اکتوبر 13, 2013 - ایم بلال ایم
25 تبصر ے

چاچا مستنصر حسین تارڑ سے ملاقات

گذشتہ سے پیوستہ

میں اور ریاض شاہد صاحب ابھی لاہور میں ہی تھے۔ ہم دونوں ”غیرلاہوریوں“ کا پروگرام یہ تھا کہ دیگر کام کاج کے علاوہ جب بھی فرصت ہو تو اردو اور بلاگنگ کے حوالے سے گپ شپ کر لی جائے۔ ریاض صاحب نے کہا ”کیا خیال ہے کہ اگر آج کسی مشہور شخصیت سے ملا جائے تو؟“ تو اچھی بات ہے لیکن کسے ملا جائے؟ انہوں نے مستنصر حسین تارڑ صاحب کا مشورہ دیا۔ اب سوال یہ تھا کہ ”چاچا تارڑ“ سے رابطہ کیسے کیا جائے۔ ایسے میں ریاض صاحب نے عاطف بٹ کا کہا۔ عاطف بٹ سے رابطہ ہوا اور اس کا یہ جواب سن کر اچھا لگا کہ ”کوئی مسئلہ نہیں اگر تارڑ صاحب لاہور میں ہوئے تو امید ہے کہ ملاقات ہو جائے گی۔“

ملاقات کے لئے شام پانچ بجے کا وقت طے پایا۔ میں، میرا ایک کزن اور ریاض صاحب منزل کی طرف نکلے۔ راستے میں عاطف بٹ بھی آ ملے اور ہم چار لوگ مقررہ وقت پر تارڑ صاحب کے گھر پہنچے۔ گھنٹی بجائی اور ہمارے قد سے چھوٹے گیٹ کے آگے راہداری کے دوسرے سرے پر چاچا تارڑ نمودار ہوئے۔ ویسے تو اردو میں لفظ ”چچا“ استعمال ہوتا ہے لیکن تارڑ صاحب کو چچا کی بجائے پنجابی کا ”چاچا“ پسند ہے۔ خیر گیٹ کے اوپر لگے ”کُنڈے“ کو کھول کر اندر آنے کا حکم ملا۔ پاس پہنچ کر سلام کا جواب موصول کرتے ہی حال پوچھا تو چاچا نے مسکراتے ہوئے بڑے کھلے ڈلے انداز میں کہا کہ پنجابی میں بات کرو۔ انہوں نے ہمیں اپنے مطالعہ خانہ (سٹڈی روم) میں بیٹھایا اور میں ابھی آیا کہہ کر چلے گئے۔

”سٹڈی روم“ کے ایک کونے میں مطالعہ کے لئے میز تھا، جس پر کچھ کتابیں، کاغذ اور قلم وغیرہ پڑے تھے۔ دیواروں پر تصاویر (پینٹگز) لگی تھیں۔ انہیں میں سے ایک پینٹنگ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ریاض صاحب نے کہا کہ یہ وہی ”وان گوف“ کی تصویر ”سٹرے نائیٹ“ ہے، جس کا میں نے عمر بنگش کے افسانے بوئے حرم پر تبصرہ کرتے ہوئے ذکر کیا تھا۔ سٹڈی روم کی ایک دیوار پر کتابیں رکھنے والی شیلف کے خانے تھے۔ زیادہ تر میں کتابیں تھیں اور چند ایک میں نوادرات قسم کی چیزیں پڑیں تھیں۔ میرا اندازہ ہے کہ وہاں پر پانچ چھ سو کے قریب کتابیں تھیں۔

چاچا تارڑ ہاتھ میں سگریٹ کا پیکٹ پکڑے واپس آئے تو سب سے پہلے انہوں نے دوبارہ پنجابی میں بات کرنے کا کہا۔ ریاض صاحب نے اتنا ہی کہا کہ اردو میں محاورہ بنا ہوا ہے اس لئے۔۔۔ چاچا تارڑ بولے کہ اگر والدین پنجابی ہیں تو پھر پنجابی میں بات کرتے ہوئے کوئی مسئلہ نہیں ہونا چاہئے۔ شروع میں زیادہ گفتگو ریاض صاحب نے ہی کی۔ ایک دفعہ تارڑ صاحب نے مسکراتے ہوئے ریاض صاحب سے کہا کہ اگر پنجابی میں بات کرنے میں دشواری ہو رہی ہے تو اردو میں کر لو، کوئی مسئلہ نہیں۔ بہرحال ماحول کافی کھلاڈلا تھا تو ہمیں بھی باتیں کرنی آ گئیں۔ اتنے میں تارڑ صاحب نے کہا کہ آپ لوگوں نے اپنا مکمل تعارف تو کروایا ہی نہیں۔ سب نے اپنا تعارف کروایا۔ میں نے اپنے تعارف کے دوران جب انہیں یہ بتایا کہ میرے ننھیال آپ کے گاؤں میں ہیں، وہ بھی تارڑ ہیں اور آپ کی” برادری“ ہی ہیں۔ اس پر تارڑ صاحب مسکرائے اور کہنے لگے ”کسی سیدوں سے رشتہ داری بنانی تھی ہم ٹہگے(بیل) والوں سے کہاں بنا لی“۔ 🙂

