ریکارڈ ٹھیک ہے پھر ہم اُن کا ساتھ کیوں نہیں دیتے ہم یہ کیوں سوچتے ہیں کہ فلاں لیڈر ایک وقت کھانا کیوں نہیں کھاتا اور اس طرح کی بے شمار بے بنیاد باتیں سوچتے رہتے ہیں۔

ہم سب کو چاہئے کے اپنی اپنی جگہ رہتے ہوئے عملی طور پر کام کریں نہ کہ باتوں کے پہاڑ بنائیں اور ان کو پاش پاش کریں۔ اگر اب بھی ہم ہوش میں نہ آئے تو پھر ہمیں یہ باتیں کرنے کا بھی کوئی حق نہیں۔ یا تو میدان میں اتریں اور ذمہ داری قبول کریں یا پھر چپ کر کے پیسے کی دوڑ میں شامل ہو جائیں۔۔۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

تبصرہ تحریر کریں۔

Your email address will not be published. Required fields are marked *