جون 10, 2015 - ایم بلال ایم
12 تبصر ے

میری سات سالہ اردو بلاگنگ کا آغاز کیسے ہوا

آج میرے بلاگ کی ساتویں ”بلاگ گرہ“ (سالگرہ) ہے یعنی بلاگ لکھتے ہوئے آج پورے سات سال ہو گئے ہیں۔ اس دوران کبھی ایسا نہیں ہوا کہ ایک لمبے عرصے تک کچھ نہ لکھوں، لیکن پچھلے سال ڈیڑھ سال سے معاملات ایسے ہو گئے کہ دیگر کئی ایک کاموں کی طرح لکھنے پر بھی کوئی خاص توجہ نہیں دے سکا۔ بلاگ لکھنے کا تو یہ عالم ہے کہ پچھلے چھ ماہ سے ایک پوسٹ تک نہیں کی۔ البتہ فیس بک پر کبھی کبھی دل پشوری کر لیتا ہوں۔ سوچا کہ بلاگ کی سالگرہ کے دن تو کچھ نہ کچھ لکھنا چاہیئے، اس لئے یہ ”اوٹ پٹانگ“ حاضرِخدمت ہے اور امید ہے کہ اب یہ سلسلہ دوبارہ چل نکلے گا۔ بلاگنگ کے یہ سات سال میرے نزدیک کامیاب رہے ہیں۔ جس کے لئے آپ سب کا اور خاص طور پر اپنے ان قارئین کا شکر گزار ہوں کہ جنہوں نے قدم قدم پر میری حوصلہ افزائی اور تنقید برائے تعمیر کی۔

سالگرہ میرے نزدیک اپنی پچھلی کارکردگی یعنی ”کیا کھویا اور کیا پایا“ کا جائزہ لینے اور آئندہ کی منصوبہ بندی کرنے کا دن ہوتا ہے۔ یوں تو ”اردو اور بلاگنگ“ کے حوالے سے میری پچھلی کارکردگی بلاگ اور سوشل میڈیا پر سب کے سامنے ہے، لیکن پچھلے دنوں ایک دوست کی خواہش پر اپنے کام کی تھوڑی تفصیل فیس بک پر لکھی تھی۔ اس کے علاوہ پانچ سالہ بلاگنگ والی تحریر میں بھی تھوڑا بہت ذکر کیا تھا۔ ویسے اکثریت کا خیال ہے کہ پاک اردو انسٹالر میرا سب سے بڑا کام ہے۔ کوئی مجھ سے پوچھے تو میں کہوں گا کہ اس سے بھی بڑا کام اب تک تقریباً ایک لاکھ لوگوں کے اردو سے متعلق سوالات اور ای میلز کا جواب دینا ہے۔ جن میں اردو لکھنے، پڑھنے یا اردو کے حوالے سے دیگر تکنیکی مسائل کا حل پوچھا ہے اور میں حتی المقدور تعاون کی کوشش کرتا ہوں۔ بہرحال رہی بات آئندہ کے منصوبوں کی تو دیگر کام کاج اتنے ہیں کہ بلاگنگ کے حوالے سے کسی منصوبے کا فی الحال کچھ کہہ نہیں سکتا۔ بس آپ دعا کیجئے شاید ہی پھر کوئی دوا ہو جائے۔ ویسے اسے میری خوش فہمی کہہ لیں یا کچھ اور، لیکن میرا خیال ہے کہ اردو کے لئے کام کرنے اور لکھنے لکھانے کی وجہ سے مجھے بے شمار دعائیں ملیں ہیں اور یہ دعائیں میرا بہت بڑا سرمایہ ہیں۔ دوسری طرف چونکہ ہمارے معاشرے میں اختلاف پر گالیاں دینے کا رواج بھی ہے، اس لئے دعاؤں کے ساتھ ساتھ ہمیں بھی کبھی کبھار اِدھر اُدھر سے اڑتی ہوئی گالی آ ملتی ہے۔ 🙂 لیکن دعائیں دینے والے بے شمار اور گالی والے آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں۔