زیادہ تر باتیں زبان، ملکی حالات، سیاحت اور تارڑ صاحب کی کتابوں پر ہوئیں۔ ہم میں سے کوئی چھوٹا سا سوال جوکہ زیادہ تر ریاض صاحب ہی کرتے اور پھر تارڑ صاحب اس پر تفصیلی بات کرتے۔ ان میں سے چند ایک ہی یہاں لکھوں گا کیونکہ باقی باتیں ان کے کالموں اور کتابوں میں مل جاتی ہیں۔ اردو زبان کے بارے میں تارڑ صاحب کا کہنا تھا کہ پورے پاکستان میں اردو کو سب سے زیادہ پنجابیوں نے اپنایا اور الٹا ”اردو والوں“ نے پنجابی لہجے میں اردو بولنے پر پنجابیوں کا مذاق اڑایا۔ اب ایک پنجابی، پنجابی لہجے میں نہیں بولے گا تو اور کس میں بولے گا؟ اسی متعلق انہوں نے ریڈیو پاکستان کی ایک بات سنائی کہ کسی زمانے میں ایک ان پڑھ ”اردو والے“ کو ایک پڑھے لکھے پنجابی پر فقط معمولی سے لہجے کے فرق کی بنیاد پر ترجیح دی جاتی۔ ایسی باتوں کے باوجود بھی پنجابیوں نے اردو کو اپنائے رکھا۔ آپ دیکھ لیں اردو میں سوائے قرۃ العین حیدر کے بڑے لکھاریوں کی اکثریت پنجابی ہے۔

زبان کی بات ہو رہی تھی تو تارڑ صاحب نے ایک اور بات سنائی کہ کسی نے فیض احمد فیض صاحب سے پوچھا ”آپ پنجابی ہو لیکن شاعری اردو میں کیوں کرتے ہو؟“ اس پر فیض صاحب نے جواب دیا کہ ”اردو میں شاعری اس لئے کرتا ہوں کہ ساری عمر لکھتا رہوں تو ہو سکتا ہے کہ ایک آدھ مصرعہ اقبال یا غالب جیسا کہہ دوں اور فیض کا بھی کچھ نام بن جائے، مگر پنجابی میں لکھوں تو ساری زندگی بھی پنجابی کے بڑے شعراء جیسا ایک مصرعہ بھی نہیں بنا سکتا۔ پنجابی میں پہلے ہی اتنے بڑے بڑے نام ہیں وہاں پر فیض کو کون پوچھے گا۔“

اس ملاقات کے دوران میں نے نوٹ کیا کہ تارڑ صاحب پنجابی کے صوفیانہ کلام سے کافی متاثر ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ”جس سطح کی شاعری پنجابی میں کی گئی ہے، اردو تو ابھی اس کے عشرے عشیر بھی نہیں۔“ علامہ محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ ”بحیثیت شاعر اقبال نے اردو شاعری کو ایک نئی چیز سے متعارف کرایا۔“

اسی دوران تارڑ صاحب نے کہا کہ چھوڑو یہ باتیں۔ یہ بتاؤ کہ آپ نے میری کون کون سی کتاب پڑھی ہے اور کون کون سی اچھی لگی ہے؟ اس پر ریاض صاحب نے جواب دیا کہ ساری پڑھی ہیں۔ میں یہ سن کر خاموش ہی رہا۔ اب کیا بتاؤں کہ میں نے آپ کی صرف چار پانچ کتابیں ہی پڑھی ہیں۔ بھلا ہو ریاض صاحب کا، جنہوں نے ہمیں بچا لیا اور بات کو تارڑ صاحب کے ناول ”خس و خاشاک“ اور نئے ناول ”اے غزالِ شب“ کی طرف لے گئے اور ان دونوں کتابوں کے ساتھ ساتھ دیگر کتب پر سیر حاصل گفتگو کرنے لگے۔ یوں تارڑ صاحب نے ہمیں پوچھا ہی نہ کہ ”بتاؤ تم نے بھی مجھے کچھ پڑھا ہے یا ایسے ہی ملنے آ گئے۔“ 🙂

