اکتوبر 16, 2008 - ایم بلال ایم
16 تبصر ے

مسلمان بے گناہوں کا خون نہیں بہاتا

بسم اللہ الرحمن الرحیم
ہمارا پیارا وطن پاکستان آج کل بے شمار مسائل کا شکار ہے کچھ لوگ تو اب پاکستان کو مسائلستان کہتے ہیں۔ ویسے تو کئی مسائل ہیں لیکن آج ہم خود کش حملوں کو دیکھتے ہیں۔
کہا جاتا ہے کہ پاک فوج جب کہیں آپریشن کرتی ہے تو وہ لوگ جواب میں خود کش حملے کرتے ہیں۔ ہم تھوڑی دیر کے لئے کچھ باتیں تصور کرتے ہیں۔ ایک یہ کہ پاکستان کی فوج سرا سر غلطی پر ہے اور جن کے خلاف آپریشن کر رہی ہے وہ مسلمان ہیں اور اسلام کی سر بلندی کے لئے کوشاں ہیں۔ جنہیں آج کل طالبان کہا جاتا ہے یا وہ خود کہلواتے ہیں۔ ایک بات یاد رہے کہ ہم افغانی طالبان کا ذکر نہیں کر رہے بلکہ پاکستانی طالبان کا ذکر کر رہے ہیں اور نہ ہی افغانی طالبان کا پاکستانی طالبان سے رشتہ ناتہ دیکھ رہے ہیں کیونکہ یہ ایک علیحدہ اور لمبی بحث ہے۔ اچھا تو ہم اپنے تصورات میں واپس آتے ہیں کہ پاکستانی فوج غلطی پر ہے اور طالبان اسلام اور مسلمانوں کی حفاظت کے لئے لڑ رہے ہیں۔ پاکستانی فوج تو ہے ہی غلطی پر اس لئے وہ جو بھی کرے غلط ہے لیکن ہم اُن لوگوں کے کردار کو دیکھتے ہے جو اسلام اور مسلمان کے لئے لڑ رہے ہیں یعنی پاکستانی طالبان۔۔۔
پاکستانی فوج امریکہ کے کہنے پر یا خود اپنی مرضی سے طالبان کے علاقے پر حملہ کرتے ہیں تو جواب میں طالبان خود کش حملے کرتے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ خود کش حملہ پاکستانی فوج پر ہے یا کسی اور پر؟؟؟ یہ بات سب جانتے ہیں کہ خود کش حملے فوج پر بھی ہوتے ہیں اور عام عوام پر بھی۔ فوج پر ہونے والے حملوں کو چھوڑ کر عام عوام پر ہونے والے حملوں کو اسلامی نقطہ نظر سے دیکھتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ اسلام اور مسلمانوں کے لئے لڑنے والے کیا کر رہے ہیں؟؟؟
اسلامی تعلیمات اور تاریخ کھول کر دیکھیں تو ایک بات صاف صاف ظاہر ہوتی ہے کہ اسلام ایک ایسا مذہب ہے جس نے ہر کام کے قوانین اور قواعد و ضوابط بنائے ہیں اور مسلمانوں کو اُن پر چلنے کا کہا گیا ہے۔ حضورﷺ اور خلفائے راشدین کے زمانے کی جنگوں کو دیکھیں تو جب بھی کوئی اسلامی لشکر روانہ ہوتا تو اُس کو جنگ کے قوانین یاد دلائے جاتے جن میں سے صرف ایک جس کو تقریباً ایک عام مسلمان بھی جانتا ہے۔ وہ یہ کہ “جو تہمارے خلاف ہتھیار نہ اُٹھائیں انہیں کچھ نہیں کہنا” یعنی عام الفاظ میں یوں کہ جو لوگ تم سے نہیں لڑتے اُن سے تم نے نہیں لڑنا اور نہ ہی انہیں کوئی نقصان پہنچانا ہے بے شک وہ کوئی بھی ہوں۔
یہاں دیکھا جائے تو وہ لوگ جن کے خلاف لڑنے سے منع کیا جا رہا ہے وہ لوگ ہیں تو دشمن کے اور دشمن کے علاقے کے اور ہو سکتا ہے کہ وہ کفار ہوں۔ لیکن پھر بھی عام عوام سے لڑنے سے منع کیا گیا۔ ہم اس ایک اصول کی روشنی میں دیکھتے ہیں کہ کفار عوام، دشمن کے لوگ، ظاہر ہے جن کے لوگ ہوں گے تو ہمدردیاں بھی اُن کے ساتھ ہوں گی لیکن پھر بھی عام عوام کو مارنے سے منع کیا گیا ہے۔