کئی دفعہ احباب پوچھتے ہیں کہ آپ نے کیوں اور کب لکھنا شروع کیا اور بلاگنگ کی طرف کیسے آئے؟ ایسے بہت سارے سوالوں کے جواب مختلف تحاریر میں دے چکا ہوں۔ جیسے بلاگنگ کی طرف کیسے آیا، اس کا جواب پانچ سالہ بلاگنگ والی تحریر میں عرض کر دیا تھا۔ مزید کیوں اور کب لکھنا شروع کیا، آخر اردو میں ہی کیوں لکھنا شروع کیا اور آغاز میں ہی اردو اور بلاگنگ کے حوالے سے تکنیکی موضوعات ہی کیوں چنے؟ ابھی اس بارے میں عرض کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔

لکھاریوں کو جب یہ پوچھا جائے کہ آپ کو لکھنے کا شوق کب سے ہے؟ تو اکثریت کا جواب ہوتا ہے کہ بچپن سے ہے۔ لیکن میں ایسا ہرگز نہیں کہوں گا، کیونکہ میرے لکھنے کی ”واٹ“ تو بچپن میں اچھی طرح لگ گئی تھی۔ ہوا کچھ یوں کہ بچپن میں ایک خاص ذہنی کیفیت میں بیٹھے بیٹھے چند سطریں لکھ دیں۔ کاغذ اِدھر اُدھر ہو گیا اور کسی طرح میرے چچا جان کے ہاتھ لگ گیا۔ انہوں نے تمام کزنوں کے سامنے میرے لکھے کا انکشاف کر دیا۔ پھر چچا سمیت سب کزنوں نے مل کر میرا وہ مذاق اڑایا اور میرے ہی جملے میرے اوپر پھبتی کی صورت میں ایسے گرائے کہ میں نے لکھنے سے توبہ کی۔ کاش ایسا نہ ہوا ہوتا۔ 🙁 پھر کبھی لکھنے کا کوئی خاص خیال نہ آیا۔ البتہ کالج کے زمانے میں کالج میگزین میں طلباء کی تحاریر دیکھ کر دل کرتا کہ میں بھی کچھ لکھوں، لیکن نہ لکھا اورایسے ہی وقت گزرتا گیا۔ پھر ایک دفعہ رنگ رنگ کی فرقہ واریت پر ملنگ موج میں آ گیا اور ایسے ہی ایک تحریر لکھ دی۔ یہاں سے بھی لکھنے لکھانے کا سلسلہ شروع نہ ہو سکا۔ خیر تعلیم مکمل کر کے پردیس جانا ہوا۔ دیارِ غیر میں وطن کی یاد ستاتی اور اوپر سے وطن کے برے حالات سنتے تو دل کرتا کہ اس بارے میں کسی سے خوب ساری باتیں کروں۔ گو کہ اُدھر بہت سارے اپنے بھی تھے اور ٹیکنالوجی کا ایسا دور دورہ بھی شروع ہو چکا تھا کہ سستے میں وطن تک رابطہ ممکن تھا، مگر پتہ نہیں کیوں میں نے کاغذ اور قلم میں پناہ ڈھونڈی۔ گھر، دفتر اور خاص طور پر سمندر کنارے بیٹھ کر اپنے محبوب پاکستان کو ”لولیٹر“ لکھا کرتا تھا اور پھر انہیں ڈاکیے سمندر کے حوالے کر دیتا، تاکہ وہ میرا پیغام میرے وطن تک پہنچا دے۔ یوں لکھنا اچھا لگتا اور بڑا مزا آتا۔ ایک طرف یہ میری ”رائیٹنگ تھراپی“ تھی تو دوسری طرف لکھنے کا شوق بڑھنے لگا اور یوں لکھنے کا سلسلہ چل نکلا۔ ویسے میں خود کو ایک ”حادثاتی لکھاری“ بھی مانتا ہوں۔ 🙂 جو راہ چلتے لکھاری بن بیٹھا۔

