اکتوبر 16, 2011 - ایم بلال ایم
11 تبصر ے

قوم، علاقہ، زبان اور انسانیت کا تقاضا

بسم اللہ الرحمن الرحیم
بات کسی چیز کے پسند کرنے سے شروع ہوتی ہے اور اگر اس پسند کرنے کو ایک حد پر قابو نہ کیا جائے تو یہ اپنی حدیں عبور کرتی ہوئی شدت پسندی میں داخل ہو جاتی ہے۔ ہمارا مسئلہ بھی یہی ہے کہ ہم پیار اور پرستش کے درمیان فرق واضح نہیں کر پاتے اور پیار میں اتنے آگے نکل جاتے ہیں کہ شدت پسند بن کر پرستش تک شروع کر دیتے ہیں۔

ایک وقت تھا جب قوم (ذات پات) آپ کی پہچان کے لئے ضروری تھی تاکہ پتہ چل سکے کہ فلاں بندہ فلاں قوم یا قبیلے کا رہنے والا ہے لیکن ٹیکنالوجی کے اس دور میں اس قسم کی پہچان کی کوئی ضرورت نہیں۔ اب اگر پہچان کی ضرورت ہے تو صرف یہی ہے کہ فلاں کا آئی ڈی کارڈ نمبر وغیرہ یہ ہے۔ اسی طرح حد بندیاں انتظامی معاملات کے لئے ہوتی ہیں تاکہ سارے علاقے کو چھوٹے چھوٹے یا مناسب حصوں میں تقسیم کر دیا جائے اور انتظامی معاملات اچھے طریقے سے چلائے جا سکیں۔ زبان صرف اپنی بات دوسرے تک پہنچانے کا ایک ذریعہ ہے۔ اس سے زیادہ زبان کی اور کوئی اہمیت نہیں ہوتی۔ اگر کسی چیز کی اہمیت ہے تو وہ انسانیت کی ہے۔

لیکن یہاں معاملہ الٹ ہے۔ لوگوں نے قوم کو اپنے بڑھے پن کا مسئلہ بنا لیا ہے، علاقائی حد بندیوں کو انسانیت کے درمیان دیوار بنا کر رکھ دیا ہے اور زبان کے معاملے میں اتنے شدت پسند کہ دوسری زبان بولنے والے انسانوں سے نفرت کرتے ہیں۔ آج کچھ لوگوں نے نفرت کے بازار گرم کر رکھے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو پہلے عام انسانوں میں قوم، علاقہ اور زبان کے نام پر نفرت پیدا کرتے ہیں پھر اسی نفرت کا سہارا لے کر اپنی سیاست کی دکان چلاتے ہیں۔ ایک عام انسان اپنی قوم، علاقہ یا زبان کی خدمت کرنے کے جوش میں اندھا ہو کر انہیں دکاندار سیاست دانوں کے ہاتھوں استعمال ہو جاتا ہے اور اس انسان کو پتہ بھی نہیں چلتا کہ وہ خدمت کے جوش میں انسانیت کی توہین کر رہا ہے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ اپنی قوم، اپنے علاقے اور اپنی زبان سے انسان کو پیار ہوتا ہے اور یہ ایک فطری چیز ہے۔ اسی پیار کے ہاتھوں مجبور ہو کر انسان قوم، علاقے اور زبان کی بہتری کے لئے کام کرتا ہے اور کرنا بھی چاہئے لیکن مسئلہ تب پیدا ہوتا ہے جب پیار اندھے پیار میں تبدیل ہوتا ہے اور انسان انسانیت کو بھول کر اندھے پیار میں شدت پسند بن جاتا ہے اور پھر قوم، علاقہ اور زبان پرستی جنم لیتی ہے اور انسانوں میں ایسا تفرقہ ڈالتی ہے کہ انسان مرنے مارنے پر آ جاتا ہے۔ قوم، علاقہ اور زبان سے پیار ضرور کرو اور ان کی بہتری کے لئے کام بھی کرو لیکن کم از کم دوسروں سے نفرت نہ کرو اور اپنے پیار کو دوسروں کے لئے عذاب نہ بناؤ۔