اب ہم نے صرف ایک اسلامی جنگی اصول کو دیکھ لیا۔ اب دیکھتے ہیں اسلام کے لئے لڑنے والے طالبان کو۔۔۔ طالبان کی دشمن اگر فوج ہے تو فوج سے لڑیں لیکن بے گناہ پاکستانی عوام کو کیوں مار رہے ہیں؟؟؟ طالبان پر حملہ فوج کرتی ہے لیکن طالبان کمزور عوام پر خود کش حملہ کیوں کرتے ہیں؟؟؟ اس غریب عوام کو روٹی نہیں مل رہی لیکن یہ انتقامی کاروائی میں بھوکی عوام کا گوشت کیوں کھاتے ہیں؟؟؟ ملک بحرانوں کا شکار ہے لیکن ملکی تنصیبات کو تباہ کر کے ملک کو اور کھوکھلا کیوں کرتے ہیں؟؟؟ یہاں ویسے ہی بھائی بھائی سے خوف زدہ ہے پھر چیتھڑے اڑا کر عوام میں خوف کیوں پیدا کیا جا رہا ہے؟؟؟ کیا قصائی کم پڑ گئے جو خود کش حملہ کے ذریعے اپنا اور عوام کا گوشت کیا جا رہا ہے؟؟؟
اِن باتوں کو دیکھ کر ایک بات صاف ظاہر ہو جاتی ہے کہ جو شر پسند عناصر عام عوام پر حملے کرتے ہیں اور اُن کی ذمہ داری قبول کرتے ہیں وہ کسی طرح سے بھی اسلامی جنگی اصولوں پر نہیں چل رہے اور نہ ہی اسلام اور مسلمانوں کی خاطر لڑ رہے ہیں بلکہ ذاتی مفادات، بیرونی یا اندرونی شیطانی طاقتوں کے آلہ کار ہیں۔ جن کا مقصد اسلام، مسلمانوں اور جہاد کو بدنام کرنا ہے۔ یہ سرا سر اسلام کو نقصان پہنچا رہے ہیں اور اسلامی جمہوریہ پاکستان کو تباہ کرنا چاہتے ہیں۔ اگر عام عوام سے نظریاتی اختلاف ہے تو تبلیغ کریں، سچی باتیں بتائیں اور لوگوں کے دل جیتیں۔ اسلام میں کہاں لکھا ہے کہ نظریاتی اختلاف پر دوسرے کو قتل کر دیا جائے۔ جنگ میں عام عوام کو مارنا اور نظریات کے اختلاف پر لوگوں کو قتل کرنا یہ کہاں لکھا ہے؟؟؟
میں تمام لوگوں سے جو اس طرح کے کاموں میں ملوث ہیں ہاتھ جوڑ کر گزارش کرتا ہوں خدا کے لئے عام عوام کو مت مارو۔ ہمیں سمجھو ہم امن چاہتے ہیں، ہم علم چاہتے ہیں، ہم ترقی چاہتے ہیں، ہم اسلام کی سر بلندی چاہتے ہیں۔ ہم اسلام کے اُس دشمن سے لڑنے والے ہیں جو ہم سے لڑتا ہے۔ ہم بے گناہوں پر ظلم نہیں کرتے۔ لیکن طالب تم کیسے انسان ہو؟؟؟ جو خود کو مسلمان بھی کہتے ہو اور
بے گناہوں کا خون بھی بہاتے ہو؟؟؟ جبکہ “مسلمان بے گناہوں کا خون نہیں بہاتا”۔۔۔
احمد فراز بھی کہہ کر چلا گیا ہم پھر سے اُس کی یاد تازہ کرتے ہوئے اُس کا پیغام سناتے ہیں
تم اپنے عقیدوں کے نیزے ہر دل میں اتارے جاتے ہو
ہم لوگ محبت والے ہیں، تم خنجر کیوں لہراتے ہو
اس شہر میں نغمے بہنے دو، اس شہر میں ہم کو رہنے دو
ہم پالن ہار ہیں پھولوں کے، ہم خوشبو کے رکھوالے ہیں
تم کس کا لہو پینے آئے، ہم پیار سکھانے والے ہیں
اس شہر میں پھر کیا دیکھوگے، جب حرف یہاں مرجائےگا
جب تیغ سے لے کٹ جائے گی، جب شعر سفر کرجائےگا
جب قتل ہوا سب سازوں کا، جب کال پڑا آوازوں کا
جب شہر کھنڈر بن جائے گا، پھر کس پر سنگ اٹھاؤ گے
اپنے چہرے آئینوں میں، جب دیکھوگے، ڈر جاؤ گے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست 16 تبصرے برائے تحریر ”مسلمان بے گناہوں کا خون نہیں بہاتا