شروع میں اردو زبان سے کوئی خاص واقفیت نہیں تھی۔ 😉 خاص طور پر املاء کی غلطیاں تو آج بھی ”رج کے“ اور دل کھول کر کرتا ہوں۔ 🙂 بچپن میں میری اردو کا حال یہ تھا کہ بول لیتا مگر میٹرک میں بمشکل اردو میں پاس ہوا۔ جبکہ دوسری طرف ریاضی (Math) میں سو فیصد نمبر حاصل کیے اور دیگر سائنسی مضامین میں بھی اچھا تھا۔ بہرحال جب لکھنا شروع کیا تو اردو پر توجہ بھی دی اور اب میری اردو کا حال کیسا ہے؟ یہ مجھ سے بہتر تو آپ ہی بتا سکتے ہیں۔ ویسے تلفظ ابھی تک اچھا نہیں اور میں نے اس پر توجہ بھی نہیں دی۔ اوپر سے چاچا تارڑ نے کہا تھا کہ ایک پنجابی، پنجابی لہجے میں اردو نہیں بولے گا تو اور کس میں بولے گا؟ کچھ اس وجہ سے بھی ہم تلفظ کے معاملے میں تھوڑے سکون میں ہیں۔ دوست احباب کا خیال ہے کہ آسان الفاظ میں بات سمجھا دینا اور تحریر کے ذریعے قائل کرنے کا فن بھی تھوڑا بہت آتا ہے اور فقروں کی بناوٹ بھی شروع سے ہی بہتر ہے۔ ویسے اب سوشل میڈیا فقروں کی اچھی بھلی ایسی کی تیسی کر رہا ہے۔ خیر فقروں کی بناوٹ پر پہلے مجھے بھی پتہ نہیں چلتا تھا کہ ایسا کیونکر ممکن ہوا۔ وہ کیا ہے کہ زمانہ طالب علمی میں تو میرا اردو ادب سے دور دور کا تعلق بھی نہیں تھا۔ بہرحال اب خیال آتا ہے کہ شاید یہ شعاعوں کی بجائے ”تعویذوں“ کا اثر ہے۔ 😉 وہ کیا ہے کہ بیسویں صدی بعد از مسیح تک ابھی شعاعوں کا چکر شروع نہیں ہوا تھا اور بات تعویذوں تک ہی محدود تھی۔ سیانوں کا کہنا ہے کہ کئی دفعہ شر سے خیر جنم لے لیتا ہے۔ میرے خیال میں کچھ ایسا ہی ہوا تھا۔ بہرحال یہ آپس کی بات ہے اور اس کی تفصیل میں جانے کا ابھی وقت نہیں آیا۔ 😛

فی الحال عرض ہے کہ میری مادری زبان اردو نہ اردو سے اچھی جان پہچان تھی، پھر بھی اردو میں ہی کیوں لکھنا شروع کیا؟ حالانکہ جتنی محنت اردو پر کی اگر اس سے آدھی بھی انگریزی پر کرتا تو شاید اُدھر بھی اچھے بھلے ہاتھ پیر مار ہی لیتا۔ درحقیقت جب سمندر کنارے بیٹھ کر لکھنا شروع کیا تو قلم خودبخود اردو میں ہی چلتا گیا۔ حالانکہ دفتر میں سارا دن انگریزی میں ڈوبے رہتے تھے۔ میرے خیال میں ماحول اور معاشرے نے سالہا سال سے جو زبان کی پرورش کی تھی، اسی کی وجہ سے لاشعوری طور پر اردو لکھتا گیا۔ تب میں نے بھی یہی سوچا کہ کھل کر اور بہتر اظہار اردو میں ہی کر سکوں گا۔ دوسرا جب باقاعدہ لکھنا شروع کیا تو تب سوچا کہ لکھنا کن کے لئے ہے اور مخاطب کن سے ہونا ہے؟ ظاہر ہے کہ اپنے اور اپنے ہم وطنوں کے لئے لکھنا اور انہی سے مخاطب ہونا تھا تو پھر پاکستان کی اکثریتی عوام اردو ہی سب سے بہتر سمجھتی ہے۔ اس زاویے پر اکثر سوچا کرتا تھا مگر زیادہ سوچنے کا خیال بھی پردیس میں ہی آیا۔ ہوا کچھ یوں کہ جس کمپنی کے پروجیکٹ پر تھا، اس کی ”آفیشیل لینگوئج“ انگریزی تھی۔ چونکہ میرا شعبہ کمپیوٹرسائنس تھا، اس لئے اکثر دیکھنے میں آتا کہ کمپنی کے کمپیوٹرز میں انگریزی کے ساتھ ساتھ اُدھر کی مقامی زبان بھی شامل ہے۔ حیران ہوتا کہ جب سارا کام انگریزی میں کرنا ہے تو پھر یہ لوگ اپنی مقامی زبان کیوں انسٹال کرتے ہیں۔ اس کی کھوج لگائی تو پتہ چلا کہ یہ لوگ آپس میں رابطہ اپنی زبان میں ہی کرتے ہیں۔ کیونکہ اپنی زبان کے ذریعے بات زیادہ بہتر انداز میں سمجھ آتی ہے۔ زبان پر ایسی ہی تحقیق سے اندازہ ہوا کہ اپنی زبان کا شمار ترقی کے پہلے زینوں میں ہوتا ہے۔ خیر اردو اور ہماری ترقی کے موضوع پر پہلے ہی کئی تحاریر لکھ چکا ہوں۔