اسی ملاقات میں انکشاف ہوا کہ تارڑ صاحب سگریٹ کو سگار کی طرح پیتے ہیں۔ ہوا یوں کہ جب تارڑ صاحب نے پیکٹ سے سگریٹ نکالا تو میں حیران ہوا کہ سگریٹ ہے تو ”گولڈ لیف“ کا لیکن عام سگریٹوں سے چھوٹا ہے، آخر یہ کیا راز ہے؟ اس راز سے تب پردہ اٹھا جب انہوں نے اسے سلگایا، دو چار کش لگائے اور ایک خالی ڈبیا میں بند کر دیا، جہاں وہ آکسیجن نہ ملنے کی وجہ سے بجھ گیا۔ تھوڑی دیر گپ شپ کے بعد جب پھر دل کیا تو اسی سگریٹ کو نکالا، جلا ہوا سرا قینچی سے کاٹا اور پھر سلگا لیا۔ ویسے میرے کزن کو یہ طریقہ پسند آیا۔ 🙂

سیاحت کی بات چلی تو تارڑ صاحب نے پچھلے دنوں شمالی علاقہ جات میں سیاحوں کے قتل پر اظہارِ افسوس کیا۔ یہیں سے پاکستان کی موجودہ صورتِ حال اور خاص طور پر دہشت گردی پر اور کچھ گزرے ہوئے حالات پر بھی بات ہوئی، حتیٰ کہ قیام پاکستان پر بھی بات ہوئی۔ اس کے علاوہ ان کے چند ایک سفر ناموں پر بات کی۔ سفرناموں میں ذکر کیے گئے واقعات پر بات ہوئی تو تارڑ صاحب نے ایک بات بغیر سوال کیے ہی بتا دی جبکہ وہی بات تارڑ صاحب کی طرف جاتے ہوئے راستہ میں ریاض صاحب سے کہہ رہا تھا کہ آیا یہ سوال کروں یا نہ؟ تارڑ صاحب نے کہا کہ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ میں سفر ناموں میں خود سے عورتوں کا ذکر شامل کرتا ہوں۔ اب جس طرح میں یورپ یا دیگر ممالک میں سفر کرتا رہا ، اس طرح آپ کرو تو خود پتہ چل جائے گا کہ ادھر ایسے واقعات ہوتے ہیں یا نہیں۔ دوسرے ممالک اور پاکستان کی سیاحت میں فرق ہے۔ دیکھ لیں پاکستان کے سفرناموں میں شاید ہی کہیں عورت کا یا دوسرے ممالک کے سفرناموں میں موجود واقعات جیسا ذکر ہو کیونکہ یہاں ایسے واقعات ہوتے ہی نہیں۔ میں نے سوال کیا کہ سفر میں جو لوگ ملتے ہیں اور آپ ان کے حوالے سے جو باتیں لکھتے ہیں کیا واقعی انہوں نے کی ہوتی ہیں یا وہاں کے ماحول سے خود کچھ اخذ کر کے خیالی کردار کے ذریعے واقعہ بنا دیتے ہیں؟ مثال کے طور پر آپ کے سفر نامے ”نکلے تیری تلاش میں“ ذکر ہے کہ جب آپ نے ترکی میں ”آیا صوفیہ“ کے باہر ایک بندے سے پوچھا کہ صوفیہ کا دروازہ کتنے بجے کھلے گا؟ تو اس نے جواب دیا ”مجھے معلوم نہیں۔ میں نے کبھی اندر جانے کی کوشش ہی نہیں کی۔ معبد کو صرف خدا کی پرستش کے لئے وقف ہونا چاہیے۔ چاہے وہاں صلیب رہے یا ہلال۔“ کیا واقعی ادھر بندہ ملا اور اس نے ایسا ہی کہا یا بندہ کہیں اور ملا، کسی دوسرے موضوع پر بات کرتے ہوئے اس نے ”آیا صوفیہ“ کے بارے میں ایسا کہا یا پھر آپ نے ادھر کے چند لوگوں کی رائے سے یہ اخذ کیا اور اسے اس طرح واقعہ بنا کر لکھ دیا؟ اس پر تارڑ صاحب نے کہا کہ زیادہ تر واقعات جیسے پیش آتے ہیں ویسے ہی لکھ دیتا ہوں، کبھی کبھار موقع محل کی تھوڑی بہت تبدیلی ہو سکتی ہے لیکن جو بات کسی دوسرے کے حوالے سے لکھتا ہوں وہ واقعی کسی دوسرے نے کی ہوتی ہے۔