  1. آپ کو پتہ ہے احمد فراز کا اشارہ اپنی فوج کی طرف تھا۔ دوسرے اگر آپ کے آرٹیکل میں‌فوج کو طالبان اور طالبان کو فوج سے بدل دیا جائے تو بھی کوئی فرق نہیں‌پڑے گا۔

  2. میں آپ کے پیغام کی بھرپور تائید کرتا ہوں اور بے شک بے گناہوں کے خون بہانے کا کوئی بھی جواز نہیں ہوتا اسے فدائی کہیں یا خود کش اور یہی اسلام کا پیغام ہے۔

  3. جب آپ دوسروں کے بے گناہ بچوں ک ماریں گے تو وہ بھی ماریں گے۔ اب تو آپ نے جنگ شروع کر دی نا ان سے۔ تو جنگ میں تو مورچے والا کم مرتا ہے۔ ان لوگوں نے کبھی آپ کے خلاف ہتھیار اٹھایا تھا؟ جب آپ انکے دشمنوں کے ساتھ مل کر ان کو مار رہے ہیں تو اب جواب میں وہ آپ کے دشمنوں سے مل کر آپکو ماررہے ہیں۔ میرے لیے تو بات بڑی آسان ہے۔ پتہ نہیں باقیوں کو اتنی آسان کیوں نہیں لگتی؟

  4. میرا پاکستان کا دوسرا جملہ زبردست ہے
    کون سمجھائے گا ہمارے حکمرانوں کو کہ دھماکے کرنے والے اور سکول تباہ کرنے والے زرخرید ہیں جو ہمارے دشمن ممالک نے بھیجے ہیں ؟

  5. اقتباس “میں آپ کے پیغام کی بھرپور تائید کرتا ہوں اور بے شک بے گناہوں کے خون بہانے کا کوئی بھی جواز نہیں ہوتا اسے فدائی کہیں یا خود کش اور یہی اسلام کا پیغام ہے۔”

    دوست میں آپ کی بات کچھ ٹھیک طرح سے سمجھ نہیں سکا۔۔۔ اگر آپ کچھ وضاحت کر دیں‌تو بہتر ہو گا۔۔۔شکریہ

  6. اقتباس “آپ کو پتہ ہے احمد فراز کا اشارہ اپنی فوج کی طرف تھا۔ دوسرے اگر آپ کے آرٹیکل میں‌فوج کو طالبان اور طالبان کو فوج سے بدل دیا جائے تو بھی کوئی فرق نہیں‌پڑے گا۔”

    جی میرا پاکستان صاحب بالکل ٹھیک کہا آپ نے اگر فوج کو طالبان اور طالبان کو فوج سے بدل دیا جاتے تو بھی کوئی فرق نہیں‌پڑے گا۔۔۔ اس سے یہ تو پتہ چلا کہ دونوں طرف کے لوگ غلط کر رہے ہیں اور جس کا نقصان صرف اور صرف پاکستان کو ہو رہا ہے۔۔۔

  7. اقتباس “جب آپ دوسروں کے بے گناہ بچوں ک ماریں گے تو وہ بھی ماریں گے۔ اب تو آپ نے جنگ شروع کر دی نا ان سے۔ تو جنگ میں تو مورچے والا کم مرتا ہے۔ ان لوگوں نے کبھی آپ کے خلاف ہتھیار اٹھایا تھا؟ جب آپ انکے دشمنوں کے ساتھ مل کر ان کو مار رہے ہیں تو اب جواب میں وہ آپ کے دشمنوں سے مل کر آپکو ماررہے ہیں۔ میرے لیے تو بات بڑی آسان ہے۔ پتہ نہیں باقیوں کو اتنی آسان کیوں نہیں لگتی؟”

