اگست 25, 2020 - ایم بلال ایم
تبصرہ کریں

اور اس کُٹیا کے ماتھے پر لکھوایا ہے… سب مایا ہے

دریائے چناب کے کنارے پر۔۔۔ آسمان پر چھائی کہکشاں۔۔۔ اک جلتا الاؤ۔۔۔ اک بیری کا درخت۔۔۔ اور اس کے پاس درویش کی کُٹیا۔۔۔ ”اور اس کٹیا کے ماتھے پر لکھوایا ہے… سب مایا ہے“۔۔۔ سڑک چھوڑی، بند سے اترے اور دریا کے عین کنارے پر چلتے چلتے گھاس پھوس سے بنی کُٹیا کے قریب پہنچے۔ اس دشت و بیابان میں ایک طرف رات شدید تاریک، خطرناک کیڑے مکوڑوں کا گڑھ، اور دوسری طرف چناب میں طغیانی بڑھ رہی تھی۔ سطح مسلسل بلند ہو رہی تھی اور پانی کناروں سے باہر اب نکلا کہ اب۔ یوں ہر گزرتے لمحے کے ساتھ ساتھ واپسی کی مشکلات بڑھتی جا رہی تھیں۔ مگر اک دیوانے کو اپنے مطلوبہ نظارے کی تصویر درکار تھی۔۔۔ اور پھر کُٹیا والا درویش سو چکا تھا اور یارِ غار کو گھر لوٹنا پڑ گیا۔ حالانکہ اب ہی تو تلاش کی کچھ تسکین کا وقت آیا تھا۔ گویا ”گر گئے سجدوں میں جب وقت قیام آیا“۔ خیر چناب کناروں پر کائنات طاری تھی۔ دل کے تار چھڑنے لگے۔ منظرباز مدہوش ہونے لگا۔ واپسی کے معدوم ہوتے راستوں کو بھول کر وہ بھی ستاروں کے ساتھ ساتھ اپنے مدار میں گھومنے لگا۔

عموماً تصویروں کی بناوٹ و ترکیب وغیرہ یعنی ”کمپوزیشن“ تین طرح سے وجود میں آتی ہے۔ اول یہ کہ کیمرہ اٹھایا اور نکل پڑے۔ جہاں کہیں منفرد یا خوبصورت کمپوزیشن ملی تو بس منظر تاڑا اور شٹر مارا۔ کچھ اچھا بن گیا تو واہ بھلا، نہ بنا تو نہ سہی۔ دوسری صورت میں کیمرہ اٹھا کر چل تو دیئے لیکن ہر چیز اور ہر نظارے کو اک تیسری آنکھ سے جانچا اور پھر عام سے نظارے میں سے کچھ خاص کشید کر دیا۔ جبکہ تیسری صورت میں فوٹوگرافر پہلے خیالی پلاؤ پکاتا ہے۔ منظر کو سوچتا، مختلف موضوعات(سبجیکٹس) پر غور کرتا اور ترکیب وغیرہ بناتا ہے۔ گویا ذہن میں اک خیالی تصویر بناتا ہے۔ اس کے بعد تیاری کرتا اور میدانِ عمل میں اتر جاتا ہے۔ اور یہ سوچ کر مطلوبہ منظر کی تلاش میں نکلتا ہے کہ مجھے فلاں طرح کی تصویر بنانی ہے۔ یوں بعض دفعہ کئی مشکلات کا سامنا کرتا، موسموں کی سختیاں جھیلتا اور خاک کے ساتھ خاک ہو جاتا ہے۔ کبھی کبھی تو اس کی کھوج میں ناموافق زمینی حالات اور موسم بھی آڑے آ جاتے ہیں اور کئی کئی ماہ و سال انتظار بھی کرنا پڑ جاتا ہے۔

ایک دفعہ ابنِ انشا کا مشہور زمانہ شعر سنتے سنتے میرے ذہن میں اک تصویر اُبھری۔ بس پھر بستیوں سے دور کسی ندی یا دریا کنارے اک کُٹیا کی تلاش تھی۔ جہاں کہیں بھی کوئی جھونپڑی وغیرہ نظر آتی تو فوٹوگرافی کے اعتبار سے مختلف زاویوں سے اس کی چھان پھٹک کرتا۔ مگر کوئی بھی مطلوبہ معیار پر پوری نہ اترتی۔ اور پھر ایک دن اپنے چناب کے کنارے ہی اک کٹیا مل گئی اور میری سوچی ترکیب کے مطابق جو الاؤ درکار تھا وہ پہلے سے موجود تھا یعنی وہاں ”درویشی مَچ“ جلتا تھا۔ یہ سب ملنے کے بعد انتظار تھا اُس رات کا کہ جب ہماری کہکشاں ملکی وے یعنی آکاش گنگا کے بھرپور جلوے ہوں۔ جب کبھی موسم کے چال چلن مناسب ہوتے تو فوٹوگرافی کے سازوسامان سمیت کُٹیا کے قریب پہنچ جاتا۔ اس دوران کئی طرح کی کمپوزیشن سے تصاویر بنائیں مگر ”یہ نہ تھی ہماری قسمت کہ وصال یار ہوتا“۔ حالانکہ بعض دفعہ رات گئے تک انتظار بھی کیا۔ اور تو اور جب عالمی یومِ فوٹوگرافی (19 اگست) کو لوگ سوشل میڈیا پر تصویر و تصویر ہوئے پڑے تھے تب بھی جناب شدید گرمی و حبس کے باوجود اک تصویر کے لئے ”میدانِ کارزار برائے فوٹوگرافی“ میں تھے۔