سیاحت کی بات ہو رہی تھی تو میں نے ان کے سفرنامے ”نانگاپربت“ میں ان کا لکھا ہوا ایک جملہ بولا، ”اور تریشنگ کیا ہے“۔ اس پر تارڑ صاحب کھل اٹھے۔ ساتھ ہی میں نے بتایا کہ ہم بھی تریشنگ گئے تھے اور اسی ہوٹل میں ٹھہرے جہاں آپ ٹھہرے تھے۔ اس پر تارڑ صاحب نے ایک واقعہ سنایا کہ تھوڑا عرصہ پہلے ایک عورت نے اپنے سیاحتی دورے کے دوران استور سے مجھے فون کیا اور بتایا کہ میں تریشنگ گئی ہوئی تھی اور اسی ہوٹل اور اسی کمرے میں ٹھہری جہاں آپ ٹھہرے تھے۔ ادھر میں آپ کی کتاب پڑھ رہی تھی تو میرا دل کیا کہ آپ ابھی میرے سامنے آ جاؤ اور خود مجھے ساری باتیں سناؤ۔ تارڑ صاحب نے مسکراتے ہوئے مذاق کے موڈ میں کہا ”میں نے اس عورت کی بات پر سوچا کہ اگر تیس چالیس پہلے کہتی تو ہو سکتا ہے میں پہنچ جاتا مگر اب بہت دیر ہو چکی ہے۔“ 🙂

خیر تارڑ صاحب نے مزید ہمارے تریشنگ والے سیاحتی دورے کی تھوڑی بہت تفصیلات پوچھیں کہ کدھر کدھر گئے تھے۔ میں نے مختلف مقامات کا بتانے کے ساتھ ساتھ خاص طور پر ذکر کیا کہ جب ہم تریشنگ جا رہے تھے اور میں راستے میں نوٹس بنا رہا تھا تو میرے دوستوں نے مجھے کہا کہ اب بس کر ”وڈا آیا تارڑ“۔ اس پر تارڑ صاحب کافی مسکرائے اور ساتھ ہی پوچھا کہ بتاؤ پھر تریشنگ کیسا ہے؟ میں نے کہا جی واقعی بہت خوبصورت ہے اور آپ کے سفرنامے نے عام لوگوں کو اس علاقے کا تعارف کرایا تو اب ادھر پاکستانی سیاح بھی جاتے ہیں۔ اس بات کے بعد میں نے تارڑ صاحب کو بہت حساس اورافسردہ پایا۔ وہ یوں کہ انہوں نے بڑے افسردہ انداز میں بتایا کہ کچھ عرصہ پہلے ایک لڑکا تریشنگ جا رہا تھا، استور سے آگے راستے میں جیپ دریا میں جا گری۔ لڑکا فوت ہو گیا اور اس کے بیگ سے میرا سفر نامہ نکلا۔ اسی طرح ایک اور واقعہ بھی ہوا اور ان کے پاس بھی میرا سفر نامہ تھا۔ یہاں پر غالباً تارڑ صاحب بات ٹھیک طرح نہ کر سکے۔ آہستہ سے بولے کہ کبھی کبھی خیال آتا ہے کہ کہیں وہ لوگ میرا سفر نامہ پڑھنے کی وجہ سے تو نہیں گئے تھے اور پھر حادثے میں فوت ہوگئے۔ کہیں میں۔۔۔

اس کے علاوہ جب ان سے پوچھا کہ آپ نے اتنی سیاحت کی ہے تو آپ کو پاکستان میں سب سے خوبصورت مقام کونسا لگا؟ اس پر تارڑ صاحب کا جواب تھا کہ مجھے فیری میڈوز سب سے خوبصورت لگا۔ مزید انہوں نے کہا کہ بشام میں دریائے سندھ کا بھی اپنا ایک الگ نظارہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ جہاں ایک دفعہ جاتے ہو کوشش کرو کہ وہاں دوبارہ نہ جاؤ کیونکہ چیزیں دنوں میں بدل جاتی ہیں اور ان میں پہلے جیسا سحر نہیں رہتا۔ جب آپ چند سال بعد دوبارہ ادھر جاتے ہیں تو دوسری دفعہ دیکھنے پر خوبصورت مقام بھی خوبصورت نہیں لگتے۔

اس کے بعد میں نے ان سے سفرنامہ لکھنے کے متعلق چند ”ٹپس“ لیں۔ جیسے کہ وہ سفرنامہ کیسے لکھتے ہیں؟ آیا دورانِ سفر صرف مختصر نوٹس بناتے ہیں یا پھر مکمل روداد لکھتے ہیں؟ ان کا جواب تھا کہ کبھی کبھی معمولی نوعیت کے نوٹس بناتا ہوں اور کئی دن تو وہ بھی نہیں بناتا۔ لکھنے کی بات پر انہوں نے کہا کہ ”روانی میں لکھتے جاؤ اور الفاظ ڈھونڈنے نہ نکلو۔“ میں نے کہا کہ آپ نے ایک جگہ اپنے ایک جرمن مصور دوست فالکر کے الفاظ لکھے ہیں کہ ”جب تک انسان کے اپنے اندر کچھ نہ ہو ماحول خواہ کتنا ہی سازگار کیوں نہ ہو تخلیقی عمل بے جان رہتا ہے۔“ آیا آپ ذاتی طور پر اس سے اتفاق کرتے ہیں اور یہ بات کتنی درست ہے؟ اس پر تارڑ صاحب نے کہا کہ ”میں اس سے مکمل اتفاق کرتا ہوں اور میرے نزدیک یہ بات سو فیصد درست ہے۔“