    اگر فوج طالبان کے بے گناہ بچوں یا کسی بھی بے گناہ کو مار رہی ہے تو یہ سیدھا سیدھا غلط کر رہی ہے جو کم از کم میرے خیال میں اسلام کے مطابق نہیں۔۔۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر طالبان پاکستان کے بے گناہ لوگوں کو مار رہے ہیں تو کیا وہ ٹھیک کر رہے ہیں؟
    میرے بھائی دونوں اطراف سے غلط ہو رہا ہے۔۔۔ لیکن چند لوگ یہ صرف فوج کو ٹھیک کہتے ہیں تو چند طالبان کو۔۔۔ اور دونوں کے حامی اُن کی ہر جائزوناجائز بات کو مانتے ہیں اور اُن کا دفاع بھی کرتے ہیں چاہے جھوٹ کو سچ اور سچ کو جھوٹ ہی کیوں نہ ثابت کرنا پڑے۔۔۔

  8. اقتباس “کون سمجھائے گا ہمارے حکمرانوں کو کہ دھماکے کرنے والے اور سکول تباہ کرنے والے زرخرید ہیں جو ہمارے دشمن ممالک نے بھیجے ہیں ؟”

    بہت خوب اجمل صاحب۔۔۔ اسی لئے تو میں نے پاکستانی طالبان کا ذکر کیا ہے اور تحریر میں یہ بھی واضح کر دیا تھا کہ ہم پاکستانی طالبان پر بات کر رہے ہیں نہ کہ افغانی طالبان پر۔۔۔

  9. معذرت چاہتا ہوں کے دوبارہ اس بلاگ پر وزٹ نہ کرسکا۔
    جس دن آپ کا بلاگ چھپا تھا اس دن کسی طالبان لیڈر کا بیان تھا کے ہمارے حملہ آور خودکش نہیں بلکہ فدائی ہیں۔۔ اس پس منظر میں عرض کی تھی کہ بے گناہ کا خون بہا کر اسے فدائی حملہ کہا جائے، خود کش کہا جائے یا ڈرون سے بم برسائے جائیں کسی صورت بھی اس کی حمایت یا تائید نہیں کی جاسکتی۔۔ مجھے پس منظر واضح کرنا چاہیے تھا۔۔ امید ہے بات صاف ہوگئی ہوگی۔

  10. اقتباس “راشد کامران نے لکھا:
    معذرت چاہتا ہوں کے دوبارہ اس بلاگ پر وزٹ نہ کرسکا۔
    جس دن آپ کا بلاگ چھپا تھا اس دن کسی طالبان لیڈر کا بیان تھا کے ہمارے حملہ آور خودکش نہیں بلکہ فدائی ہیں۔۔ اس پس منظر میں عرض کی تھی کہ بے گناہ کا خون بہا کر اسے فدائی حملہ کہا جائے، خود کش کہا جائے یا ڈرون سے بم برسائے جائیں کسی صورت بھی اس کی حمایت یا تائید نہیں کی جاسکتی۔۔ مجھے پس منظر واضح کرنا چاہیے تھا۔۔ امید ہے بات صاف ہوگئی ہوگی۔”

    راشد کامران بھائی معذرت کی کوئی بات نہیں۔ آپ کا بہت شکریہ کہ آپ اس ناچیز کے بلاگ پر تشریف لائے۔ جی اب بات بالکل واضح ہو گئی ہے۔۔۔ تفصیل بیان کرنے کا بہت شکریہ۔
    اللہ تعالٰی آپ کو خوش رکھے۔۔۔آمین

  11. السلام علیکم
    ذرا ایک مثال بھی دیدیتے کہ طالبان نے کونسا حملہ خالص عوام پر کیا ۔
    باقی جنگوں میں نظریاتی اختلاف کی بنیاد پر ہی لوگوں کو مارا جاتا ہے۔

    1. وعلیکم السلام!
      برادر! مجھے آپ کے اس سوال پر کافی حیرانی ہوئی ہے۔ خیر یہ لنک دیکھیں تو تحریک طالبان پاکستان کی دہشت گردی کا سارا پلندہ مل جائے گا اور ہاں اس لنک پر وہ حوالے بھی موجود ہیں اور ساتھ ساتھ جن جن حملوں کی طالبان نے تردید کی وہ بھی موجود ہیں۔