یہ تو تھیں زبان (اردو) کے انتخاب اور لکھنے کی طرف آنے کی باتیں۔ آخر پر اب تھوڑی سی اس پر بات ہو جائے کہ اردو اور بلاگنگ کے حوالے سے تکنیکی موضوعات ہی کیوں چنے؟ وہ کیا ہے کہ لکھنے کا شوق ہوا تو بس جدید تقاضوں کے مطابق لکھنا چاہتا تھا۔ لکھنے کی گاڑی پکڑنے بس سٹاپ (انٹرنیٹ) پر پہنچا تو دیکھا کہ میرے جیسے اور بھی بہت سارے لوگ کسی گاڑی کے انتظار میں ہیں۔ جبکہ کئی لوگ اپنی اپنی گاڑی (بلاگ اور اردو لکھنے پڑھنے کے دیگر بندوبست) بنا کر منزل کی طرف نکل رہے ہیں۔ میں بھی اپنی گاڑی بنا کر ایسا کر سکتا تھا لیکن یہ مناسب نہ لگا۔ ویسے بھی سب کو ساتھ لے کر چلنا ہی اصل کام ہے۔ سوچا کہ میرا شعبہ کمپیوٹر سائنس ہے اور چاہے تھوڑا سہی مگر انٹرنیٹ پر اردو لکھنے پڑھنے کے تکنیکی معاملات میں اپنا حصہ ڈال سکتا ہوں۔ یوں ہم نے گاڑیاں بنانے کی فیکٹری پر توجہ دی۔ جو مجھے یا کسی ایک کو ہی نہیں بلکہ سب کو منزل کی طرف لے جانے کا سبب بنے۔ اردو کے لئے کام کرنے والے رضاکاروں نے کئی پرزے اور اوزار وغیرہ پہلے ہی تیار کر رکھے تھے اور پھر کچھ حصہ ہم نے ڈالا۔ یوں ایک طرف گاڑیاں بننی شروع ہوئیں اور دوسری طرف ہم نے صدا لگانی بھی شروع کر دی کہ جس جس نے منزل کی طرف جانا ہے، وہ بس سٹاپ (انٹرنیٹ) پر پہنچے۔ اپنی اپنی گاڑی پکڑے اور قافلے (اردو لکھنے پڑھنے والوں) کے سنگ ہو جائے۔ یوں صرف ہم ہی منزل پر نہیں پہنچیں گے بلکہ ہمارے لوگوں کو بھی فائدہ ہو گا، ہمارے شعور اجاگر اور ہمارا ملک ترقی بھی کرے گا۔

کبھی یہ نہیں سوچا تھا کہ مجھے اس طرح اردو کی ترقی کے لئے کام کرنا پڑے گا۔ حالانکہ میں تو لکھاریوں اور اردو کی گاڑی پر سوار ہونے آیا تھا، مگر گاڑیاں بنانے پر لگ گیا۔ بہرحال مجھے اس بات کی بہت ہی خوشی ہے کہ میری وجہ سے ہمارے لوگوں اور ہماری قومی زبان کو فائدہ ہوا۔ ویسے لگتا ہے کہ اب یہ سلسلہ چل نکلا ہے اور میرا واپس اپنے شوق کی طرف لوٹنے کا وقت آ گیا ہے۔ خیر آپ نے دیکھ لیا ہے کہ بلاگنگ کا آغاز ہمیں کہاں لے آیا، اب اللہ جانے انجام کہاں لے جاتا ہے۔ 🙂 بہرحال میں پُرامید ہوں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست 12 تبصرے برائے تحریر ”میری سات سالہ اردو بلاگنگ کا آغاز کیسے ہوا