لکھنے لکھانے کی بات ہو رہی تھی تو میں نے کہا کہ وہ جو ہم تریشنگ گئے تھے اس پر میں نے بھی ایک سفر نامہ (پربت کے دامن میں) لکھا تھا۔ ابھی اتنا ہی کہا تھا کہ تارڑ صاحب بولے کونسے پبلشر نے چھاپا ہے؟ میں نے کہا جی ابھی نہیں چھپا۔ میں سوچ رہا تھا کہ اگر آپ کو اصلاح کے لئے دیکھاؤں تو؟؟؟ انہوں نے فوراً کہا کہ ارے بھائی میرے پاس اتنا وقت نہیں۔ تم بھیج دو گے اور میں یہیں کہیں رکھ چھوڑوں، تو مناسب نہیں۔ اس پر میں نے کہا کہ اگر صرف خلاصہ بھیجوں تو؟ اس پر بھی ”انکار نما“ جواب سنا تو پھر میں نے دو ٹوک کہہ دیا کہ جناب اگر آپ جیسے لوگ ہمارے لئے وقت نہیں نکالیں گے تو پھر نئے لوگ کیسے آگے آئیں گے۔ میری اتنی بات سن کر تارڑ صاحب نے کہا کہ چلو پھر ایسا کرو کہ سفر نامہ بھیجنے کی بجائے کسی دن خود لے کر آ جانا اور دونوں ”بھائی“ بیٹھ کر نظر مار لیں گے۔ مزید ریاض صاحب نے ان سے انٹرنیٹ کے استعمال کے متعلق پوچھا تو انہوں نے کہا کہ کچھ لڑکے میرے پاس آئے تھے اور میری اجازت سے انہوں نے میرے حوالے سے ویب سائیٹ بنائی ہے اور وہ سال میں ایک دو پروگرام بھی کرتے ہیں۔ باقی مجھے یہ فیس بک اور اس پاسورڈ وغیرہ کی کوئی سمجھ نہیں آتی۔ ایک دو دفعہ کوشش کی تھی مگر یہ میرے بس کا کام نہیں۔

دو اڑھائی گھنٹے باتیں ہوتی رہیں۔ جب ملاقات برخاست کا وقت آیا تو میں نے کہا کہ یہ جو پینٹنگز ہیں ان کے بارے میں کچھ بتائیں تو تارڑ صاحب نے کہا کہ مجھے پینٹنگز اور نوادرات وغیرہ کا شوق ہے۔ ابھی کے لئے اتنا ہی کیونکہ ان کے متعلق بتانے کے لئے کافی وقت چاہئے۔ خیر اس کے بعد ان کے ساتھ تصاویر بنائیں۔ میں نے اور ریاض صاحب نے انہیں کی کتابوں پر آٹوگراف لیے۔ جب اجازت چاہی تو وہ ہمیں باہر تک چھوڑنے آئے اور اسی دوران انہوں نے ایک دفعہ پھر میرے شہر کا پوچھا اور بتایا کہ ان کا دوست مشتاق بٹ بھی اسی شہر کا ہے لیکن اب وہ امریکہ کے شہر بفیلو (Buffalo) میں ہوتا ہے۔ پھر کھڑے کھڑے اسی بفیلو شہر کے نام سے اپنے دوست کو مذاق کرنے کے متعلق ایک مکالمہ سنایا۔ غالباً یہ مکالمہ انہوں نے اپنی کسی کتاب میں بھی لکھا ہے۔ الوداعی سلام کے دوران ہی انہوں نے خود ہی کہا کہ پھر کسی دن اپنا سفرنامہ لے آنا، دونوں دیکھ لیں گے مگر آنے سے پہلے فون ضرور کر لینا۔ میں نے کہا جی بہتر جناب۔ سلام دعا ہوئی اور ہم اپنی منزل کی طرف رواں ہو گئے۔