ہمیں پیار اور پرستش میں فرق واضح کرنا ہو گا اور اپنے پیار کو قابو میں رکھنا ہو گا تب جا کر ہم انسانیت کی راہ پر چل سکیں گے۔ یہ دنیا انسانوں کی ہے اور ہر انسان اس بڑی قوم انسانیت کا حصہ ہے۔ اس لئے جہاں وہ اپنی چھوٹی اور قریبی قوم سے پیار کرتا ہے وہاں اسے اس بڑی قوم سے بھی پیار کرنا چاہئے۔

ان معاملات میں میرا نقطہ نظر یہ ہے کہ میری قوم، میرا علاقہ اور میری زبان میرے گھر سے شروع ہوتی ہے اور پھیلتی پھیلتی پوری دنیا میں پھیل جاتی ہے۔ جو جتنا میرے قریب ہے اس کا اتنا زیادہ مجھ پر حق ہے اور مجھے اس سے اتنا زیادہ پیار ہے۔ سب سے پہلے میرا خاندان میری قوم ہے۔ اس کے بعد میرے اردگرد کے لوگ میری قوم ہیں۔ پھر میرے شہر کے لوگ اس میں شامل ہو جاتے ہیں اس کے بعد ضلع، ڈویژن، صوبہ، ملک اور پھر پوری دنیا کے انسان میری قوم بن جاتے ہیں یوں میری قوم انسانیت بن جاتی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ میں گجراتی ہوں، پنجابی ہوں،پاکستانی ہوں، اس زمین کا باشندہ ہوں، اس گلیکسی (ملکی وے) میں شامل ہوں۔ لے چلو میری پہچان کو جہاں تک لے جا سکتے ہوں لیکن یاد رکھو میں خود غرض نہیں کہ صرف اپنے قریبیوں سے پیار کروں۔ گجراتی ہونے کا مطلب یہ نہیں کہ میں پنجابیوں سے پیار نہ کروں، پنجابی ہونے کا مطلب یہ نہیں کہ میں باقی پاکستانیوں سے پیار نہیں کر سکتا۔یہ گجرات، یہ پنجاب تو بس میری پہچان کے لئے ہیں اس سے زیادہ کچھ نہیں۔ یہ پٹھان، بلوچی، سندھی، کشمیری اور تمام کے تمام پاکستانی میرے بھائی ہیں۔ میں ہر دم کوشش کروں گا کہ ہم سب بھائی متحد اور ایک جان رہیں۔ اگر میرا کوئی پنجابی بھائی مجھ سے لڑتا ہے تو میں اس واحد پنجابی کا مقابلہ کروں گا، اگر میرا کوئی پٹھان، بلوچی یا سندھی بھائی غلط بات کرتا ہے تو میں اس ایک پٹھان، بلوچی یا سندھی کو سمجھاؤں گا۔ میں پاگل نہیں کہ ایک بندے کی غلطی کو پورے صوبے یا قوم پر ٹھونس دوں اور اپنے خوبصورت ملک میں دراڑیں پیدا کروں۔ مجھے صوبہ صوبہ یا صوبائیت کا کوئی کھیل نہیں کھیلنا۔ میں انسان ہوں اور تمام انسانوں کو پیار کر کے اور ان کے ساتھ جینا چاہتا ہوں۔ میرے گھر پاکستان کی رونق تمام گھر والوں سے ہیں۔ مجھے اپنوں سے پیار ہے مگر میں پیار میں اندھا نہیں ہوں، میں شدت پسند نہیں ہوں، میں ہوش میں ہوں اور اپنے پیار کو پیار سمجھ کر دوسروں کو اپنے ساتھ لے کر یا خود دوسروں کے ساتھ چل کر اپنے ملک اور ساری دنیا کو خوبصورت بنانا چاہتا ہوں نہ کہ اپنے قریبیوں کے پیار میں اندھا ہو کر تھوڑے دور والوں سے نفرت شروع کر دوں۔
اے میرے پٹھان، بلوچی، سندھی، کشمیری اور تمام پاکستانی بھائیوں! چھوڑ دو ہر اس کا ساتھ جو ان صوبوں کے چکروں میں پڑا ہے۔ چھوڑ دو ان لٹیروں کو جو صوبائی و لسانی تعصب پھیلا کر ہمارے وطن کو توڑنا چاہتے ہیں۔ آؤ ہم سب مل کر ایک قوم بنیں اور پاکستان کو ترقی کی راہ پر گامزن کریں۔ حکیم الامت علامہ محمد اقبال رحمۃاللہ علیہ نے فرمایا تھا کہ
فرد قائم ربط ملت سے ہے تنہا کچھ نہیں
موج ہے دریا میں بیرون دریا کچھ نہیں
آؤ آج مل کر ایک جان ہو جائیں نہیں تو کچھ باقی نہیں رہے گا۔
ملت کو جتنا بڑا کریں گے، اپنے دلوں کو جتنا وسیع کریں گے، اتنے ہی سکون سے رہیں گے اور جتنا چھوٹا کریں گے، اتنے ہی ذلیل و رسوا ہوں گے۔ قوم، علاقہ اور زبان سے پیار ضرور کرو لیکن پیار میں اتنے پاگل نہ ہو جاؤ کہ شدت اختیار کرتے ہوئے دوسروں سے نفرت شروع کر دو۔ ہم انسان ہیں اور انسانیت کا یہی تقاضا ہے کہ قوم، علاقہ اور زبان وغیرہ سے پیار تو ضرور کریں لیکن اپنے پیار کو دوسروں کے لئے تکلیف اور عذاب نہ بنائیں اور اپنے ساتھ ساتھ تمام انسانوں کا خیال رکھیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست 11 تبصرے برائے تحریر ”قوم، علاقہ، زبان اور انسانیت کا تقاضا