اور پھر ایک شام کے قریب ہم دوست احباب حسبِ معمول اپنی ”فرائیڈے یاترا“ کو نکلے۔ آسمان پر کافی بادل تھے اور کہکشاں نظر آنے کا بالکل بھی امکان نہ تھا، اس لئے کیمرہ وغیرہ ساتھ نہ لیا۔ چناب کنارے پہنچے تو یہ سوچ کر درویش کی کُٹیا کی طرف جانے کا ارادہ بن گیا کہ کیا معلوم آج رات وہ بہہ جائے۔ دراصل اوپر (پہاڑوں پر) بارشیں ہونے کی وجہ سے دریا میں پانی معمول سے کافی زیادہ اور کنارے سے تھوڑا ہی نیچے تھا۔ ویسے بھی حکومت کی طرف سے سیلاب کی تنبیہ ہو چکی تھی۔ خیر بمبوکاٹ بند پر کھڑے کیے اور پیدل نیچے اتر کر چل دیئے۔ کُٹیا میں پہنچ کر درویش سے سلام دعا کے بعد گفتگو ہونے لگی۔ تھوڑی دیر بعد ایویں باہر نکل کر دیکھا تو حیرت انگیز طور پر بادل غائب ہو چکے تھے اور آسمان شدید صاف تھا۔ بس پھر میری تو دوڑیں لگ گئیں۔ عباس مرزا کو کہا کہ تم یہیں گپ شپ کرو اور میں جلدی سے کیمرہ لے کر آیا۔ جب واپس بند کی طرف جا رہا تھا تو دیکھا کہ پانی کی سطح پہلے سے بلند ہو چکی ہے۔ اور جب بھاگم بھاگ کیمرہ لے کر واپس کنارے پر پہنچا تو سطح خطرناک حد تک بلند ہو چکی تھی۔ اک طرف پانی مزید بڑھنے کا خطرہ تو دوسری طرف گلیکسی کا نظارہ، جو کہ ہمارے اِدھر سال بھر میں چند ایک بار ہی ایسا شفاف دیکھنے کو ملتا ہے۔ ویسے بھی اگر سیلاب آیا تو عین کنارے پر بنی کُٹیا بہہ جائے گی اور پھر کون جانے کہ ایسا موقع کب اور کہاں ملے۔ ملے بھی یا نہ ملے۔ لہٰذا میں یہ موقع گنوانا نہیں چاہتا تھا۔ اور پھر کُٹیا کے قریب ہم فوٹوگرافی کرنے لگے۔ اسی دوران یہ تصویر بھی بنائی کہ جس میں عباس مرزا ”درویشی مَچ“ کے پاس بیٹھا ہے۔ ابھی سٹار ٹریل اور گلیکسی کا ٹائم لیپس بنانا تھا کہ عباس مرزا کو گھر لوٹنا پڑا، مگر منظرباز۔۔۔ ”عشق بلھے نوں نچاوے یار تے نچنا پیندا اے… مل جاوے دیدار تے نچنا پیندا اے… سامنے ہووے یار تے نچنا پیندا اے“۔۔۔

اور پھر جب کیمرہ خودکار طریقے سے ٹائم لیپس بنانے پر لگا اور میں چناب کنارے تنہا بیٹھا آکاش گنگا میں کھویا ہوا تھا تو اچانک ”گھڑووم“ کی آواز آئی۔ یہ جانی پہچانی آواز تھی۔ جب کنارے کی زیادہ ساری مٹی ٹوٹ کر پانی میں اپنا آپ فنا کرتی ہے تو ایسی ہی شدید آواز پیدا ہوتی ہے۔ اس آواز نے نہ صرف مجھ پر طاری کائناتی سحر توڑا بلکہ تنبیہ بھی کی کہ کنارے سے دور ہو جا اور جلدی گھر کو لوٹ جا۔ ویسے بھی اب کہیں کہیں پانی کناروں سے باہر آ رہا تھا اور یہ خطرے کی آخری گھنٹی تھی۔ کیمرا سمیٹا اور دوڑا دوڑا کٹیا میں گیا۔ درویش سو چکا تھا۔ اسے جگایا اور بتایا کہ کُٹیا میں پانی داخل ہونے ہی والا ہے۔۔۔ ”تو میں کیا کر سکتا ہوں، جو رب سوہنے دی مرضی“ کہہ کر درویش پھر سے سو گیا۔ اس کی یہ شانِ بے پروائی قابل دید تھی۔ خیر میں اس صورتحال میں مزید کوئی خطرہ مول نہیں لے سکتا تھا۔ لہٰذا لمبا چکر کاٹ کر کیچڑ میں لت پت اور اونچی لمبی گھاس میں سے ہوتا ہوا بند پر پہنچا۔ کیونکہ جس سیدھے راستے سے گیا تھا، اُدھر اب پانی آ چکا تھا۔۔۔ بند پر کھڑے بمبوکاٹ کے قریب پہنچ کر جب کُٹیا کی طرف منہ کیا تو پانیوں کے دوش پر ابنِ انشا کی صدا آئی کہ۔۔۔
جب دیکھ لیا ہر شخص یہاں ہرجائی ہے
اس شہر سے دور اک کٹیا ہم نے بنائی ہے
اور اس کٹیا کے ماتھے پر لکھوایا ہے
سب مایا ہے، سب مایا ہے
*******

Cam @ 18mm, ISO-800, 30s, f/4

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

تبصرہ تحریر کریں۔

Your email address will not be published. Required fields are marked *