  1. ماشاء اللہ اللہ آپ کو اسکا اچھا بدلا دے اور اردو کیلئے آپ اسی طرح کام کرتے رہیں۔
    جیسا کہ آپ دیکھ رہے ہیں کہ میں اردو میں یہ کمنٹ کر رہا ہوں یہ آپ کی ہی دین ہے ورنہ میں تو رومن اردو ہی استعمال کیا کرتا تھا لیکن اب الحمداللہ آپ کی وجہ سے اور اللہ نے آسانیاں پیدا کی اور ہم کمپیوٹر کے کی بورڈ سے اردو لکھنے کے قابل ہوئے۔
    اتفاق کی بات ہے کی مجھے بھی لکھنے کا کوئی خاص شوق نہیں تھا اسلئے کی نہ میں پوری طرح سے انگلش جانتا تھا اور نہ ہی ہندی ہاں اردو میں کچھ ہاتھ پیر مار لیا کرتا تھا۔
    لیکن جب پردیس کی فضاؤں نے زندگی کی حقیقت کھولنی شروع کی تو انگلیاں اپنے آپ ہلنا شروع ہوگئیں۔ اور یہاں کی تنہائی نے اس میں رنگ بھرنا شروع کیا تو ہم نے سوچا کیوں نا اپنا ایک بلاگ بنا یا جا ئے وہ بھی اردو میں (یہ شوق بھی آپ کی تحریروں سے پیدا ہوالنک آپ کو میں نے دیا ہے) اور پھر گاہے بگاہے اس پر اپنی بے ترتیب سی تحریر کو بکھیرنا شروع کردیا ۔
    اور ابھی تک تو چار قسم کے مضمون ہی لکھیں ہیں لیکن اس پر کسی قسم کا کوئی کمنٹ نہ ملنے سے یہ محسوس ہو رہا ہے کہ ابھی ہماری تحریر اس قابل نہیں ہوئی کہ ہم اسے با ادب لوگوں کی محفل میں پیش کرسکیں۔ 😀
    خیر محنت جاری ہے کبھی تو کسی کو کوئی تحریر اچھی لگے گی جس پر ایک آدھ کمنٹ مل ہی جائے گا۔
    آخر میں مَیں پھر اللہ سے دعا گو ہوں کہ اللہ آپ کو دن دونی رات چوگنی ترقیات سے نوازے۔ آمین ثم آمین

  2. واقعی آپ کی محنت کا ثمر آگے آنے والوں کے لئے آسان ثابت ہوا۔۔۔ اردو بلاگرز سے لے کر ٹی وی چینلز کے کمپیوٹر تک میں آپ کی گاڑیاں چل رہی ہیں 😆


  3. بلال صاحب، اللہ پاک آپکو اور آپکی ٹیم کو دن دوگنی اور رات چعگنی ترقی عطاء فرمائے۔ میں تو یہ کہوںگا، کہ اردو زبان کی ترویج اور ترقی میں آپکا کردار بے مثال ہے، لگن ، محنت ، اور اخلاص ، کی کسوٹیان مشکل ضرور ہوتی ہیں ، لیکن ناممکن نہیں، کسی وقت میں سوچا کرتا تھا، کہ رومن اردو لکھ لکھ کر اپنے ساتھ ظلم کر رہے ہیں، بلکہ اپنی زبان، انے ادب کے ساتھ ظلم کر رہے ہیں، اور وہ دن دور نہیں، کہ ہماری نئی نسل اردو لکھنا ہی بھول جائے۔
    لیکن آپکی محنت اور لگن نے، اس مسئلہ جو جس خوش اصلوبی سے حل کیا۔۔۔۔ یہ میں اللہ پاک کی عطاء سمجھتا ہوں، بلال ایم ڈاٹ کام، ایک ایسی وہب سائیڈ ہے۔ جس نے مجھ جیسے ہزاروں لوگوں کو اردو لکھنے کے قابل بنا دیا ہے۔ کہ ہم بے جھجک اپنے خیالات کا اظہار اردو میں کردیتے ہیں، اور کر رہے ہیں۔۔ اردو لکھنے اور پڑھنے کا فائیدہ یہ ہوا ، کہ اب اردو کی ترویج دنیا کے دیگر ممالک میں رہنے والے بھی اسمیں ذوق شوق سے اپنا حصہ ڈال رہے ہیں،،، اور بیروں ملک رہنے والے پاکستانی، یا اردو بولنے اور لکھنے والے فائیدہ اٹھا رہے ہیں۔ اور ہم اپنے دل کی بات بر زبانِ اردو کہنے کے قابل ہوگئے ہیں۔۔۔۔