میں نے چاچا تارڑ کو بڑا ہی کھلا ڈلا بندہ پایا۔ جیسا کہ عام طور پر سوچا جاتا ہے کہ مشہور لوگ پتہ نہیں کیسے ہوتے ہیں اور ان میں اکڑ ہوتی ہے لیکن میں نے چاچا جی میں ایسا کچھ نہیں دیکھا۔ ملاقات کا وقت لینے سے لے کر آخر تک ان کی کسی بھی بات یا عمل سے ایسے تاثر کی جھلک تک نظر نہیں آئی کہ وہ کوئی بڑی مشہور شخصیت یا عجیب مزاج کے ہیں۔ نظریات یا باتوں سے اتفاق کرنا نہ کرنا اپنی جگہ لیکن تارڑ صاحب کمال کے بندے ہیں۔ واقعی وہ ایک ”بڑے انسان“ ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست 25 تبصرے برائے تحریر ”چاچا مستنصر حسین تارڑ سے ملاقات

  1. مستنصر حسین صاحب گلگت بلتستان کو پاکستان میں متعارف کرانے کے حوالے سے اپنا نام رکھتے ہیں۔ ہنزہ داستان سے جو سفر شروع ہوا تھا وہ ابھی تک جاری ہے اور ہر دفعہ ان کے رواں قلم اور زرخیز ذہن سے اچھی کتابیں نکلتی ہیں۔ میں تقریبا ان کےسارے سفرنامے پڑھ چکا ہوں، اور متعدد ناولز بھی پڑھ چکاہوں۔ یقینا اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ وہ بڑے قلمکار ہیں۔

    تاہم یہ “پنجابی” بمقابلہ “اردو والے” یہ پنجابی بمقابلہ اردو کی بحث کچھ ہضم نہیں ہو رہی ہے۔ میری رائے یہ ہےکہ ان کو اس طرح کے مباحث میں پڑنے سے گریز کرنا چاہیے۔ مادری زبان کی محبت ایک فطری امر ہے لیکن یہ بھی بہرحال ایک حقیقت ہے کہ زبان بس خیالات کے تبادلے کا آلہ ہے اور اور کچھ نہیں۔ اصل چیز اقدار، روادری اور انکساری ہے۔

    1. میں نے بھی چاچاجان کی پہلی ناول “ریت کی دیوارو ں سے بنا پیار کا پہلا شہر” اور سفر نامہ “ہنزہ داستان” سے شروعات لیں اور مجھے یوں لگا جیسے ان کے ساتھ ساتھ میں بھی ہنزہ کی وادیوں میں گھوم رہا ہوں۔ دوسری بات سے میں بالکل اتفاق کرتا ہوں مادری زبان کی اہمیت اپنی جگہ مگر دوسری ہماری قومی زبان ہے اور ہم اس میں ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔

  2. کہتے ہیں نا کہ خط آدھی ملاقات ہوتی ہے ، اسی طرح سے آپ کی تحریر بھی یوں ہے جیسے آپ نے ہمیں‌خط لکھا ہو اور ہماری بھی چاچا جان سے ملاقات ہوگئی۔ بچپن ہی سے جب سے ان کو صبح بخیر میں دیکھتے آرہے ہیں تب سے ان سے ملنے کی خواہش تھی، آج آدھی آپ نے پوری کردی اور اُمید ہے کہ کبھی ان سے ملاقات ضرور ہوجائے گی۔ بہت عمدہ تحریر ہے اور پڑھ کر یوں لگا جیسے ہم بھی وہاں کہیں آپ کے برابر کسی کونے میں‌بیٹھے ہوں اور ساری ملاقات اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہوں۔

  3. محترم بلال صاحب، سلام علیکم۔ چاچا تارڑ سے ملاقات کے بارے میں پڑھا، ماشاء اللہ ملاقات کا سارا منظر آپ نے بڑی خوبصورتی سے کیا ہے ۔ محترم تارڑ صاحب ، بہت بڑے آدمی ہیں، اور ملک کا سرمایہ ہیں۔ اللہ پاک انکی عمر دراز کرے ، چاچا اشفاق صاحب تو اپنے پیارے اللہ میان کے پاس چلے گئے، لیکن اپنے علم کا قیمتی خزانہ دے گئے۔ پہلے پڑھتے تھے ۔ تو کچھ سمجھ میں آتا تھا، کچھ قریب سے گزر جاتا تھا۔ ان انکے جانے کے بعد کبھی انکی کوئی کتاب ہاتھ لگ جائے تو پڑھتا ہون تو زیادہ مزا آتا ہے۔ اشفاق صاحب نے جب چاچا بنے کی تیاری کی تو داڑھی رکھ لی تھی۔ اور چاچا لگنے بھی لگے تھے۔
    مستنصرحسین تارڑ صاحب ، تو ابھی بھی بہت سمارٹ ہیں۔ انکے چاچا بننے میں ابھی وقت لگے گا ۔ آپ نے چاچا کہا تو میں نے بھی کہہ دیا ۔ کہتے ہیں جب کوئی لفظ لکھنے میں استعمال ہو جائے، تو وہ بندے کے چاچا ہونے کی تصدیق کردیتا ہے۔
    اللہ پاک تارڑ صاحب کو لمبی عمر اور ہمت دے ، میں نے بھی انکے سفر نامے پڑھ پڑھ کی پاکستان کی سیر کی ہے۔ اور ایسی مکمل سیر کی ہے، کہ اپنی پوتی کو کراچی میں بیٹھ کر ہی پاکستان کی سیرکرا دیتا ہون ۔ پوچھتی ہے دادو ۔۔۔ آپ کب گئے تھے ، میں کہتا ہون بہت پہلے گیا تھا ۔ اور عزت بچا لیتا ہون ۔