      رہی بات جنگوں میں نظریاتی اختلاف کی بنیاد پر لوگوں کو مارنے کی تو محترم عرض ہے کہ جنگوں میں ایسا ہوتا ہو گا مگر میرا مذہب اسلام اس بات کی اجازت نہیں دیتا اور مجھے دنیا کی پالیسی سے کوئی سروکار نہیں، مجھے تو بس اس سے سروکار ہے کہ اسلام کیا فرماتا ہے۔

      1. السلام علیکم
        رپورٹ اگرمبنی بر تعصب ہے لیکن پھربھی ایک بھی ایسی مثال پیش کرنے سے قاصر ہے جو آپ کا الزام ہے۔ یعنی عوام پر حملے۔
        تو کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جن لوگوں سے قتال کیا وہ نظریات کی بنیاد پر نہیں تھا ؟ اسلامی جہاد تو ہوتا ہی نظریا ت پر ہے۔
        ایک بار پھر مطالبہ کرتا ہوں کہ اپنے الزام (بلکہ بہتان) کے ثبوت کے لئے کوئی ایک دلیل ضرور پیش کریں۔
        آپ میرے دینی بھائی ہیں میری بات کا برا مت مانئے گا ۔

        1. وعلیکم السلام!
          آپ بھی کمال کرتے ہیں جناب! جو لنک میں نے دیا گو کہ اس میں فورسز پر ہونے والے دھماکے بھی لکھی ہوئے تھے مگر ساتھ ساتھ شاید آپ نے پڑھا نہیں کہ عام عوام کہاں کہاں مری۔۔۔ لاہور والے دھماکے، داتا دربار کے قریب دھماکے، پشاور میں دھماکے، درہ آدم خیل کے مرکزی بازار میں خود کش دھماکہ، کوہاٹ میں خود کش بم دھماکہ ہوا جس میں چھیالیس عام شہری شہید ہوئے اور یہ فہرست اتنی طویل ہے کہ یہاں لکھ نہیں سکتا اور زیادہ تر دھماکوں کے بعد پاکستانی طالبان کا ذمہ داری قبول کرنا۔ جب وہ خود قبول کر رہے ہیں تو پھر بہتان کاہے کا؟ اگر آپ کہتے ہیں کہ یہ سب پاکستانی طالبان نے نہیں کروایا تو پھر حضرت تحقیق کریں کہ آخر یہ پاکستانی طالبان نامی کوئی چیز ہے بھی یا نہیں اور اگر ہے تو پھر یہ ان حملوں کی تردید کیوں نہیں کرتے جبکہ چند ایک کی تردید انہوں نے کی بھی تھی۔ اس کے علاوہ مزید میں اس موضوع پر کچھ نہیں کہنا چاہتا۔
          باقی رہی بات نظریات کی بنیاد پر قتال کی تو پھر حضرت آپ کو قرآن اور حضورﷺ کے دور کا تفصیل سے مطالعہ کرنے کی ضرورت ہے۔ بالفرض اگر آپ کی بات مان لی جائے کہ نظریات کی بنیاد پر یعنی نظریہ سے اختلاف کرنے پر قتل جائز ہے تو پھر محترم آپ تو غیر مسلموں کے مسلمانوں پر لگائے گئے اس الزام کو سچ ثابت کر رہے ہو جس میں وہ کہتے ہیں کہ اسلام اپنے اعلیٰ اخلاق کے زور پر نہیں بلکہ تلوار کے زور پر پھیلا ہے۔
          رہی بات میرے برا منانے والی تو ایسی کوئی بات نہیں کیونکہ آپ اختلاف کا پورا پورا اختیار رکھتے ہیں۔

  12. السلام علیکم
    آپ کے مذکورہ واقعات میں سے جو حملہ آپ سمجھتے ہیں کہ عوام پر تھا اس واقعہ کی ذمہ داری طالبان کی طرف سے قبول کرنا بھی ثابت کریں ۔ یاد رہے میڈیا اس جنگ میں خود ایک فریق ہے ، میڈیا نے تو وہ تردید بھی نشر نہیں کی تھی جو طالبان کی تھی۔
    رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : آدمی کے جھوٹا ہونے میں یہی بات کافی ہے جو سنے اسے کہہ دے۔ (مقدمہ صحیح مسلم)
    یہ بھی ذرا غور کریں کہ جن حملوں کا طالبان نے رد کیا تو وہ کیوں کیا ؟ کیا آپ نے خود بھی وہ بیانات سنے؟
    کبھی یہ لنک کام کرے تو ضرور سنئے گا اس بیان کو
    http://www.youtube.com/watch?v=1po3M_9ic8E
    اچھا قتال نظریات پر نہیں تو پھر کس چیز پر ہوتا ہے؟
    یہ بھی بتائیے کہ اسلام کے شعائر کا مذاق اڑانے کی شرعی سزا کیا؟
    کفار کا ساتھ دیتے ہوئے مسلمان کو قتل کرنا اور اس پر ابھارنا کیا ارتداد نہیں؟ (سورۃالمائدہ : 51)