  4. ماشاءاللہ
    سر جی آپ ہی کی بدولت آج ہم آنلائن اردو دیکھ رہے ہیں
    آپ کا کام بلاشبہ بہترین و مفید ہے
    اللہ خوش رکھے آپ کو

    اور وہ اردو کتابچہ کن موضوعات پر تھا

  5. بلاگ کی ساتویں سالگرہ کو اللہ آپ اور آپ کے اہلِ خانہ کیلئے مبارک کرے
    آپ کی غیر حاضری کے میں ان اسباب پر غور کرتا رہا
    1 ۔ آپ کی شادی ہو گئی ہے
    یا
    2 ۔ آپ نے کوئی باقاعدہ ملازمت یا بزنس شروع کیا ہے
    یا
    3 ۔ آپ نے ٹچ سکرین والا موبائل فون لے لیا ہے اور فیس بُکی ہو گئے ہیں
    اصل وجہ آپ جانتے ہوں گے لیکن مصروفیت کچھ اتنی گھمبیر قسم کی ہے کہ میں نے دو بار آپ کو ای میل بھیجی جن میں سے ایک بار آپ کی مدد کی ضرورت تھی لیکن جواب نہ ملا

  6. بلال بھائی! ساتواں بلاگ گرہ بہت بہت مبارک ہو۔ آپ کی تحریر ہمیں اپنی گرفت میں‌ لئے ہوتی ہے۔ آج آپ کے جذبات کو الفاظ کی چادر تلے محسوس کرکے طبعیت میں عجیب سی اتار چڑھاؤ محسوس کئے۔ سمندر کنارے تھوڑے غمگین ہوئے تو آپ کی اُردو کیلئے ناقابل فراموش خدمات پر جہاں خوشی اور طمانیت ہوئی وہاں چچا تارڑ کے واقعے نے ڈھارس بھی بندائی اور اب ہم بھی کہہ سکتے ہیں‌کہ پختون اُردو پشتو لہجے میں‌ نہیں‌ بولیں گے تو اور کس میں بولیں‌ گے 😆

  7. ماشاءاللہ آپکی محنت ہمارے اتنی کام آتی ہے کہ اب ہم کہیں بھی جی ہاں کہیں بھی حتیٰ کہ دفتری امور میں ایکسل وغیرہ پر بھی اردو لکھ دیتے ہیں۔ اللہ رب العزت آپ کو بہت عزت، ترقی اور ایمان کی مضبوطی عطا فرمائے(آمین)

  8. السلام علیکم و رحمتہ اللہ ۔ بیٹا اللہ آپ کو دنیا و آخرت میں سرخ رو فرمائے اور میری دعا ہے کہ اللہ پاک آپ کو اسی طرح اپنے ملک و قوم کی خدمت میں لگائے رکھے آمین۔ میں گزشتہ 6 ماہ سے ریٹائرمنٹ کی زندگی گزار رہا ہوں اور اب مصروف رہنے کے لیئے کسی اچھےکام کی تلاش میں ہوں۔ جس کو کرکے روحانی سکون محسوس کروں۔ ماشا اللہ آپ نےتو وہ کام سات برس پہلے ہی شروع کردیا تھا یعنی ساتویں بلاگ گرہ آپ کو مبارک ہو یہ جو اس وقت میں لکھ رہا ہوں آپ کی راہنمائی کی وجہ سے ہے ملازمت کے زمانے میں غالبا جنرل ضیا الحق صاحب کے دور میں دفاتر میں اردو زبان رائج کرنے کے سلسلے میں مقتدرہ قومی زبان کے ادارے نے کام شروع کیا تھا اور اس وقت مجھے بڑی ہی خوشی محسوس ہوئی تھی کہ انشا اللہ ہمارے ملک کے باشندے بھی اب ترقی کی منازل طے کرلیں گے اور اپنے ملک و قوم کے لیئے آسانی سے ترقی کے کام کرسکیں گے۔ مگر یہ خواب ادہورا رہ گیا نہ معلوم وہ کون لوگ تھے جو اس راستے میں رکاوٹ بنے رہے اور شاید اب تک ان کے ایجنٹ موجود ہیں بہر حال جو کام اردو کی ترقی کے لیئے آپ نے آج تک سرانجام دیا ہے میں سمجھتا ہوں اور کسی نے اتنی محنت سے اور لگن سے یہ کام نہیں کیا ہے اور مجھے امید ہے کہ اللہ آپ سے مزید کام لیں گے اور ہماری قوم اس کی بدولت اپنی پہچان کو قائم رکھے گی انشا اللہ ۔ باقی آئیندہ انشا اللہ۔