  4. ماشا ء اللہ چنگا ہے بڑے لوگوں سے ملتے رہنا چاہیے کہ بندہ کچھ سیکھتا ہے اور انہیں بھی پتہ لگتا رہے کہ ہمارے بلاگر کسی سے کم نہیں

  5. محترم بلال صاحب، لاہور یاترا ، میں جناب مستنصرحسین تارڑ صاحب ، سے ملاقات ، بہت ہی جامع اور مکمل ملاقات ہے، ایسے معلوم ہوتا ہے، کہ ہم بھی آپ کے ساتھ ہیں، بس چائے نہیں پی، کیونکہ آپ اسکے بارے میں تو لکھا ہی نہیں۔ ورنہ ملاقات کی چاشنی وکھری ہی ہوتی ۔
    بہر حال ۔ انتے بڑے ادیب ، افسانہ نگار، ہم سب کے لئے بہت ہی قابل احترام، اور عظیم سرمایہ ہیں، جتنے شاندار یہ خود ہیں، اتنے ہی شاندار انکے سفر نامے، اللہ پاک انہیں لمبی عمر دے، آمین۔

  6. بہت شکریہ ایم بلال ایم آپ نے ہم سب کے پسندیدہ ادیب سے ملاقات کی روداد بیان کر کے ہمیں بھی ان سے ملا دیا۔ وہ جن کی تحریریں نہ صرف ہر ٹین ایج کی پہلی محبت تھیں اور ہیں بلکہ آج بھی ان کی تازگی اور خوشبو ادب کی دنیا کا گھاٹ گھاٹ کا پانی پینے کے بعدمیں اپنی طرف کھنچتی ہے۔ آپ کے اعزازات میں ایک اور اعزاز کا اضافہ بہت مبارک ہو۔ خوبصورت تخیل کے مالک ادیب کی گفتگو اور اس کے ساتھ کے احساس کو آپ نے اُسی خوبصورتی سے بیان کیا ۔ اسی طرٍح لکھتے رہا کریں ۔

  7. آج میرے بلاگ کو ایک سال ہو گیا ، میرا نیٹ پر اردو لکھنا اور بلاگ بنانا صرف آپ کی وجہ سے ہی ممکن ہوا اور اس خاص دن پر آپ کی طرف سے اپنے بہت پسندیدہ ادیب سے ملاقات کا یہ تحفہ مجھے ہمیشہ یاد رہے گا۔ اردو کا ہر لفظ لکھتے ہوئے آپ کے لیے دل سے دعا نکلتی ہے ۔ اللہ آپ کو ذہنی سکون عطا فرمائے ۔

  8. واہ جی واہ، چاچا جی سے ملاقات کا احوال پڑھ کر میں تو اپنے بچپن میں پہنچ گیا جب صبح صبح ٹی وی پر سکول جانے سے پہلے چاچا جی کا پروگرام ضرور دیکھتے تھے۔ چاچا جی کی زبان سے بی با بچے اور باں باں بچے کی اصلاح بہت اچھی لگتی تھی۔ میں تو خیر اس وقت بہت چھوٹا تھا لیکن جب بھی پروگرام شروع ہوتا میری نانی جان بھی کہتیں لو آ گئے چاچا جی۔ آج وہ دور یاد کرکے خیالات کے سمندر میں کھو جاتا ہوں۔

  9. ”پورے پاکستان میں اردو کو سب سے زیادہ پنجابیوں نے اپنایا اور الٹا ”اردو والوں“ نے پنجابی لہجے میں اردو بولنے پر پنجابیوں کا مذاق اڑایا۔ اب ایک پنجابی، پنجابی لہجے میں نہیں بولے گا تو اور کس میں بولے گا؟“
    پوسٹ کا سب سے بہترین جملہ!!!!