    1. وعلیکم السلام!
      سب سے پہلے عرض ہے کہ پاکستانی طالبان اور افغانی طالبان میں موجود فرق کو نہ بولیے۔ میں نے اس بات کا ذکر تحریر میں بھی کیا ہے اور یہاں بات پاکستانی طالبان کی جو کہ تحریک طالبان پاکستانی نامی لوگ ہے ان کی ہو رہی ہے۔
      حضرت ہمیں جو پتہ چلتا ہے وہ میڈیا کے ذریعے ہی پتہ چلتا ہے۔ اگر میڈیا جھوٹا ہے تو پھر اسی میڈیا نے ہمیں طالبان کے بارے میں بھی بتایا ہے۔ پتہ نہیں یہ طالبان کوئی وجود بھی رکھتے ہیں یا نہیں، اس لئے ہم نے میڈیا کے ہی بتائے ہوئے طالبان پر بات کی ہے۔
      خیر پہلے آپ خالص عوام پر ہی حملے والی بات ماننے کو تیار نہیں تھے۔ اب میں نے باقاعدہ واقعات بتائے جن کی ذمہ داری طالبان نے قبول کی، اب آپ ثبوت مانگ رہے ہو۔ پھر اس چار سال پرانی لکھی ہوئی تحریر پر ثبوت اکٹھے کئے تو آپ کہو گے کہ ان ثبوتوں کو ثابت کرنے کے لئے ثبوت لاؤ۔ بس پھر یہ سلسلہ اتنا لمبا ہو سکتا ہے جتنا کرنا چاہیں۔ یہ چار سال پرانی تحریر ہے اور اب تو مجھے یہ بھی یاد نہیں کہ تب کونسا حملہ خالص عوام پر ہوا تھا اور اس کی ذمہ داری باقاعدہ طالبان نے قبول کی تھی اور پھر اس کے ردِعمل میں یہ تحریر لکھی تھی۔
      ویسے سوچنے والی بات تو یہ بھی ہے کہ آپ نے جو جو کچھ بیان کیا ہے ذرا آپ ان کے ثبوت تو لاؤ۔ کیا یہ سب اللہ یا اس کے رسول ﷺ سے آپ نے براہ راست سنا ہے یا پھر یہ بھی سنی سنائی ہی باتیں ہیں؟
      باقی میں نے اسلام کے شعائر کا کوئی مذاق نہیں اڑایا اور نہ ہی یہ تحریر اس بارے میں ہے۔ لہٰذا یہاں پر یہ بات بے موقع و محل ہے۔
      مزید نظریات کی بنیاد پر قتال پر جو کہنا تھا وہ کہہ چکا ہوں مزید میری طرف سے ”قالواسلاما“ قبول فرمائیں کیونکہ میں نے جو کہنا تھا وہ اپنی تحریر میں کہہ چکا ہوں۔ جہاں تک سمجھتا تھا آپ کو جواب دینا چاہئے وہ دے چکا ہوں۔
      ویسے یہ چار سال پرانی تحریر ہے اور یاد رکھیں چار سالوں میں انسان کی سوچ میں بہت تبدیلی آ سکتی ہے اور یہ بھی تو ہو سکتا ہے کہ میں بھی اس فلسفے کو سمجھ گیا ہوں جو حقیقت میں طالبان کے پس پردہ چل رہا ہے۔ اس لئے اس تحریر پر مزید کوئی بحث نہیں۔ موجودہ تحاریر پر یعنی میری سوچ پر اعتراض ہے تو موجود تحاریر پر تشریف لائیے۔
      السلام علیکم

Leave a Reply to ابو صارم جواب منسوخ کریں۔

Your email address will not be published. Required fields are marked *