  9. بلال صاحب
    خدا کرے آپ بخیر ہوں۔
    بہت دنوں کے بعد میں نے آپ کا بلاگ کھولا، سامنے یہ تحریر تھی، سوچا میں بھی اس احسان کا تذکرہ کردوں جو آپ نے مجھ پر کیا ہے۔ یہ بات تقریبآ پانچ چھ سال پرانی ہے جب میں آپ کے بلاگ سے واقف ہوا اور میں نے وہاں سے اردو بلاگنگ اور کمپیوٹر پر اردو سے متعلق کتابچہ پڑھا دوستوں کو دکھایا اور انٹرنیٹ پر اردو اور کمپیوٹر پر اردو لکھنے کی شروعات کردی۔ خدا آپ کو اس کا جزائے خیر دے۔

  10. السلام علیکم اور رمضان مبارک بلال بھائی!
    امید ہے کہ آپ کے روزے بخیروعافیت سے جا رہے ہوں گے۔ میں نے جب انٹرنیٹ استعمال کرنا شروع کیا تو یقین جانیے انگریزی ویب سائٹ پڑھنے میں بہت دشواری ہوتی تھی۔ا س دور میں اردو پوائنٹ ڈاٹ کام والوں نے نیا آغاز کیا تھا اور آج کل جس طرح فیس بک پر زیادہ وقت صرف ہوتا ہے ، اس دور میں اردوپوائنٹ کی نذر پر صرف ہوتا تھا۔اپنی ویب سائٹ بنانے کا بہت شوق تھا اور یہ شوق 2010 کو پایہ تکمیل کو پہنچا جب اپنی پہلی ویب سائٹ الحمد اللہ کامیابی سے بنائی۔ یہ اردو ویب سائیٹ تھی۔ اس کے بعد شوق میں مزید اضافہ ہوا تو اپنے گاؤن کی ویب سائیٹ بنا ڈالی۔ اس وقت ورڈ پریس کے بارے میں‌ایک جستجو سی پیدا ہو چکی تھی تو انٹرنیٹ پر سرفنگ کے دوران اردو ویب سائٹ (ورڈپریس تھیم اور باقی مواد) کے سلسلے میں آپ کی ویب سائٹ کا وزٹ کیا تو بہت اچھا لگا اپنی قومی زبان میں ویب سائٹ دیکھ کر۔ اس کے علاوہ آپ ماشا اللہ سے اردو بلاگنگ میں میرے استاد بھی ہیں، آپ کی ویب سائٹ پر فراہم کردہ معلومات سے استفادہ حاصل کر کے میں نے اپنی پہلی اردو بلاگنگ ویب سائٹ بنائی تھی۔ اور ابھی انشااللہ میں اپنی دوسری اردو ویب سائٹ کا آغاز کرنے جا رہا ہوں۔
    اللہ پاک آپ اور آپ کے گھر والوں کو اپنی حفظ و امان میں رکھے او رمیری دعا ہے کہ اللہ پاک آپ کو دن دگنی اور رات چگنی ترقی کی منازل طے کرائیں، آمین۔
    اور میں دعا کرتا ہوں کہ جب بھی اردو ویب سائیٹ کا باقاعدہ آغاز اور ترقی میں اہم کردار ادا کرنے والوں کا نام لیا جائے تو میرے استاد محترم محمد بلال ملک صاحب کا نام ان میں سر فہرست ہوں۔ آمین

Leave a Reply to نعمان یونس جواب منسوخ کریں۔

Your email address will not be published. Required fields are marked *