  1. آپ کی ُاجلی ُستھری سوچ نہ صرف پسند آئی بلکہ فخر ہوا کہ میرے وطن کے نوجوانوں کی اکثریت ایسا ہی سوچنے لگے تو خونی انقلاب کی بجائے فکری انقلاب ہی قوم کی تقدیر بدل دے۔ خاص طور پر یہ جملہ کہ،زبان صرف دوسروں تک ۔۔۔۔۔۔۔اگر کسی چیز کی اہمیت ہے تو انسانیت کی ہے۔آپ کے اس اقدام میں بہت سے نوجوانوں کی اصلاح مضمر ہے۔اقبال کا ایک شعر جس کی ترتیب صحیح یاد نہیں ۔۔
    ہے وہی جواں قبیلے کی آنکھ کا تارا شباب جس کا بے داغ ہو ضرب جس کی کاری ۔۔۔بس جناب انگلش میڈیا پر ایسی کاری ضربیں لگتی رہنی چاہئیں۔ آپ کی کامیابیوں‌کے لئے ڈھیروں‌دعائیں۔

  2. قوم علاقہ اورانسانیت کی باتیں تم لوگوں کے منہ سے کچھ اچھی نہیں لگتیں،
    وہ جو ایک کے بلاگ پر تم گھمسان کی جنگ کی پیشن گوئی کرآئے تھے،
    اس میں تو اتنی اخلاقی جرات بھی نہیں کہ انڈیا کے ساحل کی تصویر لگا کر ،اسے کراچی کا گمان دینے کے بعد اس پر معذرت ہی کرلیتا،اس تصویر کوہٹا دیتا یالکھ دیتاکہ یہ تصویر کہاں کی ہے،
    میرے آئینہ دکھانے پر مجھے ہی الٹ کر باتیں سنا اور میرا جوابی تبصرہ مٹا کر خود کو پارسا ظاہر کرنے کی ناکام کوشش میں لگا ہے،
    اور وہ سب جو اچھل اچھل کر یہ پوچھنے میں لگے تھے کہ کیا یہ کراچی کی تصویر ہے ،(بلکہ تم جیسے کچھ سمجھ داروں نے تو یہ پوچھنے کی ذحمت کیئے بغیر ہی یقین کر لیا تھا کہ یہ کراچی کی تصویر ہے)اب سب کو حقیقت حال جان کر سانپ سونگھ گیا ہے،
    تم میں سے بھی کسی میں اتنی اخلاقی جرات نہیں کہ اسے اس بات پر مجبور کرتا کہ وہ تصویر کوہٹائے یا وضاحت کرے کہ تصویر انڈیا کے ساحل کی ہے،
    اس کردار کے ساتھ تم لوگ انسانیت کی باتیں کرتے ہو نا تو ہضم نہیں ہوتیں!