    آپ لوگ خوش نصیب ہیں کہ تارڑ صاحب سے ملاقات کی۔ اور براہ مہربانی واقعی اپنا سفرنامہ مت لے جائیے گا، بڑے لوگوں کو تنگ نہیں کرتے 🙂

  10. ملاقات کا احوال پڑھ کر خوشی ہوئی۔ مگر کیا ہی اچھا ہوتا کہ ملاقات میں انکی تحریروں کے حوالے سے بات ہوتی؟ اردو ادب کے سفر نامے کہ صنف میں تارڈ صاحب ایک بہت بڑا نام ہیں ۔ انہوں نے سفر نامہ کو ایک نیا اسلوب دیا ہے۔ کاش آپ نے پوچھا ہوتا کہ انکے سفر ناموں میں فکشن کتنا ہے؟
    خاص طور پر ایک سوال ضرور ہونا چائیے جب بھی کسی بڑے ادیب سے گفتگو ہو کہ وہ مطالعہ کے لیے کونسی کتابیں تجویز کرتے ہیں۔

  11. تارڑ صاحب سے ملاقات کا احوال کافی دلچسپ انداز میں لکھا ہے آپ نے۔ پڑھ کر لطف آیا۔
    ان کا حج پرمشتمل سفر نامہ ‘منہ ول کعبے شریف’ بھی خاصے کی چیز ہے۔ موقع ملنے پر ضرور پڑھئے۔

  12. بلال بھائی ، بہت مزا آیا آپ کی روداد پڑھ کر- ایسا لگا جیسے ہم بھی اس محفل کے کسی کونے میں دبکے بیٹھے ہیں-
    باقی چاچا جی عظیم بندے ہیں اور ہماری نسل کے اکثر لوگ ان کی صبح کی نشریات سے لطف اندوز ہوئے ہیں اور پھر سنِ شعور میں ان کی اعلی ادبی تخلیقات سے مستیفید ہوئے-
    اللہ ان کی عمر دراز کرے اور آپ احباب کا شکریہ کہ آپ نے اس ملاقات کو ہم تک پہنچایا 🙂
    خوش رئیں

  13. نئیں ریساں چاچے تارڑ دیاں ۔
    بہت خوب ، اگرچہ تحریر بہت مختصر اور ملاقات تفصیلی معلوم ہوتی ہے ، اسی ملاقات پر مزید تحریروں کا انتظار رہے گا۔ اگر آپ نے اس ملاقات کی صوتی ریکارڈنگ کی ہو تو ضرور سنوائیے گا۔

  14. کسی نگری کے لوگ ہیں اُس عہد کے لکھنے والے جس عہد سے تارڑ صاحب کا تعلق ہے ۔ ۔ ۔ ایک تو شخصیت تارڑ صاحب کی، اُن سے ملاقات اور پھر ملاقات کا خوبصورت احوال ۔ ۔ ۔ کمال در کمال ہوگیا ۔
    واقعی اگر تصویریں بنائی تھیں تو پوسٹ میں شامل کیوں نہیں کیں ۔
    جن لوگوں نے صبح کے پروگرام میں تارڑ صاحب کی بامقصد دانشمندانہ اور گہری باتیں سنی ہوں وە کیسےآج کل کے مارننگ شوز برداشت کرسکتے ہیں ۔ اور جب صبح صبح ایسی شخصیت سے ملاقات ہو اُس انسان کے مزاج پہ سارادن کیا اثرات ہونگے۔ اسی مقابلے میں آج کا حال ۔ ۔ 😥
    بہت شکریہ بلال صاحب ، اگر تارڑ صاحب کو اردو کے لئے آپ کی کمپیوٹنگ اور سافٹ ویئر خدمات کا اندازە ہوجائے تو وە آپ کو بھی اردو کا چاچا نامزد کردیں گے۔ 😆

  15. محترم بلال صاحب، سلام علیکم۔ بزرگ شخصیت جناب تارڑصاحب سے ملاقات کے بارے میں پڑھا، ماشاء اللہ ملاقات کا سارا منظر آپ نے بڑی خوبصورتی سے کیا ہے ۔ محترم تارڑ صاحب ، بہت بڑے آدمی ہیں، اور ملک کا سرمایہ ہیں۔ اللہ پاک انکی عمر دراز کرے ۔ان سے ملاقات کی بڑی تمنا ہےجب بھی مجھے اپنا گاؤں تریشنگ یاد آتا ہے توان کاسفرنامہ ”نانگاپربت“ میں ان کا لکھا ہوا ایک ایک جملہ دقت سےپڑھتا ہوں اورساتھ ہی بنیادی سہولیات سےمحروم اس گاؤں کو سیاحت کے لئے انتخاب کرنے کا میں محترم تارڑ صاحب‘ آپ اورآپکے باقی دوستوں کا بھی شکریہ ادا کرتا ہوں خداآپ سب کو سلامت رکھے۔

Leave a Reply to ابوشامل جواب منسوخ کریں۔

Your email address will not be published. Required fields are marked *