    1. سب سے پہلے تو تشریف آوری، موضوع سے ہٹ کر بے موقع، بے محل، ذاتیات پر حملہ کرتے ہوئے اور ادھر ادھر کی باتیں اکٹھی کر کے تبصرہ کرنے کا بہت بہت شکریہ۔
      میں پشین گوئی کر آیا تھا اور آپ نے اسے سچ ثابت کر دیا ہے۔
      باقی فیصلہ قارئین خود کریں گے۔
      قارئین! عبداللہ صاحب نے میری جس پشین گوئی کی بات ہے وہ آپ درج ذیل لنک پر دیکھ سکتے ہیں اور خود اندازہ لگا سکتے ہیں کہ میں نے اپنا ایک اندازہ ظاہر کرتے ہوئے کیا کہا اور پھر عبداللہ صاحب نے جواب میں کیسی اخلاقی جرات اور اخلاقیات کا مظاہرہ کیا اور مجھے راہ چلتے ہوئے پکڑا اور اپنی اخلاقیات سنانے بیٹھ گئے۔
      http://www.waseembaig.com/blog/2011/10/17/آج-کا-پاکستانی-معاشرہ-اور-بے-حیائی/#comment-372

    1. محترم ہم کہاں گمانوں میں پڑے ہوئے ہیں، تھوڑا سا غور کرو تو بلاوجہ گمانوں میں تو آپ خود پڑے ہوئے ہو اور اس کی مثال درج ذیل لنک پر موجود آپ کا تبصرہ ہے۔
      http://www.mbilalm.com/blog/our-needs-and-extremism/#comment-2979
      محترم موضوع کے مطابق، تہذیب کے دائرے میں رہتے ہوئے، آپ کے ہر قسم کے اختلاف اور تنقید کو میں ہمیشہ خوش آمدید کہوں گا لیکن ذاتیات اور موضوع سے ہٹ کر فضول تبصروں کی یہاں شنوائی نہیں ہو گی۔ موضوع سے ہٹ کر باتیں کرنے اور پھر لوگوں کے آپ کو جواب، ہو سکتا ہے اس سارے کھیل میں آپ کو مزہ آتا ہو لیکن میرے پاس اتنا وقت نہیں جو میں اس طرح برباد کر سکوں۔ مجھے اپنے اللہ پر پورا یقین ہے اس لئے آپ لاکھ ادھر ادھر کی باتوں میں الجھانے کی کوشش کرو، پھر بھی میرے مقصد میں رکاوٹ پیدا نہیں کر پاؤ گے۔

  3. اقتباس» م بلال م نے لکھا: موضوع سے ہٹ کر باتیں کرنے اور پھر لوگوں کے آپ کو جواب، ہو سکتا ہے اس سارے کھیل میں آپ کو مزہ آتا ہو لیکن میرے پاس اتنا وقت نہیں جو میں اس طرح برباد کر سکوں۔

    پہلی بات میں کوشش کرتا ہوں کہ میرے تبصرے موضوع سے ریلیٹیڈ رہیں،مگر کبھی تو لوگوں کی دوغلی ذہنیت مجبور کردیتی ہے،کہ انہیں ان کے قول اور فعل کا تضاد دکھایا جائے،
    اور کبھی بغض معاویہ میں چورلوگ آئینہ دکھانے پر مجبور کردیتے ہیں!
    🙁

تبصرہ تحریر کریں۔

Your email address will not be published. Required fields are marked *